خیبرپختونخوا طاقتور گورنر‘ پریشان پی ٹی آئی
وہ پارٹی جو کل تک حکمران تھی، اب صرف بیان بازی تک محدود ہو گئی ہے
دہشت گردی کا شکار خیبرپختونخوا میں رشتہ داروں اور پیسہ داروں پر مشتمل نگران کابینہ ایسی بے بس اور لاچار ہے جیسے اس کا وجود ہی نہ ہو۔
حلف برداری کے ہفتے بعد تک محکموں کی تقسیم نہ ہو سکی۔ پھر جب محکمے تقسیم کرائے گئے تو وزراء کے لیے دفاتر نہیں۔ پتہ نہیں گورنر غلام علی اور پرویز خٹک نے مل کر کیوں ایک ایسی نگران حکومت بنائی جو خود اپنے آپ کو بھی سنبھالنے کی اہل نہیں؟ مرحوم حاجی عدیل کے فرزند جو نگران کابینہ میں وزیر ہیں برملا اعتراف کر چکے ہیں کہ انھیں تاحال محکمانہ بریفنگ ہی نہیں دی گئی، مطلب وزراء تاحال ہوا میں معلق ہیں ، کسی کو اپنے محکمے کے حوالے سے کوئی پتہ نہیں ہے۔
ایک ایسی صورتحال میں جب صوبہ مالی طور پر بدحال ہے ، پولیس لائنز پشاور کے واقعے کے بعد دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہیں، خیبر پختونخوا میں ایک انتہائی کمزور حکومت قائم کرنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا تمام تر اختیارات گورنر نے خود سنبھال لیے ہیں کیونکہ فرنٹ پر تو غلام علی ہی ہیں، اگرچہ تحریک انصاف کو گورنر غلام علی کے متحرک ہونے پر کافی اعتراض ہے اور انھوں نے شاید الیکشن کمیشن سے بھی رجوع کیا ہے ،گاہے بہ گاہے تحریک انصاف کے قائدین نہ صرف گورنر بلکہ نگران حکومت کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے قائدین نگران وزیراعلیٰ کی حلف برداری سے غائب تھے، صرف اسپیکر مشتاق غنی شریک ہوئے لیکن باقی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں کی کثیر تعداد شریک تھی۔ اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان شریک ہوئے جس سے یہ تاثر ملا کہ نگران کابینہ کی تشکیل میں ان سے بھی مشاورت کی گئی ہے۔ خیبرپختونخوا کی حد تک تو یہ بات بالکل درست ثابت ہوگئی ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کرنا سیاسی خودکشی تھی۔
وہ پارٹی جو کل تک حکمران تھی، اب صرف بیان بازی تک محدود ہو گئی ہے۔ مذاکرات اور مشاورت کا عمل پرویز خٹک نے صوبائی صدر ہونے کے ناطے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے، گورنر غلام علی سے نگران وزیراعلیٰ کے معاملے پر مذاکرات بھی پرویز خٹک نے ہی کیے حالانکہ وزیراعلیٰ محمود خان تو نگران وزیراعلیٰ کے معاملے پر اپوزیشن سے بات نہ کرنے کا اعلان کر چکے تھے۔
پھر پرویز خٹک نے منظر پر آ کر وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کو اسپیکر کے گھر بیٹھا کر معاملہ طے کرایا۔ غلام علی نے بھی یہ کہہ کر ہلچل مچا دی ہے کہ پرویز خٹک آیندہ الیکشن پی ٹی آئی کے بجائے کسی اور جماعت سے لڑیں گے۔
اگر غلام کی بات سچ ہے تو پھر جیسے صوبائی حکومت ختم کرانے کی جلدی غلام علی کو تھی ، ویسی ہی جلدی پرویز خٹک کو بھی تھی کیونکہ اگر معاملہ محمود خان کے ہاتھ رہتا تو لامحالہ نگران وزیراعلیٰ کا فیصلہ الیکشن کمیشن ہی کرتا۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ گورنر غلام علی نے ناشتے کی میز پر اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس کی منظوری دے دی ۔
خیبر پختونخوا پی ٹی آئی کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ عمران خان کی کال پر بھی پشاور میں جلوس نہ نکال سکی، فواد چوہدری کی گرفتاری ہو یا پھر شیخ رشید کی، مظاہروں کے لیے مشہور تحریک انصاف ایک بھی مظاہرہ نہیں کر سکی ، پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت ماسوائے پرویز خٹک بغیر مشاورت صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے پر بھی خفا ہے۔
جب عمران خان نے راولپنڈی کے جلسہ میں پنجاب اور پختونخوا کی اسمبلی توڑنے کا ابتدائی اعلان کیا تو وزیراعلیٰ محمود خان جو جلسے میں موجود تھے حیران رہ گئے۔ صوبائی قیادت اور ایم پیزکا خیال تھا کہ خیبر پختونخوا کی مضبوط حکومت کو آخری سال میں چھیڑا نہیں جائے گا۔ حکومت ختم کرنے کا فیصلہ اب پی ٹی آئی کو مہنگا پڑ رہا ہے۔
غلام علی نے صوبائی حکومت کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے اور لگتا یہی ہے کہ چیف سیکریٹری اور نئے انسپکٹر جنرل آف پولیس کی تعیناتی میں بھی غلام علی کی مشاورت شامل تھی۔ خیبر پختونخوا کی حکومت تھالی میں رکھ کر پی ٹی آئی کی مخالف جمعیت علمائے اسلام کو پیش کردی گئی ہے۔ پی ٹی آئی حکومتی مدد سے محروم ہو چکی ہے تو اب اس کی اصلی طاقت اور حمایت کا لیول سامنے آئے گا۔
ماضی میں ضمنی انتخابات تو حکومت کی وجہ سے جیت گئے لیکن اب ایسی نگران حکومت ہے جس پر پی ٹی آئی کو اعتماد نہیں ۔ اختیارات ایسے گورنر کے ہاتھ میں ہیں جو سیاست کا پرانا کھلاڑی ہے اور جوڑ توڑ کا ماہر ہے۔
ایسی خبریں بھی ہیں کہ صوبائی حکومت نے تمام تر سرکاری مشینری بدلنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ محمود خان نے جو سیکریٹری، کمشنر ز، ڈپٹی کمشنرز، ڈی آئی جی اور ڈی پی اوز لگا ئے تھے، اب تبدیل ہوں گے، جس کی پہلی مثال نئے آئی جی اختر حیات گنڈاپور ہیں جنھیں پی ٹی آئی کی حکومت نے بلوچستان تبدیل کر دیا تھا۔ پی ٹی آئی کو اب کی بار شاید 2013 اور 2018 والا ماحول نہ مل سکے۔
2013 میں جسٹس ریٹائر ڈ جناب طارق پرویز نگران وزیراعلیٰ تھے ۔ نشتر ہال پشاور میں جب الیکشن عملے کی تربیت ہو رہی تھی تو اس وقت کے چیف جسٹس نے تمام غیر ضروری لوگوں کو نکال کر عملے کے روبرو ایک تقریر کی تھی، پی ٹی آئی کے سیاسی مخالفین کا کہنا تھا کہ اس تقریر کا اثر پولنگ ڈے کو ظاہر ہوا۔
2018 کے انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کی یہ خوش قسمتی رہی کہ جو نگران حکومت قائم ہوئی اس نے سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی تعینات کردہ سرکاری مشینری میں ردوبدل نہیں کیا، پشاور سمیت دیگر اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز اور ڈی پی اوز وہی رہے جنھیں پرویز خٹک نے تعینات کیا تھا۔ پشاور کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر عمران شیخ اس کی واضح مثال ہے ۔
2018 میں صوبائی سرکاری مشینری نے انھیں انتخابات میں اچھی خاصی مدد فراہم کی۔ پولنگ عملے سے لے کر پولنگ اسٹیشن کے تعین تک اور مقامی انتظامیہ نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو سپورٹ کیا اسی لیے اے این پی اور جے یو آئی نے ان انتخابات کو مسترد بھی کیا اور اسمبلی کو جعلی قرار دیا لیکن اب کی بار معاملہ الٹا ہو گیا ہے ، انتخابات کب ہوں گے اور کیسے ہوں گے، اس کا فیصلہ اب پی ٹی آئی نہیں بلکہ گورنر، نگران وزیراعلیٰ اور مرکزی حکومت کرے گی ۔
حلف برداری کے ہفتے بعد تک محکموں کی تقسیم نہ ہو سکی۔ پھر جب محکمے تقسیم کرائے گئے تو وزراء کے لیے دفاتر نہیں۔ پتہ نہیں گورنر غلام علی اور پرویز خٹک نے مل کر کیوں ایک ایسی نگران حکومت بنائی جو خود اپنے آپ کو بھی سنبھالنے کی اہل نہیں؟ مرحوم حاجی عدیل کے فرزند جو نگران کابینہ میں وزیر ہیں برملا اعتراف کر چکے ہیں کہ انھیں تاحال محکمانہ بریفنگ ہی نہیں دی گئی، مطلب وزراء تاحال ہوا میں معلق ہیں ، کسی کو اپنے محکمے کے حوالے سے کوئی پتہ نہیں ہے۔
ایک ایسی صورتحال میں جب صوبہ مالی طور پر بدحال ہے ، پولیس لائنز پشاور کے واقعے کے بعد دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہیں، خیبر پختونخوا میں ایک انتہائی کمزور حکومت قائم کرنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا تمام تر اختیارات گورنر نے خود سنبھال لیے ہیں کیونکہ فرنٹ پر تو غلام علی ہی ہیں، اگرچہ تحریک انصاف کو گورنر غلام علی کے متحرک ہونے پر کافی اعتراض ہے اور انھوں نے شاید الیکشن کمیشن سے بھی رجوع کیا ہے ،گاہے بہ گاہے تحریک انصاف کے قائدین نہ صرف گورنر بلکہ نگران حکومت کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے قائدین نگران وزیراعلیٰ کی حلف برداری سے غائب تھے، صرف اسپیکر مشتاق غنی شریک ہوئے لیکن باقی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں کی کثیر تعداد شریک تھی۔ اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان شریک ہوئے جس سے یہ تاثر ملا کہ نگران کابینہ کی تشکیل میں ان سے بھی مشاورت کی گئی ہے۔ خیبرپختونخوا کی حد تک تو یہ بات بالکل درست ثابت ہوگئی ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کرنا سیاسی خودکشی تھی۔
وہ پارٹی جو کل تک حکمران تھی، اب صرف بیان بازی تک محدود ہو گئی ہے۔ مذاکرات اور مشاورت کا عمل پرویز خٹک نے صوبائی صدر ہونے کے ناطے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے، گورنر غلام علی سے نگران وزیراعلیٰ کے معاملے پر مذاکرات بھی پرویز خٹک نے ہی کیے حالانکہ وزیراعلیٰ محمود خان تو نگران وزیراعلیٰ کے معاملے پر اپوزیشن سے بات نہ کرنے کا اعلان کر چکے تھے۔
پھر پرویز خٹک نے منظر پر آ کر وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کو اسپیکر کے گھر بیٹھا کر معاملہ طے کرایا۔ غلام علی نے بھی یہ کہہ کر ہلچل مچا دی ہے کہ پرویز خٹک آیندہ الیکشن پی ٹی آئی کے بجائے کسی اور جماعت سے لڑیں گے۔
اگر غلام کی بات سچ ہے تو پھر جیسے صوبائی حکومت ختم کرانے کی جلدی غلام علی کو تھی ، ویسی ہی جلدی پرویز خٹک کو بھی تھی کیونکہ اگر معاملہ محمود خان کے ہاتھ رہتا تو لامحالہ نگران وزیراعلیٰ کا فیصلہ الیکشن کمیشن ہی کرتا۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ گورنر غلام علی نے ناشتے کی میز پر اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس کی منظوری دے دی ۔
خیبر پختونخوا پی ٹی آئی کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ عمران خان کی کال پر بھی پشاور میں جلوس نہ نکال سکی، فواد چوہدری کی گرفتاری ہو یا پھر شیخ رشید کی، مظاہروں کے لیے مشہور تحریک انصاف ایک بھی مظاہرہ نہیں کر سکی ، پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت ماسوائے پرویز خٹک بغیر مشاورت صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے پر بھی خفا ہے۔
جب عمران خان نے راولپنڈی کے جلسہ میں پنجاب اور پختونخوا کی اسمبلی توڑنے کا ابتدائی اعلان کیا تو وزیراعلیٰ محمود خان جو جلسے میں موجود تھے حیران رہ گئے۔ صوبائی قیادت اور ایم پیزکا خیال تھا کہ خیبر پختونخوا کی مضبوط حکومت کو آخری سال میں چھیڑا نہیں جائے گا۔ حکومت ختم کرنے کا فیصلہ اب پی ٹی آئی کو مہنگا پڑ رہا ہے۔
غلام علی نے صوبائی حکومت کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے اور لگتا یہی ہے کہ چیف سیکریٹری اور نئے انسپکٹر جنرل آف پولیس کی تعیناتی میں بھی غلام علی کی مشاورت شامل تھی۔ خیبر پختونخوا کی حکومت تھالی میں رکھ کر پی ٹی آئی کی مخالف جمعیت علمائے اسلام کو پیش کردی گئی ہے۔ پی ٹی آئی حکومتی مدد سے محروم ہو چکی ہے تو اب اس کی اصلی طاقت اور حمایت کا لیول سامنے آئے گا۔
ماضی میں ضمنی انتخابات تو حکومت کی وجہ سے جیت گئے لیکن اب ایسی نگران حکومت ہے جس پر پی ٹی آئی کو اعتماد نہیں ۔ اختیارات ایسے گورنر کے ہاتھ میں ہیں جو سیاست کا پرانا کھلاڑی ہے اور جوڑ توڑ کا ماہر ہے۔
ایسی خبریں بھی ہیں کہ صوبائی حکومت نے تمام تر سرکاری مشینری بدلنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ محمود خان نے جو سیکریٹری، کمشنر ز، ڈپٹی کمشنرز، ڈی آئی جی اور ڈی پی اوز لگا ئے تھے، اب تبدیل ہوں گے، جس کی پہلی مثال نئے آئی جی اختر حیات گنڈاپور ہیں جنھیں پی ٹی آئی کی حکومت نے بلوچستان تبدیل کر دیا تھا۔ پی ٹی آئی کو اب کی بار شاید 2013 اور 2018 والا ماحول نہ مل سکے۔
2013 میں جسٹس ریٹائر ڈ جناب طارق پرویز نگران وزیراعلیٰ تھے ۔ نشتر ہال پشاور میں جب الیکشن عملے کی تربیت ہو رہی تھی تو اس وقت کے چیف جسٹس نے تمام غیر ضروری لوگوں کو نکال کر عملے کے روبرو ایک تقریر کی تھی، پی ٹی آئی کے سیاسی مخالفین کا کہنا تھا کہ اس تقریر کا اثر پولنگ ڈے کو ظاہر ہوا۔
2018 کے انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کی یہ خوش قسمتی رہی کہ جو نگران حکومت قائم ہوئی اس نے سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی تعینات کردہ سرکاری مشینری میں ردوبدل نہیں کیا، پشاور سمیت دیگر اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز اور ڈی پی اوز وہی رہے جنھیں پرویز خٹک نے تعینات کیا تھا۔ پشاور کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر عمران شیخ اس کی واضح مثال ہے ۔
2018 میں صوبائی سرکاری مشینری نے انھیں انتخابات میں اچھی خاصی مدد فراہم کی۔ پولنگ عملے سے لے کر پولنگ اسٹیشن کے تعین تک اور مقامی انتظامیہ نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو سپورٹ کیا اسی لیے اے این پی اور جے یو آئی نے ان انتخابات کو مسترد بھی کیا اور اسمبلی کو جعلی قرار دیا لیکن اب کی بار معاملہ الٹا ہو گیا ہے ، انتخابات کب ہوں گے اور کیسے ہوں گے، اس کا فیصلہ اب پی ٹی آئی نہیں بلکہ گورنر، نگران وزیراعلیٰ اور مرکزی حکومت کرے گی ۔