نون لیگ اور مریم نواز کو مشکلات کا سامنا
نون لیگ کے ایک اور لیڈر ، سینیٹر مشاہد حسین سید، بھی تلخ نوائی کرتے نظر آنے لگے ہیں
نون لیگ کے صدر ویسے تو محمد شہباز شریف ہیں ، لیکن نون لیگ کے سپریم لیڈر، محمد نواز شریف، نے جس اسلوب میں اپنی صاحبزادی، محترمہ مریم نواز، کو پارٹی کی سینئر نائب صدارت اور چیف آرگنائزرشپ سونپ دی ہے، اِس فیصلے اور اقدام سے پارٹی اور شریف خاندان کے اندر( مبینہ طور پر) بہت سی رنجشیں پیدا ہو چکی ہیں ۔
رنجشوں کا یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چند سال قبل جب نواز شریف نے نون لیگ کی کچھ مرکزی ذمے داریاں محترمہ مریم نواز کے سپرد کیں تو نون لیگ کے معروف اور مرکزی رہنما، چوہدری نثار علی خان، پارٹی سے سخت ناراض ہو گئے تھے۔
یہاں تک کہ وہ نون لیگ ہی کو خیر باد کہہ گئے۔یہ علیحدہ بات ہے کہ نون لیگ سے ،از خود، نکلنے کے بعدچوہدری نثار کا کیا سیاسی اور انتخابی حشر ہُوا ۔وہ نون لیگ کی شاخ سے کیا ٹوٹے کہ سیاسی منظر ہی سے غائب ہو گئے ۔
اب پھر محترمہ مریم نواز کو پارٹی میں اہم عہدے تفویض کیئے جانے پر نون لیگ کے اندر توڑ پھوڑ اور ناراضیوں کا منظر ہے ۔ اب یہ راز کی بات نہیں رہی ۔
راز کی بات تو یہ تھی کہ نون لیگ کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیر اعظم، شاہد خاقان عباسی، نون لیگ سے مستعفی ہو چکے ہیں ۔
اِس راز پر پردہ ڈالنے کی کوششیں ضرور کی گئیں ۔ مگر کب تک؟ اور اب یہ راز بھی فاش اور عیاں ہو چکا ہے ۔ اب خود شاہد خاقان عباسی صاحب اعتراف اور اعلان کر چکے ہیں کہ وہ اگرچہ نون لیگ ہی میں ہیں مگر وہ نون لیگ کے عہدے دار نہیں رہے اور یہ کہ پارٹی کی نائب صدارت سے بھی مستعفی ہو چکے ہیں ۔
یہ راز بھی منکشف ہو چکا ہے کہ اُن کا پارٹی سے استعفیٰ محض اس لیے تھا کہ مریم نواز کو کیوں بیک وقت سینئر نائب صدارت اور چیف آرگنائزر کا اہم ترین عہدہ دیا گیا ہے ۔ ایسے میں شاہد خاقان عباسی ایسا سینئر سیاستدان محترمہ مریم نواز ایسی نسبتاً جونیئر سیاستدان کی قیادت میں کیسے کام کر سکتا ہے ؟
جناب شاہد خاقان عباسی ایک سنجیدہ ، شائستہ اور شریف سیاستدان ہیں ۔ ہمیشہ متحمل اور تھمے لہجے سے بات کرنے والے۔ شاہد خاقان عباسی نے مستعفی ہو کر خود ایک نجی ٹی وی کے رُو برو یوں کہا ہے :'' مریم نواز کو اپنی فیلڈ ملنی چاہیے ۔ جونہی مریم نواز کو چیف آرگنائزر بنایا گیا ، مَیں نے اپنا استعفیٰ پارٹی صدر، شہباز شریف، کو بھیج دیا تھا۔
مریم نواز میری چھوٹی بہن ہیں۔ اُن سے اختلاف کی گنجائش نہیں رہتی ۔ میرا پارٹی میں رہنا مریم کے لیے رکاوٹ بنا رہتا۔'' شاہد خاقان عباسی کا پارٹی عہدے سے مستعفی ہوجانا نون لیگ کے لیے یقیناً ایک دھچکا ہے۔
اِس دھچکے کی وجہ بظاہر مریم نواز کا نیا درجہ اور عہدہ بنا ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ نون لیگ کا عہدہ چھوڑنے سے شاہد خاقان عباسی صاحب کا حشر چوہدری نثار علی خان ایسا نہیں ہوگا۔ شاہد خاقان عباسی صاحب اپنے ایک اور ناراض ساتھی، مفتاح اسماعیل کے ہمراہ، نئے پلیٹ فارم (Reimagining Pakistan)میں اپنا مستقبل بنانے اور تلاش کرنے کی کوشش میں ہیں ۔
مفتاح اسماعیل تو ، شاہد خاقان عباسی کے برعکس، نون لیگ اور نون لیگی قیادت کے خلاف شمشیر برہنہ ثابت ہو رہے ہیں ۔ اِس مخالفت کا ہدف محترمہ مریم نواز بھی ہیں۔
ایک معاصر تجزیہ نگار کے مطابق :مریم نواز نے نون لیگ کی چیف آرگنائزر کے طور پر اپنی نئی سیاسی اننگز کا ایک'' متزلزل'' آغاز کیا ہے تو ساتھ ہی اُن کے نئے کردار پرنون لیگ کے اندر سے ''اختلافات'' کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ نون لیگ کو سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر بنائے جانے سے لگ رہا ہے کہ مریم نواز، شریف خاندان کی سیاسی وراثت کی قیادت کریں گی۔
اور یوں( حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کی موجودگی میں) شریف خاندان میں ناراضی کی دراڑیں پیدا ہونے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا مریم نواز صاحبہ بحران اور دراڑوں پر قابو پا سکتی ہیں؟حتیٰ کہ اب محترمہ مریم نواز کے شوہر، کیپٹن(ر) صفدر اعوان،نے بھی نون لیگ کے ''ووٹ کو عزت دو'' کے نعرے کو ہدفِ تنقید بنا کر نون لیگی قیادت اور مریم نواز کو ناراض کیا ہے۔
شنید ہے کہ کیپٹن صفدر صاحب کو اس اقدام پر تنبیہ بھی کی گئی ہے۔ شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور سردار مہتاب عباسی خاصے نمایاں ہو چکے ہیں۔ نون لیگی رہنما،سردار مہتاب عباسی،تونون ناراضی میں بے نیام ہو رہے ہیں۔
9فروری2023 کو مریم نواز صاحبہ کا ایبٹ آباد میں تنظیمی جلسہ ہُوا تو اِس میں( نون لیگ کے سابق گورنر اور وزیر اعلیٰ) سردار مہتاب عباسی کو سرے سے مدعو ہی نہ کیا گیا، حالانکہ اُن کا سیاسی حلقہ اور تعلق ایبٹ آباد ہی سے ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کی اشیرواد سے سردار مہتاب عباسی کی جگہ امیر مقام تیزی سے اپنا مقام بنا رہے ہیں۔
آیندہ ایام میں مریم نواز کے لیے ہر قسم کے انتخابات میں پارٹی کی قیادت کرنا بڑا چیلنج ہو گا۔ خاص طور پر اب جب کہ لاہور ہائیکورٹ نے بھی پنجاب میں 90روز کے اندر انتخابات کرانے بارے حکم صادر کر دیا ہے۔
ایسے میں بعض اطراف سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ یہ مبینہ مشکلات شریف خاندان کو بھی ویسی ہی تقسیم اور المیئے سے دوچار تو نہیں کر دیں گی جیسی تقسیم حال ہی میں گجرات کے مقتدر چوہدری خاندان میں دیکھی گئی ہے ؟ اس پس منظر میں پارٹی پر گرفت حاصل کرنا مریم نواز کے لیے ویسا ہی دشوار ہے جیسی دشواریاں اور مشکلات محترمہ بے نظیر بھٹو کو پیپلز پارٹی کی عنان سنبھالتے ہُوئے پیش آئی تھیں۔
سوال یہ ہے کہ آیا محترمہ مریم نواز شریف کے پاس( محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح) ایسی ہمت، تدبر اور حکمت ہے کہ وہ اِن دشواریوں پر بآسانی قابو پا سکیں؟
نون لیگ کے ایک اور لیڈر ، سینیٹر مشاہد حسین سید، بھی تلخ نوائی کرتے نظر آنے لگے ہیں۔یہ سب کچھ مریم نواز کے لیے چیلنج بھی ہے اور فکر مندی کی علامت بھی۔ نون لیگ ہی کے ایک اور لیڈر، ڈاکٹر مصدق ، نے نجی ٹی وی پر ایک سوال پر مشاہد حسین سید کو جس لہجے میں جواب دیا ہے، مشاہد صاحب نے تنک کر یہ جواب دیا:'' نون لیگ کسی کی جاگیر نہیں ہے ۔''
مشاہد صاحب کا یہ لہجہ حیران کن ہے ۔ اگرچہ مشاہد حسین صاحب نے نون لیگ میں کچھ خدمات بھی انجام دی ہیں لیکن نون لیگ اور نواز شریف نے ، جواباً، جس طرح مشاہد صاحب کو کئی بار وزیر اور سینیٹر بنایا ، کیا کبھی مشاہد صاحب بطور ٹیچر اور صحافی اِن بلند عہدوں کا خواب بھی دیکھ سکتے تھے ؟کیا یہ Blessing in Disguiseنہیں ہے کہ مریم نواز کو بھی محترمہ بینظیر بھٹو کی طرح پارٹی میں موجود انکلوں سے از خود نجات مل رہی ہے ؟
رنجشوں کا یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چند سال قبل جب نواز شریف نے نون لیگ کی کچھ مرکزی ذمے داریاں محترمہ مریم نواز کے سپرد کیں تو نون لیگ کے معروف اور مرکزی رہنما، چوہدری نثار علی خان، پارٹی سے سخت ناراض ہو گئے تھے۔
یہاں تک کہ وہ نون لیگ ہی کو خیر باد کہہ گئے۔یہ علیحدہ بات ہے کہ نون لیگ سے ،از خود، نکلنے کے بعدچوہدری نثار کا کیا سیاسی اور انتخابی حشر ہُوا ۔وہ نون لیگ کی شاخ سے کیا ٹوٹے کہ سیاسی منظر ہی سے غائب ہو گئے ۔
اب پھر محترمہ مریم نواز کو پارٹی میں اہم عہدے تفویض کیئے جانے پر نون لیگ کے اندر توڑ پھوڑ اور ناراضیوں کا منظر ہے ۔ اب یہ راز کی بات نہیں رہی ۔
راز کی بات تو یہ تھی کہ نون لیگ کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیر اعظم، شاہد خاقان عباسی، نون لیگ سے مستعفی ہو چکے ہیں ۔
اِس راز پر پردہ ڈالنے کی کوششیں ضرور کی گئیں ۔ مگر کب تک؟ اور اب یہ راز بھی فاش اور عیاں ہو چکا ہے ۔ اب خود شاہد خاقان عباسی صاحب اعتراف اور اعلان کر چکے ہیں کہ وہ اگرچہ نون لیگ ہی میں ہیں مگر وہ نون لیگ کے عہدے دار نہیں رہے اور یہ کہ پارٹی کی نائب صدارت سے بھی مستعفی ہو چکے ہیں ۔
یہ راز بھی منکشف ہو چکا ہے کہ اُن کا پارٹی سے استعفیٰ محض اس لیے تھا کہ مریم نواز کو کیوں بیک وقت سینئر نائب صدارت اور چیف آرگنائزر کا اہم ترین عہدہ دیا گیا ہے ۔ ایسے میں شاہد خاقان عباسی ایسا سینئر سیاستدان محترمہ مریم نواز ایسی نسبتاً جونیئر سیاستدان کی قیادت میں کیسے کام کر سکتا ہے ؟
جناب شاہد خاقان عباسی ایک سنجیدہ ، شائستہ اور شریف سیاستدان ہیں ۔ ہمیشہ متحمل اور تھمے لہجے سے بات کرنے والے۔ شاہد خاقان عباسی نے مستعفی ہو کر خود ایک نجی ٹی وی کے رُو برو یوں کہا ہے :'' مریم نواز کو اپنی فیلڈ ملنی چاہیے ۔ جونہی مریم نواز کو چیف آرگنائزر بنایا گیا ، مَیں نے اپنا استعفیٰ پارٹی صدر، شہباز شریف، کو بھیج دیا تھا۔
مریم نواز میری چھوٹی بہن ہیں۔ اُن سے اختلاف کی گنجائش نہیں رہتی ۔ میرا پارٹی میں رہنا مریم کے لیے رکاوٹ بنا رہتا۔'' شاہد خاقان عباسی کا پارٹی عہدے سے مستعفی ہوجانا نون لیگ کے لیے یقیناً ایک دھچکا ہے۔
اِس دھچکے کی وجہ بظاہر مریم نواز کا نیا درجہ اور عہدہ بنا ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ نون لیگ کا عہدہ چھوڑنے سے شاہد خاقان عباسی صاحب کا حشر چوہدری نثار علی خان ایسا نہیں ہوگا۔ شاہد خاقان عباسی صاحب اپنے ایک اور ناراض ساتھی، مفتاح اسماعیل کے ہمراہ، نئے پلیٹ فارم (Reimagining Pakistan)میں اپنا مستقبل بنانے اور تلاش کرنے کی کوشش میں ہیں ۔
مفتاح اسماعیل تو ، شاہد خاقان عباسی کے برعکس، نون لیگ اور نون لیگی قیادت کے خلاف شمشیر برہنہ ثابت ہو رہے ہیں ۔ اِس مخالفت کا ہدف محترمہ مریم نواز بھی ہیں۔
ایک معاصر تجزیہ نگار کے مطابق :مریم نواز نے نون لیگ کی چیف آرگنائزر کے طور پر اپنی نئی سیاسی اننگز کا ایک'' متزلزل'' آغاز کیا ہے تو ساتھ ہی اُن کے نئے کردار پرنون لیگ کے اندر سے ''اختلافات'' کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ نون لیگ کو سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر بنائے جانے سے لگ رہا ہے کہ مریم نواز، شریف خاندان کی سیاسی وراثت کی قیادت کریں گی۔
اور یوں( حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کی موجودگی میں) شریف خاندان میں ناراضی کی دراڑیں پیدا ہونے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا مریم نواز صاحبہ بحران اور دراڑوں پر قابو پا سکتی ہیں؟حتیٰ کہ اب محترمہ مریم نواز کے شوہر، کیپٹن(ر) صفدر اعوان،نے بھی نون لیگ کے ''ووٹ کو عزت دو'' کے نعرے کو ہدفِ تنقید بنا کر نون لیگی قیادت اور مریم نواز کو ناراض کیا ہے۔
شنید ہے کہ کیپٹن صفدر صاحب کو اس اقدام پر تنبیہ بھی کی گئی ہے۔ شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور سردار مہتاب عباسی خاصے نمایاں ہو چکے ہیں۔ نون لیگی رہنما،سردار مہتاب عباسی،تونون ناراضی میں بے نیام ہو رہے ہیں۔
9فروری2023 کو مریم نواز صاحبہ کا ایبٹ آباد میں تنظیمی جلسہ ہُوا تو اِس میں( نون لیگ کے سابق گورنر اور وزیر اعلیٰ) سردار مہتاب عباسی کو سرے سے مدعو ہی نہ کیا گیا، حالانکہ اُن کا سیاسی حلقہ اور تعلق ایبٹ آباد ہی سے ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کی اشیرواد سے سردار مہتاب عباسی کی جگہ امیر مقام تیزی سے اپنا مقام بنا رہے ہیں۔
آیندہ ایام میں مریم نواز کے لیے ہر قسم کے انتخابات میں پارٹی کی قیادت کرنا بڑا چیلنج ہو گا۔ خاص طور پر اب جب کہ لاہور ہائیکورٹ نے بھی پنجاب میں 90روز کے اندر انتخابات کرانے بارے حکم صادر کر دیا ہے۔
ایسے میں بعض اطراف سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ یہ مبینہ مشکلات شریف خاندان کو بھی ویسی ہی تقسیم اور المیئے سے دوچار تو نہیں کر دیں گی جیسی تقسیم حال ہی میں گجرات کے مقتدر چوہدری خاندان میں دیکھی گئی ہے ؟ اس پس منظر میں پارٹی پر گرفت حاصل کرنا مریم نواز کے لیے ویسا ہی دشوار ہے جیسی دشواریاں اور مشکلات محترمہ بے نظیر بھٹو کو پیپلز پارٹی کی عنان سنبھالتے ہُوئے پیش آئی تھیں۔
سوال یہ ہے کہ آیا محترمہ مریم نواز شریف کے پاس( محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح) ایسی ہمت، تدبر اور حکمت ہے کہ وہ اِن دشواریوں پر بآسانی قابو پا سکیں؟
نون لیگ کے ایک اور لیڈر ، سینیٹر مشاہد حسین سید، بھی تلخ نوائی کرتے نظر آنے لگے ہیں۔یہ سب کچھ مریم نواز کے لیے چیلنج بھی ہے اور فکر مندی کی علامت بھی۔ نون لیگ ہی کے ایک اور لیڈر، ڈاکٹر مصدق ، نے نجی ٹی وی پر ایک سوال پر مشاہد حسین سید کو جس لہجے میں جواب دیا ہے، مشاہد صاحب نے تنک کر یہ جواب دیا:'' نون لیگ کسی کی جاگیر نہیں ہے ۔''
مشاہد صاحب کا یہ لہجہ حیران کن ہے ۔ اگرچہ مشاہد حسین صاحب نے نون لیگ میں کچھ خدمات بھی انجام دی ہیں لیکن نون لیگ اور نواز شریف نے ، جواباً، جس طرح مشاہد صاحب کو کئی بار وزیر اور سینیٹر بنایا ، کیا کبھی مشاہد صاحب بطور ٹیچر اور صحافی اِن بلند عہدوں کا خواب بھی دیکھ سکتے تھے ؟کیا یہ Blessing in Disguiseنہیں ہے کہ مریم نواز کو بھی محترمہ بینظیر بھٹو کی طرح پارٹی میں موجود انکلوں سے از خود نجات مل رہی ہے ؟