عباس اطہر صاحب ہمارے شاہ ِصحافت
عباس اطہر صاحب سے جب میری شناسائی ہوئی، تب ان کی شہرت نیوز ایڈیٹر سے زیادہ کالم نگار کی تھی
یہ ستمبر 1997 کے ابتدائی ایام تھے۔ اردو کے سب سے بڑے سیاسی ہفت روزہ 'ندائے ملت' کی اشاعت کی تیاریاں عروج پر تھیں۔
میں اس کا ایڈیٹر بھی تھا اور منیجنگ ایڈیٹر بھی۔ ایک روز مجید نظامی صاحب نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا اور جیسا کہ ان کا مزاج تھا، اپنے مخصوص لہجہ میں کہا، عبداللہ صاحب، ہفت روزہ آنے میں ابھی دوتین ماہ لگ جائیں گے، میں چاہتا ہوں کہ آپ اس عرصہ میں لکھنا بھی جاری رکھیں۔ بہتر ہو گا کہ آپ کالم شروع کر دیں۔
اس طرح آپ کا قلم رواں رہے گا اور اس کو زنگ نہیں لگے گا۔ میں نے بڑے بڑے کالم نگاروں سے سن رکھا تھا کہ نظامی صاحب کسی کو کچھ سوچ کے ہی کالم لکھنے کے لیے کہتے ہیں۔ ''جی سر '' کہہ کے میں ان کے کمرے سے نکلا تو اپنی خوش قسمتی پر ناز بھی کر رہا تھا اورکچھ گھبرا بھی رہا تھا کہ پتا نہیں اب نظامی صاحب کو میرا کالم پسند بھی آتا ہے یا نہیں کہ 'نوائے وقت' میں اس وقت عباس اطہر اور عطا الحق قاسمی سمیت چوٹی کے کالم نگار لکھ رہے تھے۔
انھی دنوں چند روز پہلے31 اگست کو برطانوی شہزادی لیڈی ڈیانا کی ایک کار حادثہ میں موت ہو چکی تھیں اور اس رحم دل شہزادی کی موت پر ہر کوئی افسردہ نظر آ رہا تھا۔ میں نے اپنا اولین کالم بعنوان'' حسن جہاں تاب کی موت'' اسی اندوہ ناک حادثہ پر لکھا اور مجید نظامی صاحب کو پیش کر دیا، گر قبول افتد زہے عزو شرف ۔
میرا خیال تھا، پہلا کالم ہے، کسی اندرونی صفحہ پر چھپ جائے گا۔ دوسرے روز میںنے اخبار کھولا تو یہ دیکھ کے حیرت کی انتہا نہ رہی کہ میرا کالم اخبار کے صفحہ 2 پر لگا ہوا تھا، جب کہ عباس اطہر صاحب کا کالم '' کنکریاں ''جو صفحہ 2پر ہوتا تھا ، اس روز صفحہ 3 پر تھا۔اس سے بھی زیادہ حیرت یہ ہوئی کہ عباس اطہر صاحب نے برا نہیں مانا بلکہ میری حوصلہ افزائی کی۔ ہوا یوں کہ اس روز کسی کام سے میں نظامی صاحب کے کمرے میں گیا۔
عباس اطہر صاحب بھی وہیں بیٹھے تھے۔ انھوں نے مسکرا کے میری طرف دیکھا اور پھر تھپکی دیتے ہوئے کہا،'آپ نے بہت اچھا کالم لکھا ہے'۔ اس پر نظامی صاحب نے ان سے کہا ، 'میں نے عبداللہ صاحب کو 'ندائے ملت' کا ایڈیٹر مقرر کیا ہے، آپ بھی ان کی راہ نمائی کریں'۔
عباس اطہر صاحب سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ بہت سال بعد یہ عباس اطہر صاحب ہی تھے جنھوں نے اس صفحہ پر میرا مستقل کالم شروع کیااور مجھ کو باضابطہ طور پر کالم نگار بنا دیا ۔ چنانچہ آج میں مجید نظامی صاحب اور عباس اطہر صاحب کو صرف اپنے ایڈیٹروں ہی کی حیثیت سے نہیں ، بلکہ اپنے محسنوں کے طور پر بھی یاد کرتا ہوں،اور فخرکرتا ہوں ۔
عباس اطہر صاحب اس وقت باسٹھ برس کے پیٹے میں ہوں گے۔ ان کی صحت قابل رشک تھی اور نشست و برخاست اور لب و لہجہ میں جوانی کے بانکپن کے آثار اب تک باقی تھے۔ سہ پہر کو لارنس گارڈن میں واک کرتے ، پھر دفتر واپس آ کر اپنے کام میں مگن ہو جاتے۔ ان کی دفتری کمپنی میں بھی زیادہ تر نوجوان ہی تھے۔
وہ انھی میں خوش رہتے تھے، بلکہ ہم عمر دوستوں سے بھی ایسی بے تکلفی سے گفتگو کرتے کہ اس پر بڑھاپے کا کوئی ہلکا سا سایہ بھی لہراتا نظر نہیں آتا تھا۔ حقیقتاً ،ان کے روزمرہ کے معمولات دیکھ کے محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ بڑھاپے کی حدود میں داخل ہو چکے ہیں۔
عباس اطہر صاحب سے جب میری شناسائی ہوئی، تب ان کی شہرت نیوز ایڈیٹر سے زیادہ کالم نگار کی تھی۔ ان کے کالم 'کنکریاں'کی دھوم مچی ہوئی تھی۔
جدید اردو صحافت میں نذیر ناجی کو بطور کالم نگار جو پذیرائی ملی، ان کے بعد یہ صرف عباس اطہر کو نصیب ہو سکی ہے، بلکہ ارباب اقتدار بھی ان کے کالم پڑھتے تھے۔ اس کا اندازہ اس طرح ہوا کہ وہ عموماً مال روڈ کے راستہ سے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے لارنس گارڈن جاتے تھے۔
ایک روز کیا دیکھتے ہیں کہ چیئرنگ کراس پر واقع وزیراعلیٰ آفس، جو کبھی فری میسن ہال ہوا کرتا تھا،کی بیرونی دیوار کے ساتھ فٹ پاتھ پولیس نے بندکر رکھا ہے اور شہریوں کو چڑیا گھر تک فٹ پاتھ کے بجائے سڑک پر ٹریفک کے بہاؤ میں سے گزر کے آگے جانا پڑ رہا ہے جو بہت ہی خطرناک تھا۔
عباس اطہر صاحب واپس دفتر پہنچے اور اپنے کالم میں اس صورتحال کی اس طرح منظر کشی کی کہ چند روز بعد وزیراعلیٰ آفس کی بیرونی دیوار کے اندر اس کے متوازی دوسری دیوار کی تعمیر شروع ہو چکی ہے اور ایک ہفتے بعد مال روڈ کی سمت فٹ پاتھ شہریوں کے لیے دوبارہ کھل چکا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ چند روز بعد ایک تقریب میں چوہدری پرویزالٰہی نے جو اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب تھے، عباس اطہر صاحب کو دیکھ کے کہا، 'شاہ جی ہن تے فٹ پاتھ توں نئیں لہناں پیندا'' عباس اطہر صاحب حسب عادت تھوڑا سا شرمائے، مسکرائے اور ان کا شکریہ اداکیا۔
ایکسپریس گروپ سے وابستگی کے بعدعباس اطہر صاحب کے ساتھ براہ راست کام کرنے کا تجربہ ہوا تو ان کی شخصیت کے بعض حیرت انگیز پہلو مجھ پر منکشف ہوئے، جس سے ان کی عزت میرے دل میں مزید بڑھ گئی۔ ہمارے سینئر ایڈیٹروں میں جو تصنع، بناوٹ اور تکبر کوٹ کوٹ کے بھرے ہوئے ہیں، عباس اطہر صاحب ان سے کوسوں دور تھے ۔
وہ کالم لکھ رہے ہیں یا خبر ایڈیٹ کر رہے ہیں ، اس دوران ریسیپشن سے کال آئی کہ کوئی ملنے آیا ہے، انھوں نے اپنی بھنوؤں کو انگلیوں سے مروڑا، جیسا کہ ان کی عادت تھی اور کہا 'بھیج دو'۔کبھی نہیں ہواکہ کہا ہو' میں مصروف ہو ں'۔ پھر جیسے ہی وہ ملاقاتی کمرے میں داخل ہوا، عباس اطہر صاحب نے بغیر کسی تمہید کے کہا،لاؤ اپنی درخواست، اس طرح ایک سائل جا رہا ہے تو دوسرا آ رہا ہے اوران کی چٹیں شاہ جی کے بیگ میں جمع ہوتی جا رہی ہیں۔
کسی کو نوکری چاہیے،کسی کو پیسوں کی ضرورت ہے، کوئی تھانے کچہری کا ستایا ہوا ہے اور شاہ جی لگے ہوئے ہیں سب کے کام کرانے میں،چہرے پر کوئی ناگواری نہیں ہے، لہجے میں کوئی بے زاری نہیں ہے، بلکہ بے حد مسرور معلوم ہوتے ہیں۔
خوف نام کی شے تو عباس اطہر صاحب کو چھوکے نہیں گزری تھی۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت بھی ہوا، جب وہ اپنے بہت قریب موت کی سرسراہٹ سن رہے تھے۔ بہت پہلے ان کے جسم میں سرطان کی تشخیص ہوئی تھی۔ مزید تشخیص اور علاج کے لیے وہ بیرون ملک گئے،ا ور واپسی پر بالکل صحت مند معلوم ہو رہے تھے۔ لیکن پھر یہ مرض اس طرح عود کر آیا کہ معلوم ہوا آخری اسٹیج پر پہنچ چکا ہے۔
انھی دنوں کی بات ہے، ایک روز دفتر پہنچا اور ان کے کمرے میں داخل ہوا، توکہنے لگے، 'میں نے بات کر لی ہے، تم اسی ہفتے کالم شروع کر دو'۔ یہ کہہ کے اٹھے اور میرا ہاتھ پکڑ کے لطیف چوہدری صاحب کے کمرے میںلے آئے اور انھیں اس بارے میں آگاہ کیا۔
اس وقت میں نہیں جانتا تھا کہ دفتر میں یہ میری ان سے آخری ملاقات ہے۔ پھر ان کے اسپتال منتقل ہو جانے کی اطلاع ملی۔ طاہر سرور میراور میں اسپتال پہنچے۔ وہ اس وقت سوئے ہوئے تھے۔ معلوم ہوا ،کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
چوہدری پرویزالٰہی ان دنوں نائب وزیراعظم تھے۔ عباس اطہر صاحب سے ان کو بہت تعلق خاطر تھا۔ میں نے فون کرکے انھیں اطلاع کی، توانھوں نے کہا، 'کل اکٹھے ان کی عیادت کو چلیںگے'۔
دوسرے روز پرویزالٰہی صاحب اور میں اسپتال پہنچے۔ وہ جاگے ہوئے تھے مگر نقاہت کے باعث بستر سے اٹھ نہ سکے۔ پرویزالٰہی صاحب نے انھیں تشفی دی کہ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گے، وہ موت سے کچھ ہی فاصلے پر تھے اور مسکرا رہے تھے۔
میں بزرگ کامریڈ کی حوصلہ مندی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ پرویزالٰہی صاحب نے کہا کہ اصغر، آپ کی ہمیشہ بہت تعریف کرتے ہیں۔
عباس اطہر صاحب نے میری طرف دیکھا اور اس لمحہ ان کے چہرے پر جو شفقت آمیز مسکراہٹ ابھری، وہ میں کبھی فراموش نہیں کر سکوں گا ، اور پھر کہا،' میں نے سوچا جاتے جاتے یہ کام بھی کرتا جاؤں،ہم نے تو جو لکھنا تھا ، لکھ لیا ، اب تم لکھو' ۔ انھوں نے 'جاتے جاتے' کہا تو اس ساعت میرے ذہن میں ان کی نظم''بیج بونے کی حکایت''گونج رہی تھی،''میری قسمت بیج بونے اور نیلے رنگ کے دریا میں لمبی نیند سونے کی حکایت ہے، کہ جب سورج کا چہرہ نصف باہر آئے گا، گھوڑے کے پچھلے سُم زمین پر، اور ماتھا آسمان سے دس قدم نیچے پہنچ جائے گا، میں ننگی کمر سے زندگی اور موت کا تعویذ کھولوں گا، اس کے چاروں طرف کالی عبارت اپنی انگشت شہادت سے لکھوں گا، اور بستی چھوڑ جاؤں گا'۔ واقف لاہوری نے کہا تھا ؎
خامہ را احوال ما تقریر کردن مشکل است
زانکہ اوبرزبان زخم است و مارا در دل است