قانون سازی کے باوجود خواتین عدم تحفظ کا شکار کیوں

خواتین سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر خود کو بااختیار بنانا چاہتی ہیں، مزاحمت کی تحاریک ہمارا اثاثہ ہیں

’’خواتین کے قومی دن‘‘ کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ ۔ فوٹو : ایکسپریس نیوز

12 فروری کو پاکستان میں خواتین کا قومی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد ملک میں خواتین کے حقوق و تحفظ کی صورتحال کا جائزہ لینا، آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنا اور خواتین کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔

ملک میں خواتین نے اپنے حقوق و تحفظ کیلئے ایک طویل جدوجہد کی ہے جو ہر دور حکومت میں جاری رہی ہے۔ اسی جدوجہد کے نتیجے میں خواتین کے حوالے سے بہت ساری قانون سازی ہوئی، نئے ادارے بنے اور خواتین کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس وقت خواتین کے حقوق و تحفظ کی صورتحال کیا ہے، کونسے قوانین موجود ہیں، ان سے کیا فائدہ ہوا، خواتین کے خلاف جرائم کی صورتحال کیا ہے، کیا وہ اپنے لیے ہونے والے ریاستی اقدامات سے مطمئن ہیں۔

کہاں بہتری کی گنجائش ہے؟ اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ''خواتین کے قومی دن'' کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر ارم رباب

(انچارج وویمن ڈویلپمنٹ سینٹریونیورسٹی آف ہوم اکنامکس لاہور)

آزادی سے لے کر اب تک،ریاست کا سلوک امتیازی ہے۔ تحریک آزادی میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، فاطمہ جناحؒ، بیگم رعنا لیاقت علی و دیگر نے بھرپور کردار ادا کیا مگر پہلی ہی اسمبلی میں خواتین کو پس پشت ڈال دیا گیا، انہیں وہ مقام نہیں دیا گیا جس کی وہ حقدار تھی، پہلی اسمبلی میں صرف 2 خواتین کو ہی جگہ مل سکی۔

محترمہ فاطمہ جناحؒ جو قائد اعظمؒ کے شانہ بشانہ چلتی رہی، انہیں مادر ملت کا خطاب تو دیا گیا مگر جو سلوک بعدازاں ان کے ساتھ کیا گیا وہ افسوسناک ہے، یہ سلوک محض ایک عورت ہونے کی وجہ سے ہوا۔ اگر خواتین کو ان کا مقام دیا جاتا، لیڈنگ رول میں لایا جاتا تو آج ملک کی حالت یہ نہ ہوتی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں عورت بطور شہری سوالیہ نشان ہے۔

طلاق یافتہ عورت کو اپنے بچے کے اندراج میںمسئلہ ہے، والد کا شناختی کارڈ چاہیے، اگر وہ نہ دے تو بچے کا اندارج نہیںہوتا۔ ملک میں ضرورت سے زائد قوانین موجود ہیں مگر عملدرآمد کے نظام کا فقدان ہے۔

2000ء کے بعد سے بہت ساری قانون سازی ہوئی مگر آج بھی خواتین اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ 2011ء میں خواتین کی وراثت کا قانون منظور ہوا مگران کے پاس شناختی کارڈ ہی نہیں جس کی وجہ سے وہ اس قانون سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتی۔ اسی طرح انہیں ووٹ کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔

الیکشن کمیشن نے یہ قانون تو بنا دیا کہ جہاں خواتین کا 10 فیصد سے کم ٹرن آؤٹ ہوگا وہاں کا الیکشن کالعدم قرار دیا جائے گامگر سوال یہ ہے کہ جن خواتین کے ووٹ ہی نہیں بنے ان کا کیا ہوگا؟ وہ کیسے اپنے ووٹ کا حق استعما ل کریں گی؟ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا ہمارے معاشرے میں عورت کی حیثیت کو تسلیم کیا جاتا ہے؟ یہاں تو افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں اسلامی قانون پر عملدرآمد میں تاخیر ہوتی ہے۔

اسلام نے عورت کو وراثت کا حق دیا مگر ہم نے اسلامی ملک میں ہوتے ہوئے اسے اس حق سے محروم رکھا، اس پر قانون سازی کی مخالفت کی، آج جب قانون بن چکا ہے تو اس کے عملدرآمد میں رکاوٹیں اور مسائل ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق صرف 10 فیصد خواتین کے پاس زمین کے مالکانہ حقوق ہیں۔ ان میں سے بھی سب مالکن نہیں ہیں بلکہ کسی نے صرف قانون کی گرفت سے بچنے کیلئے، کسی نے ٹیکس بچانے اور کسی نے کسی اور غرض سے زمین خاتون کے نام پر لی، حقیقی معنوں میں تو خواتین کو حق نہیں دیا گیا۔

خواتین کے مسائل کثیر الجہتی ہیں ، ہم نے آزادی سے اب تک مسائل کو مزید گھمبیر کر دیا ہے، ریاست کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے خواتین کے حقوق و تحفظ اور خودمختاری کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر ریاست آنر شپ لے، خواتین کو معاشرے کا شہری سمجھے، ان کے بنیادی حقوق کو تحفظ دے تو کوئی شک نہیں ہے کہ مسائل حل نہیں ہونگے۔

ملک میں اکیڈیما کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ ہم اپنے تحت بہت سارے کام کر رہے ہیں۔ خواتین سمیت ملک کے دیگر شہریوں کے مسائل کے حوالے سے نہ صرف بات کرتے ہیں بلکہ تحقیق بھی کرتے ہیں، طلبہ کو تربیت دیتے ہیں، انہیں مختلف سرگرمیوں میں شامل کرتے ہیں۔

ہم معاشرتی سوچ تبدیل کرنے میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمیں بخوبی اداک ہے کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی ذہن سازی بہت ضروری ہے۔

یونیورسٹی کی سطح پر بچوں کے ذہن پختہ ہوچکے ہوتے ہیں،ا نہیں تبدیل کرنا خاصا مشکل کام ہے لہٰذا اگر پرائمری کی سطح سے ہی خواتین کے حقوق اور احترام کے حوالے سے بچوں کی ذہن سازی کی جائے تو خاطر خواہ فائدہ ہوگا۔

میرے نزدیک اساتذہ اور سٹاف کی بھی تربیت ہونی چاہیے، جینڈر کو تعلیم کا لازمی حصہ بنایا جائے۔ خواتین کے مسائل کا حل سب کی ذمہ داری ہے، اس حوالے سے معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا ہوگا۔


بشریٰ خالق

(نمائندہ سول سوسائٹی)

خواتین کا قومی دن ماضی کی جدوجہد کو یاد کرنے کا دن ہے۔12 فروری1983ء کو خواتین نے آمریت کے خلاف کھڑے ہوکر ایک سنگ میل عبور کیا۔اس روز صرف خواتین ہی نہیں بلکہ ترقی پسند مرد و خواتین جن کا تعلق مختلف شعبہ جات اور مذاہب سے تھا، سب سیاسی ، سماجی شعور کے ساتھ باہر نکلے۔

اس وقت انٹرنیٹ کا دور نہیں تھا مگر لوگ اکٹھے ہوئے اور ریاست نے ان پر لاٹھی چارج کیا، گرفتاریاں کیں اور دبانے کی کوشش کی۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں خواتین کے حوالے سے کچھ بہتری آئی، پیپلز پارٹی نے اس دن کو خواتین کا قومی دن قرار دیا اورخواتین کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا۔

1983ء کے بعد خواتین کی جدوجہد میں تیزی آئی، سول سوسائٹی، این جی اوز کو فروغ ملا، خواتین کے حقوق کو تسلیم کیا گیا، ان کے حقوق و تحفظ کیلئے قانون سازی ہوئی، خواتین کو بین الاقوامی سپورٹ ملی اور آج خواتین پہلے کی نسبت مضبوط ہیں۔ہمیں ماضی کی جدوجہد کو نہیں بھولنا چاہیے، مزاحمت کی یہ تحریکیں ہمارا اثاثہ ہیں۔

ان سے سیکھنا ہوگا۔ قانون کا مقصد صرف سزا نہیں ہے بلکہ اس سے متاثرہ شخص کو تحفظ کا احساس اور انصاف ملنے کا یقین ہونا چاہیے، قانون سے لوگوں کی ذہن سازی ہونی چاہیے اور انصاف کاحصول آسان ہونا چاہیے۔ہمیں رسمی کارروائیوں کے بجائے صحیح معنوں میں قانون و انصاف کا نظام قائم کرنا چاہیے۔

بدقسمتی سے ہم انسانی سطح پر بہت پیچھے ہیں، ہم عورت کو انسانی حقوق نہیں دے رہے بلکہ اس پر ظلم ڈھائے جارہے ہیں، اسے دبایا جارہا ہے ۔ پرامن فضاء میں زندگی گزارنے کا حق عورت کو بھی حاصل ہے۔

بدقسمتی ہے کہ گھر سے لے کر اعلیٰ ایوانوں تک عورت کو بطور لیڈر تسلیم نہیں کیا جاتا ، خواتین کو ماضی کی تحریکوں سے سیکھنا چاہیے اور اپنے حقوق کیلئے ضرور آواز اٹھانی چاہیے اور جدوجہد کرتے رہنا چاہیے۔

یہ خوش آئند ہے کہ خواتین کی جدوجہد کی تحریکوں، ان کی حالت زار و دیگر حوالے سے مختلف ریسرچز ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں، تعلیمی اداروں میں بھی خصوصی شعبہ جات قائم کیے گئے ہیں، یہ سب ایک طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے جسے جاری رہنا چاہیے۔

وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ تحریکوں کا طریقہ کار بھی بدلتا ہے، اب سوشل میڈیا کے ذریعے بھی بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلائی جاتی ہے، لوگ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوتے ہیں، عوامی پیغامات جاری کیے جاتے ہیں جس سے خاطر خواہ فائدہ ہوتا ہے۔ میرے نزدیک ہر کوشش معنی رکھتی ہے، لہٰذاہر ممکن کام کرنا ہوگا۔

خواتین کی سیاسی، قانونی، سماجی اور معاشی حیثیت اچھی نہیں ہے، قانون سازی کے باوجود خواتین کا بدترین استحصال ہو رہا ہے، تیزاب گردی کے کیسز بھی ہورہے ہیں، ہم ایک جدید ریاست میں رہتے ہیں، سوال یہ ہے کہ عورت کا تحفظ کہاں ہے؟ قوانین ہونے کے باوجود ہم کدھر جا رہے ہیں؟ ہماری سمت کیا ہے؟ہمیں ماضی سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔

عنبرین فاطمہ

(نمائندہ سول سوسائٹی )

12 فروری کو خواتین کا قومی دن منایا جاتا ہے جو آمریت کے دور میں اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانے اور سڑکوں پر نکلنے کی جدوجہد کا دن ہے۔

خواتین کے حوالے سے آج تک جتنی بھی قانون سازی ہوئی ہے اس کا کریڈٹ 1983ء میں خواتین کے مال روڈ پر احتجاج اور وویمن ایکشن فورم کو جاتا ہے۔

اس سخت ترین دور میں عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی، حبیب جالب سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور عوام، خواتین کے حق میں باہر نکلے، لاٹھی چارج اور تشدد کا سامنا کیا، گرفتاریاں دیں مگر ہمت نہیں ہارے۔ وہ دن خواتین کے حقوق و تحفظ کیلئے بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا۔ آج ریپ، ڈومیسٹک وائلنس سمیت خواتین کے خلاف ہونے والے درجنوں جرائم کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، ان کا ماضی میں تصور بھی نہیں تھا۔ بدقسمتی سے ہمارا نظام انصاف مسائل سے بھرپور ہے۔

ہمارا کریمنل اور سول جسٹس سسٹم خواتین کے حق میں نہیں ہے۔ مختاراں مائی کیس ہو یا قندیل بلوچ، ملزمان کسی بھی طرح سے بچ جاتے ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کے بہت سارے واقعات موجود ہیں اور مزید ہورہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ملک میں خصوصاََ پنجاب میں خواتین کے حوالے سے کافی قانون سازی ہوئی، ادارے بنے مگر ابھی بھی بہت سارا کام باقی ہے۔

وائلنس اگینسٹ وویمن سینٹرز و دیگر اداروں کا قیام اچھا ہے مگر یہ اقدامات پائیدار اور خواتین کو صحیح معنوں میں ریلیف دینے والے ہونے چاہئیں۔ پنجاب میں ریپ، ڈومیسٹک وائلنس، وراثت و دیگر حوالے سے اچھی قانون سازی ہوئی، ہوم بیسڈ ورکرز کے حوالے سے بھی کافی عرصے سے بات ہورہی ہے۔

بل کابینہ میں موجود ہے، جلد کام مکمل کرکے خواتین کو یلیف دینا چاہیے۔ خواتین کے بہت سارے مسائل کا حل بلدیاتی نظام میں ہے، ہمارے ہاں اس پر توجہ نہیں دی جاتی، خواتین کو اس نظام کے ذریعے مضبوط کرنا چاہیے۔ عورت کی سیاسی، سماجی اور معاشی خودمختاری کیلئے کام کرنا ہوگا۔
Load Next Story