سانحہ مشرقی پاکستان کا سبق
جذباتیت یا جوش کی بجائے ہوش اور تدبر کے ساتھ رائے عامہ میں اپنا خوب اثر رکھتے ہیں
پاکستان کے قومی سانحات میں ایک بڑا سانحہ ''مشرقی پاکستان '' کا بھی ہے ۔ اس سانحہ پر پاکستان میں بہت کچھ لکھا اور بولا جاتا ہے ۔
اس پر کئی حوالوں سے تحقیق بھی ہوئی او رکتابیں بھی لکھی گئی ہیں جو ان حالات وواقعات اور فیصلوں کا تجزیہ کرتا ہے کہ کیونکر سانحہ مشرقی پاکستان کا واقعہ رونما ہوا۔اس پر حالیہ دنوں میں ایک شاندار کتاب معروف بزرگ صحافی ، دانشور، ایڈیٹر، کالم نگاراور علمی و فکری شخصیت الطاف حسن قریشی کی نئی کتاب '' مشرقی پاکستان )ٹوٹا ہوا تارا(''سامنے آئی ہے۔
الطاف حسن قریشی پاکستانی صحافت کی وہ قد آور شخصیت ہیں جو اپنے علمی و فکری بنیادوں پر بڑا نام رکھتے ہیں ۔اپنا مقدمہ بہت ہی اعلی منطق، دلیل اور شواہد کے ساتھ پیش کرنا ان کی بڑی خوبیوں میں شامل ہے۔
جذباتیت یا جوش کی بجائے ہوش اور تدبر کے ساتھ رائے عامہ میں اپنا خوب اثر رکھتے ہیں۔ ان کا تازہ بیانیہ مشرقی پاکستان کے سانحہ کے مختلف سبق کو یاد دلاتا ہے اور اسی سبق میں ان کرداروں کو بھی نمایاں کرتا ہے جو اس سانحہ میں کسی نہ کسی شکل میں ذمے دار تھے ۔
الطاف حسن قریشی کی سانحہ مشرقی پاکستان پر اس صخیم دستاویز کو ان کے پوتے ایقان حسن قریشی نے ترتیب دیا ہے جو خود بھی علمی و فکری نوجوان ہیں ۔
جس محنت اور شوق کے ساتھ ایقان حسن قریشی نے اپنے دادا الطاف حسن قریشی کے کام کو مسلسل ترتیب دے کر ہم سب کے سامنے لائے ہیں اس پر وہ یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں ۔کتاب القلم فاونڈیشن لاہور نے شائع کی ہے ۔الطاف حسن قریشی نے سانحہ مشرقی پاکستان پر بڑی گہرائی اور سچائی کے ساتھ ان تمام امور کا جائزہ اور تجزیہ کیا ہے جو اس بحران کو سمجھنے کے لیے ضروری تھے۔
ان کی یہ کتاب پڑھتے ہوئے بار بار اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان کا بڑا سانحہ دراصل کسی ایک فرد یا ادارے کی ناکامی نہیں بلکہ یہ ہماری اجتماعی ناکامی سے جڑا ہوا ہے۔ کاش ہم اس سانحہ سے بچ سکتے مگر لگتا ہے کہ ہم نے بچنے کی بجائے خود ہی وہ کچھ کیا جو ہمیں نہیں کرنا چاہیے تھا ۔
مشرقی پاکستان )ٹوٹا ہوا تارا(جیسے جیسے آپ پڑھتے ہیں آپ حیران بھی ہوتے ہیں اور افسوس بھی کرتے ہیں کہ کیسے ہماری سیاسی اشرافیہ نے وہ فیصلے کیے جو ملک کے مفاد میں نہیں تھے ۔ کوئی کسی کو جوابدہ نہیں تھا او رچاروں اطراف من مانی کا کھیل تھا اور ایسے لگتا تھا کہ ہم یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ ہم نے وہی کچھ کرنا ہے جو کچھ ہوا ہے ۔
الطاف حسن قریشی کے بقول 1970کے انتخابات میں عوامی لیگ کی واضح برتری ہی سے مشرقی پاکستانیوں کی سیاسی علیحدگی ہوئی مگر ان کی جذباتی ، انتظامی اور قلبی علیحدگی بہت پہلے ہوچکی تھی ۔
الطاف حسن قریشی کا یہ فکری اثاثہ '' سانحہ مشرقی پاکستان'' ان کی 1964-2000تک کی تحریروں کا مجموعہ ہے جو ان ہی ادوار ہی میں ماہنامہ اردو ڈائجسٹ اور ہفت روزہ زندگی میں شائع ہوئی تھیں ۔
کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ الطاف حسن قریشی نے اس اہم موضوع پر جو اپنی علمی صلاحیتیں پیش کی ہیں وہ مشرقی پاکستان کے طول و عرض میں گھوم پھر کر اور خواص و عوام سے آزادانہ تبادلہ خیال کرکے لکھی گئی ہیں ۔
کیونکہ پاکستان کے مشرقی بازو میں جب کوئی غیر معمولی واقعہ رونما ہوتا یا کسی بحرانی کیفیت کے آثار نمودار ہونے لگتے تومیں ڈھاکہ جاتا اور معاملے کی حد تک پہنچے کے لیے وہاں کئی روز اور بعض اوقات کئی ہفتے قیام کرتا ۔ صحافیوں ، طالب علموں ، سیاست دانوں اور دینی سطح کے راہنماوں سے مل کر معاملات کو سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔اس اعتبار سے میں اکثر اہم واقعات کا عینی شاہد ہوں۔
ان کے بقول میں ایک مدت سے محسوس کررہا تھا کہ مشرقی پاکستان میں نفرت کے شعلے لپک رہے ہیں او رمجھے بار بار خیال آتا رہا کہ یہ تو وہ خطہ ہے جہاں دسمبر 1906میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔یہ بیش بہا کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے ۔
پہلے حصے میں 1970کے قومی انتخابات کے مدوجزراور دونوں بازوں کے باہمی تعلقات کی ڈرامائی تبدیلیوں کا احاطہ کیا گیا ہے ۔
دوسرے حصے میں عام انتخابات سے لے کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی تک پیش آنے والے خون آشام ،ننگ انسانیت اور بے حسی کے واقعات درج ہیں ۔یہ سفر دل سوز تجربات و مشاہدات کا آئینہ دار ہے۔
تیسرے حصہ کا آغاز '' سقوط ڈھاکہ سے پردہ اٹھتا ہے '' کے سلسلہ مضامین سے ہوتا ہے جس کی بے پناہ عوامی مقبولیت سے خوف زدہ ہوکر سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو کے حکم پر ہم دونوں بھائی اعجاز حسن قریشی ، الطاف حسن قریشی اورجناب مجیب الرحمن شامی کو گرفتار کر لیا گیا اور پاکستان میں صحافیوں کو ہتھکڑی لگانے کی رسم اسی '' عہد ستم گر'' سے شروع ہوئی ۔