یہ خود قربانی دیں گے
ملک میں پہلی بار اقتدار میں آنے اور تبدیلی کی دعویدار پی ٹی آئی کے چیئرمین، وزیروں اور عہدے داروں کی قسمت ضرور جاگی
75سال میں ملک میں غیر جمہوری حکومت رہی ہو یا جمہوری سب نے ہی ہمیشہ عوام سے قربانی مانگی ہے۔
جب بھی ملک پر کوئی برا وقت آیا ہو یا قدرتی آزمائش عوام نے تو کبھی نہیں سنا کہ کسی حکمران یا اس کے کسی وزیر نے ملک کو ضرورت پر عطیہ دیا ہو یا مالی قربانی دی ہو۔ ہر حکمران نے ہمیشہ عوام سے ہی قربانی مانگی اور عوام ہمیشہ یہ سمجھ کر قربانی دیتے رہے کہ شاید ان کی دی گئی قربانیوں سے ملک پر اچھا وقت آجائے اور ملک و قوم کی تقدیر بدل جائے۔
75سالوں میں ملک و قوم کی تقدیر تو نہیں بدلی بلکہ اقتدار میں رہنے والوں اور ملک پر حکومت کرنے والی پارٹیوں کے عہدیداروں کی قسمت ضرور بدلی اور تو اور ملک میں پہلی بار اقتدار میں آنے اور تبدیلی کی دعویدار پی ٹی آئی کے چیئرمین، وزیروں اور عہدے داروں کی قسمت ضرور جاگی، انھوں نے بھی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوے اور جانے کے بعد عمران خان نے ق لیگ کو بھی اپنی قسمت بدلنے کا موقع دیا مگر 6ماہ بعد ہی کمانے کا موقع خود ہی ان سے واپس لے لیا۔
یوں تو ق لیگ خود پانچ سال فوجی وردی تلے اقتدار میں رہی پھر صدر آصف علی زرداری نے ڈپٹی وزیراعظم کا عہدہ تخلیق کر کے چوہدری پروزیر الٰہی کو نائب وزیراعظم بنایا تھا جب کہ ق لیگ بننے سے قبل میاں نواز شریف نے بھی گجرات کے چوہدریوں کو اپنی دو حکومتوں میں اہم عہدے دیے تھے جس کے بعد تبدیلی حکومت کے سربراہ نے اس شخص کو پہلے پنجاب کا اسپیکر پھر وزیراعلیٰ بنایا ۔
وزیر خزانہ بننے والے اسحاق ڈار نے آنے کے بعد قوم سے بڑی قربانی لے لی مگر اپنی 4 سالہ جلا وطنی کی قیمت وصول کرلی اور کوئی قربانی دیے بغیر اپنا قیمتی گھر واگزار اور پچاس کروڑ کی منجمد رقم بحال کرا لی جس میں سے ایک روپیہ زکواۃ کے طور پر بھی قوم کو نہیں دیا تاکہ ان کی یہ عنایت کی قربانی شمار ہوتی۔
عمران خان کہتے تھے کہ ماضی میں حکمرانوں نے ملک لوٹ کر بیرون ملک مہنگی جائیدادیں بنا رکھی ہیں اور غیر ملکی بینکوں میں لوٹی ہوئی دولت جمع کرا رکھی ہے جو اقتدار میں آکر پی ٹی آئی حکومت واپس لائے گی مگر دولت تو واپس نہ آئی البتہ دونوں سابق حکمرانوں نے عمران خان کی قید میں رہ کر اسیری کی قربانی ضرور دی اور ثبوت نہ ملنے پر عدالتوں کے ذریعے پہلے باہر پھر عمران خان کو ہٹاکر دونوں پارٹیوں والے اقتدار میں واپس آگئے ۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے مطابق اتحادی حکومت کے وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کے بیرون ملک دوروں پر کروڑوں روپے خرچ ہورہے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے اس کی تردید کی کہ وہ بیرونی دورے قومی سرمائے سے نہیں ذاتی جیب سے کرکے ملک کے لیے یہ مالی قربانی دے رہے ہیں ۔ سرمایہ دار اپنے پسندیدہ رہنماؤں کو اقتدار میں لانے کے لیے مالی قربانیاں اور پارٹیوں کو فنڈنگ کرتے رہے ہیں جو بعد میں سود سمیت وصول بھی کرلیتے ہیں مگر کسی نے بھی عوام کو مہنگائی اور بیروزگاری سے بچانے کے لیے کوئی مالی قربانی نہیں دی ۔
رہے عمران خان انھوں نے اپنی جیب سے ایک روپیہ خرچ کرکے ذاتی اسپتال اور نمل یونیورسٹی بنالی جنھیں برقرار رکھنے کے لیے وہ اب بھی عوام سے ہی قربانی مانگ رہے ہیں حالاں کہ ان کے پونے چار سالہ اقتدار میں عمران خان کے فلاحی اداروں اور پی ٹی آئی کے لیے وافر مقدار میں جتنے عطیات ملے ان سے مفت میں خدمات دینے والے فلاحی ادارے بنائے جاسکتے ہیں اور عمران خان بھی شریفوں اور زرداریوں کی طرح اپنی جیب ہلکی نہیں کررہے اور عطیات عوام سے ہی مانگے جارہے ہیں۔
شریفوں نے اپنی تین ، بے نظیر بھٹو نے دو، آصف زرداری اور عمران خان نے اپنی اپنی حکومتوں میں ملک میں تو کیا اپنے آبائی شہروں لاہور، لاڑکانہ، کراچی، نواب شاہ اور میانوالی میں کوئی بھی ایک ایسا جدید اسپتال نہیں بنایا جہاں غریب اپنا مفت علاج کراسکتے۔
ساڑھے 14سالوں سے برسراقتدار پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے صوبے میں عوام کے مفت علاج کے جدید اسپتال ضرور بنائے مگر وہ سرکاری فنڈز سے بنے۔ آصف زرداری نے ذاتی طور پر کوئی بھی مفت علاج کا اسپتال نہیں بنایا۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار اپنے منجمد50کروڑ روپے اگر سیلاب متاثرین کو دے دیتے، بلاول بھٹو اپنے غیر ملکی دورے کم کرکے سندھ کے سیلاب متاثرین کے لیے اپنی جیب سے کچھ رقم دے دیتے تو کوئی بات ہوتی مگر ان سمیت کسی ایک رہنما نے کبھی اپنی جیبیں ڈھیلی نہیں کیں اور اپنی حکومتوں میں ہمیشہ عوام سے ہی قربانی مانگی۔ کبھی نہیں سنا کہ کسی بھی اقتدار میں رہنے والے لیڈر نے کبھی زلزلہ زدگان، سیلاب متاثرین یا قدرتی آفت کا شکار ہونے والوں کے لیے ایک روپیہ بھی ذاتی طور پر عطیہ کیا ہو۔
ملک میں متعدد غیرسیاسی مخیر حضرات اور ان کی فلاحی ادارے اپنی جیبوں اور عوامی تعاون سے عوام کی مفت خدمت کررہے ہیں۔ عوام کی حقیقی خدمت میں کسی مفاد کے بغیر مصروف یہ لوگ ملک میں اسپتال چلارہے ہیں۔
دینی اور دنیاوی تعلیم کے لیے ضرورت مندوں کی مالی مدد کررہے ہیں۔ غریبوں کو روزگار کے لیے بلاسود قرض اور رہنے کو گھر فراہم کررہے ہیں اور وہ عوام سے قربانی نہیں مانگتے بلکہ اپنے مال اور وقت کی قربانی دے رہے ہیں حالاں کہ وہ حکمران نہیں ہیں۔