تپِ دق

ہر سال پاکستان میں پانچ لاکھ افراد اس بیماری کا شکار ہو رہے ہیں۔


محمد انیس April 11, 2014
ہر سال پاکستان میں پانچ لاکھ افراد اس بیماری کا شکار ہو رہے ہیں۔ فوٹو : فائل

لاہور: محققین بتاتے ہیں کہ سب سے پہلے افریقا میں تپِ دق کے جرثومے نے کسی انسان کو اپنا شکار بنایا تھا۔

آج پسماندہ اور غریب ملکوں میں یہ بیماری عام ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں تپِ دق (ٹی بی) کی بیماری کے شکار افراد کی تعداد 85 لاکھ سے زائد ہے اور ہر سال کئی افراد اس بیماری کی وجہ سے زندگی ہار جاتے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق 2015 تک مزید 20 لاکھ افراد ٹی بی کے مختلف جرثوموں سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہ ایسے جرثومے ہیں، جن پر موجودہ ادویات اثر نہیں کرتیں۔ گذشتہ دنوں عالمی ادارۂ صحت کے تحت دنیا بھر میں طبی ماہرین اور صحت عامہ سے متعلق سرگرم تنظیموں نے تپِ دق کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے پروگرام منعقد کیے۔ اس موقع پر ٹی بی کے خاتمے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوششیں اور اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

ٹی بی کی علامات میں کھانسی اور بخار شامل ہیں۔ اس جرثومے کا شکار بعض افراد کھانسی کے ساتھ خون آنے کی شکایت بھی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹی بی کے مریض سینے کے درد، سانس پھولنے کی شکایت کے ساتھ وزن میں کمی کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق کھانسی اور بخار کی شکایت دو ہفتے یا اس سے زائد عرصے تک دور نہ ہونے پر تپ دق کے ماہر سے رجوع کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں فوری طور پر مختلف طریقوں سے جانچ کی جاتی ہے، جس سے ٹی بی کی قسم کا تعین کرنے میں مدد ملتی ہے اور اس کے بعد ہی مریض کا علاج شروع کیا جاسکتا ہے۔ ٹی بی کے مرض کا علاج طویل اور صبر آزما بھی ہے۔ اس کے علاج کا دورانیہ مکمل کرنا ضروری ہے۔ نامکمل علاج اور ادویہ کا باقاعدگی سے استعمال نہ کرنا مزید جسمانی پیچیدگیوں کا باعث بنتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر ٹی بی کے مریض کو مکمل علاج کرانے پر آمادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ طبی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ تپ دق کے مریضوں کا باقاعدگی سے دوا استعمال نہ کرنا اور علاج ادھورا چھوڑ دینا جسم میں ٹی بی کے جراثیم کو توانا ہونے میں مدد دیتا ہے۔ ٹی بی کے جراثیم ہوا کے ذریعے پھیلتے ہیں اور کسی بھی صحّت مند شخص کو متاثر کر سکتے ہیں۔ اسی لیے ٹی بی کے مریض کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ کھانسے اور چھینکنے سے قبل اپنا منہ کپڑے سے ڈھانپ لے، کیوں کہ اس طرح جراثیم کو پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے۔ پھیپھڑوں کا ٹی بی سے متأثر ہونا سب سے زیادہ عام ہے۔ اس کے علاوہ مثانے، غدود، آنتیں، پیٹ، ریڑھ کی ہڈی اور دماغ بھی اس مرض کا نشانہ بنتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹی بی موروثی بیماری نہیں ہے۔ یہ مریض کے ساتھ کھانے پینے اور عام میل جول سے بھی کسی انسان میں منتقل نہیں ہوتی۔

پاکستان میں تپِ دق کے سالانہ پانچ لاکھ کیس رپورٹ ہوتے ہیں، جب کہ اس بیماری سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 65 ہزار ہے۔ دنیا میں ٹی بی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں غربت اور طبی سہولیات کی عدم دست یابی بھی اس مرض کے خاتمے میں بڑی رکاوٹ بتائی جاتی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے دنیا بھر میں حکومتوں کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے کہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جسم میں ٹی بی کے جرثومے کی جانچ اور تشخیص کے لیے سہولیات سمیت معیاری ادویہ کی مریضوں کو فراہمی یقینی بنانے کے لیے متعلقہ اداروں کو اپنا فرض ادا کرنا ہو گا۔ حکومت مختلف علاقوں میں ٹی بی کلینک قائم کرے اور ان میں تپِ دق کے ماہرین کی تعیناتی یقینی بنائے تو مرض کے خاتمے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ ٹی بی کے خاتمے کے لیے کوششوں سے اگلے چند برسوں میں اس بیماری سے مرنے والوں کی تعداد نصف ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف طبی سائنس کے ماہرین ٹی بی کے مختلف جرثوموں پر تحقیق کررہے ہیں۔ حال ہی میں اس بیماری سے لڑنے کی صلاحیت رکھنے والی نئی ادویہ کی تیاری پر کام شروع کیا گیا ہے اور ماہرین اس سلسلے میں اپنے تجربات کی کام یابی سے متعلق خاصے پُرامید ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں