جمہوری حکومت کی انسانی ہمدردی

مشرف کا جرم صرف یہ ہے کہ انہوں نے 1999میں ملک کو دیوالیہ ہونے سے نہ صرف بچایا بلکہ ملک کو تاریخ ساز ترقی کی بھی.


مشرف کا جرم صرف یہ ہے کہ انہوں نے 1999میں ملک کو دیوالیہ ہونے سے نہ صرف بچایا بلکہ ملک کو تاریخ ساز ترقی کی بھی. فوٹو: فائل

رات ایک بلی گاڑی کے نیچے آکر بری طرح زخمی ہوگئی۔ اسکے چھوٹے چھوٹے بچے اپنی تڑپتی ماں کے قریب آئے اور دیکھ کر خوفزدہ سا چہرہ لے کر پیچھے ہوگئے اور دور کھڑے ہوکر اپنی سسکتی بلکتی ماں کو دیکھتے رہے۔ایسا محسوس ہورہا تھا کہ بچے اپنے مخصوص انداز میں میائوں بولتے اپنی ماں کو تسلی دے رہے ہوں اور کبھی بلی کے منہ سے نکلنے والی میائوں اس بات کا احساس دلا رہی تھی کہ وہ بچوں سے گویا یہ کہہ رہی ہو کہ گھبرائو نہیں میں ٹھیک ہوں۔ اسی اثناء بلی کے منہ پر ہم نے پانی ڈالا اور قدرت کے حکم سے بلی اٹھ کر بیٹھ گئی اور تمام تکالیف اور درد کو بُھلا کر اپنے بچوں کو چاٹنے لگی ۔ بچے بھی پُرسکون ہو کر ماں کا دودھ پینے لگے۔بچوں کو تکلیف کا احساس نہیں ہوا اور ماں بھی اپنی ممتا کے آگے سارے درد بھول گئی۔

اُس بلی کو دیکھ کر آنکھیں بے ساختہ اشکبار ہوگئیں۔ ہمیں بھی اپنی ماں ممتا اور اسکے ساتھ گزارے دن یاد آگئے۔ اگرچہ وہ 10برس کی عمر میں ہمیں چھوڑ کر خالق حقیقی سے جاملی تھیں لیکن ان کی یادیں آج بھی ذہن میں تازہ ہے۔ وہ 1999دسمبر کی پہلی رات تھی تقریبا رات 4بجے ہمیں یہ خبر مل گئی تھی کہ ہم آج کے بعد سے ماں کے بغیر زندگی گزاریں گے۔ کیسے گزرے وہ دن آج بھی سوچو تو بہت وحشت ہوتی ہے۔ وہ جب بیمار تھیں تو میں روز ان کی عیادت کے لئے اسپتال جایا کرتا تھا۔ کم از کم مجھے اس بات کی تسلی ہوتی ہے کہ آخری وقت تک میں اپنی ماں کے قریب تھا۔

آج جب ایک شخص کی کو اس صورت حال میں دیکھ رہا ہوں تو دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ اگر کسی کی ماں بیمار ہو اور اس کے خلاف غیرضروری انتقامی کاروائی کی جارہی ہو تو اُس ماں اور اسکے بچے کے دل سے کتنی آہیں اور بد دعائیں نکلیں گی۔ چلو مان لیا کہ پرویز مشرف نے قانون توڑا، آئین شکنی کی، ملک کے ساتھ غداری بھی کی لیکن اس سب کے باوجود تو ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر اُن ماں کو کچھ ہوگیا تو کیا یہ قوم اور نام نہاد سیاستدان ان کی ماں کا بدلہ دے سکیں گے؟



مشرف کا جرم صرف یہ ہے کہ انہوں نے 1999میں ملک کو دیوالیہ ہونے سے نہ صرف بچایا بلکہ ملک کو تاریخ ساز ترقی کی بھی جانب گامزن کیا۔ ملکی خزانے کو 3ارب ڈالر سے 14ارب ڈالر تک پہنچایا۔ملک کو قرضوں کے جھنجھٹ سے دور کیا اور ملکی تاریخ میں پہلی بار ان کے دور اقتدار میں کبھی بھی پاکستان کو غیر ملکی امداد نہیں ملی۔ انہوں نے 40سال ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی ، ملکی بقاء کے لئے دشمن سے دو معرکوں 1965اور 1971کا غازی رہے۔ افواج پاکستان کے سابق سربراہ بھی رہے اور سب سے بڑھ کر وہ مجرم اس لئے بھی ہیں کہ کرپشن کا ایک بھی ثبوت یا کیس ان کے خلاف ثابت نہیں ہوسکا۔

دوسری جانب موجودہ حکمران طالبان سے ہر قیمت پر کامیاب مذاکرات کے خواہاں ہیں۔ جبکہ طالبان شروع سے ہی پاکستان کے آئین اور اس کے وجود کے منکر ہیں۔مجھے تو لگتا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کا محور صرف اور صرف یہ ہے کہ مستقبل میں پنجاب دہشت گردی سے محفوظ رہے گا۔ حکومت نے مذاکرات کی کامیابی کی توقع ان دہشت گردوں سے لگا رکھی ہے جنہوں نے پاک فوج ، پولیس اور پاکستان کے عوام کا بے دریغ اور بے دردی سے قتل عام کیا۔ یہ پہلا موقع ہے جب پاک فوج بھی خاموشی سے بیٹھی ہوئی ہے شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ حکمراں کامیاب مذاکرات کی آڑ میں مقدس وردی کو بلیک میل کر رہے ہوں جس کی مثال اس کے سابق چیف کے طور پر ان کے سامنے موجود ہے ۔ فی الحال میں اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرسکتا شاید آپ بھی نا کرسکیں لیکن تمام صورتحال کے اوپر فوج کی خاموشی سب کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کس نوعیت ہوتی ہے ۔ فوج کی خوداری اور وردی کی عزت کب پامال ہونے سے بچتی ہے۔ پاکستانی عوام کو جمہوری حکومتوں کے ادوار میں مہنگائی، کرپشن، رشوت خوری اور ذلت کے سوا کچھ بھی نصیب نہیں ہوا۔ افواج پاکستان کا ادارہ نہ صرف پاکستان کا دفاع کرنا جانتا ہے بلکہ جب جب اقتدار سنبھالا عوام کو ریلیف دیا۔

جمہوریت کے دعویداروں کو ہوش کے ناخن لینے ہونگے کیونکہ اگر پاک فوج میدان میں آگئی تو جمہوریت کی بساط الٹ جائے گی اور مشرف کو ایک بار پھر ملزم و مجرم کو ٹھہرایا جائیگا۔آخر کب تک فوج اپنے اعلی عہدیدار پر لگنے نام نہاد الزامات پر خاموش رہے گی۔ اور ہمارے نام نہاد سیاتدان کب تک ایک ماں سے اس کے لخت جگر کو دوررکھ کر جبری زنجیروں کو باندھے اپنی کامیابی کا جشن مناتے رہیں گے۔ کاش وہ ایک بار خود کو مشرف کی جگہ رکھ کر سوچیں کہ کم از کم انسانی ہمدری کی خاطر ہی سہی ہمیں ایک ماں کی ٹوٹتی ہوئی سانسوں سے انہیں ان کے بیٹے سے دور نہیں کرنا چاہئے۔مجھے یقین ہے ایک دن پوری دنیا کے سامنے سچائی کا پردہ چاک ہوگا اور پرویز مشرف ایک بار پھر اٹھ کر اپنا سر فخر سے بلند کرسکیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں