آئی ایم ایف شرائط وفاقی کابینہ نے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے کی منظوری دے دی
کابینہ نے گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دیدی، منی بجٹ آرڈیننس کے بجائے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا فیصلہ
وفاقی کابینہ نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسز نافذ کرنے اور گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں ملک کی معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے کابینہ اراکین کو بریفنگ دی گئی۔
وفاقی کابینہ نے 170ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی منظوری دیدی جبکہ کابینہ نے ٹیکس قوانین بلز2023کی منظوری دیدی۔
وفاقی کابینہ نے قومی اسمبلی اور سینٹ کا اجلاس 15 فروری بروز بدھ کو بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس ایک ایک گھنٹے کے وقفے سے بلائے جائیں گے۔ پہلے قومی اسمبلی کا اجلاس ہوگا جس میں ٹیکس قوانین ترمیمی بل پیش کر کے فوری منظور کروایا جائے گا۔ قومی اسمبلی اجلاس کے ایک گھنٹہ بعد سینٹ اجلاس میں بھی ٹیکس قوانین بل پیش کر دیاجائے گا۔
علاوہ ازیں وفاقی کابینہ نے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی. وفاقی کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاسوں میں کئے گئے فیصلوں کی توثیق کی جبکہ لگژری آئٹمز پر ٹیکس بڑھانے کی منظوری دیدی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بجلی کے بریک ڈاؤن پر پاور ڈویژن کی رپورٹ پیش کی گئی اور اراکین کو بریفنگ دی گئی۔
کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ قومی اسمبلی سے رولز معطل کر کے ٹیکس قوانین ترمیمی بل فوری منظور کرایا جائے گا جبکہ سینٹ میں ٹیکس قوانین ترمیمی بل سفارشات کیلئے پیش کیا جائے گا۔ حکومت اکثریت کے بل بوتے پرسینٹ میں بھی رولز معطل کر کے قرارداد منظور کرائے گی۔ سینٹ سے ٹیکس قوانین ترمیمی بل جیسا ہے کی بنیاد پر منظور ہے کی قرارداد پاس کرائی جائے گی۔
اراکین کی تنخواہ 15 فیصد کم کرنے اور کابینہ کا حجم کم کرنے کی منظوری
کابینہ نے کفایت شعاری سے متعلق اقدامات کی بھی منظوری دی جس کے تحت کابینہ اراکین کی تعداد کو کم اور سرکاری اخراجات کو مختصر کیا جائے گا۔
وزیراعظم کی ہدایت پر بنائی جانے والی کفایت شعاری کمیٹی نے اراکین اسمبلی کی تنخواہوں کو پندرہ فیصد کم کرنے، پانچ لاکھ سے زائد پنشن ادائیگی اور بیوروکریٹس ، ججز مسلح افواج کو ایک سے زائد پلاٹس نہ دینے کی سفارش کردی۔
وفاقی کابینہ نے جسٹس (ر) ناصر کھوسہ کی سربراہی میں کفایت شعاری کمیٹی کی تجاویز کی منظوری دی۔ کمیٹی کی تجویز پر کابینہ کا حجم کم کر کے اسے 30 ارکان تک محدود کیا جائے گا۔
پانچ لاکھ سے زائد پنشن ادائیگی نہ کی جائے، سرکاری افسران سے بڑی گاڑیاں واپس لی جائیں
کفایت شعاری کمیٹی نے تجویز دی کہ ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز نہ دیئے جائیں اور سرکاری خزانے سے کسی کو بھی 5 لاکھ روپے ماہانہ سے زیادہ پنشن نہ دی جائے، سرکاری افسران کو بڑی گاڑیاں نہ دی جائیں، ریٹائرڈ سرکاری، عسکری اورجوڈیشل افسران سے تمام مراعات، سکیورٹی، معاون اسٹاف اور یوٹیلیٹیز واپس لی جائیں جبکہ تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز کی تنخواہیں 15 فیصد کم کی جائیں۔
ریٹائرڈ سرکاری افسران، بیورو کریٹس، ججز اور مسلح افواج کے افسران سے پلاٹس واپس لیے جائیں
کمیٹی نے تجویز دی کہ وفاقی و صوبائی سطح پر تمام وزارتوں، ڈویڑنوں ماتحت دفاتر،صوبائی حکومتوں اور بیرون ملک سفارتخانوں کا بجٹ 15 فیصد کم کیا جائے، سرکاری ملازمین، بیوروکریٹس، ججوں اور مسلح افواج کے افسران کو ایک سے زیادہ پلاٹس نہ دیے جائیں اور جن کو ایک سے زیادہ پلاٹس دیے گئے ہیں انہیں منسوخ کر کے نیلام کیا جائے، سی پیک کے تحت خصوصی صنعتی زونز کے علاوہ کوئی نیا گرین فیلڈ پروجیکٹ شروع نہ کیا جائے۔
سرکاری بھرتیوں پر پابندی عائد کی جائے، بجٹ کو جون 2024 تک منجمد کیا جائے
کفایت شعاری کمیٹی نے تجویز دی کہ بھرتیوں پر پابندی عائد کی جائے اور سب کیلئے سکیورٹی پروٹوکول میں کمی کی جائے، اضافی کابینہ ارکان یا معاونین خصوصی عوامی فلاح کی بنیاد پر کام کر سکتے ہیں، بجٹ کو جون 2024ء تک منجمد کیا جائے، اسی عرصہ تک کیلئے ہر طرح کی گاڑیوں کی خریداری بند کی جائے۔
کمیٹی نے سفارش کی کہ نئے انتظامی یونٹس کے قیام پر مکمل پابندی عائد کی جائے، صوابدیدی گرانٹس اور خفیہ سروس فنڈ منجمد کیا جائے، پروگریسیو پراپرٹی ٹیکس تمام صوبوں میں نافذ کیا جائے، پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ملازمین کو ملنے والے بجلی کے فری یونٹس ختم کیے جائیں، بجلی اور گیس کیلئے پری پیڈ میٹر سسٹم متعارف کرایا جائے۔
اس کے علاوہ کمیٹی نے تجویز دی کہ کاروباری اور تجارتی سرگرمیاں کرنا حکومت کا کام نہیں،ریاستی کاروباری اداروں کو دیگر انتظامات میں منتقل کیا جائے۔
دوسری جانب آئی ایم ایف سے مذاکرات اور منی بجٹ کی منظوری کے معاملے پر حکومت نے قومی اسمبلی کا اجلاس کسی بھی وقت بلانے کا فیصلہ کرلیا، جس کے لیے وزیراعظم ہاؤس سے سمری ایوان صدر کو ارسال کی گئی ہے۔ وزارت پارلیمانی امور نے وزارت قانون کی مشاورت سے سمری وزیر اعظم ہاؤس کو ارسال کی۔
ذرائع کے مطابق سمری بغیر کسی تاریخ کے اوپن بھجوائی گئی ہے، وزیراعظم ہاؤس سے سمری ایوان صدر کو اجلاس بلانے کے سمن کے لئے بھجوائی گئی، جس کے بعد صدر مملکت کسی بھی روز قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرسکتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ دو روز میں قومی اسمبلی اجلاس بلائے جانے کا قوی امکان ہے۔
واضح رہے کہ صدر مملکت نے فنانس آرڈیننس بل پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے وزیر خزانہ کو اجلاس بلانے کی تجویز دی تھی۔ صدر مملکت کی تجویز کے بعد وزارت پارلیمانی امور نے سمری تیار کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایوان بالا کا اجلاس صدارتی آرڈیننس لانے کے سبب ہی ملتوی کیا گیا۔