آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
موجودہ کتاب میں عربی ادب کے نامور شعرا اور اس کے واحد افسانوی شاہکار الف لیلہ سے جس خوش اسلوبی سے تعارف کرایا گیا تھا
سید محمد کاظم کس خاموشی سے اس دنیا سے سفر کر گئے۔ ایسا خاموش سفر کہ ان کے کتنے مداحوں کو اس کے بعد پتہ چلا جب وہ خاک تلے جا سوئے تھے۔ زندگی کا سفر اور اس سفر کے بیچ علمی ادبی سفر بھی تو انھوں نے اتنی ہی خاموشی سے طے کیا تھا۔ کم آمیز' محفلوں مجلسوں سے دور' اپنے گوشے میں اطمینان سے اپنے علمی کام میں مشغول رہا۔ نام و نمود سے بے نیاز۔ پھر میڈیا میں ان کے انتقال کی خبر کیسے اچھلتی اور قریب و دور تک پہنچتی۔
ان کی پہلی کتاب جس کے واسطے سے ہمارا ان کے ساتھ سچ مچ کا تعارف ہوا اس کی اشاعت کی داستان اس طرح ہے کہ ان کے ہمارے مشترکہ دوست مرحوم صلاح الدین محمود نے بڑے شوق سے ایک مکتبہ نقش اول کتاب گھر کے نام سے قائم کیا۔ ان کے اکسانے پر کاظم صاحب نے اپنے مضامین کا ایک مجموعہ ترتیب دیا جو اس مکتبہ کی طرف سے شایع ہوا۔ عنوان سیدھا سادھا 'مضامین'۔ ہم نے اسے کھولا اس جستجو میں کہ یہ کیسے مضامین ہیں۔ لیجیے ہمارے تو چودہ طبق روشن ہو گئے۔ عربی ادب زمانہ جاہلیت سے ہمارے زمانے کے محمود درویش تک۔ کس سہولت اور کتنے دل نشین انداز میں انھوں نے عربی ادب کے دریا کو ایک چھوٹے سے کوزے میں سمیٹ لیا اور کس سہولت سے ہم نے اس کوزے سے فیض حاصل کیا اور عربی ادب سے کم از کم ابتدائی تعارف ہو گیا۔ ارے ہمارا آپ کا تعارف عربی سے بالعموم کلام پاک کی حد تک چلا آتا ہے۔ مذہب سے شغف رکھنے والے کلام پاک سے آگے احادیث یا یوں سمجھئے کہ دینیات کی مختلف تصانیف کے ترجموں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ عربی ادب سے شناسائی کی نوبت کم کم آتی ہے۔ ہاں ہمارے زمانے میں حکیم حبیب اشعر کے ترجموں کے وسیلا سے تھوڑا ایسا تعارف ضرور ہوا تھا۔
موجودہ کتاب میں عربی ادب کے نامور شعرا اور اس کے واحد افسانوی شاہکار الف لیلہ سے جس خوش اسلوبی سے تعارف کرایا گیا تھا اس نے ہمیں لوٹ لیا۔ تب ہمیں کاظم صاحب کے گُنوں کا پتہ چلا۔ مزید جاننے کے لیے ان سے ہم نے باقاعدہ ملاقات بھی کی۔ پتہ چلا کہ بہاولپور کی مٹی ہیں اور عربی ان کے خون میں گھلی ہوئی ہے۔ سیّد جو ہوئے۔ جماعت اسلامی سے لمبی وابستگی رہی ہے۔ اس جماعت کی کتنی ہی تصانیف' خاص طور پر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی تصانیف کے اردو سے عربی میں ترجمے کیے۔ تب ہم مزید حیران ہوئے اور پوچھا کہ ''یہ کیسے ہوا کہ آپ دینیات سے چلے اور ایونواس اور الف لیلہ تک جا پہنچے۔
بولے کہ ''زبان سیکھنے کے لیے اس زبان کے ادب کو تو پڑھنا ہی پڑتا ہے۔ اسی مطالعہ میں عربی ادب سے شغف پیدا ہوتا چلا گیا''۔
اس مجموعہ میں سب سے بڑھ کر جس مقالہ نے ہمیں سمجھو کہ لوٹ لیا وہ الف لیلہ پر ان کا بیان تھا۔
ہم نے پوچھا کہ ''کاظم صاحب الف لیلہ سے پہلے بھی تو عربی میں کوئی داستانی روایت ہو گی اس کا آپ نے کوئی تذکرہ نہیں کیا''۔
بولے کہ ''اس سے پہلے کچھ نہیں ہے۔ عربی میں شاعری کی روایت بڑی ہے۔ مگر فکشن کے ذیل میں اب سے پہلے خاک اڑتی تھی۔ جو کہانیاں سنائی یا لکھی بھی گئیں وہ الف لیلہ ہی میں ضم ہو گئیں''۔
ہم نے سوچا کہ کیا خوب۔ گویا صحرا میں گل کھلا ہے اور کیا خوب کھلا کہ عربوں کو تو اس کی مہک کا پتہ ہی نہ چلا۔ مغرب تک اس کی مہک کسی صورت پہنچ گئی۔ اور ایسی کہ وہ اس پر لہلوٹ ہو گئے۔ پھر انھیں کے واسطے سے الف لیلہ واپس اپنے وطن میں آئی اور پھر ہم تک پہنچی۔
عربی علم و ادب کے ایک اور شعبہ سے بھی کاظم صاحب نے ہم اردو والوں کو بڑے سلیقہ سے متعارف کرایا۔ سینا و فارابی۔ اور ہاں ابن رشد' ابن طفیل' ابن باجہ' ابن مسکویہ' الکندی۔ ارے یہ کون لوگ تھے اور کیا کہتے تھے۔ یہ جاننا ہو تو پھر کاظم صاحب کی کتاب پڑھئے۔ اسی پچھلی کتاب کے آس پاس انھوں نے یہ کتاب بھی مرتب کی تھی۔ عربی عجمی فلسفیوں کا پورا تذکرہ اور اس دل نشیں پیرائے میں کہ ان کے افکار سے کسی الجھاوے کے بغیر تعارف ہو جاتا ہے۔ مگر پھر اس روایت کو کیا ہو گیا۔ بس پھر وہ راسخ العقیدہ علماء کی یلغار کی تاب نہ لا سکے۔ پھر ان چراغوں سے اہل مغرب نے اپنے یہاں فلسفہ کے چراغ روشن کیے۔
ہاں میں نے کاظم صاحب سے ایک بات اور پوچھی تھی ''ظہور الاسلام کے بعد عہد جاہلیت کے ادب کے بارے میں یا ان رجحانات کے بارے میں جو اس روایت کے زیر اثر پھلے پھولے کیا رویہ تھا۔ اس کے خلاف کوئی رد عمل''۔
بولے کہ ''اس ادب اور اس زمانے کے ادبی رجحانات کے بارے میں کوئی تعصب نہیں برتا گیا۔ نہ حضورﷺ کے زمانے میں نہ ان کے بعد خلافت راشدہ کے زمانے میں۔
خیر یہ تو ہوا۔ مگر ادبی کام کرتے کرتے ایک مرتبہ پھر وہ اپنے پچھلے دور کی طرف پلٹے۔ مذہب کے بارے میں اتنا ہی شغف۔ اب کے وہ باقی کاموں کو چھوڑ کر کلام پاک کے ترجمہ پر مستعد ہو گئے۔ قرآن شریف کے اول اردو ترجمہ سے لے کر اب تک کتنے ترجمے ہو چکے ہیں۔ لیکن بار بار یہ صورت پیدا ہوتی ہے کہ کسی صاحب نظر کو احساس ہوتا ہے کہ ان ترجموں میں کوئی کمی رہ گئی ہے اور وہ ترجمہ کرنے پر کمر بستہ ہو جاتا ہے۔ شاید کاظم صاحب کو بھی کچھ اسی قسم کا احساس ہوا ہو۔ بہر حال وہ بڑے خضوع و خشوع کے ساتھ اس ترجمہ کے کام میں منہمک ہو گئے۔ مگر یہ کام بھی انھوں نے کتنی خاموشی سے کیا۔ ترجمہ مکمل کیا۔ وہ چھپ بھی گیا۔ مگر ان کی طرف سے ایسی خواہش دیکھنے میں نہیں آئی کہ اسے ایک کارنامہ قرار دے کر اپنی تشہیر کی جائے۔
اور اب وہ اپنی آپ بیتی لکھ رہے تھے۔ اس دور کے بارے میں جو انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی میں گزارا وہ بہت کچھ لکھ بھی چکے تھے۔ مگر یہ ان کی تحریر ادھوری ہی رہ گئی۔ اس کی تکمیل سے پہلے پیغام اجل آ گیا۔
پیدا بہاولپور میں ہوئے تھے۔ اسودہ خاک لاہور میں ہوئے۔ کہاں کی مٹی کہاں آ کر آسودہ ہوئی۔ ہاں شجرہ نسب کے بارے میں بھی ایک بات سن لیجیے۔ بتانے لگے کہ مجھے عربی جاننے سیکھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوئی۔ لگتا تھا کہ میں پہلے ہی سے کچھ جانتا ہوں۔
''شاید یہ بات خون میں ہو۔ آخر آپ سیّد ہیں''۔
بولے کہ ''ہاں ایک تو مجھے ویسے ہی اپنے سیّد ہونے کا یقین ہے کہ ہمارا شجرہ نسب محفوظ چلا آتا ہے۔ پھر ایک مرتبہ سیّد سلیمان ندوی سے شرف ملاقات حاصل ہوا۔ انھوں نے میرا چہرہ مہرہ دیکھ کر توثیق کی کہ بیشک تم سیّد ہو''۔
ان کی پہلی کتاب جس کے واسطے سے ہمارا ان کے ساتھ سچ مچ کا تعارف ہوا اس کی اشاعت کی داستان اس طرح ہے کہ ان کے ہمارے مشترکہ دوست مرحوم صلاح الدین محمود نے بڑے شوق سے ایک مکتبہ نقش اول کتاب گھر کے نام سے قائم کیا۔ ان کے اکسانے پر کاظم صاحب نے اپنے مضامین کا ایک مجموعہ ترتیب دیا جو اس مکتبہ کی طرف سے شایع ہوا۔ عنوان سیدھا سادھا 'مضامین'۔ ہم نے اسے کھولا اس جستجو میں کہ یہ کیسے مضامین ہیں۔ لیجیے ہمارے تو چودہ طبق روشن ہو گئے۔ عربی ادب زمانہ جاہلیت سے ہمارے زمانے کے محمود درویش تک۔ کس سہولت اور کتنے دل نشین انداز میں انھوں نے عربی ادب کے دریا کو ایک چھوٹے سے کوزے میں سمیٹ لیا اور کس سہولت سے ہم نے اس کوزے سے فیض حاصل کیا اور عربی ادب سے کم از کم ابتدائی تعارف ہو گیا۔ ارے ہمارا آپ کا تعارف عربی سے بالعموم کلام پاک کی حد تک چلا آتا ہے۔ مذہب سے شغف رکھنے والے کلام پاک سے آگے احادیث یا یوں سمجھئے کہ دینیات کی مختلف تصانیف کے ترجموں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ عربی ادب سے شناسائی کی نوبت کم کم آتی ہے۔ ہاں ہمارے زمانے میں حکیم حبیب اشعر کے ترجموں کے وسیلا سے تھوڑا ایسا تعارف ضرور ہوا تھا۔
موجودہ کتاب میں عربی ادب کے نامور شعرا اور اس کے واحد افسانوی شاہکار الف لیلہ سے جس خوش اسلوبی سے تعارف کرایا گیا تھا اس نے ہمیں لوٹ لیا۔ تب ہمیں کاظم صاحب کے گُنوں کا پتہ چلا۔ مزید جاننے کے لیے ان سے ہم نے باقاعدہ ملاقات بھی کی۔ پتہ چلا کہ بہاولپور کی مٹی ہیں اور عربی ان کے خون میں گھلی ہوئی ہے۔ سیّد جو ہوئے۔ جماعت اسلامی سے لمبی وابستگی رہی ہے۔ اس جماعت کی کتنی ہی تصانیف' خاص طور پر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی تصانیف کے اردو سے عربی میں ترجمے کیے۔ تب ہم مزید حیران ہوئے اور پوچھا کہ ''یہ کیسے ہوا کہ آپ دینیات سے چلے اور ایونواس اور الف لیلہ تک جا پہنچے۔
بولے کہ ''زبان سیکھنے کے لیے اس زبان کے ادب کو تو پڑھنا ہی پڑتا ہے۔ اسی مطالعہ میں عربی ادب سے شغف پیدا ہوتا چلا گیا''۔
اس مجموعہ میں سب سے بڑھ کر جس مقالہ نے ہمیں سمجھو کہ لوٹ لیا وہ الف لیلہ پر ان کا بیان تھا۔
ہم نے پوچھا کہ ''کاظم صاحب الف لیلہ سے پہلے بھی تو عربی میں کوئی داستانی روایت ہو گی اس کا آپ نے کوئی تذکرہ نہیں کیا''۔
بولے کہ ''اس سے پہلے کچھ نہیں ہے۔ عربی میں شاعری کی روایت بڑی ہے۔ مگر فکشن کے ذیل میں اب سے پہلے خاک اڑتی تھی۔ جو کہانیاں سنائی یا لکھی بھی گئیں وہ الف لیلہ ہی میں ضم ہو گئیں''۔
ہم نے سوچا کہ کیا خوب۔ گویا صحرا میں گل کھلا ہے اور کیا خوب کھلا کہ عربوں کو تو اس کی مہک کا پتہ ہی نہ چلا۔ مغرب تک اس کی مہک کسی صورت پہنچ گئی۔ اور ایسی کہ وہ اس پر لہلوٹ ہو گئے۔ پھر انھیں کے واسطے سے الف لیلہ واپس اپنے وطن میں آئی اور پھر ہم تک پہنچی۔
عربی علم و ادب کے ایک اور شعبہ سے بھی کاظم صاحب نے ہم اردو والوں کو بڑے سلیقہ سے متعارف کرایا۔ سینا و فارابی۔ اور ہاں ابن رشد' ابن طفیل' ابن باجہ' ابن مسکویہ' الکندی۔ ارے یہ کون لوگ تھے اور کیا کہتے تھے۔ یہ جاننا ہو تو پھر کاظم صاحب کی کتاب پڑھئے۔ اسی پچھلی کتاب کے آس پاس انھوں نے یہ کتاب بھی مرتب کی تھی۔ عربی عجمی فلسفیوں کا پورا تذکرہ اور اس دل نشیں پیرائے میں کہ ان کے افکار سے کسی الجھاوے کے بغیر تعارف ہو جاتا ہے۔ مگر پھر اس روایت کو کیا ہو گیا۔ بس پھر وہ راسخ العقیدہ علماء کی یلغار کی تاب نہ لا سکے۔ پھر ان چراغوں سے اہل مغرب نے اپنے یہاں فلسفہ کے چراغ روشن کیے۔
ہاں میں نے کاظم صاحب سے ایک بات اور پوچھی تھی ''ظہور الاسلام کے بعد عہد جاہلیت کے ادب کے بارے میں یا ان رجحانات کے بارے میں جو اس روایت کے زیر اثر پھلے پھولے کیا رویہ تھا۔ اس کے خلاف کوئی رد عمل''۔
بولے کہ ''اس ادب اور اس زمانے کے ادبی رجحانات کے بارے میں کوئی تعصب نہیں برتا گیا۔ نہ حضورﷺ کے زمانے میں نہ ان کے بعد خلافت راشدہ کے زمانے میں۔
خیر یہ تو ہوا۔ مگر ادبی کام کرتے کرتے ایک مرتبہ پھر وہ اپنے پچھلے دور کی طرف پلٹے۔ مذہب کے بارے میں اتنا ہی شغف۔ اب کے وہ باقی کاموں کو چھوڑ کر کلام پاک کے ترجمہ پر مستعد ہو گئے۔ قرآن شریف کے اول اردو ترجمہ سے لے کر اب تک کتنے ترجمے ہو چکے ہیں۔ لیکن بار بار یہ صورت پیدا ہوتی ہے کہ کسی صاحب نظر کو احساس ہوتا ہے کہ ان ترجموں میں کوئی کمی رہ گئی ہے اور وہ ترجمہ کرنے پر کمر بستہ ہو جاتا ہے۔ شاید کاظم صاحب کو بھی کچھ اسی قسم کا احساس ہوا ہو۔ بہر حال وہ بڑے خضوع و خشوع کے ساتھ اس ترجمہ کے کام میں منہمک ہو گئے۔ مگر یہ کام بھی انھوں نے کتنی خاموشی سے کیا۔ ترجمہ مکمل کیا۔ وہ چھپ بھی گیا۔ مگر ان کی طرف سے ایسی خواہش دیکھنے میں نہیں آئی کہ اسے ایک کارنامہ قرار دے کر اپنی تشہیر کی جائے۔
اور اب وہ اپنی آپ بیتی لکھ رہے تھے۔ اس دور کے بارے میں جو انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی میں گزارا وہ بہت کچھ لکھ بھی چکے تھے۔ مگر یہ ان کی تحریر ادھوری ہی رہ گئی۔ اس کی تکمیل سے پہلے پیغام اجل آ گیا۔
پیدا بہاولپور میں ہوئے تھے۔ اسودہ خاک لاہور میں ہوئے۔ کہاں کی مٹی کہاں آ کر آسودہ ہوئی۔ ہاں شجرہ نسب کے بارے میں بھی ایک بات سن لیجیے۔ بتانے لگے کہ مجھے عربی جاننے سیکھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوئی۔ لگتا تھا کہ میں پہلے ہی سے کچھ جانتا ہوں۔
''شاید یہ بات خون میں ہو۔ آخر آپ سیّد ہیں''۔
بولے کہ ''ہاں ایک تو مجھے ویسے ہی اپنے سیّد ہونے کا یقین ہے کہ ہمارا شجرہ نسب محفوظ چلا آتا ہے۔ پھر ایک مرتبہ سیّد سلیمان ندوی سے شرف ملاقات حاصل ہوا۔ انھوں نے میرا چہرہ مہرہ دیکھ کر توثیق کی کہ بیشک تم سیّد ہو''۔