برگر گروپ سے آئے بیرم خان
بلاول کے’بیرم خان‘ بننے کے خواہش مندوں کواُردو زبان پرتھوڑا رحم کرنا چاہیے یہ زبان ’لطف وکنایہ اورطنزواشارہ کا کھیل ہے
یہ کالم لکھنے کی صبح میرے بیدار ہونے سے پہلے اسلام آباد کی سبزی منڈی میں ایک خوفناک دھماکا ہوگیا۔ جو لوگ عام طور پر ایسے واقعات کی ذمے داری قبول کر لیا کرتے تھے انھوں نے سبزی منڈی والے دھماکے سے لاتعلقی کا اعلان ہی نہیں بلکہ اس کی مذمت بھی کر ڈالی۔ ان کی مذمت کو میرے پیارے دوست اور ان دنوں نواز حکومت کے ترجمان پرویز رشید نے بسر و چشم قبول کرلیا۔ اب میں اس واقعے کے بارے میں لکھوں تو کیا لکھوں؟ بہت دفعہ دہرائی باتوں کے ذریعے سیاپا فروشی کے سوا کیا کر پائوں گا؟ بہتر یہی ہے کہ موضوع بدل لیا جائے۔
کوئی اور موضوع کی تلاش کرتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو یاد آ گئیں۔ میں اسلام آباد میں چند انگریزی اخباروں کا رپورٹر ہوتے ہوئے ان کی نگاہوں سے اوجھل ہو نہیں سکتا تھا۔ اکثر میری تحریروں سے چراغ پا ہو جاتیں۔ اس کے ساتھ مگر حقیقت یہ بھی رہی کہ اپنی وقتاََ فوقتاََ خفگی کے دوران بھی انھوں نے میرے بارے میں عمومی رویہ مشفقانہ ہی رکھا۔ جب میری شادی ہوئی اور پھر بچے ہو گئے تو اکثر میرے دوستوں سے کافی فکر مندی کے ساتھ دریافت کرتی رہتیں کہ میں اپنی خاندانی زندگی کے بارے میں کتنا ''ذمے دار'' ہو گیا ہوں اور میرے معاشی حالات کیسے ہیں۔ کم از کم مجھے انھوں نے کبھی بھی ایسی شفقت برتتے ہوئے ''خریدنا'' نہیں چاہا۔ ہماری اکثر ملاقاتیں کافی ناخوش گوار ہوا کرتی تھیں کیونکہ میں اُلٹے سیدھے سوالات اٹھا کر انھیں بھڑکا دیا کرتا تھا۔ میری طرف سے دانستہ طور پر کی گئی اشتعال انگیزی کے باوجود انھوں نے مجھے اپنی ''آف دی ریکارڈ'' محفلوں کے لیے کبھی BAN نہیں کیا۔ ان کے چمچہ ٹائپ مشیر اگر اس قسم کا مشورہ دیتے تو بڑی سختی سے انھیں بتا دیتیں کہ انھیں مجھ سے بحث کرتے ہوئے مزا آتا ہے اور میرے سوالوں کے ذریعے انھیں کچھ ایسی خبریں بھی مل جاتی ہیں جو انھوں نے پہلے نہیں سنی ہوتیں۔
آصف علی زرداری کی سیاست سے مجھے ہزار ہا اختلاف ہیں اور میں ان کا برملا اظہار ان کے منہ پر کرتا رہتا ہوں۔ انھوں نے مگر مجھے ہمیشہ اپنا دوست سمجھا۔ میرے لکھے یا بولے ہوئے لفظ پر کبھی شکوہ نہیں کیا۔ جب تک وہ اس ملک کے صدر نہیں بنے تھے تو اکیلے میں جب کسی بہت ہی حساس موضوع پر میں نے کوئی سوال کیا تو کبھی اس کا جواب دینے سے اعتذار نہیں کیا۔ جو کچھ ان کے علم میں ہوتا پوری تفصیل کے ساتھ بیان کر دیتے اور ایسا کرتے ہوئے ان باتوں کو ''آف دی ریکارڈ'' رکھنے کی خواہش بھی نہیں کی۔ ان کی بتائی باتوں میں سے کیا کس طرح لکھا جا سکتا ہے اس معاملے کو میری Discretion کے سپرد کر دیا کرتے تھے۔ ایوانِ صدر چلے جانے کے بعد مگر وہ ضرورت سے زیادہ محتاط ہو گئے۔ سوال شمال کے بارے میں کرو تو باتیں جنوب کی کرنا شروع کر دیتے۔ ان کے ساتھ اکیلے بیٹھ کر بھی کوئی ''خبر'' نکلوانے سے جُوئے شِیر لانا زیادہ آسان دِکھنا شروع ہو گیا۔ ایوانِ صدر سے رخصت کے بعد وہ اکیلے میں مجھے صرف ایک بار ملے ہیں۔ اس ملاقات میں ذرا کھلے ڈلے اور پرانے والے آصف علی زرداری محسوس ہوئے۔ مسئلہ میرا مگر یہ ہے کہ میں اسلام آباد بیٹھا رہتا ہوں۔ ان کے ساتھ ملاقاتوں کے زیادہ مواقع میسر نہیں ہو پاتے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے ذکر کے بعد مجھے آپ کو یہ بتانا ہے کہ میں بلاول بھٹو زرداری سے کبھی نہیں ملا۔ ان کی سیاسی سوچ سے تھوڑا بہت ان کلمات کے ذریعے واقف ہوں جو وہ ٹویٹر کے ذریعے لوگوں کے ساتھ Share کرتے ہیں۔ چونکہ میں نے ابھی تک ان کی سیاست کو قریب سے نہیں جانا ہے اس لیے اس پر تبصرہ آرائی سے بھی پرہیز کرتا ہوں۔ جب کبھی موقعہ ملا پوری ایمان داری سے بیان کر دوں گا۔
اس لمبی تمہید کے بعد اطلاع آپ کو یہ دینی ہے کہ چند ہفتے پہلے میں نے اس کالم میں ذکر کیا تھا سید قائم علی شاہ کا جن کی عمر، ان کے صوبے میں امن و امان اور تھر کی قحط سالی کے حوالے دے کر سندھ کے وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کی دہائی دی جا رہی تھی۔ میں نے سندھ اور خصوصاََ کراچی میں امن و امان کی صورت حال کا اسلام آباد کے ان دنوں کے حالات سے مقابلہ کرنے کی جسارت کر ڈالی اور ایسا کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان کو جو 1985ء سے ہمیشہ میرے ساتھ بڑی گرم جوشی اور محبت سے پیش آتے ہیں خوب رگید ڈالا۔
سندھ ہی کا ذکر کرتے ہوئے میں نے اس معاملے کی طرف بھی توجہ دلوائی کہ Good Governance کے نام پر قائم علی شاہ کے خلاف محاذ کھولنے والوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ سندھ پولیس میں نئی بھرتیاں ہونا ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ بھرتیاں ذوالفقار چیمہ جیسے فرض شناس اور ایمان دار افسروں کے ہاتھوں ہوں اور ''نااہل اور بدعنوان سیاستدانوں'' کو ان سے دور رکھا جائے۔ بھرتیوں کے ساتھ ہی ایک اور اہم معاملہ 5 ارب روپے کی اس خطیر رقم کا ہے جو سندھ پولیس کے لیے جدید اسلحہ وغیرہ خریدنے کے لیے مختص کی گئی ہے۔ گڈ گورننس والوں کو خدشہ ہے کہ یہ رقم مظفر اویس ٹپی اور ان کے مبینہ طور پر چہیتے کوئی شکیب صاحب کرپشن وغیرہ کی نذر کر دیں گے۔ میں نے اپنے طور پر ہرگز اس خدشے کا اثبات نہیں کیا تھا۔
میرے اس کالم چھپنے کے دوسرے روز مگر ایک پرانے شناسا کا فون آ گیا۔ ان کی ان دنوں بلاول بھٹو زرداری سے اکثر ملاقاتیں رہتی ہیں۔ انھوں نے بڑی پریشانی سے مجھے بتایا کہ بلاول بھٹو زرداری کے لیے اُردو اخبارات میں چھپے کالم پڑھ کر ان کی تلخیص و ترجمہ کرنے والوں نے انھیں بتایا ہے کہ اس گنہگار نے لکھ دیا ہے کہ مظفر اویس ٹپی سندھ پولیس کے لیے مختص 5 ارب روپے میں سے ''اپنا حصہ'' لینے کے مواقع ڈھونڈ رہے ہیں۔ میرے شناسا نے اتفاق سے وہ کالم پڑھ رکھا تھا۔ احتیاطاََ دوبارہ پڑھا اور اس بات پر اصرار کیا کہ اس کالم میں جارحانہ تنقید کا نشانہ تو صرف اور صرف چوہدری نثار علی خان تھے۔ یہ اطلاع دینے کے بعد انھوں نے مجھ سے پوچھا: ''بھائی جان میں نے جو سمجھا حقیقت وہی ہے ناں''۔ ان کا یہ فقرہ سن کر بمبئی کی زبان میں ''اپن کا کھوپڑی گھوم گیا''۔ میں نے پنجابی زبان کی ''کشادگی'' کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے اپنے شناسا کو بتایا کہ میرا کام لکھنا ہے۔ اپنے لکھے کا ترجمہ اور تفسیر کرنا نہیں۔ میرا کالم پڑھنے کے بعد قاری کو پورا حق ہے کہ جو چاہے اس کی تعبیر کرے۔ اس کے علاوہ حقیقت یہ بھی ہے کہ میں بلاول بھٹو زرداری کا تنخواہ دار نہیں کہ اپنے لکھے کی وضاحتیں کرتا پھروں۔
یہ سب کہہ ڈالنے کے کافی وقفے کے بعد مجھے خیال آیا کہ ''اپن کا کھوپڑی'' خوامخواہ گھوم گیا۔ بلاول بھٹو زرداری کی عمر اور حالات ہی ایسے ہیں کہ بہت سارے لوگ ان کا ''بیرم خان'' بننے کو مرے جا رہے ہیں۔ خدا انھیں اپنے مقصد میں کامیاب کرے۔ مگر بلاول کے ''بیرم خان'' بننے کے خواہش مندوں کو اُردو زبان پر تھوڑا رحم کرنا چاہیے۔ یہ زبان ''لطف و کنایہ اور طنز و اشارہ'' کا کھیل ہے اور داغؔ نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا کہ یہ زبان آتے آتے آتی ہے۔ میں اتنے برسوں سے اس زبان میں جھک مارنے کے باوجود ابھی تک اس پر کماحقہ عبور حاصل نہیں کر پایا۔ بلاول بھٹو زرداری کے دربار میں برگر گروپ سے آئے ''بیرم خان'' اس زبان میں لکھے ہوئے کو کیا سمجھ پائیں گے۔
کوئی اور موضوع کی تلاش کرتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو یاد آ گئیں۔ میں اسلام آباد میں چند انگریزی اخباروں کا رپورٹر ہوتے ہوئے ان کی نگاہوں سے اوجھل ہو نہیں سکتا تھا۔ اکثر میری تحریروں سے چراغ پا ہو جاتیں۔ اس کے ساتھ مگر حقیقت یہ بھی رہی کہ اپنی وقتاََ فوقتاََ خفگی کے دوران بھی انھوں نے میرے بارے میں عمومی رویہ مشفقانہ ہی رکھا۔ جب میری شادی ہوئی اور پھر بچے ہو گئے تو اکثر میرے دوستوں سے کافی فکر مندی کے ساتھ دریافت کرتی رہتیں کہ میں اپنی خاندانی زندگی کے بارے میں کتنا ''ذمے دار'' ہو گیا ہوں اور میرے معاشی حالات کیسے ہیں۔ کم از کم مجھے انھوں نے کبھی بھی ایسی شفقت برتتے ہوئے ''خریدنا'' نہیں چاہا۔ ہماری اکثر ملاقاتیں کافی ناخوش گوار ہوا کرتی تھیں کیونکہ میں اُلٹے سیدھے سوالات اٹھا کر انھیں بھڑکا دیا کرتا تھا۔ میری طرف سے دانستہ طور پر کی گئی اشتعال انگیزی کے باوجود انھوں نے مجھے اپنی ''آف دی ریکارڈ'' محفلوں کے لیے کبھی BAN نہیں کیا۔ ان کے چمچہ ٹائپ مشیر اگر اس قسم کا مشورہ دیتے تو بڑی سختی سے انھیں بتا دیتیں کہ انھیں مجھ سے بحث کرتے ہوئے مزا آتا ہے اور میرے سوالوں کے ذریعے انھیں کچھ ایسی خبریں بھی مل جاتی ہیں جو انھوں نے پہلے نہیں سنی ہوتیں۔
آصف علی زرداری کی سیاست سے مجھے ہزار ہا اختلاف ہیں اور میں ان کا برملا اظہار ان کے منہ پر کرتا رہتا ہوں۔ انھوں نے مگر مجھے ہمیشہ اپنا دوست سمجھا۔ میرے لکھے یا بولے ہوئے لفظ پر کبھی شکوہ نہیں کیا۔ جب تک وہ اس ملک کے صدر نہیں بنے تھے تو اکیلے میں جب کسی بہت ہی حساس موضوع پر میں نے کوئی سوال کیا تو کبھی اس کا جواب دینے سے اعتذار نہیں کیا۔ جو کچھ ان کے علم میں ہوتا پوری تفصیل کے ساتھ بیان کر دیتے اور ایسا کرتے ہوئے ان باتوں کو ''آف دی ریکارڈ'' رکھنے کی خواہش بھی نہیں کی۔ ان کی بتائی باتوں میں سے کیا کس طرح لکھا جا سکتا ہے اس معاملے کو میری Discretion کے سپرد کر دیا کرتے تھے۔ ایوانِ صدر چلے جانے کے بعد مگر وہ ضرورت سے زیادہ محتاط ہو گئے۔ سوال شمال کے بارے میں کرو تو باتیں جنوب کی کرنا شروع کر دیتے۔ ان کے ساتھ اکیلے بیٹھ کر بھی کوئی ''خبر'' نکلوانے سے جُوئے شِیر لانا زیادہ آسان دِکھنا شروع ہو گیا۔ ایوانِ صدر سے رخصت کے بعد وہ اکیلے میں مجھے صرف ایک بار ملے ہیں۔ اس ملاقات میں ذرا کھلے ڈلے اور پرانے والے آصف علی زرداری محسوس ہوئے۔ مسئلہ میرا مگر یہ ہے کہ میں اسلام آباد بیٹھا رہتا ہوں۔ ان کے ساتھ ملاقاتوں کے زیادہ مواقع میسر نہیں ہو پاتے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے ذکر کے بعد مجھے آپ کو یہ بتانا ہے کہ میں بلاول بھٹو زرداری سے کبھی نہیں ملا۔ ان کی سیاسی سوچ سے تھوڑا بہت ان کلمات کے ذریعے واقف ہوں جو وہ ٹویٹر کے ذریعے لوگوں کے ساتھ Share کرتے ہیں۔ چونکہ میں نے ابھی تک ان کی سیاست کو قریب سے نہیں جانا ہے اس لیے اس پر تبصرہ آرائی سے بھی پرہیز کرتا ہوں۔ جب کبھی موقعہ ملا پوری ایمان داری سے بیان کر دوں گا۔
اس لمبی تمہید کے بعد اطلاع آپ کو یہ دینی ہے کہ چند ہفتے پہلے میں نے اس کالم میں ذکر کیا تھا سید قائم علی شاہ کا جن کی عمر، ان کے صوبے میں امن و امان اور تھر کی قحط سالی کے حوالے دے کر سندھ کے وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کی دہائی دی جا رہی تھی۔ میں نے سندھ اور خصوصاََ کراچی میں امن و امان کی صورت حال کا اسلام آباد کے ان دنوں کے حالات سے مقابلہ کرنے کی جسارت کر ڈالی اور ایسا کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان کو جو 1985ء سے ہمیشہ میرے ساتھ بڑی گرم جوشی اور محبت سے پیش آتے ہیں خوب رگید ڈالا۔
سندھ ہی کا ذکر کرتے ہوئے میں نے اس معاملے کی طرف بھی توجہ دلوائی کہ Good Governance کے نام پر قائم علی شاہ کے خلاف محاذ کھولنے والوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ سندھ پولیس میں نئی بھرتیاں ہونا ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ بھرتیاں ذوالفقار چیمہ جیسے فرض شناس اور ایمان دار افسروں کے ہاتھوں ہوں اور ''نااہل اور بدعنوان سیاستدانوں'' کو ان سے دور رکھا جائے۔ بھرتیوں کے ساتھ ہی ایک اور اہم معاملہ 5 ارب روپے کی اس خطیر رقم کا ہے جو سندھ پولیس کے لیے جدید اسلحہ وغیرہ خریدنے کے لیے مختص کی گئی ہے۔ گڈ گورننس والوں کو خدشہ ہے کہ یہ رقم مظفر اویس ٹپی اور ان کے مبینہ طور پر چہیتے کوئی شکیب صاحب کرپشن وغیرہ کی نذر کر دیں گے۔ میں نے اپنے طور پر ہرگز اس خدشے کا اثبات نہیں کیا تھا۔
میرے اس کالم چھپنے کے دوسرے روز مگر ایک پرانے شناسا کا فون آ گیا۔ ان کی ان دنوں بلاول بھٹو زرداری سے اکثر ملاقاتیں رہتی ہیں۔ انھوں نے بڑی پریشانی سے مجھے بتایا کہ بلاول بھٹو زرداری کے لیے اُردو اخبارات میں چھپے کالم پڑھ کر ان کی تلخیص و ترجمہ کرنے والوں نے انھیں بتایا ہے کہ اس گنہگار نے لکھ دیا ہے کہ مظفر اویس ٹپی سندھ پولیس کے لیے مختص 5 ارب روپے میں سے ''اپنا حصہ'' لینے کے مواقع ڈھونڈ رہے ہیں۔ میرے شناسا نے اتفاق سے وہ کالم پڑھ رکھا تھا۔ احتیاطاََ دوبارہ پڑھا اور اس بات پر اصرار کیا کہ اس کالم میں جارحانہ تنقید کا نشانہ تو صرف اور صرف چوہدری نثار علی خان تھے۔ یہ اطلاع دینے کے بعد انھوں نے مجھ سے پوچھا: ''بھائی جان میں نے جو سمجھا حقیقت وہی ہے ناں''۔ ان کا یہ فقرہ سن کر بمبئی کی زبان میں ''اپن کا کھوپڑی گھوم گیا''۔ میں نے پنجابی زبان کی ''کشادگی'' کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے اپنے شناسا کو بتایا کہ میرا کام لکھنا ہے۔ اپنے لکھے کا ترجمہ اور تفسیر کرنا نہیں۔ میرا کالم پڑھنے کے بعد قاری کو پورا حق ہے کہ جو چاہے اس کی تعبیر کرے۔ اس کے علاوہ حقیقت یہ بھی ہے کہ میں بلاول بھٹو زرداری کا تنخواہ دار نہیں کہ اپنے لکھے کی وضاحتیں کرتا پھروں۔
یہ سب کہہ ڈالنے کے کافی وقفے کے بعد مجھے خیال آیا کہ ''اپن کا کھوپڑی'' خوامخواہ گھوم گیا۔ بلاول بھٹو زرداری کی عمر اور حالات ہی ایسے ہیں کہ بہت سارے لوگ ان کا ''بیرم خان'' بننے کو مرے جا رہے ہیں۔ خدا انھیں اپنے مقصد میں کامیاب کرے۔ مگر بلاول کے ''بیرم خان'' بننے کے خواہش مندوں کو اُردو زبان پر تھوڑا رحم کرنا چاہیے۔ یہ زبان ''لطف و کنایہ اور طنز و اشارہ'' کا کھیل ہے اور داغؔ نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا کہ یہ زبان آتے آتے آتی ہے۔ میں اتنے برسوں سے اس زبان میں جھک مارنے کے باوجود ابھی تک اس پر کماحقہ عبور حاصل نہیں کر پایا۔ بلاول بھٹو زرداری کے دربار میں برگر گروپ سے آئے ''بیرم خان'' اس زبان میں لکھے ہوئے کو کیا سمجھ پائیں گے۔