ملالہ باچا خان کے نقش قدم پر
کاش وہ باچا خان کے نقش قدم پر یوں ہی چلتی رہے
دس برس کی عمر میں جب میری پہلی ملاقات مرغلرہ حبیبی اور اس کے خاندان سے ہوئی تو یہ میری زندگی کا ایک انوکھا واقعہ تھا۔
ایک تنہا بچی جس کی سنگی ساتھی کتابیں، سلیٹ اور تختی تھی ، اسے گلابی چہرے والی کھلکھلاتی لڑکی مل گئی تو اس کے لیے یہ ایک خوش کن تجربہ تھا۔
اس کی والدہ ببو خانم ، تین بھائی جو ایک اسکول اور کالج میں پڑھتے تھے اور اس کے والد عبداطئی حبیبی جو افغانستان کے سابق وزیر تعلیم اور جان بچا کر اپنے بچوں اور بیوی سمیت پہلے پشاور اور پھر کراچی آگئے تھے۔ کسی جاسوسی کہانی کا واقعہ۔ ان کے پاس جامعہ الازہر سے فلمیں آتی تھیں ، وہ میری زندگی کا پر بہار واقعہ تھا۔
میرا خیال تھا کہ کابل میں رہنے والے نہایت جدید اور دنیا کے نشیب و فراز سے آگاہ لوگ تھے۔ مرغلرہ کے اور میرے درمیان وقفے وقفے سے خط و کتابت ہوتی رہی ، وہ پاکستان سے افغانستان چلی گئی اور پھر وہاں سے وہ لوگ امریکا چلے گئے۔
اعلیٰ تعلیم ان کا مقدر تھی اور میں اپنے مسائل کا شکار۔ میرا یہاں مقصد اپنی زندگی کے حالات کا بیان نہیں تھا بلکہ میں یہ عرض کرنا چاہ رہی تھی کہ افغانیوں اور کابل والوں سے میں متاثر بھی تھی اور ان کے حالات جاننے کے لیے مضطرب بھی بہت رہتی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ جب کابل ، قندھار ، ہرات اور دوسرے شہروں سے افغانیوں کا ریلا آنا شروع ہوا تو دل بہت مضطرب ہوا۔ یہ لوگ بھی بے آسرا اور بے سہارا تھے۔
اس دوران نوے کی دہائی میں ایک پھیرا میں کابل ، قندھار اور دوسرے شہروں کا لگا کر آچکی تھی۔ اس وقت مجھے یقین تھا کہ ہمارے دہشت گرد کبھی کامیاب نہیں ہوں گے اور وہ آخرکار پسپا ہوجائیں گے لیکن خواہشیں اکثر حقیقت نہیں بنتیں۔
ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ ایک ناقابل یقین واقعہ تھا۔ ان کے قاتلوں نے انھیں اپنے حسابوں جیتا نہیں چھوڑا تھا لیکن اﷲ جسے جیتا رکھے اسے کون مارے۔ وہ زندہ بچ گئی اور ایسے کہ کسی کو یقین نہیں آتا۔ ابھی پچھلے دنوں بھی وہ پاکستان آئی تھی۔
ان ہی دنوں ایک بار پھر افغان لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے بند ہونے کا اعلان آگیا۔ کوئی اسکول نہ جائے، کسی کے قدم کالج یا یونیورسٹی کی طرف نہ اٹھیں۔ ہم سب ہی ان احکامات کو سن کر اور پڑھ کر سر پیٹتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ افغان حکمران نے آخر کیا طے کر لیا ہے۔
ان پر مختلف حکومتوں کی طرف سے دباؤ ہے، قدغنیں ہیں۔ دنیا کے دوسرے ملکوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ افغان اپنی آدھی آبادی کو ناخواندہ رکھ کر دنیا میں کوئی مقام کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔
اس بارے میں چند دنوں پہلے ملالہ یوسف زئی کا ایک مضمون '' طالبان کلچر ، پشتون نہیں '' کے عنوان سے شایع ہوا ہے۔
ملالہ نے لکھا ہے کہ انسانی فلاح و بہبود کے حوالے سے افغانستان کی صورتحال پر بریفنگ کے دوران اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے دعویٰ کیا کہ ''ہمارے تناظر میں افغان عبوری حکومت کی جانب سے (خواتین پر) عائد کی جانے والی پابندیاں مذہبی نہیں بلکہ ان کا تعلق مخصوص پختون ثقافت سے ہے جو عورتوں کو گھروں تک محدود رکھتا ہے اور یہ مخصوص طور پر افغانستان کی ثقافتی حقیقت ہے جو اگر ہزاروں نہیں تو سیکڑوں برس سے اب تک تبدیل نہیں ہوئی ہے۔''
ایک پشتون عورت ، ایک پاکستانی اور مسلمان ہونے کے ناتے میں اس بات سے قطعاً اتفاق نہیں کرتی۔
سفیر صاحب نے اپنے الفاظ واپس لے کر معافی مانگ لی ہے ، چونکہ طالبان اپنے مقاصد کے پیش نظر اپنے ایمان اور ورثے میں تبدیلی کرسکتے ہیں لہٰذا وہ اپنے زیرنگیں ملک میں حقوق نسواں کی تباہ کن خلاف ورزیوں کے تنہا ذمے دار ہیں۔
ملالہ لکھتی ہیں میں لڑکیوں کی تعلیم ، عورتوں کے مساوی حقوق اور اپنی برادری میں امن کا دفاع کرنے والے بہت سے پشتونوں میں سے ایک ہوں جو اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
افغانستان اور پاکستان بھر میں بہت سے پشتون عوام کے ذہن مسموم کیے گئے۔ ہم دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں مار پیٹ، بے گھری اور موت کا شکار ہوتے رہے ہیں۔
میں لڑکی کے طور پر اسکول گئی تھی۔ میں نے ایک کار مکینک ، ایک ڈاکٹر حتیٰ کہ وزیراعظم بننے کا خواب دیکھا تھا۔ ایک باوقار ، پشتون ، میرے والد نے میرا حوصلہ بڑھایا کہ میں جتنا پڑھ سکتی ہوں، پڑھوں اور خواتین کو درپیش مسائل پر آواز بلند کرسکوں اور اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرسکوں۔
یہ میری برادری نہیں تھی جس نے مجھے اسکول جانے سے روکا۔ یہ پاکستانی طالبان تھے جنھوں نے لڑکیوں کی تعلیم پر ، عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے پر، مردوں کے ڈاڑھی بنانے (کاٹنے) پر ، موسیقی پر ، مصوری پر ، جس چیز پربھی ان کا جی چاہتا تھا پابندی لگادی۔
سرحد پار افغانستان میں تاجک ، ہزارہ ، ازبک اور دیگر نسلی اقلیتوں کے ساتھ پشتون عورتوں اور مردوں نے لڑکیوں کے اسکولوں کا مربوط سلسلہ بنانے اور عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیموں کا جال پھیلا دیا تھا۔
وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جو اپنے ملک میں آج بھی سڑکوں پر احتجاج کر کے اپنی زندگیاں خطرے سے دوچار کر رہے ہیں۔ انھوں نے لڑکیوں کی ایک ایسی نسل تیار کی جسے اس وقت بھی خاموش نہیں کرایا جاسکتا جب کہ ان کے کام کرنے ، کھیلوں میں حصہ لینے ، علم حاصل کرنے ، ا کیلے سفر کرنے کے حقوق چھین لیے گئے ہیں۔
میں یہ دعویٰ نہیں کرتی کہ پشتون سماج مکمل طور پر عادلانہ ہے۔ دنیا کے دیگر بہت سے حصوں کی طرح ہماری عورتوں اور لڑکیوں کو بہت سی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی زیادہ بڑی تعداد اسکول سے محروم ہے۔
بہت ہی کم عمر لڑکیوں کو جبری طور پر شادی کے بندھن میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ اکثر عورتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے ، تاہم جس طرح لوگ ثقافت تخلیق کرتے ہیں تو لوگ ہی اسے تبدیل بھی کرسکتے ہیں۔
ہم آج افغانستان اور پاکستان میں ہر سمت عورتوں اور مردوں میں برادریوں کے درمیان صنفی مساوات کے لیے مل کر کام کرنے والوں میں اس ہیئتی تبدیلی کا نظارہ کرسکتے ہیں۔ باوجود یہ کہ طالبان اور دیگر انتہا پسند گروہ ہمیں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہم بتدریج ترقی کر رہے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں۔
میں نے گزشتہ دو سال کے دوران پاکستان میں بہت سے رہنماؤں سے بات کی ہے کہ افغان عورتوں اور لڑکیوں کی کس طرح مدد کی جاسکتی ہے۔
ان میں سے متعدد حالات سے سمجھوتہ کرلینے والے یا اس سے لاتعلق نظر آرہے ہیں۔ ستمبر 2021ء میں افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے تھوڑے عرصے بعد ہی پاکستان کے ایک اہلکار نے مجھے بتایا کہ ''افغانستان اس وقت پہلے سے زیادہ پُر امن ہے۔'' لیکن کس کے لیے زیادہ پُر امن ہے ؟ یقینی طور پر عورتوں اور لڑکیوں کے لیے نہیں جو اپنی آزادی ، کام کرنے کے حق اور تعلیم حاصل کرنے کے حق سے محروم ہورہی ہیں۔
میرا جواب تھا '' تمام تر احترام کے ساتھ ، میں نہیں سمجھتی کہ آپ یا میں یا اس کمرے میں موجود کوئی شخص اپنی مرضی سے افغانستان جا کر رہنا پسند کرے گا ، صرف ایک دن کے لیے بھی نہیں۔''
اگر ہم ، سفیر اکرم اور دنیا بھر کے رہنما ، افغان عوام کے لیے انسانی حقوق کی واقعتا پرواہ کرتے ہیں تو انھیں اکٹھا ہوجانا چاہیے اور یک زبان ہوکر آواز بلند کرنا چاہیے۔
انھیں حقوق نسواں کے تحفظ پر انتہا پسندوں سے سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے بلکہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیاں واپس لی جائیں اور عورتوں کو کام پر جانے دیا جائے۔ اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کے ملک کے مستقبل کے حوالے سے کسی بھی بات چیت میں ان کی آواز کو بھی شامل کیا جائے۔
بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں عدم تشدد کے حامی پشتون رہنما باچا خان نے برطانوی نو آبادیاتی حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریک کی قیادت کی تھی۔ انھوں نے امن ، مذہبی ہم آہنگی اور عورتوں اور لڑکیوں کے لیے برابری پر مبنی سماج کا خواب دیکھا تھا۔
جب میں سوچتی ہوں کہ صرف دو سال میں میری افغان بہنوں کی زندگی میں کیسی تبدیلی آگئی ہے تو مجھے باچا خان کے الفاظ یاد آجاتے ہیں۔ '' اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ کوئی کلچر کتنا مہذب ہے تو یہ دیکھیں کہ وہ اپنی عورتوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے۔''
ملالہ اپنی تاریخ اور تہذیب سے اس سے اہم حوالہ اور کیا دے سکتی تھی۔ کاش وہ باچا خان کے نقش قدم پر یوں ہی چلتی رہے۔