عدالتی ریمارکس کا تنازعہ
سینیٹ میں سنیٹرز نے چیف جسٹس کے ریمارکس پر نہ صرف احتجاج کیا تھا بلکہ سخت تقاریر بھی کی تھیں
اٹارنی جنرل پاکستان نے وفاقی وزیر قانون کو چیف جسٹس پاکستان کے ایک ریمارکس کے حوالے سے ایک وضاحتی خط لکھا ہے۔
اس خط میں کہا گیا ہے کہ نیب ترامیم کیس کی سماعت کے دوران وزراء اعظم کی ایمانداری کے حوالے سے میڈیا میں سامنے آنے والے ریمارکس درست نہیں ہیں، چیف جسٹس پاکستان نے ایسا نہیں کہا ہے۔
اٹارنی جنرل پاکستان نے وزیر قانون سے کہا ہے کہ وہ سینیٹ میں ان ریمارکس کی وضاحت کریں۔ سینیٹ میں سنیٹرز نے چیف جسٹس کے ریمارکس پر نہ صرف احتجاج کیا تھا بلکہ سخت تقاریر بھی کی تھیں۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ ججز کو کیسز کی سماعت کے دوران ریمارکس دینے میں احتیاط برتنی چاہیے۔
بالخصوص سیاسی نوعیت کے کیسز میں ریمارکس موضوع بحث بن جاتے ہیں ، ایسے ریمارکس کے بے وجہ سیاسی مطالب نکالے جاتے ہیں، اگر ریمارکس سیاسی نہ بھی ہوں تب بھی سیاسی توجیحات سامنے آجاتی ہیں۔ اس لیے عدلیہ کو اول تو ریمارکس نہیں دینے چاہیے اور اگر کہیں ناگزیر ہیں تو پھر ان کی اشاعت پر مکمل پابندی ہونی چاہیے تاکہ رپورٹنگ میں کسی ابہام کا خطرہ ہی نہ رہے۔
ججز کے ریمارکس نہ تو کوئی عدالتی فیصلے ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی کوئی جیو ڈیشل حیثیت ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ سماعت کے دوران کیس کو سمجھنے کے لیے وکلاء سے مکالمہ ہوتا ہے۔ معزز ججز کیس کو سمجھنے کے لیے فریقین کے وکلا سے سوال کرتے ہیں، اس سوال و جواب کو ہی ریمارکس بنا دیا جاتا ہے۔
آپ ان سوال و جوابات کو ججز کی ذاتی رائے بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ ایک فریق سے پوچھے گئے سوال و جواب کے نتیجے میں بننے والی رائے بعدازاں دوسرے فریق کے دلائل سے بدل جاتی ہے، اس لیے میں عدالتی ریمارکس کی اشاعت و نشریات کے حق میں نہیں ہوں۔ یہ کیس کی سماعت پر کمنٹری بن جاتا ہے، لوگ اندازہ لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ ججز کی رائے کیا بن رہی ہے۔
ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جب کیس کا فیصلہ ریمارکس کے مطابق نہیں آتا تو نئی نئی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ عام آدمی یہ نہیں سمجھتا کہ ریمارکس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ لوگ کہتے ہیں، دیکھیں فیصلہ تبدیل ہو گیا ہے۔
اس لیے ریمارکس کی اشاعت و نشریات نظام عدل کی ساکھ کے لیے ٹھیک نہیں۔ یہ درست ہے کہ ان ریمارکس کی اشاعت سے ججز کو میڈیا میں بہت کوریج ملتی ہے، وہ میڈیا پر چھا جاتے ہیں، ان کے ریمارکس کو سیاستدانوں کے بیانات سے زیادہ اہمیت ملتی ہے، وہ ہیڈلائن بن جاتے ہیں لیکن یہ سب عارضی ثابت ہوتا ہے، اس سے نظام عدل کی ساکھ نہیں بنتی بلکہ اس کا نقصان ہی ہوتا ہے۔
آپ دیکھیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری روزانہ ایسے ریمارکس دیتے تھے کہ میڈیا میں وہ ہی وہ نظر آتے تھے۔ ایک ایسا ماحول بن گیا تھا، ملک کا سیاسی منظر نامہ ان کے گرد ہی گھومتا نظر آتا تھا۔وہ میڈیا کی جان نظر آتے تھے لیکن جب وہ منصب سے ہٹ گئے تو یہ ساری میڈیاکوریج ان کے لیے منفی ثابت ہوئی۔
اسی کوریج کے سحر میں بعدازاں انھوں نے سیاسی جماعت بنائی جو بری طرح ناکام ہوئی۔ عوام میں ان کی کوئی سیاسی مقبولیت نہیں تھی۔ میڈیا میں لائم لائٹ میں رہنے کے تقاضے اور لوازمات عدلیہ کی ضروریات اور تقاضوں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔
اسی طرح سابق چیف جسٹس ثاقب نثار بھی ریمارکس دینے اور سو موٹو نوٹس لینے میں اپناکوئی ثانی نہیں رکھتے تھے، ان کے ریمارکس بھی سیاسی منظر نامہ میں موضوع بحث ہوتے تھے۔ انھوں نے خو دہی اپنے لیے بابا رحمتے کا لقب طے کر لیا تھا۔انھیں پسند تھا کہ انھیں بابا رحمتے کہا جائے۔ لیکن آج دیکھ لیں بابا رحمتے ایک طنز بن گیا ہے، وہ میڈیا کے لیے بھی اہم نہیں رہے۔
اس طرح کئی اور مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ عدالتی ریمارکس زبان زد عام ہوتے ہیں تو فیصلے کو ہر کوئی ان ریماکس کے تناظر میں دیکھتا ہے اور بحث کرتا ، یہ کلچر نظام عدل کے لیے زہر قاتل ہی ثابت ہو رہا ہے۔
جیسے عدلیہ نے از خود نوٹس کے حوالے سے اپنی پالیسی پر خود ہی نظر ثانی کی ہے۔ پہلے چیف جسٹس تقریباً ہر معاملے پر سو موٹو لیتے تھے ۔ لیکن اب چیف جسٹس صاحبان اس بات کا کریڈٹ لیتے ہیں کہ وہ سوموٹو نہیں لیتے حالانکہ سوموٹو کا اختیار اسی طرح موجو دہے لیکن استعمال خود ہی کم ہوگیا ہے۔
اسی طرح میری رائے میں ریمارکس پر بھی کوئی پابندی لگانے کی ضرورت نہیں۔ ریمارکس کے خلاف عوامی رائے عامہ عدلیہ کو خود ہی یہ احساس دلائے گی کہ انھیں ریمارکس نہیں دینے چاہیے۔ سینیٹ میں چیف جسٹس کے ریمارکس پر تقاریر بھی عدلیہ کے لیے یہ بات سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ رد عمل بھی سامنے آسکتا ہے۔
اگر عدالت میں جج کی جانب سے دیے گئے ریمارکس کو ایک قانونی تحفظ حاصل ہے تو سینیٹ میں کی جانے والی تقاریر کو بھی ایک آئینی تحفظ حاصل ہے۔ پارلیمان کے اندر کی جانے والی تقاریر پر نہ تو توہین عدالت لگ سکتی ہے اور نہ ہی کوئی قانونی ایکشن ہو سکتا ہے، اس لیے اگر عدلیہ کو پارلیمان سے جواب آنا شروع ہو گیا تو یہ جواب الجواب ملک کے لیے کوئی بہتر نہیں ہے۔
اگر پارلیمان میں عدلیہ کے خلاف تقاریر شروع ہو جائیں گی تو کیا ہوگا، اگر عدلیہ کوئی اقدام کرے گی تو کیا ہوگا، یہ سب پر عیاں ہے۔ اس لیے سینیٹ میں حالیہ تقاریر ایک بڑے طوفان کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ جو آئینی اداروں کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔
نظام انصاف کے ماہرین اسی لیے کہتے ہیں کہ ججز خود نہیں بلکہ ان کے فیصلے بولتے ہیں کیونکہ اچھے فیصلوں سے ہی عدلیہ کے وقارمیں اضافہ ہوتا ہے۔
میری عدلیہ سے درخواست ہے عدلیہ اپنے اندر اصلاحات کے لیے کام شروع کرے، موجودہ صورتحال نظام عدل کو ملک کے سیاسی نظام کے ساتھ محاذ آرائی کی طرف لے کر جا رہی ہے۔ اب مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اب نظام عدل میں اصلاحات کا دروازہ کھولنا چاہیے، پارلیمان سے بات چیت کا دروازہ کھولنا چاہیے۔ یہی ملک اور اس کے اداروں کے لیے بہتر ہے۔
اس خط میں کہا گیا ہے کہ نیب ترامیم کیس کی سماعت کے دوران وزراء اعظم کی ایمانداری کے حوالے سے میڈیا میں سامنے آنے والے ریمارکس درست نہیں ہیں، چیف جسٹس پاکستان نے ایسا نہیں کہا ہے۔
اٹارنی جنرل پاکستان نے وزیر قانون سے کہا ہے کہ وہ سینیٹ میں ان ریمارکس کی وضاحت کریں۔ سینیٹ میں سنیٹرز نے چیف جسٹس کے ریمارکس پر نہ صرف احتجاج کیا تھا بلکہ سخت تقاریر بھی کی تھیں۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ ججز کو کیسز کی سماعت کے دوران ریمارکس دینے میں احتیاط برتنی چاہیے۔
بالخصوص سیاسی نوعیت کے کیسز میں ریمارکس موضوع بحث بن جاتے ہیں ، ایسے ریمارکس کے بے وجہ سیاسی مطالب نکالے جاتے ہیں، اگر ریمارکس سیاسی نہ بھی ہوں تب بھی سیاسی توجیحات سامنے آجاتی ہیں۔ اس لیے عدلیہ کو اول تو ریمارکس نہیں دینے چاہیے اور اگر کہیں ناگزیر ہیں تو پھر ان کی اشاعت پر مکمل پابندی ہونی چاہیے تاکہ رپورٹنگ میں کسی ابہام کا خطرہ ہی نہ رہے۔
ججز کے ریمارکس نہ تو کوئی عدالتی فیصلے ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی کوئی جیو ڈیشل حیثیت ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ سماعت کے دوران کیس کو سمجھنے کے لیے وکلاء سے مکالمہ ہوتا ہے۔ معزز ججز کیس کو سمجھنے کے لیے فریقین کے وکلا سے سوال کرتے ہیں، اس سوال و جواب کو ہی ریمارکس بنا دیا جاتا ہے۔
آپ ان سوال و جوابات کو ججز کی ذاتی رائے بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ ایک فریق سے پوچھے گئے سوال و جواب کے نتیجے میں بننے والی رائے بعدازاں دوسرے فریق کے دلائل سے بدل جاتی ہے، اس لیے میں عدالتی ریمارکس کی اشاعت و نشریات کے حق میں نہیں ہوں۔ یہ کیس کی سماعت پر کمنٹری بن جاتا ہے، لوگ اندازہ لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ ججز کی رائے کیا بن رہی ہے۔
ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جب کیس کا فیصلہ ریمارکس کے مطابق نہیں آتا تو نئی نئی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ عام آدمی یہ نہیں سمجھتا کہ ریمارکس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ لوگ کہتے ہیں، دیکھیں فیصلہ تبدیل ہو گیا ہے۔
اس لیے ریمارکس کی اشاعت و نشریات نظام عدل کی ساکھ کے لیے ٹھیک نہیں۔ یہ درست ہے کہ ان ریمارکس کی اشاعت سے ججز کو میڈیا میں بہت کوریج ملتی ہے، وہ میڈیا پر چھا جاتے ہیں، ان کے ریمارکس کو سیاستدانوں کے بیانات سے زیادہ اہمیت ملتی ہے، وہ ہیڈلائن بن جاتے ہیں لیکن یہ سب عارضی ثابت ہوتا ہے، اس سے نظام عدل کی ساکھ نہیں بنتی بلکہ اس کا نقصان ہی ہوتا ہے۔
آپ دیکھیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری روزانہ ایسے ریمارکس دیتے تھے کہ میڈیا میں وہ ہی وہ نظر آتے تھے۔ ایک ایسا ماحول بن گیا تھا، ملک کا سیاسی منظر نامہ ان کے گرد ہی گھومتا نظر آتا تھا۔وہ میڈیا کی جان نظر آتے تھے لیکن جب وہ منصب سے ہٹ گئے تو یہ ساری میڈیاکوریج ان کے لیے منفی ثابت ہوئی۔
اسی کوریج کے سحر میں بعدازاں انھوں نے سیاسی جماعت بنائی جو بری طرح ناکام ہوئی۔ عوام میں ان کی کوئی سیاسی مقبولیت نہیں تھی۔ میڈیا میں لائم لائٹ میں رہنے کے تقاضے اور لوازمات عدلیہ کی ضروریات اور تقاضوں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔
اسی طرح سابق چیف جسٹس ثاقب نثار بھی ریمارکس دینے اور سو موٹو نوٹس لینے میں اپناکوئی ثانی نہیں رکھتے تھے، ان کے ریمارکس بھی سیاسی منظر نامہ میں موضوع بحث ہوتے تھے۔ انھوں نے خو دہی اپنے لیے بابا رحمتے کا لقب طے کر لیا تھا۔انھیں پسند تھا کہ انھیں بابا رحمتے کہا جائے۔ لیکن آج دیکھ لیں بابا رحمتے ایک طنز بن گیا ہے، وہ میڈیا کے لیے بھی اہم نہیں رہے۔
اس طرح کئی اور مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ عدالتی ریمارکس زبان زد عام ہوتے ہیں تو فیصلے کو ہر کوئی ان ریماکس کے تناظر میں دیکھتا ہے اور بحث کرتا ، یہ کلچر نظام عدل کے لیے زہر قاتل ہی ثابت ہو رہا ہے۔
جیسے عدلیہ نے از خود نوٹس کے حوالے سے اپنی پالیسی پر خود ہی نظر ثانی کی ہے۔ پہلے چیف جسٹس تقریباً ہر معاملے پر سو موٹو لیتے تھے ۔ لیکن اب چیف جسٹس صاحبان اس بات کا کریڈٹ لیتے ہیں کہ وہ سوموٹو نہیں لیتے حالانکہ سوموٹو کا اختیار اسی طرح موجو دہے لیکن استعمال خود ہی کم ہوگیا ہے۔
اسی طرح میری رائے میں ریمارکس پر بھی کوئی پابندی لگانے کی ضرورت نہیں۔ ریمارکس کے خلاف عوامی رائے عامہ عدلیہ کو خود ہی یہ احساس دلائے گی کہ انھیں ریمارکس نہیں دینے چاہیے۔ سینیٹ میں چیف جسٹس کے ریمارکس پر تقاریر بھی عدلیہ کے لیے یہ بات سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ رد عمل بھی سامنے آسکتا ہے۔
اگر عدالت میں جج کی جانب سے دیے گئے ریمارکس کو ایک قانونی تحفظ حاصل ہے تو سینیٹ میں کی جانے والی تقاریر کو بھی ایک آئینی تحفظ حاصل ہے۔ پارلیمان کے اندر کی جانے والی تقاریر پر نہ تو توہین عدالت لگ سکتی ہے اور نہ ہی کوئی قانونی ایکشن ہو سکتا ہے، اس لیے اگر عدلیہ کو پارلیمان سے جواب آنا شروع ہو گیا تو یہ جواب الجواب ملک کے لیے کوئی بہتر نہیں ہے۔
اگر پارلیمان میں عدلیہ کے خلاف تقاریر شروع ہو جائیں گی تو کیا ہوگا، اگر عدلیہ کوئی اقدام کرے گی تو کیا ہوگا، یہ سب پر عیاں ہے۔ اس لیے سینیٹ میں حالیہ تقاریر ایک بڑے طوفان کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ جو آئینی اداروں کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔
نظام انصاف کے ماہرین اسی لیے کہتے ہیں کہ ججز خود نہیں بلکہ ان کے فیصلے بولتے ہیں کیونکہ اچھے فیصلوں سے ہی عدلیہ کے وقارمیں اضافہ ہوتا ہے۔
میری عدلیہ سے درخواست ہے عدلیہ اپنے اندر اصلاحات کے لیے کام شروع کرے، موجودہ صورتحال نظام عدل کو ملک کے سیاسی نظام کے ساتھ محاذ آرائی کی طرف لے کر جا رہی ہے۔ اب مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اب نظام عدل میں اصلاحات کا دروازہ کھولنا چاہیے، پارلیمان سے بات چیت کا دروازہ کھولنا چاہیے۔ یہی ملک اور اس کے اداروں کے لیے بہتر ہے۔