خدا حافظ ۔امجد صاحب

امجد اسلام امجد کا نام ذہن میں آتے ہی، ماضی کے معروف ڈرامہ وارث کے کردار آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں


اطہر قادر حسن February 15, 2023
[email protected]

امجد اسلام امجد کا نام ذہن میں آتے ہی، ماضی کے معروف ڈرامہ وارث کے کردار آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں،وہی وارث ڈرامہ جسے دیکھتے ہوئے ہم نے لڑکپن سے جوانی کا سفر طے کیا۔ آج کی نوجوان نسل کیا جانے کہ پی ٹی وی کے ڈراموں کا ایک الگ ہی رومانس تھا اور یہ ڈرامے پاکستان ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں بھی مقبول تھے۔

اُس زمانے نہ تو ڈش ٹی وی تھا اور نہ کیبل کا کوئی تصور ، پی ٹی وی کی نشریات دیکھنے کے لیے سر شام ہی چھت پر جا کر انٹینا کا رخ درست سمت کر نا ہوتا تھا، سرشام ہی چھتوں سے آوازیں بلند ہوتی سنائی دیتی تھیںکہ اب ٹی وی اسکرین کا رزلٹ کیسا ہے، گھر والے صحن میں کھڑے ہوکر جواب دیتے تھے،اس کام میں کبھی کبھی گھنٹوں لگ جاتے تھے۔

پی ٹی وی کی نشریات شام چار بجے پروگرام اقراء سے شروع ہوتی اور ان کا اختتام رات بارہ بجے پروگرام فرمان الٰہی سے ہوجاتا تھا۔ بچوںکے لیے کارٹون اور تعلیمی پروگرامز کے علاوہ موسیقی کے پروگرام بھی پیش کیے جاتے تھے۔ رات آٹھ سے نو بجے کا وقت ڈرامے کے لیے مقرر تھا ۔ قسط وار ڈراموں کی اگلی قسط کا ہفتہ بھر انتظار کیا جاتا تھا اور جو ڈرامہ عوام میں مقبول ہوجاتا تو اس وقت سڑکیں اور بازار سنسان ہو جاتے تھے۔

امجد صاحب کا وارث بھی انھی ڈراموں میں سے ایک تھا ۔ دوران ڈرامہ ماحول پر سکوت طاری رہتا تھا کہ مباداً ادا کیا گیاکوئی جملہ یا ڈائیلاگ سننے سے محروم نہ رہ جائیں۔ آج کل کی طرح یو ٹیوب اور دوسری خرافات موجود نہیں تھیں کہ جب چاہا اپنی پسند کا کوئی ڈرامہ یا فلم دیکھ لی۔ پی ٹی وی پر عید کے موقعے پر ضروری کانٹ چھانٹ کے بعد فلمیں بھی نشر ہوتی تھیں جن کو گھر کے تمام افراد ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتے تھے ۔

امجد اسلام امجد صاحب سے میرا پہلا تعارف ڈرامے وارث سے لڑکپن میں ہی ہو گیا تھا لیکن بعد ازاں جب عملی زندگی کاآغاز کیا تو یہ غائبانہ تعارف باقاعدہ ملاقاتوں میں بدل گیا۔ امجد صاحب سے پہلی ملاقات کب ہوئی یہ تو یاد نہیں رہا لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ جب بھی ملاقات ہوتی تو یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ کتنی بڑی شخصیت سے ملاقات کا شرف حاصل ہے۔

نفیس شخصیت ، سادہ دل طبیعت، عجز و انکساری کا مجموعہ ،امجد صاحب بہت بڑے انسان تھے۔ جب کبھی فون پر گفتگو ہوتی تو آغاز برادر یا پارٹنر سے ہوتا تھا،جو بھی مدعا ہوتا سلیقے سے بیان کرتے اور ہمیشہ یہ کہتے کہ یہ ہوجائے تو بہتر ہوگا، مجھے آسانی ہوگی،اگر نہ بھی ہوسکا تو کوئی مسئلہ نہیں۔

میری ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ امجد صاحب کو کسی کام کے سلسلے میں دوبارہ فون کرنے کی زحمت نہ کرنا پڑے۔ ان کے برخوردار علی ذیشان امجد کا دفتر میرے دفتر کے قریب ہی تھا، کبھی کبھار اگر کوئی کام ہوتا تو میں پوچھ لیتا کہ آپ کہاں ہیں، اگر یہ بتاتے کہ میں علی کے پاس ہوں تو میری یہ خواہش ہوتی تھی کہ وہ میرے دفتر بھی تشریف لے آئیں۔

امجد صاحب کمال شفقت اور مہربانی کرتے ہوئے دفتر آجاتے، اگر چائے کی طلب ہوتی تو کہتے کہ پارٹنر ایک کپ چائے تو پلوا دیں ۔ میں چائے کے ساتھ کچھ منگوانے کی خواہش کرتا تو کہتے کہ برادرم آپ کو تو علم ہی ہے کہ مجھے نامراد شوگر ہے۔دفتر میں امجد صاحب کو دیکھ کر میرے ساتھی جمع ہوجاتے اور محفل جم جاتی تھی ، جتنی دیر وہ ہمارے درمیان رہتے احباب ان کی خوبصورت گفتگو سے لطف اندوز ہوتے رہتے۔

انتہائی خوش مزاج شخصیت کے مالک امجد صاحب لطیفے بہت سناتے تھے۔ آخری ملاقات چند ماہ قبل ہوئی تھی، گزشتہ ماہ کے آخر میں عمرہ کی سعادت پر جانے سے پہلے امجد صاحب کا فون آیا ،کہنے لگے عمرہ کے لیے روانگی ہے، علی نے سارا بندوبست کر لیا ہے، کہہ رہا ہے کہ بچوں کو ساتھ لے کر جانا ہے، میں نے ہوٹل حرمین پاک کے بہت قریب بک کرائے ہیں، آپ کو تکلیف نہیں ہو گی۔

مجھے کہنے لگے کہ چوبیس تاریخ کی رات کو جدہ کے لیے روانگی ہو گی، ایئر پورٹ پراگر آسانی ہو سکے چونکہ میں آج کل وہیل چیئر استعمال کرتا ہوں۔ میں نے پی آئی اے کے ایئر پورٹ مینیجر علی اصغر زیدی اور علی عباس شاہ کو درخواست کی، امجد صاحب ہمارے ملک کی پہچان ہیں، ان کے لیے ایئر پورٹ پر ایسا بندوبست کر دیں کہ ان کو کوئی تکلیف نہ ہو اور تمام مراحل آسانی سے طے ہو جائیں۔

اسی طرح جدہ ایئر پورٹ پر برادرم ذوالقرنین مہدی کی وساطت سے اسٹیشن مینیجر شہزاد تیمور کو پیغام بھیجا کہ امجد صاحب بمعہ فیملی آرہے ہیں ان کو ریسیو کریں اور امیگریشن وغیرہ کے مراحل طے کرانے کے بعد ان کو میزبانوں تک پہنچا دیں۔ جدہ ایئر پورٹ پر امجد صاحب کو ریسیو کرنے کے بعد شہزاد نے مجھے ان کی وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے تصویر بھی بھیج دی۔

مجھے کیا خبر تھی کہ ان کی عمرہ روانگی سے قبل یہ میرا اور ان کا آخری رابطہ ہوگا اور میں اس کے بعد امجد صاحب کی نفیس آ واز اور نرم و شیریں لب ولہجہ کبھی نہ سن سکوں گا۔دیار حرم سے واپسی پرامجد صاحب اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے لیکن اپنی تحریروں کی شکل میں وہ ایک خزانہ پیچھے چھوڑ گئے جس سے ان کے مداحین ہمیشہ اپنی پیاس بجھاتے رہیں گے اور امجد صاحب کو یاد کر کے ان کے لیے دعا کرتے رہیں گے۔ لازوال شاعری کے ایک دور کااختتام ہوا۔ وہ کیا خوب کہہ گئے ہیں کہ...

میں کھلا ہوں تو اسی خاک میں ملنا ہے مجھے

وہ تو خوشبو ہے اسے اگلے نگر جانا ہے

خدا حافظ امجد صاحب

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔