بھارتی چناؤ یاترا

بھارت میں اس بار انتخابات صرف معاشی اور اچھی بری حکومت کے وعدوں پر لڑے جا رہے ہیں


امتیاز عالم April 10, 2014
twitter: @ImtiazAlamSAFMA facebook: Imtiaz.Alam

چلے تو تھے بھارتی چنائو یاترا کو' پینے پڑ گئے پولیو کے قطرے، جب واہگہ، اٹاری بارڈر پوسٹ کراس کی۔ بھارت اب پولیو سے پاک ہے اور اس کی پاکستان سے درآمد روکنے کے لیے آپ کو پولیو ویکسین سے پوتر تو کیا ہی جائے گا۔ شکریہ! طالبان' آپ سے بھاگے بھی تو یہ دن دیکھنا پڑا۔ جو بھی بھارت جائے' پہلے پولیو کے تریاق قطر ے نوش کرے۔ امرتسر پہنچے تو پتہ لگا کہ بی جے پی نے جو اپنا ترپ کا پتہ پھینکا تھا (ارون جیٹلے) اس کے مقابلے میں کانگریس نے مہاراجہ امریندر سنگھ کا اِکا پھینک کر بساط پلٹ دی ہے۔ ایک بابو' دوسرا کلین شیو (منا) اور تیسرا باہر کا' جیٹلے کا قصہ تمام لگتا ہے۔

دلی پہنچے تو ہر طرف ایک ہی بینر تھا: اب کی بار' مودی سرکار! جس سڑک پر جائو' مودی! جو اخبار اٹھائو مودی! جو ٹیلی وژن کھولو' مودی! جی ہاں! بی جے پی نے گجرات کے مرد آہن نریندرا مودی جو تین بار چیف منسٹر رہ چکے ہیں کو نہلا دھو کر ترقی اور اچھی حکومت کے گجراتی ماڈل کے نام پر میدان میں اتارا ہے۔ چائے بیچنے والا لڑکا اب بھارتی بنئیوں یا کارپوریٹ سیکٹر کی بطور طبقہ حمایت کے ساتھ اس کروفر سے میدان میں اتار گیا ہے کہ کوئی نہیں ہے جو سامنے آئے۔ وزیر اعظم کا امید وار ایک ہی ہے اور وہ ہے مودی، بھلے اس 62 ہزار سے زائد مسلمانوں کے قتل پر ملی بھگت کا کتنا ہی سنگین الزام کیوں نہ ہو۔ کیا مودی لہر' سب کو بہا لے جائے گی؟ معاملہ ایسا بھی آسان نہیں!

کسی کو گمان بھی نہ تھا کہ عام آدمی پارٹی والا اروند کیجریوال بھی میدان میں آن کودے گاجو سیاستدانوںکے بھشٹہ چار(کرپشن) کے خلاف تحریک چلا کر اور مرن برت رکھ کر ان تمام لوگوں کو اکٹھا کر سکے گا جو سیاست سے نالاں یا باہر تھے۔ عام آدمی پارٹی نے دلی اسٹیٹ کے انتخابات میں کانگریس پر تو جھاڑو پھیرا ہی تھا' اس نے بی جے پی کی اونچی اڑان پر بھی کانٹی مار دی۔ جو لوگ سیاستدانوں اور کرپشن سے تنگ تھے' جھاڑو کے جھنڈے تے جمع ہو گئے۔ لیکن بیچارے کیجریوال کریں تو کیا کریں ان کی جھاڑو چھوٹی، ملک بڑا اور بھانت بھانت کے لوگوں اور نوع بنوع سیاسی جادوگروں سے بھرا پڑا ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ عام آدمی پارٹی نے خاصے شہری علاقوں میں بی جے پی اورکانگریس کے مابین کرسی کی دوطرفہ لڑائی کو سہ طرفہ میں بدل دیا ہے۔ آج (10 اپریل) جب دہلی اور دیگر 14 ریاستوں کی 91 نشستوں پر ووٹ ڈالے جا رہے ہیں' سب کی نظریں دلی کی حد تک بی جے پی اور عام آدمی پارٹی پر ہیں۔کئی روز سے ٹیلی ویژن اسکرین سے غائب رہنے کے بعد کیجریوال کو اس کے حامی ایک رکشے والے نے تھپڑ کیا جڑا کہ پھر سے عام آدمی پارٹی سرخیوں میں ہے' چندہ بھی کروڑوں میں جمع ہو گیا اور ووٹ بھی لگتا ہے کہ کچھ بڑھ گئے ہیں۔ لیکن یہ ڈرامہ دلی اور کچھ بڑے شہروں تک محدود ہے یا پھر بنارس میں جہاں مودی کے سامنے کیجریوال آ گئے ہیں۔

کانگریس اور بھاجیا( بی جے پی) کے منشور دیکھیں توایک جیسے لگتے ہیں، نیو لبرل یعنی آزاد منڈی کے فروغ کا ایجنڈا۔ لگتا ہے سوشلٹ قوتیں بشمول نہرو سوشلزم پسپا ہو رہا ہے اور کمیونسٹ ہیں کہ کونوں کھدروں میں بھی اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب دکھائی نہیں دیتے۔ بڑا نظریاتی پھڈا جو میڈیا میں چھایا ہے وہ ہے سیکولر ازم اور ہندتوا یعنی ہندو متعصب قوم پرستی کے مابین جاری بحث۔ سیکولر دانشور' مسلمان اور نچلی جاتی کی زیادہ تر جماعتوں کا نشانہ مودی ہی ہیں۔ اور سب سے زیرک اور سمجھداری والا وطیرہ مسلمانوں نے اپنایا ہے۔ کانگریس کے تو وہ حامی ہیں ہی لیکن جہاں جو بھی نچلی جاتی کی یا علاقائی پارٹیوں میں سے بھاجپا کے امیدوار کے سامنے کھڑا ہوتا نظر آیا وہ اپنا وزن اس کے پلڑے میں ڈال دیں گے۔ بھارت میں آدھے سے زیادہ حلقے ایسے ہیں جہاں وہ ایک موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بھاجپا کے نعرے کہ سارے ہندو ایک ہوں میں سے تو صرف دلتوں نے ' ( جنھیں ملیچھ سمجھ کر سماج باہر کیا جاتا رہا ہے) ہوا نکل دی جب کہ دوسری نچلی جاتیوں اور قبائل نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔

ساڑھے تیرا کروڑ ووٹرز کا یو پی ہو یا پھر چھ کروڑ 21 لاکھ ووٹرز کا بہار ملائم سنگھ یادیو کی سماج وادی پارٹی' لالو پرساد یادیو کی راشٹریہ جنتا دل اور مایا وتی کی بہو جن سماج پارٹی' ہندتوا کے مقابلے میں کانگریس سے یہ جاتی وار کی پارٹیاں زیادہ موثر ثابت ہوئی ہیں۔ اب بھی شمالی بھارت میں بھاجپا یا مودی لہر کے مقابلے میں کانگریس کے ساتھ ساتھ یہی کھڑے ہیں۔ مظفر نگر میں کمیونل فسادات کے نتیجے میں 50 ہزار مسلمانوں کی بیدخلی نے سیکولر وادیوں کو اچھا خاصا مواد فراہم کر دیا ہے اور بی جے پی کے امیت شاہ کی جانب سے مسلمانوں سے ''بدلہ'' لینے کے بیان نے جلتی پہ تیل کا کام کیا ہے۔ مودی اسی لیے اب زیادہ قومی ایکتا کی بات کرتے ہیں اور بی جے پی کے منشور میں بابری مسجد کی جگہ رام ٹمپل کی تعمیر' یونیفائیڈ سول کوڈ اور کشمیر سے متعلق آئین کی شق 370 میں ترمیم کے وعدوں کو آخری صفحات میں جگہ دی گئی ہے۔ ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات میں بی جے پی کا حوالہ اٹل بہاری واجپائی کا ہی دیا جاتا ہے حالانکہ مودی پاکستان کے بارے میں خاصی گرم زبان استعمال کرتے رہے ہیں۔

اس بار انتخابات صرف معاشی اور اچھی بری حکومت کے وعدوں پر لڑے جا رہے ہیں۔ مودی کا ایڈوانٹیج یہ بھی ہے کہ انھوں نے ریاست گجرات کو معاشی حوالے سے بہت اچھا چلایا اور ملک بھر کے سرمایہ دار اور زیادہ تر پیشہ ور لوگ یا پھر نوکریوں اور مواقعوں کے متلاشی نوجوانوں کے جم غفیر کا ایک بڑا حصہ مودی کی جانب راغب ہے۔ کانگریس کو گرتی ہوئی معاشی نمو' مہنگائی' بجلی کی کمیابی اور بیروز گاری لے ڈوبی ہے۔ اوپر سے کرپشن کے پے در پے سیکنڈلز نے رہی سہی کسر نکال دی۔ باوجود یہ کہ تین بارکی چیف منسٹر شیلا ڈکشٹ نے دلی کا منظر بدل دیا' کرپشن کے الزامات انھیں بھی لے بیٹھے جب کہ مودی کی آل ہے نہ اولاد اور نہ ان پر کرپشن کا کوئی الزام!۔

بھارت ایک عجب دور سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف معاشی اڑان کے بڑے بڑے تقاضے ہیں جو اچھی اور موثر حکومت کے متقاضی ہیں اور دوسری طرف سماج کا عظیم تنوع جو جاتوں' جاتیوں' طبقوں' علاقائی شناختوں' قومیتوں اور زبانوں میں بٹا ہوا ہے۔ یہ تقاضا کرتا ہے کہ لوگوں اور ریاستوں کو جوڑنے والی سیاست ہو۔ مودی معاشی چھلانگ لگانے والے تو ہیں سماج کو جوڑنے والے نہیں۔ بھارتی جمہوریت اور رائے دہندگان نے اس کا ایک اچھا حل نکالا ہے اور وہ یہ کہ کسی کو بھاری مینڈیٹ نہ دو اور نوع بنوع مفادات کو مخلوط حکومتوں کے ذریعے مربوط کرو۔ کیا اب کی بار بھی ایسے ہی ہو گا۔ ابھی تک تو اوپر والا ہی جانتا ہے، جس سے پوچھو یہی جواب دیتا ہے۔

جو سب سے انقلاب خیز عنصر اس چنائو میں سامنے آیا ہے وہ ہے نوجوانوں کا بڑی تعداد میں متحرک ہونا۔ اس انتخاب میں 23 کروڑ سے زیادہ 18/19 برس کے نوجوان کیا رخ اختیار کرتے ہیں وہ ملکی اور صوبائی سطح پر کسی کو بھی گدی پہ بٹھا سکتا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کا رخ تو زیادہ تر مودی کی طرف ہے یا پھر کچھ کا عام آدمی پارٹی کی طرف۔ کانگریس سے نوجوان مایوس ہیں۔ البتہ زور دار علاقائی پارٹیاں بھی انھیں اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے نوجوان کا بڑا فرق جو مجھے نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ بھارتی نوجوان تعلیم اور معاشی میدان میں اترنے کی صلاحیت حاصل کرنے میں بہت سرگرم ہے، اس کا سیاست سے کم ہی تعلق ہے اور وہ جدیدیت کی جانب راغب ہے۔ پاکستانی نوجوان زیادہ تر دنیا سے بیزار اور علم و ہنر کی جانب کم کم راغب ہے یا پھر اول فول قسم کی سیاست اور مذہبی جماعتوں کے ہتھے چڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ عام آدمی پارٹی نے بھی ان پڑھے لکھے نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کیا ہے جو سیاستدانوں کے کرتوں سے نالاں تھے' پاکستان میں عمران خان نے بھی ایسے ہی نوجوانوں کو متوجہ کیا تھا۔

بھارتی انتخابات کو سمجھنا ، رائے عامہ کا حال جاننے والے جغادریوں کے لیے بھی محال تر ہے۔ بھلا 28 ریاستوں میں جو ایک دوسرے سیخاصی مختلف ہیں،81 کروڑ رائے دہندگان کا جائزہ کون لے۔ ہر علاقے' ہرگروہ اور ہر طبقے کے علیحدہ علیحدہ مدے اور مسئلے ہیں۔ ابھی تک کے جائزوں کے مطابق بی جے پی کی حمایت میں دگنا اضافہ ہوا ہے اور کانگریس کی حمایت آدھی رہ گئی ہے۔ پھر بھی بحث یہ ہے کہ آیا بی جے پی 200 نشستوں سے اوپر جائے گی اور کتنی جائے گی یا پھر نیچے اور کتنی نیچے رہے گی۔ اگر بی جے پی نے سوا دو سو نشستیں لے لیں تو مودی اپنے این ڈی اے کی 25 اتحادی جماعتوں کے ساتھ 272 کا ہدف حاصل کر لیں گے اور ایک مضبوط وزیر اعظم کے طور پر حکومت بنائیں گے اور اگر بی جے پی 200 سے کم رہی تو پھر ممکن ہے کہ مودی کمزور وزیر اعظم بننا پسند نہ کریں یا پھر اتحادی ایک زیادہ میانہ رو اور معتدل وزیر اعظم کا تقاضا کریں۔ عظیم انتخابی معرکہ جاری ہے۔ دیکھئے 16 مئی کو کیا ہوتا ہے۔ مودی کی چھاتی 56 انچ ہو یا پھر درحقیقت 44 انچ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں