بھارتی انتخابات کے مضمرات

بدقسمتی سے بھارت اور پاکستان کی سیاسی جماعتیں انتخابات میں ان مسائل کو استعمال کرتی ہیں جو متنازعہ ہیں

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

عموماً ہر ملک کے عام انتخابات اس ملک کا داخلی مسئلہ ہوتے ہیں لیکن حریف ملکوں کے انتخابات محض اس کا داخلی مسئلہ نہیں بلکہ حریفوں کے لیے بھی بہت بڑا مسئلہ ہوتے ہیں۔ بھارت میں عام انتخابات ہو رہے ہیں۔ پورا ملک انتخابی بخار میں مبتلا ہے لیکن پسماندہ ملکوں کی روایت کے مطابق ان ملکوں میں انتخابات معاشی مسائل پر لڑے جانے کے بجائے سیاسی تضادات کی بنیاد پر لڑے جاتے ہیں۔

بدقسمتی سے بھارت اور پاکستان کی سیاسی جماعتیں عام انتخابات میں ان مسائل کو استعمال کرتی ہیں جو دونوں ملکوں کے درمیان متنازعہ ہیں۔ اس حوالے سے بھارت کی انتہاپسند جماعتیں تو پاکستان کو اپنی انتخابی مہم کا مرکزی نکتہ بنا دیتی ہیں۔ بھارت میں کانگریس طویل عرصے سے برسر اقتدار ہے لیکن اس جماعت نے چونکہ عوام سے اپنا رشتہ توڑ لیا ہے اور اپنے دور حکمرانی کے دوران عوام کے مسائل کم کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کیا ہے، جس کی وجہ سے ریاستی انتخابات میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت کے سیاسی پنڈت اسی پس منظر میں ان انتخابات میں کانگریس کی شکست کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔

بھارت میں کانگریس کے بعد پورے ملک میں اپنی جڑیں رکھنے والی دوسری جماعت بی جے پی ہے اور بی جے پی کا تعارف ملک کے اندر اور ملک کے باہر مذہبی انتہاپسند جماعت کے طور پر ہوتا ہے۔ بی جے پی اس سے قبل بھارت کی حکمراں جماعت رہی ہے لیکن اس دور میں وہ عموماً ایک اعتدال پسند جماعت کا کردار ادا کر تی رہی ہے، بی جے پی کے وزیر اعظم باجپائی کا رویہ پاکستان کے حوالے سے اعتدال پسندانہ رہا بلکہ باجپائی کا لاہور کا دورہ اس حوالے سے بی جے پی کے انتہا پسندانہ چہرے میں تبدیلی لانے کا باعث بھی بنا، حتیٰ کہ پاکستان میں بھی باجپائی حکومت کو پذیرائی ملی۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اگر کارگل کا ایشو کھڑا نہ ہوتا تو باجپائی اور نواز شریف مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے میں کامیاب ہو جاتے۔

اس قسم کا تاثر سابق صدر پرویز مشرف کے دورہ آگرہ کے حوالے سے بھی ابھرا تھا اور آج بھی مشرف دور کے بعض سینئر وزیر بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر پر اتنی پیش رفت ہو گئی تھی کہ بس اعلان ہونا باقی تھا کہ بھارت کی اینٹی پاکستان لابی نے کھنڈت ڈال دی، یوں یہ مسئلہ حل ہوتے ہوتے رہ گیا۔ لیکن کوئی بندہ خدا یہ نہیں بتاتا کہ یہ مسئلہ کن شرائط کے ساتھ طے ہونے جا رہا تھا اور اگر یہ مسئلہ حل ہو جاتا تو دونوں ملکوں کے دیرینہ موقف میں سے کس کے موقف کی کامیابی ہوتی؟ یہ بات ہم کسی تعصب یا انتہاپسندی کی وجہ سے نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ اس مسئلے کے حل سے ان دونوں ملکوں کا مستقبل ہی وابستہ نہیں بلکہ دونوں ملکوں کی انتہاپسند جماعتوں کا مستقبل بھی وابستہ ہے۔


بھارت کی سیاست میں ایک نیا عنصر عام آدمی پارٹی (عاپ) کی حیثیت سے ابھرا ہے، اس جماعت نے انتہائی کم عرصے میں ایسی عوامی مقبولیت حاصل کر لی کہ بھارت کی بڑی جماعتوں کے کان کھڑے ہو گئے، عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال کی مقبولیت کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک تو ان کا تعلق بھارت کی روایتی سیاسی ایلیٹ سے نہیں ہے بلکہ وہ واقعی ایک عام آدمی ہیں اور عام لوگوں کے درمیان رہتے ہیں، دوسرے یہ کہ کجریوال نے بھی انا ہزارے کی طرح رشوت کے خلاف آواز اٹھائی تھی جو بھارتی معاشرے کا ناسور بن گئی ہے اور عوام کے مسائل کے حل میں دیوار کی طرح حائل ہے۔ کجریوال نے پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے اور مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی بات بھی کی تھی، جو یقیناً دونوں ملکوں کے ہی نہیں بلکہ اس خطے کے عوام کے مفاد کی بات تھی لیکن کجریوال کی مقبولیت سے خوفزدہ بھارتی سیاست کاروں نے کجریوال کے ان معقول وعدوں کو ان کے خلاف استعمال کرتے ہوئے انھیں پاکستان کا ایجنٹ قرار دیا۔ اس حوالے سے سرفہرست ممکنہ طور پر بھارت کے ہونے والے وزیر اعظم نریندر مودی ہیں، جن کا تعلق گجرات سے ہے اور مودی گجرات میں مسلمانوں کے قاتل کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔

بی جے پی نے اپنی طرف سے نریندر مودی کو وزیر اعظم نامزد کر دیا ہے اور اس حوالے سے موصوف کو خوب پبلسٹی بھی دی جا رہی ہے۔ نریندر مودی خود بھارتی اہل قلم اور اہل فکر میں کس حد تک ناپسندیدہ اور غیر موزوں رہنما ہیں، اس کا اندازہ بھارت کے ان غیر جانبدار لکھاریوں کی تحریر سے ہوتا ہے جو نریندر مودی کو بھارت کے مستقبل کے لیے زہر قاتل قرار دے رہے ہیں۔ ان لکھاریوں میں کلدیپ نیئر بھی شامل ہیں، جو کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکومت کے حمایتی مانے جاتے ہیں، کلدیپ نیئر مودی کو بھارت کے سیکولرزم کے لیے بھی بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔

بی جی پی ہندوتوا کی حامی ہے اور بھارت کو رام راجیہ میں بدلنے کا منشور رکھتی ہے، اس حوالے سے بابری مسجد میں اس کے کردار کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد کرنے سے بی جے پی کی مستقبل کے انداز سیاست کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بی جے پی کے پاس نریندر مودی جیسے بدنام زمانہ شخص کا کوئی بہتر متبادل نہیں ہے؟ بی جے پی میں بلاشبہ نریندر مودی سے بہتر کئی متبادل موجود ہیں پھر نریندر مودی کو ان پر فوقیت دینے کی وجہ کیا ہے؟ خیال کیا جا رہا ہے کہ ہندوتوا کے پروگرام پر عملدرآمد کے لیے نریندر مودی سے بہتر کوئی رہنما موجود نہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہی ہے کہ اگر خدانخواستہ نریندر مودی بھارت کا وزیر اعظم بنتا ہے تو داخلی طور پر بھارت کے سیکولرزم کا اور خارجی طور پر پاکستان سے بھارت کے تعلقات کی کیا صورت ہو گی؟ کیا نریندر مودی کا موقف بھارت کی روایتی پالیسی ''کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے'' سے مختلف ہو گا یا اس اٹوٹ انگ کے نعرے میں اور شدت آئے گی؟ اگر ایسا ہوا تو پاکستان کے مذہبی انتہاپسندوں میں اس کا ردعمل کیا ہو گا؟

اگر نریندر مودی پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے بجائے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ اور ہندوتوا کو اپنی سیاست کا مقصد قرار دیتا ہے اور ایک منتخب وزیر اعظم کی حیثیت سے اس ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتا ہے تو پاکستان میں مذہبی انتہاپسندوں کے لیے انتہاپسندی کے مواقع پیدا نہیں ہوتے؟ مودی کو بھارت کے عوام دل سے پسند کرتے ہوں یا ناپسند، اصل مسئلہ آپشن کا ہے۔ بھارتی عوام نے کانگریس اور دوسری جماعتوں کے طویل اقتدار کو دیکھ لیا ہے، یہ جماعتیں خاص طور پر کانگریس اب بھارتی عوام میں کوئی کشش نہیں رکھتی، ان کے سامنے کوئی بہتر متبادل بھی نہیں ہے۔ مسلم ملکوں خصوصاً خلیجی ملکوں میں عوام لبرل حکمرانوں کی لوٹ مار سے تنگ آ کر مذہبی انتہا پسندوں کی چھتری کے نیچے آ گئے ہیں کہ شاید یہ عناصر ان کے مسائل کے حل میں معاون ثابت ہوں۔ کیا بھارت کے عوام بھی جن کے پاس کوئی بہتر آپشن نہیں ہے۔ بی جے پی اور اس کے نامزد کردہ وزیر اعظم نریندر مودی کی چھتری تلے نہیں آ سکتے؟ اگر ایسا ہوا تو دونوں ملکوں ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کا بول بالا نہیں ہوگا؟
Load Next Story