اسلامی نظریاتی کونسل

سندھ اسمبلی نے اپنی ایک قرارداد کے ذریعے اسلامی نظریاتی کونسل کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا ۔۔۔

advo786@yahoo.com

سندھ اسمبلی نے اپنی ایک قرارداد کے ذریعے اسلامی نظریاتی کونسل کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے، اس قرارداد پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے ایک آئینی ادارے کے خلاف قرارداد پاس کرنے پر سندھ اسمبلی کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سندھ اسمبلی کی اس قرارداد پر مذہبی حلقوں کی جانب سے بھی رد عمل سامنے آیا ہے لیکن قانون اور سماجی حلقے اس موضوع پر مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ جو ہر موقعے اور ہر واقعے پر آئین کی گردان میں زمین و آسمان ایک کردیتی ہیں، جس کی وجہ سے بعض اوقات عوام الناس میں یہ منفی اثر مرتب ہوتا ہے کہ شاید آئین ہی ہمارے بہت سے مسائل کا سبب ہے، میڈیا بھی اس اہم موضوع پر خاموش ہے۔ اس ملک میں اظہار رائے اور مکالمے کے نام پر جس طرح ملک کے قیام اور اس کے وجود کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔

تحریک پاکستان سے متعلق شخصیات کے نظریات و کردار کو جس طرح خلط ملط کرکے دروغ گوئی اور مبالغہ آرائی بلکہ کردار کشی تک کرکے اپنے مذموم مقاصد کے لیے مخصوص پیرائے پہنائے جاتے ہیں، اس کا دنیا کے کسی اور ملک میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کبھی مولانا ابوالکلام آزاد اور قائداعظم کی شخصیت کو زیر بحث لایا جاتا ہے، کبھی علامہ اقبال کے نظریات اور ذاتیات پر حملے کیے جاتے ہیں، تو کبھی دو قومی نظریے پر مخصوص سوچ کے ساتھ بحث کا آغاز کرکے عوام میں منتشرالخیالی پھیلائی جاتی ہے۔آئین پاکستان کے ابتدا میں یہ کہا گیا ہے کہ تمام کائنات پر اﷲ تعالیٰ کی حاکمیت ہے۔ اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیا گیا ہے۔ آئین کے تحت تمام قوانین کو اسلامی روح اور قرآن و سنت کے مطابق بنایا جائے گا اور اس کے برعکس کوئی قانون سازی نہیں کی جاسکے گی۔ جب کہ غیر مسلموں کے لیے ان کے پرسنل لاز کے مطابق عمل ہوگا جنھیں کسی طور پر متاثر نہیں کیا جائے گا۔

ریاست ایسے اقدامات کرے گی جن کی مدد سے مسلمان اپنی زندگیاں اسلامی اصولوں اور تصور کے مطابق گزار سکیںگے، ملک میں جمہوریت، آزادی، مساوات، برداشت اور سماجی انصاف ہوگا، مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیاں اسلامی تعلیمات اور قرآن و سنت کے مطابق گزار سکیںگے۔ اس مقصد کے لیے آئین پاکستان کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جس کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اس قسم کی سفارشات پیش کرے کہ جن کے ذریعے مسلمانوں کو اس بات کی ترغیب دی جاسکے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیاں اسلام کے مطابق ان اصولوں اور تصور کے تحت گزارسکیں جو قرآن و سنت نے وضع کیے ہیں۔ ایسی سفارشات مرتب اور لائحہ عمل وضع کرے جن کے مطابق موجودہ قوانین کو اسلامی روح کے مطابق ڈھالا جاسکے۔ ایسی سفارشات پیش کرے جنھیں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں قانونی شکل دے سکیں۔

ایوان صدر اور گورنر کی طرف سے بھیجے گئے سوالات پر اپنی رائے دے کر مجوزہ قانون اسلامی تعلیمات اور اس کی روح سے متصادم تو نہیں ہے، جو سوالات، مسودہ اسے بھیجے جائیں یا مشورہ طلب کیا جائے کونسل اس سے متعلق 15دنوں میں مطلع کرے گی کہ کتنے دنوں میں اس پر متفقہ رائے اور مشورہ دیا جاسکے گا۔ اگر اس کا مشورہ اس کے برخلاف ہو تو حکومت اس پر نظر ثانی کرنے کی پابند ہوگی۔ اسلامی نظریاتی کونسل ہر سال اپنی رپورٹ پیش کرے گی جسے دونوں ایوانوں میں زیر بحث لایا جائے گا اور صوبائی اسمبلیاں اس کی وصولی کے 6 ماہ کے اندر اسے قانونی شکل دے گی۔ کونسل کی کارروائی کو رولز کے ذریعے نافذ العمل کیا جائے گا، طریقہ کار کونسل صدر کی منظوری سے بنائے گی، صدر، گورنر یا کل ممبران اسمبلی کی 2/5 تعداد کوئی قانون کونسل کو بھیج سکتی ہے کہ وہ اپنی رائے دے کہ آیا وہ قانون اسلام کی روح سے متصادم تو نہیں ہے۔


جس طرح عدلیہ اور ججز مضامین، بیانات اور ٹاک شوز وغیرہ میں زیر بحث سوالات، الزامات، مبالغہ آرائی اور کردار کشی پر جن سے ان کا منفی تاثر ابھرتا ہے جواب یا وضاحت پیش نہیں کرتی اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل بھی شرعی سوچ نہ رکھنے والوں کی طرف اٹھائے گئے سوالات، قانون و شرعی مو شگافیوں اور لا جواب کردینے والی بحث کا حصہ نہیں بن سکتی، البتہ عدلیہ کو یہ اختیار ہوتاہے کہ ایسے کسی معاملے پر ضرورت محسوس کرے تو توہین عدالت کی کارروائی کرسکتی ہے، اسے اپنے احکامات پر عملدرآمد کرانے کے لیے حکومتی اداروں اور پولیس کے استعمال کا حق و اختیار بھی حاصل ہوتاہے لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کو اس قسم کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کونسل کی جانب سے بھیجی گئیں 90 ہزار سفارشات اور 20 ہزار رپورٹس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی جو کہ حکومت و پارلیمنٹ کا منصبی اور آئینی فرض ہے اور اس کے برعکس کونسل کے وجود کو تحلیل کرنے کی بحث شروع کردی گئی ہے۔ ہمارے ملک کے عوام و خواص اسلامی نظریاتی کونسل کی افادیت و اہمیت اور اس کی ہیئت (ڈھانچہ) سے بالکل بے خبر ہیں، اس لیے آسانی سے مبالغہ آرائی، ابہام اور پروپیگنڈے کا شکار ہوجاتے ہیں، اس کے ممبران کی تعداد کم از کم 8 اور زیادہ سے زیادہ 20 رکھی گئی ہے جن کا انتخاب صدر کرے گا، اس میں ایسے افراد کو شامل کیا جائے گا جو اسلامی اصول و فلسفہ کی تعلیم اور معلومات رکھتے ہوں، جو قرآن و سنت سے واضح ہو اور وہ معیشت اور قانونی و انتظامی امور اور پاکستان کے مسائل سے آگہی رکھتے ہوں۔

کونسل کی تشکیل میں مختلف مسالک کی نمایندگی بھی رکھی گئی ہے، کم از کم دو ارکان کا سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کی اہلیت اور چار ارکان کے لیے کم از کم 15 سال اسلامی تعلیمات و تحقیق کا تجربہ رکھنا لازمی ہے۔ کم از کم ایک خاتون کی رکنیت بھی لازمی رکھی گئی ہے۔ ممبران کی مدت تیس سال رکھی گئی ہے، کونسل کے چیئرمین کی نامزدگی کا اختیار صدر کو دیا گیا ہے، جس کونسل کے کل ارکان کی اکثریت سے پاس کردہ قرارداد کے ذریعے صدر برخاست کرسکتا ہے۔ گویا آئین میں اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل اس کے فرائض و اختیارات ممبران کی اہلیت اور تمام مسالک اور ہر صنف کی نمایندگی اور چیک اینڈ بیلنس کا ایک میکنزم رکھا گیا ہے۔

کونسل سود، کوٹہ سسٹم، خلع و طلاق، وراثت، حق ملکیت، خواتین و بچوں کے حقوق اور غیر شرعی رسومات جیسے لا تعداد موضوعات پر اپنی سفارشات پیش کرچکی ہے، جن کی وجہ سے معیشت، معاشرت اور قانونی امور بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ ظالم و غاصب مظلوموں اور حق داروں پر حاوی ہیں عدالتوں پر بھی غیر ضروری کام کا بوجھ ہے اگر ان پر عملدرآمد کرکے قانون سازی یا مجوزہ قوانین میں رد و بدل کرلیا جائے تو بہت سے مسائل فوری طور پر حل ہوسکتے ہیں۔ کونسل کی جانب سے ارسال کردہ 90 ہزار سفارشات اور 20 ہزار سے زائد رپورٹس پارلیمنٹ اور حکومت کی عدم دلچسپی یا نااہلی کی وجہ سے ردی کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکی ہیں، اس کو اسلامی نظریاتی کونسل کی نااہلی کہا جائے یا حکومت و پارلیمنٹ کی ناکامی اور نااہلی سے تعبیر کیا جائے؟ پھر این جی اوز اور لبرل طبقے حکومت اور پارلیمنٹ کا محاسبہ کرنے کے بجائے کونسل کی تحلیل پر کیوں کمربستہ ہے؟

سندھ اسمبلی کی جانب سے کونسل کی تحلیل کی قرارداد اور مولانا فضل الرحمن کی جانب سے اس غیر آئینی اقدام پر سندھ اسمبلی کی تحلیل کا مطالبہ ان قوتوں کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث بن سکتا ہے جو قیام پاکستان، دو قومی نظریہ اور قائداعظم کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ قائداعظم کے مزار پر مذمومانہ سرگرمیاں، قائد کے مزار کو اڑا دینے کی دھمکی اس سے قبل قائداعظم ریذیڈنسی کی تباہی پھر اسمبلی میں ان کی جائے پیدائش پر بحث اور قائداعظم اور مولانا ابوالکلام آزاد کا موازنہ کرکے قائد کے کردار اور شخصیت کو کم اور قیام پاکستان کو عوامی بحث کا موضوع بناکر قائداعظم اور پاکستان دونوں سے بدظن کرنے کی مذمومانہ کوششوں کا لامتناہی سلسلہ نظر آتاہے۔ اہل وطن اور خاص طور پر مذہبی و سیاسی رہنمائوں کو اس پہلو پر خاص نظر رکھتے ہوئے ذمے داری، دانش مندی اور تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
Load Next Story