مشاعرے کی روایت ہی بدل گئی
اسٹیج کی تزئین و آرائش، نظامت، شعرا کی پذیرائی ہی نہیں بلکہ ہوٹنگ تک اس قدر معیاری ہوتی کہ اگر سامعین ہوٹ ۔۔۔
23 مارچ کی شب سے 30 مارچ کی صبح (اذان فجر) تک ہمارے شہر میں موسم مشاعرہ اپنے پورے جوبن پر رہا۔ شہر میں ہر سمت اشعار کی بارش ہوئی۔ پہلا عالمی مشاعرہ ساکنان شہر قائد کی جانب سے ایکسپو سینٹر کے ہال نمبر 3 میں منعقد ہوا۔ عالمی مشاعرہ ساکنان شہر قائد کے بانی اور کرتا دھرتا اظہر عباس ہاشمی، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا اور ان کے کئی مخلص ساتھی ہیں۔ 2014 کا مشاعرہ اس سلسلے کا 23 واں عالمی مشاعرہ تھا، یعنی گزشتہ 23 سال سے تمام تر مشکلات، رکاوٹوں اور بعض حلقوں کی جانب سے حاسدانہ مخالفت کے باوجود یہ بیڑا اظہر اعباس ہاشمی نے اپنے کاندھوں پر اٹھایا ہوا ہے اور بڑے منظم انداز میں پورے نظم و ضبط کے ساتھ ہر سال یہ مشاعرہ منعقد ہو رہا ہے۔ لیکن اس سال اظہر عباس پہلے جیسے فعال نظر نہ آئے بلکہ محمود احمد خان زیادہ سرگرم رہے۔
اس مشاعرے کے بارے میں اخبارات میں جو رپورٹس پڑھیں ان میں بتایا گیا تھا کہ بہت شاندار مشاعرہ تھا اور کراچی کے باذوق سامعین نے بھرپور انداز میں شعراء کی پذیرائی کی، جب کہ ہم اس موقع پر ساکنان شہر قائد کے ماضی میں ہونے والے عظیم الشان بے حد معیاری اور نظم و ضبط کے لحاظ سے ''اپنی مثال آپ'' مشاعروں کو یاد کرتے رہے۔ دعوت نامہ پر مشاعرے کے آغاز کا وقت 8 بجے شب دیا گیا تھا مگر ہم قصداً تقریباً بارہ بجے مشاعرہ گاہ پہنچے تاکہ اوپر کا جھاگ بیٹھ چکے اور ہم اصل شعرا کو آرام سے سن سکیں، مگر تادم آخر کوئی ایک ایسا شعر جو ذہن میں چپک کر رہ جائے یا جو بار بار زبان پر آکر ذوق کی تسکین کا باعث بنے سننے کو نہ ملا۔
چند بزرگ اور کچھ درمیانی نسل کے لوگ رہ گئے ہیں جو اپنے ذوق کی خاطر ان مشاعروں کو رونق بخش رہے ہیں، ایسے ہی کچھ باذوق سامعین اسٹیج کے سامنے فرشی نشست پر تشریف فرما تھے اور باقاعدہ برمحل داد سے شعرا کو نواز رہے تھے جب کہ پچھلی صفوں میں نوجوان لڑکے لڑکیاں گروہ بناکر دائرے کی شکل میں بیٹھے خوش گپیوں میں نہ صرف مشغول تھے بلکہ مسلسل کھانا پینا چلتا رہا، باآواز بلند گفتگو جاری رہی اور قہقہے لگائے جاتے رہے، ساتھ ہی ایک دوسرے کے کاندھوں پر سر رکھ کر کبھی کمر سے کمر ملاکر کبھی Side پوز بناکر تصویریں بنوائی جاتی رہیں۔ جہاں فرش کا اختتام ہوا اس کے فوراً بعد کرسیاں لگائی گئیں تھیں۔ ہم کرسیوں کی پہلی رو میں اپنی ساتھیوں کے ہمراہ بیٹھے تھے لہٰذا شعرا سے زیادہ ان لوگوں کی گفتگو سننے پر مجبور تھے۔
کچھ حضرات گھر سے میلے تکیے لے کر آئے تھے اور باقاعدہ لمبی تان کر یعنی لیٹ کر مشاعرہ سماعت فرما رہے تھے، چھوٹے بچے اور ایسے بچے بھی کافی تعداد میں موجود تھے جو مسلسل مشاعرہ گاہ میں دوڑتے، بھاگتے، پھر رہے تھے۔ ہال اگرچہ خاصا وسیع ہے مگر پھر بھی کچھ گھٹن کا احساس ہوتا رہا اور ہم اس مشاعرے میں بیٹھے ان شاعروں کو چشم تصور سے دیکھتے رہے جو نیشنل اسٹیڈیم کے وسیع پارکنگ ایریا کی کھلی فضا میں ہوا کرتے تھے۔ اس زمانے میں ہر کام وقت پر پورے اہتمام کے ساتھ ہوتا تھا، کیونکہ ان کی تیاری کئی ماہ قبل شروع ہوجاتی تھی۔
مختلف کاموں کے لیے مختلف کمیٹیاں بنائی جاتی، ہر کمیٹی کا ایک نگراں اور اس کے ساتھ کام کرنے والے کئی افراد مقرر کیے جاتے، جس کمیٹی کا جو کام ہوتا وہ اس کو پوری ذمے داری اور خوش اسلوبی سے انجام دیتا مثلاً پنڈال کمیٹی، اسٹیج کمیٹی کے کام میں مداخلت کرتی نہ اسقبالیہ کمیٹی شعرا رابطہ کمیٹی کے معاملات پر اثر انداز ہوتی، البتہ اس زمانے میں بھی کچھ لوگوں کو شعرا کے ہمراہ تصویر بنوانے اور بلاوجہ بار بار اسٹیج پر آنے کا شوق ہوتا مگر ناگوار حد تک یہ پی آر شپ بھی بڑے مہذب طریقے کی جاتی تھی مگر اب جو شہر بلکہ ملک کا عالم وہی تمام تقاریب کی بھی صورت حال ہے، عجیب افراتفری اور ہلچل سی مچی رہتی ہے، نہ سننے والے شوق سے سنتے ہیں نہ پڑھنے والے سلیقے سے پڑھتے ہیں، تمام انداز ہی بدل کر رہ گئے ہیں۔
اسٹیج کی تزئین و آرائش، نظامت، شعرا کی پذیرائی ہی نہیں بلکہ ہوٹنگ تک اس قدر معیاری ہوتی کہ اگر سامعین ہوٹ کرنا شروع کردیں تو شاعر اسٹیج چھوڑنے پر مجبور ہوجاتا تھا۔ اتنی توجہ اور دلچسپی سے سامعین شعرا کو سنتے تھے، اب اس ذوق کا تصور بھی ممکن نہیں۔ مگر یہ بات بھی قابل تعریف و ستائش ہے کہ ساکنان شہر قائد کے ذمے داران ایسے حالات میں جب لوگ سوائے ضرورت کے گھر سے نکلتے ہوئے گھبراتے ہیں اپنی روایت کو بہرحال برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ساکنان شہر قائد کے مشاعرے کے بعد ہر سال ہی کئی اور ذیلی مشاعرے شہر میں ہوتے ہیں جن میں سادات امروہہ، کراچی کلب اور ایم کیو ایم کے مشاعرے خاص کر قابل ذکر ہیں۔
انتظام، تہذیبی روایات، نظم و ضبط کے علاوہ باذوق سامعین کے لحاظ سے ایم کیو ایم کا مشاعرہ واقعی مثالی تھا، جس نے ساکنان شہر قائد کے ماضی کے مشاعروں کی یاد تازہ کردی۔ پورے پنڈال اور اسٹیج کی تزئین و آرائش قابل دید تھی۔ تمام شعرا کو ایک صف میں بٹھایا گیا تھا، کلام پیش کرنے کے لیے اسٹیج کا ایک حصہ نیم دائرے کی شکل میں کافی آگے تک بنایاگیا تھا۔ ایم کیو ایم کا مشاعرہ اس سے قبل انو بھائی پارک میں منعقد ہوا کرتا تھا لیکن اس بار وسط شہر میں لال قلعہ گرائونڈ عزیزآباد میں ہوا۔ ہم تقریباً گیارہ بجے مشاعرہ گاہ پہنچے تو تقریباً پورا پنڈال بھر چکا تھا۔ بارہ بجے تک وہاں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، اس کے باوجود کسی قسم کی بدنظمی کا احساس تک نہ ہوا۔ پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں کے نمایندہ شعرا کے علاوہ مقامی شعرا کی بڑی تعداد مدعو تھی، اس کے علاوہ اکناف عالم میں کینیڈا، امریکا اور سعودی عرب سے بھی شعرا کو بلایا گیا تھا۔
پاکستانی شعرا کے بعد سب سے زیادہ تعداد بھارتی شعرا کی تھی۔ بھارتی شاعر و شاعرات اپنے کلام کے معیار سے زیادہ اپنے ترنم کے باعث لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ دونوں مشاعروں میں وقت اور شعرا کی تعداد کو دیکھتے ہوئے ناظمین مشاعرہ بار بار استدعا کرتے رہے کہ آپ خیال رکھیے کہ سب کو کلام پیش کرنے کا موقع مل سکے مگر مجال ہے کہ جو شاعر مائیک پر آجائے وہ از خود مختصر کلام سناکر واپس چلا جائے بمشکل یا تو سامعین کی ہوٹنگ یا ناظم کی شکر گزارانہ درخواست پر واپس جاتے۔ حیرت تو ہمیں شاعرات پر ہوئی کہ غلط تحت اللفظ اور ترنم میں اپنا پورا کلام سناکر ہی دم لیتیں۔ دوسری بات جو کوفت کا باعث بنی وہ ان شاعرات کے لباس کا انتخاب تھا، لگتا تھا کہ وہ کسی شادی یا ولیمے کی تقریب میں تشریف لائی ہیں۔ میری اپنی رائے میں یہ دونوں صورتیں نسوانی وقار کے منافی ہیں کہ ایسے بھڑکیلے اور جھلمل کرتے لباس پہن کر اپنے معمولی اشعار بے حد رومانوی انداز میں زبردستی سنائے جائیں، بہر حال اپنا اپنا خیال اور انداز فکر ہے۔
اس مشاعرے کے بارے میں اخبارات میں جو رپورٹس پڑھیں ان میں بتایا گیا تھا کہ بہت شاندار مشاعرہ تھا اور کراچی کے باذوق سامعین نے بھرپور انداز میں شعراء کی پذیرائی کی، جب کہ ہم اس موقع پر ساکنان شہر قائد کے ماضی میں ہونے والے عظیم الشان بے حد معیاری اور نظم و ضبط کے لحاظ سے ''اپنی مثال آپ'' مشاعروں کو یاد کرتے رہے۔ دعوت نامہ پر مشاعرے کے آغاز کا وقت 8 بجے شب دیا گیا تھا مگر ہم قصداً تقریباً بارہ بجے مشاعرہ گاہ پہنچے تاکہ اوپر کا جھاگ بیٹھ چکے اور ہم اصل شعرا کو آرام سے سن سکیں، مگر تادم آخر کوئی ایک ایسا شعر جو ذہن میں چپک کر رہ جائے یا جو بار بار زبان پر آکر ذوق کی تسکین کا باعث بنے سننے کو نہ ملا۔
چند بزرگ اور کچھ درمیانی نسل کے لوگ رہ گئے ہیں جو اپنے ذوق کی خاطر ان مشاعروں کو رونق بخش رہے ہیں، ایسے ہی کچھ باذوق سامعین اسٹیج کے سامنے فرشی نشست پر تشریف فرما تھے اور باقاعدہ برمحل داد سے شعرا کو نواز رہے تھے جب کہ پچھلی صفوں میں نوجوان لڑکے لڑکیاں گروہ بناکر دائرے کی شکل میں بیٹھے خوش گپیوں میں نہ صرف مشغول تھے بلکہ مسلسل کھانا پینا چلتا رہا، باآواز بلند گفتگو جاری رہی اور قہقہے لگائے جاتے رہے، ساتھ ہی ایک دوسرے کے کاندھوں پر سر رکھ کر کبھی کمر سے کمر ملاکر کبھی Side پوز بناکر تصویریں بنوائی جاتی رہیں۔ جہاں فرش کا اختتام ہوا اس کے فوراً بعد کرسیاں لگائی گئیں تھیں۔ ہم کرسیوں کی پہلی رو میں اپنی ساتھیوں کے ہمراہ بیٹھے تھے لہٰذا شعرا سے زیادہ ان لوگوں کی گفتگو سننے پر مجبور تھے۔
کچھ حضرات گھر سے میلے تکیے لے کر آئے تھے اور باقاعدہ لمبی تان کر یعنی لیٹ کر مشاعرہ سماعت فرما رہے تھے، چھوٹے بچے اور ایسے بچے بھی کافی تعداد میں موجود تھے جو مسلسل مشاعرہ گاہ میں دوڑتے، بھاگتے، پھر رہے تھے۔ ہال اگرچہ خاصا وسیع ہے مگر پھر بھی کچھ گھٹن کا احساس ہوتا رہا اور ہم اس مشاعرے میں بیٹھے ان شاعروں کو چشم تصور سے دیکھتے رہے جو نیشنل اسٹیڈیم کے وسیع پارکنگ ایریا کی کھلی فضا میں ہوا کرتے تھے۔ اس زمانے میں ہر کام وقت پر پورے اہتمام کے ساتھ ہوتا تھا، کیونکہ ان کی تیاری کئی ماہ قبل شروع ہوجاتی تھی۔
مختلف کاموں کے لیے مختلف کمیٹیاں بنائی جاتی، ہر کمیٹی کا ایک نگراں اور اس کے ساتھ کام کرنے والے کئی افراد مقرر کیے جاتے، جس کمیٹی کا جو کام ہوتا وہ اس کو پوری ذمے داری اور خوش اسلوبی سے انجام دیتا مثلاً پنڈال کمیٹی، اسٹیج کمیٹی کے کام میں مداخلت کرتی نہ اسقبالیہ کمیٹی شعرا رابطہ کمیٹی کے معاملات پر اثر انداز ہوتی، البتہ اس زمانے میں بھی کچھ لوگوں کو شعرا کے ہمراہ تصویر بنوانے اور بلاوجہ بار بار اسٹیج پر آنے کا شوق ہوتا مگر ناگوار حد تک یہ پی آر شپ بھی بڑے مہذب طریقے کی جاتی تھی مگر اب جو شہر بلکہ ملک کا عالم وہی تمام تقاریب کی بھی صورت حال ہے، عجیب افراتفری اور ہلچل سی مچی رہتی ہے، نہ سننے والے شوق سے سنتے ہیں نہ پڑھنے والے سلیقے سے پڑھتے ہیں، تمام انداز ہی بدل کر رہ گئے ہیں۔
اسٹیج کی تزئین و آرائش، نظامت، شعرا کی پذیرائی ہی نہیں بلکہ ہوٹنگ تک اس قدر معیاری ہوتی کہ اگر سامعین ہوٹ کرنا شروع کردیں تو شاعر اسٹیج چھوڑنے پر مجبور ہوجاتا تھا۔ اتنی توجہ اور دلچسپی سے سامعین شعرا کو سنتے تھے، اب اس ذوق کا تصور بھی ممکن نہیں۔ مگر یہ بات بھی قابل تعریف و ستائش ہے کہ ساکنان شہر قائد کے ذمے داران ایسے حالات میں جب لوگ سوائے ضرورت کے گھر سے نکلتے ہوئے گھبراتے ہیں اپنی روایت کو بہرحال برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ساکنان شہر قائد کے مشاعرے کے بعد ہر سال ہی کئی اور ذیلی مشاعرے شہر میں ہوتے ہیں جن میں سادات امروہہ، کراچی کلب اور ایم کیو ایم کے مشاعرے خاص کر قابل ذکر ہیں۔
انتظام، تہذیبی روایات، نظم و ضبط کے علاوہ باذوق سامعین کے لحاظ سے ایم کیو ایم کا مشاعرہ واقعی مثالی تھا، جس نے ساکنان شہر قائد کے ماضی کے مشاعروں کی یاد تازہ کردی۔ پورے پنڈال اور اسٹیج کی تزئین و آرائش قابل دید تھی۔ تمام شعرا کو ایک صف میں بٹھایا گیا تھا، کلام پیش کرنے کے لیے اسٹیج کا ایک حصہ نیم دائرے کی شکل میں کافی آگے تک بنایاگیا تھا۔ ایم کیو ایم کا مشاعرہ اس سے قبل انو بھائی پارک میں منعقد ہوا کرتا تھا لیکن اس بار وسط شہر میں لال قلعہ گرائونڈ عزیزآباد میں ہوا۔ ہم تقریباً گیارہ بجے مشاعرہ گاہ پہنچے تو تقریباً پورا پنڈال بھر چکا تھا۔ بارہ بجے تک وہاں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، اس کے باوجود کسی قسم کی بدنظمی کا احساس تک نہ ہوا۔ پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں کے نمایندہ شعرا کے علاوہ مقامی شعرا کی بڑی تعداد مدعو تھی، اس کے علاوہ اکناف عالم میں کینیڈا، امریکا اور سعودی عرب سے بھی شعرا کو بلایا گیا تھا۔
پاکستانی شعرا کے بعد سب سے زیادہ تعداد بھارتی شعرا کی تھی۔ بھارتی شاعر و شاعرات اپنے کلام کے معیار سے زیادہ اپنے ترنم کے باعث لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ دونوں مشاعروں میں وقت اور شعرا کی تعداد کو دیکھتے ہوئے ناظمین مشاعرہ بار بار استدعا کرتے رہے کہ آپ خیال رکھیے کہ سب کو کلام پیش کرنے کا موقع مل سکے مگر مجال ہے کہ جو شاعر مائیک پر آجائے وہ از خود مختصر کلام سناکر واپس چلا جائے بمشکل یا تو سامعین کی ہوٹنگ یا ناظم کی شکر گزارانہ درخواست پر واپس جاتے۔ حیرت تو ہمیں شاعرات پر ہوئی کہ غلط تحت اللفظ اور ترنم میں اپنا پورا کلام سناکر ہی دم لیتیں۔ دوسری بات جو کوفت کا باعث بنی وہ ان شاعرات کے لباس کا انتخاب تھا، لگتا تھا کہ وہ کسی شادی یا ولیمے کی تقریب میں تشریف لائی ہیں۔ میری اپنی رائے میں یہ دونوں صورتیں نسوانی وقار کے منافی ہیں کہ ایسے بھڑکیلے اور جھلمل کرتے لباس پہن کر اپنے معمولی اشعار بے حد رومانوی انداز میں زبردستی سنائے جائیں، بہر حال اپنا اپنا خیال اور انداز فکر ہے۔