ملکی یکجہتی میں مادری زبانوں کا کردار

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی رکن ماروی میمن نے مادری زبانوں کو قومی درجہ دینے کی تجویز پیش کردی ہے۔۔۔


مجاہد حسین April 10, 2014

LONDON: کائنات میں ہر جاندار کو زندگی گزارنے کے لیے دیگر سے تعلقات اور روابط استوار رکھنے کی ضرورت رہتی ہے۔ جہاں زبان یا بولی سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے یعنی بولی اظہار خیال کا موثر ذریعہ ہے۔ زبانوں کو ہم علاقائی یا مادری، قومی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ بعض زبانیں مشکل ہوتی ہیں لیکن ضرورت کے مطابق اسے استعمال میں لایا جاتا ہے جب کہ بعض زبانیں ہمارے لیے سہل ہوتی ہیں۔ دشوار یا مشکل زبانیں عموماً ہمارے ماحول سے مختلف ہوتی ہیں، مگر دوسرے ماحول سے تعلق رکھنے والوں سے باہمی رابطہ کار ہونے کا کردار ادا کرتی ہیں، اس کے برعکس سہل یا مقامی زبانیں روز مرہ رابطوں کی وجہ سے معاشرے میں تعلقات کو استوار کرتے ہوئے ضروریات اور اظہار کا واسطہ بنتی ہیں۔

جنوبی ایشیا کے جس خطے میں ہم رہتے ہیں یہاں قومی زبانوں کے علاوہ علاقائی زبانیں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ جیسے جیسے آپ یہاں سفر کرتے جاتے ہیں ہر علاقے کی زبان اور طرز زندگی کے ساتھ ساتھ رسم و رواج سمیت ثقافت، تغیر پذیر ہوتی جاتی ہے۔ ہر علاقے کی اہمیت کے اعتبار سے زبانیں بھی ارتقائی منازل طے کرنے کی الگ تاریخ رکھتی ہیں اور مخصوص تاریخی حالات اور تمدنی عوامل کی بنیاد پر زبانیں باہم اثر انداز ہوتی ہیں۔ زبانوں کو باقاعدہ بولنے اور لکھنے کی ابتدا قدیم یونان نے کی۔ عرب میں قصیدہ گوئی اور ہندوستان میں داستان گوئی کے باعث زبانوں نے ترویج حاصل کی۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو اپنی مادری زبان سے بے حد لگائو اور پیار ہے۔ اس کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ اس کی زبان کو ہر جگہ خصوصی مقام حاصل ہو۔ معاملات زندگی میں وہ زیادہ تر ہم زبانوں سے رابطے کو ترجیح دیتا ہے تاکہ اس کی ضروریات کا جلد حل ممکن ہو۔

قیام پاکستان کے بعد سب سے اہم مسئلہ ایک ایسی زبان کو ملک میں مقرر کرنا تھا جس سے مشرقی و مغربی پاکستان کے لوگ باہم رابطوں میں رہیں کیوں کہ مشرقی پاکستان میں بنگلہ زبان بولنے والوں کی اکثریت تھی جب کہ مغربی پاکستان میں سندھی، پنجابی، سرائیکی، بلوچی اور پشتو سمیت کئی علاقائی زبانیں بولی جاتی تھیں۔ ایسے میں باہمی مشاورت سے اردو زبان کو قومی رابطہ زبان قرار دیا گیا۔ اردو زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے میں ایک پس منظر بھی تھا کہ ملک کے دونوں حصوں میں رہنے والے افراد ہندی زبان سے بخوبی واقف تھے۔ گو کہ اردو اور ہندی زبان کے رسم الخط میں فرق ہے لیکن بولنے میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے کسی بھی قوم سے تعلق رکھنے والے، کسی فرد نے اختلاف نہ کیا البتہ اردو زبان کو پاکستان میں قومی حیثیت دینے پر جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ اردو دراصل سر زمین ہند میں پیدا ہوئی ہے لہٰذا اسے مسلمانوں کی قومی زبان قرار دینا معنی خیز ہے۔

کچھ عرصے سے پاکستان میں تعصب اور قوم پرستی نے اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کردی ہیں اور ملک کے چاروں صوبوں میں مادری زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے کے لیے باقاعدہ طور پر تحریکیں چل رہی ہیں۔ علاوہ ازیں تعلیمی نصاب کو مادری زبان میں رائج کرنے کے مطالبات بھی زور پکڑ چکے ہیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد پہلے پہل عربی، فارسی اور انگریزی زبان کو بحیثیت مضمون پڑھایا جاتا تھا بعد ازاں ہم نے سندھ میں سندھی زبان کو نصابی مضمون دیکھا۔ خیال رہے کہ یہیں سے تعصب کی آگ کو ایندھن کی فراہمی ہوئی جس نے صوبہ بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جہاں موجودہ صوبائی حکومت نے نصاب کو پشتو زبان میں رائج کرنے کے لیے صوبائی اسمبلی میں قرارداد کے ذریعے منظور کرواکر صوبے میں مقام دلوادیا ہے۔ ایک جانب پشتون حلقوں میں اس حوالے سے خوشی پائی جاتی ہے لیکن دوسری طرف بلوچ قوم میں واویلا مچ گیا ہے، ایک ایسے وقت میں جب پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے، حکومت میں شامل بعض جماعتیں مادری زبان کی بقا اور اسے قومی درجہ دینے کی جنگ میں مصروف ہیں، جب کہ ملک میں موجود ماہرین لسانیات کی اکثریت اس کے خلاف ہے۔

دوسری جانب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی رکن ماروی میمن نے مادری زبانوں کو قومی درجہ دینے کی تجویز پیش کردی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہماری کوشش کسی زبان کو بچانا نہیں ہے بلکہ یہ ملک کو یکجا کرنے کی جدوجہد ہے کیوں کہ زبان سے زیادہ کوئی اور شے اہم نہیں جو خطے کو سیاسی طور پر اکٹھا کرنے کی صلاحیت ہو۔ قائمہ کمیٹی کی تجویز کے مطابق ملک میں بولی جانے والی ایک سے زائد زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلے ایک کمیشن قائم کیا جائے گا جس کا کام ان مادری زبانوں کا انتخاب کرنا ہوگا جو اس معیار پر پوری اترتی ہوں۔ پھر پالیسی مرتب کرکے اس کے بنیادی نقاط طے کیے جائیں گے۔ ماروی میمن کہتی ہیں کہ ہم ایسی زبانیں منتخب کریںگے جو عالمی معیار کے مطابق ہوں جنھیں سائنسی بنیادوں پر درجہ دینے میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

اطلاعات ہیں کہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے اس سلسلے میں ماہرین لسانیات سے رابطے کرنے کے بعد سات مادری زبانیں قومی زبانوں کے درجہ دینے کے لیے منتخب کرلی ہیں۔ ان میں اشنا، کشمیری، پہاڑی، پشتو، سرائیکی، سندھی اور پنجابی شامل ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں پچاس کے قریب علاقائی یا مادری زبانیں مختلف علاقوں میں بولی جاتی ہیں۔ ان میں بعض زبانیں ایسی ہیں جن کے معدوم ہونے کا خدشہ ہے لیکن ایک غلط تاثر پایا جارہا ہے کہ انھیں زندہ رکھنے کے لیے قومی درجہ دیا جائے اور ملک کی سطح پر رابطہ زبان مقرر کیا جائے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں لسانیات کے پروفیسر ڈاکٹر عطش درانی بھی مادری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک میں کوئی زبان ایسی نہیں جسے ملک میں رابطے کے لیے آسان اور موثر سمجھا جائے۔ کسی بھی زبان کے بولنے والوں کو اس زبان سے معاشی یا اقتصادی فائدے کے امکانات کے بغیر قومی درجہ نہ دیا جائے۔

ہم مادری زبانوں کی ترقی کے خلاف نہیں اور نہ ہی انھیں نئی روح دینے کی مخالفت کرتے ہیں۔ کیوں کہ یہی زبانیں ہیں جن کی وجہ سے پاکستان شاد آباد اور ثقافتی اقدار کے باعث دنیا بھر میں پہچانا جاتاہے۔ ہر زبان تاریخی و ثقافتی ورثہ رکھتی ہے اور ان میں ادب کی مختلف اصناف بھی پائی جاتی ہے۔ جو قدیم زبانوں کو زندہ رکھنے کے لیے بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ شعبہ تعلیم میں کئی ایسے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں اور ادبی حلقوں میں لوک ورثے کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ پورے کا پورا نصاب مادری زبانوں میں مرتب کرنا نہ صرف ملکی معاملات بلکہ بین الاقوامی ضروریات کے لیے قطعی مفید نہیں۔ حکومت اور سیاسی جماعتوں کو سب سے پہلے تمام علاقائی زبانوں کے ادب کو یکجا کرنا چاہیے پھر اسے عوام میں روشناس کروایا جائے تاکہ اس کی ثقافت کو ترویج اور فروغ حاصل ہو۔ بصورت دیگر ایک ملک میں مختلف مادری زبانوں کو قومی قرار دینے سے تعصبات کی فضا قائم ہوجائے گی جس کا وطن عزیز متحمل نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں