معیشت میں نئی روح پھونکی جائے
ایک کھرب 70 ارب روپے کے منی بجٹ کے تحت نئے ٹیکسز نافذ کرنا شروع کر دیے ہیں
وفاقی حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ طے شدہ ایک کھرب 70 ارب روپے کے منی بجٹ کے تحت نئے ٹیکسز نافذ کرنا شروع کر دیے ہیں۔
ایف بی آر نے جی ایس ٹی کی شرح 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کر دی ہے، اسی طرح جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے بڑھ کر 18 فیصد کر دی گئی ہے جب کہ منی بجٹ کے لیے حکومت نے سیکڑوں پُر تعیش اشیاء پر 25 فیصد جی ایس ٹی لگانے کی بھی منظوری دے دی ہے۔
کسی بھی حکومت کا عوام کی توقعات پر پورا اُترنا آسان نہیں ہوتا ، بالخصوص ایسے حالات میں جب کہ قرض حاصل کرنے کے لیے عالمی معاہدوں کے تحت حکومتی آمدنی کے ذرایع بصورت محصولات میں اضافے جیسی شرائط تسلیم کر لی گئی ہوں۔
بد قسمتی سے ہر حکومت اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کچھ عرصہ بعد بنیادی ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمت میں اضافہ کرنے سے پہلے ایک رٹا رٹایا جملہ '' معیشت کی بحالی کے لیے ہمیں یہ سخت فیصلہ کرنا پڑ رہا ہے ''دہرا کر مہنگائی کی ایک اینٹ اور رکھ دیتی ہے۔
کبھی کسی حکومت نے یہ نہیں سوچا کہ روزمرہ ضرورت کی اشیاء کی قیمتیں یوں بڑھا کر معیشت بہتر نہیں ہوتی۔ہمارا ٹیکس کا نظام غریبوں پر بوجھ امیروں سے زیادہ ڈالتا ہے۔
تقریباً 80 فیصد سے زیادہ ٹیکس وصولی متوسط اور غریب طبقے سے بجلی، گیس ، ٹیلی فون، پٹرول اور عام استعمال کی دیگر اشیاء پر عائد ایکسائز ڈیوٹی اور جی ایس ٹی کے ذریعے کی جاتی ہے جب کہ امیر ترین طبقے سے صرف 5 فیصد ٹیکس وصولی ہوتی ہے ، چنانچہ اس غیر منصفانہ ٹیکس نظام میں ازسر نو اصلاحات کر کے غربت میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
ملک میں اقتصادی اور معاشی عدمِ استحکام نے ایک بحران کی شکل اختیار کرلی ہے، جس سے عوام میں فکری انتشار کی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف ایک دوسرے کو اس صورت حال کا ذمے دار قرار دے رہے ہیں۔
معاشی زبوں حالی کو اقتدار میں آنے کے لیے استعمال کرنا انتہائی خطرناک ہوگا۔ آئی ایم ایف کے معاملے میں بھی اپوزیشن نے یہی کوشش کی کہ یہ پروگرام کسی طرح معطل ہوجائے، یہ سوچے بغیر کہ اِس سے مُلک کو کس قدر نقصان ہو سکتا ہے ،اور اب ، جب آئی ایم ایف معاہدہ تقریبا طے پانے والاہے، توپنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں توڑ کر سیاسی بحران کو مزید پیچیدہ کردیا گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح سیاست مُلکی معیشت سے زیادہ عزیز بنائی جاتی ہے۔
یہ اندازِ سیاست صرف سیاسی جماعتوں کی ناکامی نہیں ، بلکہ ریاست کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔ تمام ملکی ادارے چاہے عدلیہ ہو،فوج ہو، بیوروکریسی ہو، یا کوئی اور، اپنے اندر سے افتراق، انتشار، گروپ بندی یا اپنی پسند اور ناپسند کو ختم کریں۔
اس سے پورا ملکی ڈھانچہ ہل کر رہ گیا ہے، جیسا کہ آج کی فضا میں ہر عام و خاص کی زبان پر یہ موجود ہے، کوئی کہتا ہے فلاں پارٹی کو فلاں ادارے کی سپورٹ ہے، فلاں فلاں ججز فلاں فلاں پارٹی کے حق میں فیصلے دیتے ہیں، اس طرح کی سوچ ملکی اداروں سے عوام کے اعتماد کو متزلزل کردیتی ہے، اس سوچ کا جتنا جلد ہوسکے خاتمہ ہونا چاہیے۔
سوال یہ ہے کہقدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اس ملک کے حکمرانوں نے کشکول کیوں ہاتھ میں پکڑا ؟ اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ حکمران طبقے کو جو مراعات و سہولیات میسر ہیں اور جس قسم کی وہ پر آسائش زندگی گزار رہا ہے، وہ تمام کا تمام عوام کے ٹیکسوں کی رقم کی بدولت ہی ہے۔
ہوا یہ کہ جب حکمران طبقے کو ٹیکسوں سے ان سہولیات اور مراعات کے لیے مطلوبہ رقم نہ ملی تو وہ مقامی اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینے لگا ، تاکہ حکومتی اخراجات پورے ہوسکیں۔ عوام کی فلاح اور بہبود کے نام پر لی گئی امداد اور قرض کو '' اوپر کی آمدنی '' سمجھ کر حکمران طبقہ پھلنے اور پھولنے لگا۔ اس نے خود کو مراعات یافتہ بنا لیا اور اپنے آپ کو اَن گنت سہولیات دے ڈالیں۔
آج یہ عالم ہے کہ سرکاری خزانے سے لاکھوں روپے ماہانہ لینے والیسرکاری افسر ، ججز، وزرا، مشیران اور ارکان پارلیمنٹ وغیرہ کو مفت پٹرول ، بجلی ، گیس، رہائش، سیکیورٹی اور فضائی ٹکٹ وغیرہ ملتا ہے۔
وہ مختلف قسم کی مراعات و سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں، جب کہ پچیس ہزار روپے کمانے والا ایک عام پاکستانی ہر قسم کا ٹیکس ادا کرتا ہے لیکن اسے علاج کی سہولت ہے نہ اس کے بچوں کو تعلیم کی سہولت حاصل ہے، اس کہیں سے سبسڈائز کھانا نہیں ملتا،کوئی سفری سہولت حاصل نہیں ہے۔
ٹالسٹائی نے کہا تھا کہ غربت کی بڑی وجہ معاشرے میں چند لوگوں کو عطا کردہ ناجائز مراعات ہوتی ہیں ورنہ ہر شخص جائز طریقہ سے اپنے جینے کا بندوبست کر سکتا ہے، لیکن مراعات زدہ معاشرے میں ایسا نہیں ہونے دیا جاتا ، تاکہ بے روزگاری بڑھے، لوگ خوشحال نہ ہو سکیں ، سرمایہ داروں، جاگیر داروں،قبائلی سرداروں،مذہبی اجارہ داروں کو سستے داموں مزدور اور خدمت گار میسر ہوں۔
ایک حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ پاکستان میں متمول طبقہ اپنی آمدن کا 20 سے 30 فیصد اپنی خوراک پر خرچ کرتا ہے جب کہ نچلے متوسط اور غریب طبقے کے لوگ جو ملک کا ستر سے اسی فیصد ہیں ، اپنی آمدن کا 70سے 80 فیصد حصہ خوراک پر صرف کرتے ہیں۔
اس سے اندازہ لگانے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہیے کہ ملک کاکثیر طبقہ اپنی آمدن کا صرف 20 سے 30 فیصد حصہ تعلیم صحت، رہائش، ٹرانسپورٹ اور دیگر بے شمار اخراجات میں کیسے پورا کرتا ہو گا؟ پاکستان میں غربت کی ایک وجہ بدعنوانی بھی ہے۔ لوگ منصفانہ اور غیر منصفانہ طریقے استعمال کرکے جائز اور ناجائز طریقے سے پیسہ کمانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کو کیسے بچایا جائے ؟اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جن پاکستانیوں کے بیرونِ ملک کاروبار ، جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹس ہیں ، انھیں اپنے کاروبار اور دولت پاکستان میں لانے پر تیار کیا جائے ۔
بینکوں سے بھاری قرضے لینے اور پھر انھیںاثر ورسوخ کی بنیاد پر معاف کرانے کی داستان بڑی طویل ہے۔سرکاری قرضوں کی وصولی کو یقینی بنایا جائے، آج تک جن کاروباری گروپوںنے سرکاری قرضے حیلے بہانوں سے معاف کرائے ہیں اور آج وہ قرضے واپس کرنے کی پوزیشن میں ہیں تو ان تمام گروپوں سے وہ رقوم سود سمیت واپس لی جائیں۔
ماہرین معاشیات کی رائے میں غربت کا خاتمہ تب ممکن ہے جب روزگار کے نئے مواقعے پیدا ہوںگے، عوام کو زیادہ مالی وسائل دستیاب ہوںگے اور افراط زر کی شرح قابو میں رہے گی۔ کون نہیں جانتا کہ غربت کا تعلق آمدن سے ہے اور غربت کے خاتمے کے لیے زیادہ آمدن کا ہونا بنیادی شرط ہے۔
زیادہ آمدن تبھی ممکن ہے جب ملک میں نئے کارخانے لگیں گے، معاشی پالیسیاں درست اور ہر طبقہ فکر کے لیے قابل قبول ہوںگی ، چونکہ ہمارا ملک ، زرعی ملک ہے اور زراعت کی ترقی پانی کے بغیر ممکن نہیں، اس لیے پانی کے ذخیرہ کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈیموں کا ہونا بہت ضروری ہے اور ساتھ ہی زرعی پیداوار کی ترقی اور منڈیوں تک اس کا با حفاظت پہنچانے کا خاطر خواہ انتظام ہونا بہت ضروری ہے، اس سے جہاں روزگار میں اضافہ ہوگا ، وہاں مہنگائی بھی ختم ہوجائے گی۔
قیامِ پاکستان سے اب تک حکمرانی کا مسئلہ ہی واضح اور مستند قومی حکمت عملی کا فقدان رہا ہے ۔ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ پاکستان میںکتنے ارب پتی ایسے ہیں جو آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو ٹیکنالوجی یا آئی ٹی کے میدان میں کام کرکے ارب پتی بنا ہو۔ اس کے برعکس ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں نو ایسے افراد ہیں۔
جنہوں نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرکے اربوں ڈالر بنائے ہیں اور اُن میں سے ایک شخص کی نیٹ ورتھ اس وقت پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ یہ لوگ سرکاری عہدوں کے طفیل راتوں رات ارب پتی نہیں بنے ہیں، اس کے پیچھے برسوں کی محنت، تعلیم، سرمایہ کاری، ہنر اور افرادی قوت شامل ہے۔
کیا ہم نے کبھی یہ بھی سوچا ہے ہمارا وطن عزیز قدرت کی کتنی بڑی نعمت ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن کتنے دکھ کی بات ہے کہ روایتی کاہلی، باہمی رنجشوں اور عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں کے سبب ہم نے اپنی اربوں ڈالر کی معدنیات اور دیگر بیش قیمت قدرتی وسائل کو پس پشت ڈال رکھا۔
قدرت بھی ہم پر ہنستی ہو گی کہ یہ بھی کیا قوم ہے جو میرے عطا کردہ خزانوں سے مالا مال ہے لیکن اپنی ہوس زراور جاہلیت کے سبب دنیا کی غریب ترین اقوام میں شامل ہے۔
ایف بی آر نے جی ایس ٹی کی شرح 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کر دی ہے، اسی طرح جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے بڑھ کر 18 فیصد کر دی گئی ہے جب کہ منی بجٹ کے لیے حکومت نے سیکڑوں پُر تعیش اشیاء پر 25 فیصد جی ایس ٹی لگانے کی بھی منظوری دے دی ہے۔
کسی بھی حکومت کا عوام کی توقعات پر پورا اُترنا آسان نہیں ہوتا ، بالخصوص ایسے حالات میں جب کہ قرض حاصل کرنے کے لیے عالمی معاہدوں کے تحت حکومتی آمدنی کے ذرایع بصورت محصولات میں اضافے جیسی شرائط تسلیم کر لی گئی ہوں۔
بد قسمتی سے ہر حکومت اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کچھ عرصہ بعد بنیادی ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمت میں اضافہ کرنے سے پہلے ایک رٹا رٹایا جملہ '' معیشت کی بحالی کے لیے ہمیں یہ سخت فیصلہ کرنا پڑ رہا ہے ''دہرا کر مہنگائی کی ایک اینٹ اور رکھ دیتی ہے۔
کبھی کسی حکومت نے یہ نہیں سوچا کہ روزمرہ ضرورت کی اشیاء کی قیمتیں یوں بڑھا کر معیشت بہتر نہیں ہوتی۔ہمارا ٹیکس کا نظام غریبوں پر بوجھ امیروں سے زیادہ ڈالتا ہے۔
تقریباً 80 فیصد سے زیادہ ٹیکس وصولی متوسط اور غریب طبقے سے بجلی، گیس ، ٹیلی فون، پٹرول اور عام استعمال کی دیگر اشیاء پر عائد ایکسائز ڈیوٹی اور جی ایس ٹی کے ذریعے کی جاتی ہے جب کہ امیر ترین طبقے سے صرف 5 فیصد ٹیکس وصولی ہوتی ہے ، چنانچہ اس غیر منصفانہ ٹیکس نظام میں ازسر نو اصلاحات کر کے غربت میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
ملک میں اقتصادی اور معاشی عدمِ استحکام نے ایک بحران کی شکل اختیار کرلی ہے، جس سے عوام میں فکری انتشار کی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف ایک دوسرے کو اس صورت حال کا ذمے دار قرار دے رہے ہیں۔
معاشی زبوں حالی کو اقتدار میں آنے کے لیے استعمال کرنا انتہائی خطرناک ہوگا۔ آئی ایم ایف کے معاملے میں بھی اپوزیشن نے یہی کوشش کی کہ یہ پروگرام کسی طرح معطل ہوجائے، یہ سوچے بغیر کہ اِس سے مُلک کو کس قدر نقصان ہو سکتا ہے ،اور اب ، جب آئی ایم ایف معاہدہ تقریبا طے پانے والاہے، توپنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں توڑ کر سیاسی بحران کو مزید پیچیدہ کردیا گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح سیاست مُلکی معیشت سے زیادہ عزیز بنائی جاتی ہے۔
یہ اندازِ سیاست صرف سیاسی جماعتوں کی ناکامی نہیں ، بلکہ ریاست کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔ تمام ملکی ادارے چاہے عدلیہ ہو،فوج ہو، بیوروکریسی ہو، یا کوئی اور، اپنے اندر سے افتراق، انتشار، گروپ بندی یا اپنی پسند اور ناپسند کو ختم کریں۔
اس سے پورا ملکی ڈھانچہ ہل کر رہ گیا ہے، جیسا کہ آج کی فضا میں ہر عام و خاص کی زبان پر یہ موجود ہے، کوئی کہتا ہے فلاں پارٹی کو فلاں ادارے کی سپورٹ ہے، فلاں فلاں ججز فلاں فلاں پارٹی کے حق میں فیصلے دیتے ہیں، اس طرح کی سوچ ملکی اداروں سے عوام کے اعتماد کو متزلزل کردیتی ہے، اس سوچ کا جتنا جلد ہوسکے خاتمہ ہونا چاہیے۔
سوال یہ ہے کہقدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اس ملک کے حکمرانوں نے کشکول کیوں ہاتھ میں پکڑا ؟ اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ حکمران طبقے کو جو مراعات و سہولیات میسر ہیں اور جس قسم کی وہ پر آسائش زندگی گزار رہا ہے، وہ تمام کا تمام عوام کے ٹیکسوں کی رقم کی بدولت ہی ہے۔
ہوا یہ کہ جب حکمران طبقے کو ٹیکسوں سے ان سہولیات اور مراعات کے لیے مطلوبہ رقم نہ ملی تو وہ مقامی اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینے لگا ، تاکہ حکومتی اخراجات پورے ہوسکیں۔ عوام کی فلاح اور بہبود کے نام پر لی گئی امداد اور قرض کو '' اوپر کی آمدنی '' سمجھ کر حکمران طبقہ پھلنے اور پھولنے لگا۔ اس نے خود کو مراعات یافتہ بنا لیا اور اپنے آپ کو اَن گنت سہولیات دے ڈالیں۔
آج یہ عالم ہے کہ سرکاری خزانے سے لاکھوں روپے ماہانہ لینے والیسرکاری افسر ، ججز، وزرا، مشیران اور ارکان پارلیمنٹ وغیرہ کو مفت پٹرول ، بجلی ، گیس، رہائش، سیکیورٹی اور فضائی ٹکٹ وغیرہ ملتا ہے۔
وہ مختلف قسم کی مراعات و سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں، جب کہ پچیس ہزار روپے کمانے والا ایک عام پاکستانی ہر قسم کا ٹیکس ادا کرتا ہے لیکن اسے علاج کی سہولت ہے نہ اس کے بچوں کو تعلیم کی سہولت حاصل ہے، اس کہیں سے سبسڈائز کھانا نہیں ملتا،کوئی سفری سہولت حاصل نہیں ہے۔
ٹالسٹائی نے کہا تھا کہ غربت کی بڑی وجہ معاشرے میں چند لوگوں کو عطا کردہ ناجائز مراعات ہوتی ہیں ورنہ ہر شخص جائز طریقہ سے اپنے جینے کا بندوبست کر سکتا ہے، لیکن مراعات زدہ معاشرے میں ایسا نہیں ہونے دیا جاتا ، تاکہ بے روزگاری بڑھے، لوگ خوشحال نہ ہو سکیں ، سرمایہ داروں، جاگیر داروں،قبائلی سرداروں،مذہبی اجارہ داروں کو سستے داموں مزدور اور خدمت گار میسر ہوں۔
ایک حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ پاکستان میں متمول طبقہ اپنی آمدن کا 20 سے 30 فیصد اپنی خوراک پر خرچ کرتا ہے جب کہ نچلے متوسط اور غریب طبقے کے لوگ جو ملک کا ستر سے اسی فیصد ہیں ، اپنی آمدن کا 70سے 80 فیصد حصہ خوراک پر صرف کرتے ہیں۔
اس سے اندازہ لگانے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہیے کہ ملک کاکثیر طبقہ اپنی آمدن کا صرف 20 سے 30 فیصد حصہ تعلیم صحت، رہائش، ٹرانسپورٹ اور دیگر بے شمار اخراجات میں کیسے پورا کرتا ہو گا؟ پاکستان میں غربت کی ایک وجہ بدعنوانی بھی ہے۔ لوگ منصفانہ اور غیر منصفانہ طریقے استعمال کرکے جائز اور ناجائز طریقے سے پیسہ کمانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کو کیسے بچایا جائے ؟اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جن پاکستانیوں کے بیرونِ ملک کاروبار ، جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹس ہیں ، انھیں اپنے کاروبار اور دولت پاکستان میں لانے پر تیار کیا جائے ۔
بینکوں سے بھاری قرضے لینے اور پھر انھیںاثر ورسوخ کی بنیاد پر معاف کرانے کی داستان بڑی طویل ہے۔سرکاری قرضوں کی وصولی کو یقینی بنایا جائے، آج تک جن کاروباری گروپوںنے سرکاری قرضے حیلے بہانوں سے معاف کرائے ہیں اور آج وہ قرضے واپس کرنے کی پوزیشن میں ہیں تو ان تمام گروپوں سے وہ رقوم سود سمیت واپس لی جائیں۔
ماہرین معاشیات کی رائے میں غربت کا خاتمہ تب ممکن ہے جب روزگار کے نئے مواقعے پیدا ہوںگے، عوام کو زیادہ مالی وسائل دستیاب ہوںگے اور افراط زر کی شرح قابو میں رہے گی۔ کون نہیں جانتا کہ غربت کا تعلق آمدن سے ہے اور غربت کے خاتمے کے لیے زیادہ آمدن کا ہونا بنیادی شرط ہے۔
زیادہ آمدن تبھی ممکن ہے جب ملک میں نئے کارخانے لگیں گے، معاشی پالیسیاں درست اور ہر طبقہ فکر کے لیے قابل قبول ہوںگی ، چونکہ ہمارا ملک ، زرعی ملک ہے اور زراعت کی ترقی پانی کے بغیر ممکن نہیں، اس لیے پانی کے ذخیرہ کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈیموں کا ہونا بہت ضروری ہے اور ساتھ ہی زرعی پیداوار کی ترقی اور منڈیوں تک اس کا با حفاظت پہنچانے کا خاطر خواہ انتظام ہونا بہت ضروری ہے، اس سے جہاں روزگار میں اضافہ ہوگا ، وہاں مہنگائی بھی ختم ہوجائے گی۔
قیامِ پاکستان سے اب تک حکمرانی کا مسئلہ ہی واضح اور مستند قومی حکمت عملی کا فقدان رہا ہے ۔ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ پاکستان میںکتنے ارب پتی ایسے ہیں جو آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو ٹیکنالوجی یا آئی ٹی کے میدان میں کام کرکے ارب پتی بنا ہو۔ اس کے برعکس ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں نو ایسے افراد ہیں۔
جنہوں نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرکے اربوں ڈالر بنائے ہیں اور اُن میں سے ایک شخص کی نیٹ ورتھ اس وقت پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ یہ لوگ سرکاری عہدوں کے طفیل راتوں رات ارب پتی نہیں بنے ہیں، اس کے پیچھے برسوں کی محنت، تعلیم، سرمایہ کاری، ہنر اور افرادی قوت شامل ہے۔
کیا ہم نے کبھی یہ بھی سوچا ہے ہمارا وطن عزیز قدرت کی کتنی بڑی نعمت ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن کتنے دکھ کی بات ہے کہ روایتی کاہلی، باہمی رنجشوں اور عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں کے سبب ہم نے اپنی اربوں ڈالر کی معدنیات اور دیگر بیش قیمت قدرتی وسائل کو پس پشت ڈال رکھا۔
قدرت بھی ہم پر ہنستی ہو گی کہ یہ بھی کیا قوم ہے جو میرے عطا کردہ خزانوں سے مالا مال ہے لیکن اپنی ہوس زراور جاہلیت کے سبب دنیا کی غریب ترین اقوام میں شامل ہے۔