آدھا سامان جیل میں ہی چھوڑ کر جارہا ہوں ہوسکتا ہے دوبارہ آؤں شیخ رشید

عدالتی حکم پر شیخ رشید احمد کو اڈیالہ جیل سے ضمانت پر رہا کردیا گیا، اڈیالہ کے باہر شیخ رشید کی میڈیا سے گفتگو

(فوٹو فائل)

اڈیالہ سے رہائی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ میں اپنا آدھا سامان جیل میں ہی چھوڑ کر جارہا ہوں، ممکن ہے دوبارہ آنا پڑے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر آصف زرداری پر عمران خان کے مبینہ قتل کی سازش کے الزام کے کیس میں شیخ رشید کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا، جس پر عمل کرتے ہوئے جیل انتظامیہ نے روبکار جاری ہونے کے بعد شیخ رشید کو رہا کردیا۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کی رہائی کے وقت اڈیالہ جیل کے باہر کارکنان موجود تھے جنہوں نے شیخ رشید کا نعروں اور گُل پاشی کے ساتھ استقبال کیا۔

شیخ رشید کی اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد میڈیا سے گفتگو

شیخ رشید احمد نے کہا کہ 15 دن سسرال میں رہ کرآیا ہوں، میں گھبرانے والا نہیں، ساڑھے 7 سال قید بھی یہی سزا کاٹی ہے، راولپنڈی نسلی اور اصلی لوگوں کا شہر ہے، آدھا سامان جیل چھوڑ آیا ہوں ہوسکتا ہے دوبارہ آؤں۔

انہوں نے کہا کہ مریم کہتی ہے شہباز کی حکومت میری نہیں ہے، شہباز شریف رات کے کام چھوڑ دو۔ شیخ رشید نے کہا کہ اللہ کے بعد اس ملک کو صرف عدلیہ اور انتخابات ہی بچا سکتے ہیں، میں تمام ججز کو سلام پیش کرتا ہوں۔ جنہوں نے ضمانت دی ان کو جانتا نہیں۔

 

شیخ رشید نے کہا کہ ہم نے یحیی خان، بھٹو اور نواز شریف کو گرایا، دو دن اور دو راتیں میرے اوپر بھاری تھیں لیکن میں ان کو معاف کرتا ہوں، میرے گھر میں ڈکیتی ماری گئی، جو لوگ میرے گھر سے سامان لے کر گئے واپس پہنچا دیں، کل دوپہر کو لال حویلی کے باہر اہم خطاب کروں گا۔

سماعت کا احوال


قبل ازیں جسٹس محسن اختر کیانی نے شیخ رشید کی جانب سے دائر درخواست پر دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے 50 ہزار روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم بھی جاری کیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی کے روبرو سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی درخواست ضمانت پر سماعت کا آغاز ہوا تو وکیل سلمان اکرم راجا روسٹرم پر آ گئے۔ اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر خان جدون، ایس ایچ او آبپارہ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج صاحب نے ایک الزام کی بنا پر ضمانت خارج کی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ الزام کیا لگایا گیا ہے، جس پر وکیل نے بتایا کہ نیوز چینل پر ایک بیان دکھایا گیا جس کی بنا پر مقدمہ درج کیا گیا ۔ وکیل سلمان اکرم راجا نے عدالت میں ایف آئی آر پڑھ کر سنائی اور عدالت کو بتایا کہ شیخ رشید پر تھانہ آبپارہ میں مقدمہ درج ہے اور شیخ رشید اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں قید ہیں۔

وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے استفسار کیا کہ دورانِ تفتیش آپ کو کیا معلومات ملی ہیں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ شیخ رشید اپنے بیان سے انکاری نہیں ہیں، اب بھی وہ بیان دہرا رہے ہیں۔ 8 مرتبہ رکن قومی اسمبلی بنے لیکن ایسے بیانات کی ان سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ آپ ایسے بیانات دے دیتے ہیں تو اس کی کچھ حدود و قیود ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت میں کہا کہ ''آپ کہہ رہے ہیں میں سینئر ہُوں اور کہہ رہے ہیں آصف زرداری نے دہشت گردوں کی خدمات حاصل کر لیں''۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ سب لوگ پارلیمانی زبان ہی استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔جو حکومت میں ہوتا ہے وہ اور زبان ہوتی ہے، اپوزیشن میں زبان بدل جاتی ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ شیخ رشید نے وزیر داخلہ اور بلاول کو گالیاں دی ہیں جو الفاظ عدالت کے سامنے دہرا نہیں سکتا جبکہ شیخ رشید اپنے متنازع الفاظ بار بار دہرا رہے ہیں۔ آزادی اظہار رائے کا حق ہے لیکن اس کی کچھ حدود و قیود ہوتی ہیں۔

شیخ رشید کے وکیل نے کہا کہ اس میں کوئی ایسا امکان نہیں کہ یہ بیان دہرایا جائے، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اگر تو یہ جرم نہیں دہراتے اور انڈرٹیکنگ دیتے ہیں تو عدالت دیکھ لے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ہمیں پرائمری اسکول کے نصاب ہی سے تربیت شروع کرنی پڑے گی۔

عدالت نے دلائل سننے کے بعد شیخ رشید کی درخواست ضمانت کے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، جسے جسٹس محسن اختر کیانی نے بعد ازاں جاری کرتے ہوئے شیخ رشید کو ضمانتی مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ شیخ رشید پر اسلام آباد کے تھانہ آبپارہ میں مقدمہ درج ہے اور شیخ رشید اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں قید ہیں۔
Load Next Story