کلام غالب میں تلمیحات کا استعمال

غالب نے بہت زیادہ تلمیحات استعمال کی ہیں اور وہ سب ایسی ہیں جنہیں عام پڑھا لکھا آدمی بھی سمجھ سکے


Raees Fatima February 17, 2023
[email protected]

غالب 27 دسمبر 1797 میں آگرہ میں پیدا ہوئے، اور 15 فروری1869 میں دہلی میں وفات پائی، تلمیحات کا استعمال بہت سے شعرا نے اپنے کلام میں کہا ہے جن میں سرفہرست غالب ہیں۔

ان کے علاوہ میر انیس، اقبال اور فیض نے بھی کہا ہے، تلمیح کے لیے مطالعہ ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور کے شعرا کے ہاں تلمیحات اب نہیں ملتیں، تلمیح کے پیچھے کوئی مذہبی سیاسی یا تاریخی واقعے کا ہونا ضروری ہے، تلمیح اور استعارہ دراصل کفایت لفظی کے ذیل میں آتا ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کو تلمیح کہا جاتا ہے۔

غالب نے بہت زیادہ تلمیحات استعمال کی ہیں اور وہ سب ایسی ہیں جن سے عام پڑھا لکھا آدمی بھی سمجھ سکے، جیسے نمرود کی خدائی، بڑے افلاطون بنے پھرتے ہو، تم تو بالکل فرعون ہوگئے ہو، یہ کیا یوسف زلیخا لے کر بیٹھ گئے۔

فلاں تو مقدر کا سکندر ہے، یہ تانا شاہی نہیں چلے گی، وغیرہ وغیرہ۔ یہ بات تو طے ہے کہ تلمیح میں لمبے چوڑے قصوں کے بجائے صرف ایک تلمیح کافی ہوتی ہے جو چند الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے جن زبانوں میں تلمیحات کا استعمال ہوتا ہے وہ ادبی لحاظ سے مال دار زبانیں ہوتی ہیں۔ اردو شاعری کے کلاسیکی دور کے شعرا کے ہاں تلمیحات کا استعمال بہ درجہ اتم موجود ہے، لیکن غالب نے تلمیحات کا استعمال بہت زیادہ کیا ہے اور خوب کیا ہے مثلاً

ابنِ مریم ہوا کرے کوئی

میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

سب جانتے ہیں کہ ''ابنِ مریم'' سے مراد حضرت عیسیٰؑ ہیں ، مسیح اور مسیحائی کی تلمیح بھی حضرت عیسیٰؑ کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

مر گیا صدمۂ یک جنبش لب سے غالبؔ

ناتوائی سے حریفِ دم عیسیٰؑ نہ ہوا

یہاں ''دم عیسیٰ'' سے مراد حضرت عیسیٰؑ کے اعجاز مسیحائی کی طرف اشارہ ہے۔

لب عیسیٰؑ کی جنبش کرتی ہے گہوارہ جنبانی

قیامت کشتۂ لعل بتاں کا خواب سنگیں ہے

حضرت عیسیٰؑ کے دم کی برکت سے نہ صرف بیماروں کو شفا ملتی تھی، نابیناؤں کو بینائی ملتی تھی بلکہ مٹی کے بنائے ہوئے پرندوں میں بھی جان پڑ جاتی تھی۔

یہاں ''لب عیسیٰؑ'' سے مراد بھی حضرت عیسیٰؑ کی مسیحائی کی طرف اشارہ ہے۔

کیجیے جوں اشک اور قطرہ زنی

اے اسد ہے ہنوز دلی دور

اس شعر میں ''ہنوز دلی دور است'' مشہور واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ جب دلی میں حضرت نظام الدین اولیا کو غیاث الدین تغلق نے اس کی دلی واپسی سے پہلے دلی چھوڑنے کا حکم بھجوایا تھا، جسے سن کر حضرت نظام الدین اولیا نے یہ جملہ کہا تھا ''ہنوز دلی دور است'' اور غیاث الدین تغلق جو حضرت سے اندرونی طور پر کدورت رکھتا تھا۔

واپس دلی نہ پہنچ سکا اور اپنے بیٹے جونا خان کے بنائے ہوئے لکڑی کے محل کے گر جانے سے ہاتھیوں کی بھگدڑ سے وہیں مر گیا اور دلی آنا نصیب نہ ہوا۔ جب سے یہ تلمیح ادب اور زندگی میں آئی کہ ''ہنوز دلی دور است''۔ جب کسی کام کے پایۂ تکمیل تک نہ پہنچنے کا اندیشہ ہو تو یہ تلمیح بولی جاتی ہے، مثلاً اپنے ملک میں ''جمہوریت'' کے قیام کے بارے میں سو فیصد طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ''ہنوز دلی دور است''۔ خیال رہے کہ غالب نے پہلے ''اسد'' تخلص اختیار کیا تھا۔

نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

ایران میں دستور تھا کہ بادشاہ یا حاکم وقت کے سامنے فریادی دربار میں کاغذی لباس پہن کر آتے تھے جن کو دیکھتے ہی بادشاہ سمجھ جاتے تھے کہ یہ مظلوم ہے۔ کاغذی پیرہن کی تلمیح بے چارگی اور ظلم ظاہر کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔

ایرانی شعرا نے ''کاغذی پیرہن'' کا استعمال بہت کیا ہے، غالب نے یہ وہیں سے لیا ہے، کیونکہ وہ اردو سے پہلے فارسی میں شعر کہتے تھے۔

کیا کہا خضر نے سکندر سے

اب کسے رہنما کرے کوئی

اس شعر میں حضرت خضر اور سکندر کے اس واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں خضر اور سکندر آب حیات کی تلاش میں نکلے تھے لیکن خضر نے ایک جگہ سکندر کا ہاتھ چھوڑ دیا، سکندر راستہ بھٹک گیا اور خضر نے چشمۂ آب حیات سے پانی پی لیا اور امر ہو گئے۔ کہتے ہیں حضرت خضر بھٹکے ہوؤں کو راستہ دکھاتے ہیں۔ غالب نے چند اور بھی اشعار خضر اور سکندر کے حوالے سے کہے ہیں جیسے:

وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر

نہ تم کہ چور بنے عمر جاوداں کے لیے

٭٭٭

لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں

مانا کہ ایک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے

٭٭٭

تو سکندر ہے، میرا فخر ہے ملنا تیرا

گو شرف خضر کی بھی مجھ کو ملاقات سے ہے

٭٭٭

نہ چھوڑی حضرت یوسف نے واں بھی خانہ آرائی

سفیدی دیدۂ یعقوب کی بھرتی ہے زنداں پر

اس شعر میں حضرت یوسف ؑ کے غم میں حضرت یعقوب کی گریۂ و زاری سے ہے۔ ایک اور شعر میں بھی یہی تلمیح استعمال کی ہے۔

قید میں یعقوبؑ نے لی ، گو نہ یوسف ؑ کی خبر

لیکن آنکھیں، روزن دیوار زنداں ہوگئیں

حضرت یوسف ؑ کی تلمیح کے مزید دو اشعار اور ملاحظہ کیجیے:

سب رقیبوں سے ہوں ناخوش ہر زنان مصر سے

ہے زلیخا خوش کہ محو ماہ کنعاں ہوگئیں

اس شعر میں اس واقعے کی طرف اشارہ ہے جب زلیخا نے خواتین کو بلا کر ایک ایک لیموں اور چاقو دیا تھا اور خواتین سے کہا تھا کہ جیسے ہی یوسف ؑ داخل ہوں وہ لیموں کے دو ٹکڑے کردیں، جب حضرت یوسف ؑ اندر آئے تو خواتین ان کا حسن دیکھ کر مدہوش ہوگئیں اور انھوں نے لیموں کے بجائے اپنی انگلیاں کاٹ لیں، اس طرح زلیخا سرخرو ہوگئی کہ وہ حضرت یوسفؑ کے عشق میں مبتلا ہوگئی تھی، لیکن حضرت یوسفؑ نے اپنا دامن آلودہ نہ ہونے دیا۔

ہنوز ایک پر تو نقش خیال یار ہے باقی

دل افسردہ گویا حجرہ ہے یوسف ؑ کے زنداں کا

اس شعر میں بھی حضرت یوسف ؑ کے قید ہونے کی تلمیح ہے۔

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی

بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

جس طرح مصر کے بادشاہ فرعون چین کے بادشاہ فغفور ، روم کے بادشاہ قیصر ، ایران کے بادشاہ کسریٰ کہلاتے تھے، اسی طرح عراق کے قدیم بادشاہوں کا لقب ''نمرود'' تھا۔اردو میں غالب کے علاوہ دوسرے شعرا نے بھی تلمیحات کا استعمال کیا ہے جن کا ذکر آیندہ کسی کالم میں ضرور کروں گی، لیکن اردو ادب کے اساتذہ سے خصوصی طور پر کہوں گی کہ وہ اپنا مطالعہ بڑھائیں، ساتھ ہی نئے شعرا کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بھی اپنا مطالعہ بڑھائیں۔

کلاسیکی قدیم شعرا کے کلام کو پڑھیں، تاکہ وہ بہتر شعر کہہ سکیں، لیکن افسوس کہ لاتعداد شعری مجموعے چھپ رہے ہیں لیکن گہرائی اور گیرائی مفقود ہے، کوئی شعر یاد نہیں رہتا، اچھا شعر کہنا بہت مشکل ہے کیونکہ نئے شاعر اور ادیبوں میں مطالعہ مفقود ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں