منی بجٹ عوامی مشکلات میں اضافہ
منی بجٹ اور مزید ٹیکسوں کے نفاذ کے نتیجے میں تباہ کن مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا
حکومت نے ایک سو ستر ارب روپے کا منی بجٹ پیش کر دیا۔ وفاقی حکومت کی جانب سے تمام اشیائے ضروریہ پر جی ایس ٹی کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کردی گئی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے کے بعد گھی، آئل اور بسکٹ سے لے کر صابن تک ہر چیز مزید مہنگی ہوگئی ہے جس سے عام آدمی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
دوسری جانب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافے کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 272روپے ہوگئی ہے جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل 280 روپے کا ہوگیا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔
معاشی ماہرین کی رائے میںاگر اکتوبر میں ہی فیصلے کرتے تو آئی ایم ایف کا پروگرام بھی رہتا اور عوام پر مہنگائی کا اتنا بڑا بوجھ بھی نہ پڑتا۔ جی ایس ٹی کی شرح میں 1 فیصد اضافے سے عوام پر 50 ارب روپے سے زائد کا بوجھ پڑتا ہے ، اگرچہ یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ 170 ارب روپے کی وصول کے لیے جو ٹیکس لگائے گئے ہیں۔
ان سے براہ راست عام آدمی پر بوجھ نہیں بڑھے گا ، لیکن یہ محض ایک سیاسی بیان ہے جس کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ آج تک جتنے بھی ٹیکس لگائے گئے ہیں ، ان سے ملک کا کوئی دوسرا طبقہ متاثر ہوا یا نہیں، عام آدمی بہرحال متاثر ہوا ہے۔ ہر ٹیکس کا بوجھ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر عام آدمی پر ہی پڑا ہے۔
منی بجٹ اور مزید ٹیکسوں کے نفاذ کے نتیجے میں تباہ کن مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ آئی ایم ایف کے قرض کی بحالی کے بعد کے منظر نامے کے بارے میں معاشی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔
رواں مالی سال کے بقیہ چار ماہ اور اس کے بعد کی صورتحال پر کسی کی توجہ ہی نہیں، فی الوقت وقتی طور پر ملک کو ان حالات سے نکالنے کی عارضی تگ و دو ہو رہی ہے۔ وزیر خزانہ نے عوام الناس کی تسلی کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مد میں 40 ارب کا اضافہ کرنے اور پٹرول پر سیلز ٹیکس عائد نہ کرنے کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن دوسری مدات میں یہ کمی پوری کی جاسکتی ہے۔
مثال کے طور پر اقتصادی رابطہ کمیٹی کے ایک اجلاس میں بخار کی عام دوا پیرا سیٹا مول پر ایک روپیہ سرچارج لگانے اور بجلی منصوبوں کے لیے قرض پر سود کی رقم عوام سے لینے کی منظوری دیدی گئی ہے۔ مزید برآں بجلی صارفین پر ایک روپے فی یونٹ سرچارج لگا کر 76 ارب روپے وصول کیے جائیں گے، یہ نیا فنانس سرچارج رواں سال مارچ سے جون تک لاگو رہے گا۔
ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس کا نظام تقریباً ایک جیسا ہے۔ وہاں شہری سب سے زیادہ انکم ٹیکس جمع کراتے ہیں کیونکہ انھیں یقین ہوتا ہے کہ حکومت ان کے ٹیکس سماج کے بہتری کے لیے استعمال کرے گی، تاہم اکثر ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کی حکومتیں اپنی معاشی نوعیت کے حساب سے زیادہ تر تجارتی سرگرمیوں اور مصنوعات پر ٹیکس عائد کرکے پیسہ کماتی ہیں۔
پاکستان میں تقریباََ 30لاکھ افراد ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں یعنی 22 کروڑ آبادی کا محض ڈیڑھ فیصد ٹیکس دیتے ہیں ، عموماََ حکومتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اخراجات اور آمدن کا توازن رہے لیکن خسارے کی صورت میں انھیں آمدن بڑھانے کے لیے قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے لیکن بلند شرح سود اور قرض واپسی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ یہی قرضے ملک کا دیوالیہ نکال سکتے ہیں۔
مالیاتی ادارے قرض دینے سے پہلے متعلقہ ملک کی قرض واپسی کی اہلیت بھی دیکھتے ہیں۔ جن ملکوں کی قرض واپسی کی اہلیت کم ہوتی ہے انھیں زیادہ شرح سود پر قرض دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ شہریوں پر ٹیکس دینے پر زور دیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں حکومتیں اپنی آمدن بڑھانے کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ کر رہی ہیں تاکہ انھیں اخراجات پورے کرنے کے لیے بھاری شرح سود پر عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے نہ لینا پڑے ۔ بالخصوص پاکستان جیسے کم آمدن والے ملکوں کو اور بھی مشکلات کا سامنا ہے جن پر پہلے ہی قرضوں کے پہاڑ موجود ہیں۔
پاکستان کی معیشت کو درپیش مشکل ترین حالات میں پالیسی میکر ز اور ٹیکس حکام کی پوری توجہ موجودہ ٹیکس گزاروں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کرکے ٹیکسوں کا ہدف پورا کرنے پر مرکوز ہے۔
ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال معاشی سرگرمیوں میں کمی اور زرمبادلہ کے بحران کی وجہ سے درآمدات پر پڑنے والے اثرات کی وجہ سے ٹیکس وصولیاں ہدف سے 170ارب روپے تک کم رہنے کا امکان ہے۔ ایف بی آر کے مطابق ٹیکس وصولیوں کے 7470ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں رواں مالی سال مجموعی وصولیاں 7300ارب روپے تک محدود رہنے کا امکان ہے۔
ماہرین کے مطابق پالیسی میکرز اور ایف بی آر ٹیکس ہدف پورا کرنے کے لیے عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ بڑھا رہے ہیں جس سے مہنگائی کے بوجھ تلے کم آمدن والے طبقہ کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔
دوسری جانب حکومت کا ٹیکس وصولیوں کے لیے منظم شعبوں پر انحصار مزید بڑھ رہا ہے جس سے صنعتوں اور مینوفیکچرنگ سیکٹر کی لاگت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ بجٹ اہداف پورے کرنے کے لیے ٹیکس نہ دینے والے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور پوٹینشل سے بہت کم ٹیکس ادا کرنے والے سیکٹرز سے وصولیاں بڑھانے کی ضرورت ہے۔
کسی بھی معاشی پالیسی کا اولین مقصد غربت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا سکتے ہیں لیکن اس نظام سے باہر بیٹھے شخص کے لیے یہ دونوں ہی قصور وار ہیں کیونکہ جب دُور رس فیصلے کرنے کی گنجائش موجود تھی تو ان کے پاس اس حوالے سے کوئی منصوبہ ہی نہیں تھا۔ گیس کی قیمتوں میں 124فیصد تک اضافہ اور سیلز ٹیکس کی شرح ایک فیصد بڑھانے سے 50ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔
حکمرانوں کی عدم دلچسپی کے باعث عوام ذخیرہ اندوزوں کے ہاتھوں لوٹے جارہے ہیں۔ اپنے پیٹ پر اگر پتھر عوام نے ہی باندھنے ہیں۔ بھوک و افلاس کی ندیوں میں شب و روز غوطے اگر عوام نے ہی لگانے ہیں تو پھر وزیراعظم اور ان کے شمار سے باہر وزیروں اور مشیروں کا کیا فائدہ؟ کیا ان کو سرکاری خزانے سے بھاری تنخواہیں اور مراعات نہیں دی جارہی ہیں۔
یہ جتنی تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں وہی پیسے اگر ملک و قوم پر لگائے جائیں تو اس سے نہ صرف مہنگائی کا یہ طوفان تھم جائے گا بلکہ غربت اور بیروزگاری کا بھی ملک سے کافی حد تک خاتمہ ہوگا۔
آٹا، چینی، گھی، بجلی، گیس اور دیگر اشیاء کے ذریعے اس وقت ملک میں جاری اس لوٹ مار سے بھی روزانہ اربوں اور کھربوں روپے تو آخر کسی کے اکاؤنٹ میں جاتے ہوں گے۔
اس ملک کی خاطر ہمیشہ غریب عوام نے جان و مال کی قربانیاں دیں۔ اب عوام کے پاس قربانی کے لیے کچھ نہیں۔ جب تک ملک کے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہوتے اس وقت تک وزیروں اور مشیروں سے لیکر تمام اعلیٰ افسران تک کی تنخواہیں ایک عام مزدور جتنی کرکے ہر قسم کی مراعات کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔
یہ ملک جتنا غریبوں کا ہے اتنا ہی امیر اور اعلیٰ طبقے کا بھی ہے۔ اس ملک کے وسائل جتنے اعلیٰ اور امیر طبقے نے استعمال کیے اتنے کبھی غریبوں نے استعمال نہیں کیے۔ غریبوں کو تو یہاں وسائل کے بجائے ہمیشہ مسائل ہی مسائل ملے، اب اگر ملک مشکل میں ہے تو اس اعلیٰ اور امیر طبقے کو بھی اپنے وسائل اس ملک کے لیے استعمال کرنے چاہئیں۔
غریبوں کی روٹی آدھی کرنے سے نہ تو مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی ملک مشکل سے نکلے گا غریب صبح سے شام تک آٹے کے لیے لائنوں میں کھڑے رہتے ہیں پھر بھی انھیں بیس کلو آٹا نہیں ملتا لیکن اسی ملک میں ایک وزیر، مشیر اور افسر کو پروٹوکول دینے کے لیے آگے پیچھے نوکروں ، چاکروں اور گاڑیوں کی لائنوں پر لائنیں لگی رہتی ہیں۔
غریب کے علاج معالجے اور تعلیم کے لیے تو خزانے میں پیسے نہیں ہوتے لیکن جب حکمران طبقے کے لیے اسی خزانے سے لاکھوں اور کروڑوں نہیں اربوں تک اڑا دیے جاتے ہیں۔غریب کو پینا ڈول اور ڈسپرین کی ایک گولی بھی مفت نہیں ملتی لیکن ماہانہ لاکھوں اور کروڑوں تنخواہیں اور طرح طرح کے مراعات لینے والوں کے گھر اور مہمان خانوں میں بجلی، گیس، پٹرول، ٹیلی فون اور راشن سمیت سب کچھ سرکاری کھاتے سے چلتا رہتا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ اب کی باراشرافیہ اور حکمران طبقے سے نہ صرف قربانی لی جائے بلکہ ان کی سرکاری خزانے سے ناجائز اور بے جا مراعات اور سہولیات روکنے کے لیے کوئی خاص انتظام بھی کیا جائے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے کے بعد گھی، آئل اور بسکٹ سے لے کر صابن تک ہر چیز مزید مہنگی ہوگئی ہے جس سے عام آدمی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
دوسری جانب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافے کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 272روپے ہوگئی ہے جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل 280 روپے کا ہوگیا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔
معاشی ماہرین کی رائے میںاگر اکتوبر میں ہی فیصلے کرتے تو آئی ایم ایف کا پروگرام بھی رہتا اور عوام پر مہنگائی کا اتنا بڑا بوجھ بھی نہ پڑتا۔ جی ایس ٹی کی شرح میں 1 فیصد اضافے سے عوام پر 50 ارب روپے سے زائد کا بوجھ پڑتا ہے ، اگرچہ یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ 170 ارب روپے کی وصول کے لیے جو ٹیکس لگائے گئے ہیں۔
ان سے براہ راست عام آدمی پر بوجھ نہیں بڑھے گا ، لیکن یہ محض ایک سیاسی بیان ہے جس کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ آج تک جتنے بھی ٹیکس لگائے گئے ہیں ، ان سے ملک کا کوئی دوسرا طبقہ متاثر ہوا یا نہیں، عام آدمی بہرحال متاثر ہوا ہے۔ ہر ٹیکس کا بوجھ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر عام آدمی پر ہی پڑا ہے۔
منی بجٹ اور مزید ٹیکسوں کے نفاذ کے نتیجے میں تباہ کن مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ آئی ایم ایف کے قرض کی بحالی کے بعد کے منظر نامے کے بارے میں معاشی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔
رواں مالی سال کے بقیہ چار ماہ اور اس کے بعد کی صورتحال پر کسی کی توجہ ہی نہیں، فی الوقت وقتی طور پر ملک کو ان حالات سے نکالنے کی عارضی تگ و دو ہو رہی ہے۔ وزیر خزانہ نے عوام الناس کی تسلی کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مد میں 40 ارب کا اضافہ کرنے اور پٹرول پر سیلز ٹیکس عائد نہ کرنے کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن دوسری مدات میں یہ کمی پوری کی جاسکتی ہے۔
مثال کے طور پر اقتصادی رابطہ کمیٹی کے ایک اجلاس میں بخار کی عام دوا پیرا سیٹا مول پر ایک روپیہ سرچارج لگانے اور بجلی منصوبوں کے لیے قرض پر سود کی رقم عوام سے لینے کی منظوری دیدی گئی ہے۔ مزید برآں بجلی صارفین پر ایک روپے فی یونٹ سرچارج لگا کر 76 ارب روپے وصول کیے جائیں گے، یہ نیا فنانس سرچارج رواں سال مارچ سے جون تک لاگو رہے گا۔
ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس کا نظام تقریباً ایک جیسا ہے۔ وہاں شہری سب سے زیادہ انکم ٹیکس جمع کراتے ہیں کیونکہ انھیں یقین ہوتا ہے کہ حکومت ان کے ٹیکس سماج کے بہتری کے لیے استعمال کرے گی، تاہم اکثر ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کی حکومتیں اپنی معاشی نوعیت کے حساب سے زیادہ تر تجارتی سرگرمیوں اور مصنوعات پر ٹیکس عائد کرکے پیسہ کماتی ہیں۔
پاکستان میں تقریباََ 30لاکھ افراد ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں یعنی 22 کروڑ آبادی کا محض ڈیڑھ فیصد ٹیکس دیتے ہیں ، عموماََ حکومتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اخراجات اور آمدن کا توازن رہے لیکن خسارے کی صورت میں انھیں آمدن بڑھانے کے لیے قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے لیکن بلند شرح سود اور قرض واپسی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ یہی قرضے ملک کا دیوالیہ نکال سکتے ہیں۔
مالیاتی ادارے قرض دینے سے پہلے متعلقہ ملک کی قرض واپسی کی اہلیت بھی دیکھتے ہیں۔ جن ملکوں کی قرض واپسی کی اہلیت کم ہوتی ہے انھیں زیادہ شرح سود پر قرض دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ شہریوں پر ٹیکس دینے پر زور دیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں حکومتیں اپنی آمدن بڑھانے کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ کر رہی ہیں تاکہ انھیں اخراجات پورے کرنے کے لیے بھاری شرح سود پر عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے نہ لینا پڑے ۔ بالخصوص پاکستان جیسے کم آمدن والے ملکوں کو اور بھی مشکلات کا سامنا ہے جن پر پہلے ہی قرضوں کے پہاڑ موجود ہیں۔
پاکستان کی معیشت کو درپیش مشکل ترین حالات میں پالیسی میکر ز اور ٹیکس حکام کی پوری توجہ موجودہ ٹیکس گزاروں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کرکے ٹیکسوں کا ہدف پورا کرنے پر مرکوز ہے۔
ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال معاشی سرگرمیوں میں کمی اور زرمبادلہ کے بحران کی وجہ سے درآمدات پر پڑنے والے اثرات کی وجہ سے ٹیکس وصولیاں ہدف سے 170ارب روپے تک کم رہنے کا امکان ہے۔ ایف بی آر کے مطابق ٹیکس وصولیوں کے 7470ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں رواں مالی سال مجموعی وصولیاں 7300ارب روپے تک محدود رہنے کا امکان ہے۔
ماہرین کے مطابق پالیسی میکرز اور ایف بی آر ٹیکس ہدف پورا کرنے کے لیے عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ بڑھا رہے ہیں جس سے مہنگائی کے بوجھ تلے کم آمدن والے طبقہ کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔
دوسری جانب حکومت کا ٹیکس وصولیوں کے لیے منظم شعبوں پر انحصار مزید بڑھ رہا ہے جس سے صنعتوں اور مینوفیکچرنگ سیکٹر کی لاگت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ بجٹ اہداف پورے کرنے کے لیے ٹیکس نہ دینے والے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور پوٹینشل سے بہت کم ٹیکس ادا کرنے والے سیکٹرز سے وصولیاں بڑھانے کی ضرورت ہے۔
کسی بھی معاشی پالیسی کا اولین مقصد غربت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا سکتے ہیں لیکن اس نظام سے باہر بیٹھے شخص کے لیے یہ دونوں ہی قصور وار ہیں کیونکہ جب دُور رس فیصلے کرنے کی گنجائش موجود تھی تو ان کے پاس اس حوالے سے کوئی منصوبہ ہی نہیں تھا۔ گیس کی قیمتوں میں 124فیصد تک اضافہ اور سیلز ٹیکس کی شرح ایک فیصد بڑھانے سے 50ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔
حکمرانوں کی عدم دلچسپی کے باعث عوام ذخیرہ اندوزوں کے ہاتھوں لوٹے جارہے ہیں۔ اپنے پیٹ پر اگر پتھر عوام نے ہی باندھنے ہیں۔ بھوک و افلاس کی ندیوں میں شب و روز غوطے اگر عوام نے ہی لگانے ہیں تو پھر وزیراعظم اور ان کے شمار سے باہر وزیروں اور مشیروں کا کیا فائدہ؟ کیا ان کو سرکاری خزانے سے بھاری تنخواہیں اور مراعات نہیں دی جارہی ہیں۔
یہ جتنی تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں وہی پیسے اگر ملک و قوم پر لگائے جائیں تو اس سے نہ صرف مہنگائی کا یہ طوفان تھم جائے گا بلکہ غربت اور بیروزگاری کا بھی ملک سے کافی حد تک خاتمہ ہوگا۔
آٹا، چینی، گھی، بجلی، گیس اور دیگر اشیاء کے ذریعے اس وقت ملک میں جاری اس لوٹ مار سے بھی روزانہ اربوں اور کھربوں روپے تو آخر کسی کے اکاؤنٹ میں جاتے ہوں گے۔
اس ملک کی خاطر ہمیشہ غریب عوام نے جان و مال کی قربانیاں دیں۔ اب عوام کے پاس قربانی کے لیے کچھ نہیں۔ جب تک ملک کے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہوتے اس وقت تک وزیروں اور مشیروں سے لیکر تمام اعلیٰ افسران تک کی تنخواہیں ایک عام مزدور جتنی کرکے ہر قسم کی مراعات کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔
یہ ملک جتنا غریبوں کا ہے اتنا ہی امیر اور اعلیٰ طبقے کا بھی ہے۔ اس ملک کے وسائل جتنے اعلیٰ اور امیر طبقے نے استعمال کیے اتنے کبھی غریبوں نے استعمال نہیں کیے۔ غریبوں کو تو یہاں وسائل کے بجائے ہمیشہ مسائل ہی مسائل ملے، اب اگر ملک مشکل میں ہے تو اس اعلیٰ اور امیر طبقے کو بھی اپنے وسائل اس ملک کے لیے استعمال کرنے چاہئیں۔
غریبوں کی روٹی آدھی کرنے سے نہ تو مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی ملک مشکل سے نکلے گا غریب صبح سے شام تک آٹے کے لیے لائنوں میں کھڑے رہتے ہیں پھر بھی انھیں بیس کلو آٹا نہیں ملتا لیکن اسی ملک میں ایک وزیر، مشیر اور افسر کو پروٹوکول دینے کے لیے آگے پیچھے نوکروں ، چاکروں اور گاڑیوں کی لائنوں پر لائنیں لگی رہتی ہیں۔
غریب کے علاج معالجے اور تعلیم کے لیے تو خزانے میں پیسے نہیں ہوتے لیکن جب حکمران طبقے کے لیے اسی خزانے سے لاکھوں اور کروڑوں نہیں اربوں تک اڑا دیے جاتے ہیں۔غریب کو پینا ڈول اور ڈسپرین کی ایک گولی بھی مفت نہیں ملتی لیکن ماہانہ لاکھوں اور کروڑوں تنخواہیں اور طرح طرح کے مراعات لینے والوں کے گھر اور مہمان خانوں میں بجلی، گیس، پٹرول، ٹیلی فون اور راشن سمیت سب کچھ سرکاری کھاتے سے چلتا رہتا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ اب کی باراشرافیہ اور حکمران طبقے سے نہ صرف قربانی لی جائے بلکہ ان کی سرکاری خزانے سے ناجائز اور بے جا مراعات اور سہولیات روکنے کے لیے کوئی خاص انتظام بھی کیا جائے۔