شعبہ صحت کی حالت زار

سب سے پہلے صحت کو ترجیح دی جائے کیونکہ جان ہے تو جہان ہے


Shakeel Farooqi February 17, 2023
[email protected]

وطنِ عزیز پاکستان اونٹ کے مماثل ہے جس کی کوئی کَل سیدھی نہیں ہے اور معلوم نہیں ہوتا ہے کہ وہ کس کروٹ بیٹھے گا۔

بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا زریں قول ہے اتحاد ، یقینِ محکم اور نظم و ضبط۔ غور کیجیے تو معلوم ہوجائے گا کہ ہم نے قائد کی اِن تینوں ہدایات کا کیا حشر کردیا ہے۔ نظم و ضبط کی جگہ بد نظمی نے لے لی ہے اور نظامِ حکومت سے لے کر ہر شعبہ زندگی کی حالت ابتر ہے جس میں سب سے بُری حالت شعبہ صحت کی ہے۔

پاکستان کے ہیلتھ کیئر سسٹم کے بارے میں ہر کسی کو شکایات ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ امراء کے اُس طبقہ کو بھی شکایات ہیں جس کے نزدیک روپے پیسے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کا حال یہ ہے کہ اُن کا اپائنٹمنٹ بڑی مشکل سے ملتا ہے اور وقت کی پابندی بھی محال ہے۔ سرکاری شعبہ صحت کی حالتِ زار تو بیان سے باہر ہے۔ ڈاکٹروں کی تو بات ہی چھوڑیے ، نرسنگ اسٹاف کا رویہ تو احساس اور انسانی ہمدردی سے بالکل عاری ہے۔

پاکستان میں ہر سال تپدق کے پانچ لاکھ مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ دنیا میں تپ دق کے مریضوں کی تعداد کے حساب سے پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔

ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریضوں کی تعداد بھی تشویشناک ہے۔ ڈھائی لاکھ بچے اپنی پیدائش کے ابتدائی اٹھائیس دنوں میں مر جاتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کا شمار دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان میں بچوں کی شرح اموات افغانستان ، صومالیہ، جنوبی سوڈان، مالی اور چاڈ سے بھی زیادہ ہے۔

تقریباً 200 مائیں ہر سال دورانِ زچگی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں جو کہ ہمارے خطہ کی زچگی کی شرح اموات میں سب سے زیادہ ہے۔ 2022 میں پاکستان میں3.4ملین سے بھی زیادہ ملیریا کے کیسز رپورٹ ہوئے۔ پاکستان میں ٹائیفائیڈ کا پھیلاؤ سب سے زیادہ ہے جس کے نتیجہ میں ملک کے صرف دو شہروں میں اِس مرض میں مبتلا افراد کی تعداد چالیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔

ہمارے ملک کے بچوں میں ایچ آئی وی کا پھیلاؤ سب سے زیادہ ہے جس کا تعلق ماں سے بچے میں منتقل ہونے سے نہیں ہے۔ ہر دس میں سے چار بچے ایسے ہوتے ہیں جو نشونما سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ کوئی الگ مسئلہ نہیں ہے لیکن اِن نشونما سے محروم بچوں کی وجہ سے ممالک اپنے سالانہ جی ڈی پی کا تین فیصد نقصان اٹھاتے ہیں۔

ذرا ٹہرئیے اور اِس کے بارے میں سوچیے۔ ہم اپنے بچوں کو بھوکا رکھ کر ذہانت کی قومی موت کے گواہ ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ متعدی امراض کا ہے لیکن دائمی امراض کا مسئلہ بھی اِس سے کم سنگین نہیں ہے۔

نوزائیدہ امراض، وَقفُ الدَم دل کا مرض اور فالج پاکستان میں قبل از وقت موت کی سب سے بڑی وجوہات ہیں۔ غذائیت میں کمی، آلودگی، بلند فشارِ خون اور تمباکو نوشی بھی بنیادی وجوہات ہیں۔ ہیلتھ کیئر اور تعلیم کے شعبوں پر خرچ کرنے والے ممالک میں پاکستان روانڈا سے بھی پیچھے ہے، 188 میں سے 164۔

بدعنوانی کے بعد جو کچھ بھی بچتا ہے وہ تنخواہوں کی مَد میں خرچ ہوجاتا ہے۔ اِس کے بعد جو بقایہ وسائل ہیں وہ علاج معالجہ کی سہولیات پر خرچ ہوجاتے ہیں جس میں سے بیس فیصد سے کم احتیاطی دیکھ بھال پر خرچ ہوتے ہیں۔ایک کم وسائل والا ملک بائیس کروڑ کی آبادی کو علاج معالجہ کی سہولیات تب تک فراہم نہیں کرسکتا جب تک وہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو بیمار ہونے سے بچانے کے لیے صحت کے شعبہ میں سرمایہ کاری نہیں کرتا۔

بدقسمتی سے اِس دلدل سے نکلنے کے لیے کوئی فوری حل تو موجود نہیں لیکن کوئی نہ کوئی راستہ ضرور ہے۔ فوری حل یہ ہے: سب سے پہلے صحت کو ترجیح دی جائے کیونکہ جان ہے تو جہان ہے۔

ایک بیمار اور غیر صحتمند پاکستان جس کی آنے والی نسلوں کی ذہانت کم ہو قومی سلامتی کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں، جب تک ہم اپنی آبادی کو کنٹرول نہیں کریں گے تب تک ہم صحت کے مسائل حل نہیں کرسکتے ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

اے مِرے لختِ جگر نورِ نظر پیدا نہ ہو

پاکستان میں قوتِ تولید کی شرح 3.4 ہے جو جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ عالم یہ ہے کہ:

لنگڑا ملے لُولا ملے

ہر سال ایک ملتا رہے

اور پھول ایک کھِلتا رہے

حفظانِ صحت کے حوالہ سے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے استعمال کے لیے صاف اور شفاف پانی کا بندوبست کریں لیکن ہماری تو حالت یہ ہے کہ پانی کی شدید قلت ہے اور اِس کے باوجود بہت سا پانی ضایع ہوجاتا ہے اور بعض ریگستانی علاقوں میں پانی کا بندوبست کرنا جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے۔

کراچی جیسے میگا سٹی میں پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں ہے اور حکومتوں پر حکومتیں بدلتے رہنے کے باوجود کسی نے اِس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے اور سمندر کے پانی کو صاف اور شفاف کرنے کا کوئی معقول بندوبست نہیں کیا ہے اور مسلسل لارے پر لارے دیے جا رہے ہیں۔

عام آدمی تو منرل واٹر خریدنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ، صرف صاحبِ ثروت لوگ ہی منرل واٹر افورڈ کرسکتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ منرل واٹر فروخت کرنے والی کمپنیوں کا اِس سلسلہ میں متعلقہ اداروں سے کوئی گٹھ جوڑ ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔