جگہیں تبدیل ہونے کا وقت آچکا ہے

دیکھنا یہ ہے کہ جگہوں کی تبدیلی پر امن طریقے سے ہوتی ہے یا پھر پر تشدد طریقے سے

aftabkhanzada2@yahoo.com

Dr.Joel Voss کہتا ہے '' آپ حقیقت سے بھاگ سکتے ہیں لیکن آپ حقیقت سے بھاگنے کے نتائج سے نہیں بھاگ سکتے۔'' اپنے باپ کے نام ایک خط میں فرانز کافکا لکھتا ہے۔ '' یہ بھی درست ہے کہ آپ نے شاید ہی کبھی مجھے پیٹا ہو لیکن آپ کا بلند آواز میں چلانا ، غصے میں آپ کے چہرے کا سرخ ہونا اور تیزی سے گلیس کوکھولنا اور انھیں کرسی کی پشت پر ٹانگ دینا، یہ سب میرے لیے بد ترین صورتحال تھی کہ جیسے کسی کو پھانسی کی سزا دی جانے والی ہو اگر اسے واقعی پھانسی پر لٹکا دیا جائے تو وہ مر جائے گا اور اس کا قصہ تمام ہوجائے گا لیکن اگر اسے پھانسی پر لٹکانے جانے کے ابتدائی مراحل سے گزارا جائے پھر جب پھندا اس کے چہرے کے سامنے جھول رہا ہو اسے بتایا جائے کہ اس کی سزا ملتوی کردی گئی ہے تو وہ اس سزا میں تمام عمر مبتلا رہے گا۔''

جرمن مورخ Karl Von Rottekکا کہنا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں تین اہم واقعات ہوئے (1) عیسائیت کا فروغ (2) چھاپہ خانہ کی ایجاد (3) فرانسیسی انقلاب ۔ ان تینوں میں سے عیسائیت اور چھاپہ خانہ نے دنیا کو آہستہ آہستہ اور مرحلہ وار تبدیل کیا جب کہ انقلاب فرانس نے دنیا کو اچانک تیزی سے بدل کر رکھ دیا۔

اس سے نہ صرف سیاسی تبدیلیاں آئیں بلکہ سماجی اور معاشی طور پر دنیا بدل کر رہ گئی ، دنیا بھر کے مورخین کی اکثریت اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ انقلاب فرانس اچانک نہیں آیا بلکہ اس کے پس منظر میں صدیوں کے جمع شدہ مسائل تھے جو حل نہ ہونے کی صورت میں برابر جمع ہو رہے تھے یہ وہ صورتحال تھی کہ جس سے صرف فرانس ہی نہیں بلکہ پورا یورپ دوچار تھا جب جمع ہوتے ہوتے مسائل کا انبار لگ جائے تو پھر ایسے سماج میں سانس لینا تک دشوار ہو جاتاہے پھر انسان کے ساتھ ساتھ مسائل بھی پھٹ پڑتے ہیں اور پھر اس میں سے تین نعرے آزادی ، مساوات اور اخوت نکل کر سامنے آجاتے ہیں۔

یورپ میں سماج کو تبدیل کرنے اور حالات کو بہتر بنانے کے لیے دو طریقہ کار سامنے آئے (1) اصلاحات کے ذریعے سے حالات کو بدلا جائے اور سماج کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ (2) یا انقلاب کے ذریعے سے کہ جس میں تشدد کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔

تبدیلی لائی جائے۔ سوائے انگلستان کے یورپ کے دوسروں ملکوں نے فرانسیسی انقلاب اور اس کے نتائج کو قوت و طاقت اور جبرسے روکنے کی کوشش کی مگر 1830اور1844کے انقلابات نے انھیں اس پر مجبور کیا کہ وہ نہ صرف اپنے طوروطریقے اور اپنے دستوروں کو بدلیں بلکہ لوگوں کو بھی نمایندگی دیں ۔ روسی جوان اصلاحات سے علیحدہ رہا بالاخر اسے 1917میں انقلاب کا سامنا کرنا پڑگیا ۔ تمام حکمران طبقوں نے اندازہ لگا لیا تھا اگر سماجوں کی اصلاح نہیں کی گئی تو انھیں بھی فرانس جیسی صورتحال سے دوچار ہونا پڑے گا ۔

جب 1874میں Benjamin Disrali انگلستان کا وزیراعظم بنا تو اس نے بھی اصلاحات کی اہمیت کوسمجھا،اس نے اپنے ایک ناول میں لکھا کہ برطانیہ میں دوقومیں آباد ہیں، ایک امیر اور دوسری غریب ۔1872میں اس نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا ''خالص ہوا ، خالص پانی ، غیر صحت مند رہائشی علاقوں کی دیکھ بھال اور ملاوٹ والی غذا ، یہ وہ باتیں ہیں کہ جن پرغورکرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی پہلی ذمے داری لوگوں کی صحت ہوتی ہے۔اس نے کہا تھا کہ محل غیر محفوظ سے اگرکاٹیج کا رہنے والا ناخوش ہے۔

انگلستان کے مفکر جیمس مل نے1836 میں لکھا '' امرا ء صرف اپنی زمینوں کی فکر کرتے ہیں اور بغیرکام کاج کیے روپیہ پیسہ حاصل کرتے ہیں وہ جس طریقے سے دولت حاصل کرتے ہیں ، اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔'' ہم دیکھتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح لوگوں کے خیالات بدل رہے تھےElite Classکے بارے میں1847 میں پیرس کے ایک اخبار نے لکھا کہ '' بورژوا کوئی طبقہ نہیں ہے ، یہ ایک حیثیت یا مرتبے کا نام ہے اس لیے کوئی بھی اس مرتبہ اور حیثیت کو حاصل کرسکتا ہے اور کھو بھی سکتا ہے۔


یہ مرتبہ کام ،کفایت شعاری اور لیاقت سے حاصل ہوتا ہے جب بد عنوانی ، گناہ گاری اور سستی آجائے تو یہ ختم ہوجاتاہے۔'' فرانس کے ادیب بالزاک نے1850 میں ان کے لیے لکھا تھا '' یہ ایک دوسرے کو اس طرح مارتے ہیں جیسے کہ مرتبان میں بند مکڑیاں ایک دوسرے کو ختم کرتی ہیں '' اصل میں ان کو سب سے زیادہ خوف یہ ہوتا ہے کہ انھوں نے جو رتبہ اور مرتبہ سماج میں حاصل کرلیا ہے وہ ختم نہ ہونے پائے۔

یہ خوف ان کو اندر سے کھوکھلا کردیتا ہے اور وہ سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ انسانی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کوئی بھی سماج یا طبقہ ایک جگہ جما ہوا یا ساکت نہیں رہتا ہے اس میں اندرونی اور بیرونی عوامل کی وجہ سے تبدیلی کا عمل ہو تا رہتا ہے۔

کبھی یہ عمل بہت سست ہوتا ہے اورکبھی تیز۔ تبدیلی ماضی کی دشمن ہوتی ہے اور وہ ہر روایت ، اداروں ، طاقتور طبقوں کوختم کرتی جاتی ہے ، جس کا تعلق ماضی سے ہوتا ہے ۔ وہ سماج کی بنیاد نئی روایات پر قائم کرتی ہے۔ عہد نامہ قدیم میں ہے کہ '' خدا نے دنیا کو پیدا کیا پھر اسے اپنی طاقت سے علیحدہ کردیا۔ اب اس کا مالک انسان ہے اور یہ اس کی ذمے داری ہے وہ اس کے معاملات کودیکھے۔'' انسانی مسائل کبھی بھی ہمیشہ کے لیے ختم نہیں ہوجاتے ہیں۔

اس لیے انھیں بغیر حل کے نہیں چھوڑ نا چاہیے۔ فکر و سوچ ، تحقیق و تفتیش اور جستجو کے دروازے ہمیشہ کھلے رہنا چاہیں جو سماج وقت کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیتے ہیں اور تبدیلی کے سامنے بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں تو ان سماجوں میں رہنے والوں کی حالت کافکا جیسی ہوجاتی ہے اور وہ مایوسی ، بدحالی ، جہالت اور بے بسی کی آگ میں ننگے بدن کے ساتھ جل رہے ہوتے ہیں۔

ہر قسم کی بربادی ، غربت و افلاس ، بیماریاں ، ذلت و خواری چڑیلوں کی طرح ان سے چمٹ جاتی ہیں اور ان سے نجات حاصل کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ پھر ان کی نجات انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہوتی ہے۔ آج پاکستان تبدیلی یا انقلاب کے دہانے پر کھڑا ہے۔

پاکستان کے عوام اپنے حالات زندگی سے تنگ آچکے ہیں ۔ ملک کی اشرافیہ نے ان کا جینا حرام کر چھوڑا ہے۔ وہ عوام کو بد حال ، ذلیل و خوار کرتے کرتے خود بھی ذہنی و جسمانی طور پر بدحال ہوچکے ہیں ۔ دونوں جانب انتہا ہوچکی ہے۔

اب اس سے آگے جایا نہیں جاسکتا۔ اس لیے دونوں ہی کے حالات تبدیلی کے منتظر ہیں ، جگہیں تبدیل ہونے کا وقت آچکا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ جگہوں کی تبدیلی پر امن طریقے سے ہوتی ہے یا پھر پر تشدد طریقے سے۔ یاد رہے اب ان تبدیلیوں کو روکے سے روکا نہیں جاسکے گا۔ اگر اب بھی کوئی احمقوں کی جنت میں رہتا ہے تو اسے انسانی تاریخ ایک بار ضرور پڑھ لینی چاہیے۔
Load Next Story