کشمیر میں رائے شماری لازمی ہے
کشمیریوں کو رائے شماری کا حق دیا جائے بصورت دیگر یہ تنازعہ دنیا کا امن تباہ کرسکتا ہے
اگرچہ کشمیر کی تاریخ حریت پسندی و جدوجہد سے عبارت ہے لیکن اگر کشمیر کی تاریخ اور جدوجہد کا مختصر الفاظ میں تذکرہ کیا جائے تو کیفیت یہ سامنے آتی ہے کہ 1819 میں پنجاب کے حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ نے افغانوں کو شکست فاش دے کر کشمیر کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔
اس وقت کشمیر کے حریت پسندوں نے زبردست مزاحمت کی اور یہ مزاحمت 1822 تک جاری رہی ، گویا تین برس تک کشمیریوں نے شدید ترین آزادی کی جنگ لڑی اور تین برس بعد یہ جدوجہد ختم ہوگئی۔
1840 کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات ہوئی تو اس وقت تک کشمیر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت کا حصہ رہا البتہ 1844 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے کشمیر پر اپنا تسلط قائم کرلیا اور کشمیر کا سودا راجہ گلاب سنگھ سے کرلیا ، یوں کشمیر پر راجہ گلاب سنگھ کی حکومت قائم ہوگئی۔
تقسیم ہند تک کشمیر کی آزادی و خودمختاری کی تحریک مختلف اشکال میں جاری رہی، البتہ 1947 میں جب ہند کی تقسیم کا فارمولا طے پا رہا تھا تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مسلم لیگ کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ جیسے کہ ہندوستان نے مجھے گورنر جنرل بنانے کا فیصلہ کیا ہے، اسی طرح مسلم لیگ بھی مجھے پاکستان کا گورنر جنرل تسلیم کر لے۔
قائد اعظم نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی یہ تجویز رد کردی تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ایک اور چال چلی اور تقسیم ہند میں اپنی خباثت دکھائی اور تقسیم کے وقت بہت سارے وہ علاقے جوکہ لازمی پاکستان میں شامل ہوتے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستان میں شامل کر دیے بالخصوص بٹلا ، شکرگڑھ، گورداس پور و پٹھان کوٹ۔ ان چار شہروں میں سے فقط شکر گڑھ پاکستان و دیگر تین شہر ہندوستان میں شامل کر دیے گئے۔
اس غیر منصفانہ تقسیم کے باعث ہندوستان کو کشمیر میں داخلے کے لیے راستہ مل گیا۔ بصورت دیگر ایسا ممکن نہ تھا۔ تقسیم ہند کا فارمولا ان الفاظ میں طے پایا تھا کہ کوئی بھی ریاست اپنی مرضی سے چاہے تو ہندوستان میں شامل ہو جائے یا پاکستان میں شامل ہوجائے اور چاہے تو آزاد حیثیت میں رہے۔
چنانچہ ریاست جونا گڑھ، ریاست حیدر آباد، دکن و ریاست کشمیر نے آزاد رہنے کا اعلان کردیا البتہ جیسے کہ ہم نے سطور بالا میں ذکر کر چکے ہیں۔
بعد ازاں ریاست کشمیر نے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کرلیا جب کہ دو ریاستوں حیدرآباد دکن و جونا گڑھ نے پانچ ستمبر 1947 کو پاکستان سے الحاق کا اعلان کردیا دونوں ریاستیں جغرافیائی طور پر ہندوستان میں تھیں مگر سمندری راستے سے پاکستان سے ان دونوں ریاستوں سے رابطہ ممکن تھا مگر ہندوستان نے تقسیم کے فارمولے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دونوں ریاستوں پر قبضہ کرلیا مزید خلاف ورزی کرتے ہوئے حیدرآباد دکن پر بھی قبضہ کرلیا۔
یہ ذکر ہے اکتوبر 1947 کا۔ اگرچہ ہندوستان کی فوج کشی کے خلاف شدید مزاحمت ہوئی اور پانچ روز تک شدید لڑائی بھی ہوئی اور بالآخر ہندوستان کی فوج ریاست پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ البتہ ان حالات میں حیدرآباد دکن کے میئر لائیک نے پاکستانی حکام سے شکوہ کیا کہ '' تم نے ہمارا ساتھ دیا ہوتا تو ہندوستان ہم پر قابض نہ ہوتا۔'' چنانچہ اس صورت حال میں کشمیریوں نے آنے والے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جدوجہد کا فیصلہ کیا اور جدوجہد کا آغاز کردیا۔
کشمیر کے حریت پسندوں کی جدوجہد کو دیکھتے ہوئے بیس ہزار نوجوانوں کا ایک لشکر اپنے کشمیری بھائیوں کی معاونت کے لیے کشمیر میں داخل ہو گیا۔
اس لشکر میں شریک نوجوانوں کا تعلق بنوں، کوہاٹ، وزیرستان و دیگر علاقوں سے تھا ، اس جدوجہد کو جہاد کشمیر سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا، دس ہزار کا لشکر مظفر آباد کا رخ کرتا اور دس ہزار پونچھ ، بھمبر، راولا کوٹ سے ہوتا ہوا سری نگر کی جانب پیش قدمی کرتا۔
اس کیفیت میں راجہ ہری سنگھ نے ہندوستان سے فوجی مدد طلب کی جواب میں ہندوستان نے کثیر تعداد میں اپنی فوج کشمیر میں داخل کردی۔ ہندوستان کے اس عمل کے باعث پاکستانی فوج میجر اکبر خان و میجر اسحاق محمد کی قیادت میں کشمیر میں داخل ہوگئی نتیجہ شدید جنگ کا آغاز ہو گیا۔ پاکستانی فوج و قبائلی مجاہدین بے جگری سے لڑ رہے تھے۔
ہندوستان کو اپنی شکست واضح نظر آنے لگی تو وہ اقوام متحدہ میں چلا گیا۔ چنانچہ بین الاقوامی دباؤ کے باعث پاکستانی فوج و حریت پسندوں کو بارہ مولا پر روک دیا گیا، دونوں ممالک کی فوجیں جہاں جہاں موجود تھیں اس مقام کو سیز فائر لائن قرار دیا گیا۔ دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جسے آرٹیکل 370 و 35 ، ABC کا نام دیا گیا۔
اس آرٹیکل کے نفاذ سے یہ پابندی لگا دی گئی کہ کوئی بھی غیر کشمیری آزاد کشمیر و مقبوضہ کشمیر میں نہ جائیداد خرید سکتا ہے نہ ووٹ ڈال سکتا ہے اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کرسکتا ہے۔
البتہ ہندوستان جوکہ خود ہی اقوام متحدہ گیا تھا بعدازاں خود ہی منحرف ہوگیا کہ پورے کشمیر میں رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں سے یہ فیصلہ لیا جائے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا ہندوستان کے ساتھ۔ ہندوستان نے ایک اور وعدہ خلافی کی اور 5 اگست 2019 کو اس نے کشمیر کی خصوصی حیثیت آرٹیکل 370 و 35 کو ختم کرکے کی حالانکہ یہ آرٹیکل فقط کشمیر کی اسمبلی کی منظوری ہی سے ختم کیا جاسکتا تھا۔
آخر میں ہم یہ ضرور کہیں گے کہ ہندوستان کشمیر میں تمام حربے آزما چکا گزشتہ 75 سالوں میں ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو شہید کر چکا، خواتین پر جبر و ظلم کر کے دیکھ لیا ، اس وقت بھی 9 لاکھ ہندوستانی فوج کشمیر میں موجود ہے جوکہ اپنے مظالم جاری رکھے ہوئے ہے اس کے باوجود ہندوستان اپنے ناپاک ارادوں میں ناکام ہے۔
چنانچہ لازم ہے کشمیریوں کو رائے شماری کا حق دیا جائے بصورت دیگر یہ تنازعہ دنیا کا امن تباہ کرسکتا ہے کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی قوتیں ہیں اور یہ ایٹمی ہتھیار استعمال بھی ہوسکتے ہیں۔