بزرگانِ دین کا انداز تفہیم و تربیت

بزرگان دین کا معمول تھا کہ مخاطب کی محبت و خیر خواہی ان کےلیے ایک نسخہ کیمیا تھی


ہمارے اسلاف مخاطب کی ذہنی صلاحیت و استعداد کا بہت زیادہ خیال کیا کرتے۔ (فوٹو: فائل)

ہمارے معاشرے میں بسنے والے کثیر افراد کو بہ حیثیت انسان زندگی کے مختلف مواقع پر اصلاح و تربیت کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔

ہمارے ہاں جس طرح غلطیاں کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں اسی طرح ہمارے ہاں اصلاح کرنے والوں کی بھی خیر سے بہتات ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افرادِ معاشرہ کے ظاہر و باطن کو بُری عادات سے پاک کر کے انہیں اچھے اوصاف سے مزین کرنا اور پھر انہیں معاشرے کے لیے ایک مفید فرد بنانا بہت بڑا کام بلکہ انبیائے کرامؑ کا طریقہ ہے ۔

لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کل کے مصلحین کی دعوتی اور اصلاحی کوششوں کا اثر دل سے زیادہ دماغ پر ہوتا نظر آتا ہے۔

جس سے مثبت تبدیلی بہت ہی کم دیکھنے کو ملتی ہے بلکہ بسا اوقات تو ہمارے اس طرزِ عمل سے فائدہ بہت کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں لینا چاہیے کہ ہم تفہیم و تربیت کے عمل سے ہی کنارہ کش ہو جائیں، بلکہ اس سلسلے میں ہمارے ذہن میں ہمہ وقت یہ فرمان خداوندی رہنا چاہیے، مفہوم: ''آپ وعظ و نصیحت کرتے رہیں، کیوں کہ بالآخر وعظ و نصیحت سے مؤمنین کو نفع ہو ہی جاتا ہے۔''

علامہ ابن الجوزیؒ نے تحریر کیا کہ علمائے عظام میں سے کسی سے سوال کیا گیا کہ اسلاف کا کلام ہمارے کلام سے زیادہ مؤثر کیوں ہوتا تھا ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ لوگ اسلام کی عظمت، خالق کی رضا اور روز محشر اپنی نجات کے لیے کلام کرتے تھے جب کہ ہم لوگ اپنے نفس کی عظمت، مخلوق کی رضا مندی اور دنیا کی طلب کے لیے کلام کرتے ہیں۔

ہمارے اسلاف کا انداز تفہیم و تربیت ایسا دل نشین، شائستہ، عمدہ اور دل کو لبھانے والا ہوتا جس سے سامنے والے آدمی پر مثبت اثرات مرتب ہوتے اور وہ دین سے دُور ہونے کی بہ جائے اس کے اور زیادہ قریب ہو جاتا۔ ذیل میں ہم بزرگانِ دین کے اندازِ تفہیم و تربیت میں سے چند ایک پر کچھ لکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

تنہائی میں سمجھائیں:
بہتر طریقہ یہ ہے کہ جس کی غلطی ہو اسے الگ سے اکیلے میں سمجھایا جائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ایک تو وہ سب کے سامنے ندامت سے بچ جائے گا۔ دوسرا وہ سمجھانے والے کو اپنا دوست، مخلص اور خیر خواہ سمجھے گا اور تیسرا اسے بات بھی جلدی سمجھ آئے گی۔ بزرگانِ دین تاحیات اسی طریقے پر کاربند رہے۔

کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ اگر اعلانیہ اصلاح کی کوشش کی جائے تو سننے والا انانیت کا شکار ہو کے اور اپنی عزت نفس کے مجروح ہونے کا بہانہ بنا کر اپنی غلطی پر نادم و شرمندہ ہونے کی بہ جائے اس کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرے گا اور اس طرح وہ دس مزید غلطیوں کا ارتکاب کرے گا۔

مسلمانوں کی عزت و احترام کا خیال رکھیں: اسلاف کے تربیت کرنے کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ وہ دوران تربیت مسلمان بھائی کے احترام اور اس کی عزت نفس کا خوب خیال رکھتے۔

وہ دوران اصلاح ایسا رویہ اپنائے رکھتے جس سے مخاطب کی نہ تو دل آزاری ہوتی اور نہ ہی وہ اپنی بے عزتی محسوس کرتا۔ اس مقصد کے لیے بزرگانِ دین حسین کلمات اور اچھے الفاظ کا انتخاب کرتے جس سے مخاطب کو ان سے کسی قسم کی وحشت نہ رہتی اور وہ ان سے تربیت لینے کے لیے بلا ہچکچاہٹ تیار ہو جاتا۔

مخاطب کی استعداد کا لحاظ رکھیں:
ہمارے اسلاف مربّی کی حیثیت سے مخاطب کی ذہنی صلاحیت و استعداد کا بہت زیادہ خیال کیا کرتے۔ وہ کوئی ایسی بات ارشاد نہ فرماتے جو سامع کی استعداد سے بلند ہو۔ ان کی گفت گُو (لوگوں سے ان کی عقل و دانش کے مطابق کلام کرو) کا مصداق ہوتی۔ اور ایسا وہ اس لیے کرتے کہ کہیں لوگ اپنی کم علمی و کم فہمی کی بناء پر قرآن و سنّت کی نصوص کا انکار نہ کر بیٹھیں۔

عملی طریقہ اختیار کریں:
بزرگان دین کی تربیت کرنے کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ جس چیز کو عملی طور پر سمجھانے کی ضرورت محسوس کرتے اسے عملی طور پر سمجھاتے۔ وہ اپنی بات واضح کرنے کے لیے اپنے ہاتھ کے اشارے سے مدد لیتے اور ان کے ذریعے اپنی بات کو واضح کرتے۔ نیز اپنی گفت گُو میں ضرب الامثال و تشبیہات کا استعمال بھی کرتے۔ اس سے مخاطب کو آسانی ہوتی کہ وہ ان کی گفت گُو کی تہہ تک آسانی سے پہنچ سکے۔

لوگوں سے میل ملاپ رکھیں:
ہمارے اسلاف کی تربیت اس لیے بھی کارآمد ثابت ہوتی کہ وہ اپنے اور عام لوگوں میں کوئی اجنبیت یا تکلّف نہ آنے دیتے۔ وہ انہیں اپنا بھائی شمار کرتے، گرتے ہوؤں کو سہارا دیتے، زخمی دلو ں کا مرہم بنتے، قرض کے نیچے دب جانے والوں کو اس بوجھ سے نجات دلانے کا انتظام کرتے، مسافر اور بے گھر افراد کے ٹھکا نے کا بندوبست کرتے، ناخواندگان کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی کوشش کرتے، بھوکوں کو کھانا کھلاتے، یتیموں اور بیواؤں کا سہارا بنتے۔ ال غرض بہ وقت ضرورت لوگوں کے بہت سے کام کر دیتے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ جب بعد میں لوگوں کی غلطیوں پر ان کی اصلاح کیا کرتے تو لوگ ان کی بات کو سچے دل سے قبول کر لیتے اور راہ راست پر آجاتے۔

محبت و دل سوزی اپنائیں:
ہمارے ہاں عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ مخاطب سے محبت و خیر خواہی کرنا تو دُور کی بات اس کے اچھے کام پر بھی اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی اور کسی سے انجانے میں اگر کوئی غلطی ہو جائے تو اس کا چرچا یوں کیا جاتا ہے گویا اس شخص میں صرف غلطیاں ہی ہیں اور کوئی خوبی ہے ہی نہیں۔

اس کے برخلاف بزرگان دین کا معمول تھا کہ مخاطب کی محبت و خیر خواہی ان کے لیے ایک نسخہ کیمیا تھی جو انہیں ہمیشہ ان کے مقصد میں کام یاب کر کے چھوڑتا۔ وہ ہر وقت اپنے زیرتربیت افراد کے لیے سوچتے رہتے۔ وہ اپنا علمی رعب و دبدبہ دکھانے کے بہ جائے مخاطب سے محبت کرتے۔ ان کا دوسروں سے سلوک برادرانہ ہوتا۔

جس طرح کوئی آدمی اپنے بھائی کا نقصان ہوتے دیکھ کر کڑھتا ہے اور اسے نقصان سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے وہ بھی مسلمان بھائی کی دین سے دوری کو دیکھ کر کڑھتے اور انہیں اس اندھیرے سے نکالنے کے لیے عملی تدابیر اختیار کرتے۔ نتیجتاً ان کے منہ سے نکلنے والے کلمات لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں اترتے چلے جاتے ور وہ اس کو بے ساختہ قبول کر لیتے۔

قانون تدریج کا خیال رکھیں:
بزرگان دین تعلیم و تربیت کے سلسلے میں قانون تدریج کا بہت زیادہ خیال رکھا کرتے۔ قانون تدریج کا مطلب یہ ہے کہ مخاطب کی تمام خامیاں نہ تو یک لخت ختم ہو سکتی ہیں اور نہ وہ یک بار خوبیوں کا مجموعہ بن سکتا ہے بلکہ یہ دونوں کا م آہستہ آہستہ انجام پائیں گے۔

ہمارے اسلاف اپنے زیر تربیت افراد کی خوبیوں اور خامیوں کا اچھی طرح تجزیہ کر کے تدریجاً ایک ایک خامی کو دور کرتے اور اور ایک ایک خوبی کو پروان چڑھاتے۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ تدریج میں صرف یہ بات شامل نہیں کہ تمام چیزوں کی یک بارگی اور یک لخت تلقین نہ کی جائے بلکہ یہ بھی تدریج میں شامل ہے کہ اشیاء میں ترجیحات اور درجات و مراتب کا بھی خیال رکھا جائے۔

تحسین و حوصلہ افزائی کریں:
بزرگان دین اپنے زیر تربیت افراد کی ان کے اچھے کاموں پر حسی یا معنوی طور پر تحسین و حوصلہ افزائی کا بھی خیال رکھتے جس سے ان میں بہت مثبت ثمرات پیدا ہوتے۔ مثلاً اس سے وہ اس نیک عمل پر مداومت اختیار کرتے اور ان میں خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھنے کا جذبہ بھی پیدا ہوتا۔

اچھے انداز سے مخاطب کریں:
بزرگان دین اپنی محفل میں آنے والے بلاتفریق مذہب و مسلک ہر آدمی کو اچھے انداز سے مخاطب کرتے، جس سے وہ آدمی خوش ہو کر ان کی بات کو نہ صرف سنتا بلکہ اپنے دل میں جگہ دیتا۔ طنزیہ انداز اختیار کرنا یا نام بگاڑنا یا گالیاں دینا یا برے القاب سے پکارنا نہ صرف یہ کہ سخت نقصان دہ ہے بلکہ اس سے مربّی کی شخصیت بھی بُرے طریقے سے متأثر ہوتی ہے اور وہ عوام میں اپنی ساکھ کھو بیٹھتا ہے۔

نصیحت کی بات کو بار بار دہرائیں:
عام انسان وہ کوئی بھی ہو بھولتا بھی ہے اور بعض اوقات غفلت کا شکار بھی ہو جاتا ہے۔ چوں کہ بزرگانِ دین انسان کی اس فطری کم زوری سے اچھی طرح آگاہ تھے اس لیے وہ کامل تفہیم کے لیے اپنی بات ان کے سامنے بار بار دہراتے جس سے وہ بات ان کے ذہنوں میں اچھی طرح بیٹھ جاتی اور وہ اس بات کو قبول کر لیتے ۔

اﷲ پاک ہمیں اچھے انداز کے ساتھ اصلاح کرنے کا جذبہ نصیب فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں