ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

مسلم اُمّہ کے تمام حکمرانوں کا اسلامی حقائق سے آشنا اور مخلص ہونا انتہائی ضروری ہے


اگر حکمران متّقی اور پرہیز گار ہوں، تو لامحالہ عوام کے دلوں میں بھی خوفِ خدا رہے گا۔ (فوٹو: فائل)

حمد و ستائش پروردگارِ عالم کے لیے۔ دُرود و سلام حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم پر۔ محترم و معزز قارئینِ کرام! سورۂ آلِ عمران میں پروردگارِ عالم کی جانب سے وحدت اور اتحادِ اُمّت کے سلسلے میں ہمیں یوں راہ نمائی ملتی ہے، مفہوم:

''اور تم سب کے سب (مل کر) خدا کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو اور اپنے حالِ زار پر خدا کے احسان کو تو یاد کرو جب تم آپس میں (ایک دوسرے کے) دُشمن تھے تو خدا نے تمہارے دِلوں میں (ایک دوسرے کی) اُلفت پیدا کردی تو تم اُس کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے اور تم گویا سلگتی ہوئی آگ کی بھٹی (دوزخ) کے لب پر کھڑے تھے اور گِرنے ہی والے تھے کہ خدا نے تم کو اس سے بچا لیا، تو خدا اپنے احکام یوں واضح کرکے بیان کرتا ہے تاکہ تم راہِ راست پر آجاؤ۔''

رسالت مآب نبی کریم، شفیع المذنبین حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے نورانی کلام کی خوش بُو ملاحظہ فرمائیے، مفہوم:

''جو اِس عالَم میں صبح کرے کہ مسلمانوں کے اُمور کی فکر اور اس کا اہتمام نہ کرے، وہ مسلمان نہیں ہے۔ اِسی طرح جو مسلمانوں کو مدد کے لیے پکار رہا ہو تو جو بھی اُس کی آواز پر لبّیک نہ کہے، وہ بھی مسلمان نہیں ہے۔''

خاتونِ جنت، سیّدۃ النساء العالمین حضرتِ بی بی فاطمۃ الزھرا رضی اﷲ تعالیٰ عنہا یوں راہ نمائی فرماتی ہیں:

''لوگوں کے درمیان میرے پدرِ گرامی حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم ہدایت کے لیے کھڑے ہوئے اور اُن کو گم راہی سے نجات دی اور اندھے پن سے روشنی کی طرف راہ نمائی کی، مضبوط دین کی طرف ہدایت فرمائی، صراطِ مستقیم کی طرف دعوت دی۔''

امیر المومنین، امام المتقین، یعسوب الدّین حضرت علی کرم اﷲ وجہہٗ نہج البلاغہ میں ہمیں یہ دائمی درس دے رہے ہیں:

''(دعوتِ اتّحاد و اتّفاق) تمہارے چھوٹوں کو چاہیے کہ اپنے بڑوں کی پیروی کریں اور بڑوں کا فرض ہے کہ اپنے چھوٹوں پر مہربانی کریں اور خبردار! تم لوگ جاہلیت کے ان ظالموں جیسے نہ ہوجانا جو نہ دین کا علم حاصل کرتے تھے اور نہ اﷲ کے بارے میں عقل و فہم سے کام لیتے تھے۔

ان کی مثال ان انڈوں کے چھلکوں جیسی ہے جو شُتر مرغ کے انڈے دینے کی جگہ پر رکھے ہَوں کہ ان کا توڑنا تو جرم ہے، لیکن پرورش کرنا بھی سوائے شر کے کوئی نتیجہ نہیں دے سکتا ہے۔''

حضرت علی کرم اﷲ وجہہٗ کیا خوب راہ نمائی فراہم کرتے ہیں:

''لوگوں کے ساتھ ایسا میل جول رکھو کہ مر جاؤ تو لوگ گِریہ کریں اور زندہ رہو تو تمہارے مشتاق رہیں۔''

علّامہ محمد اقبالؒ کی سیاسی بصیرت کو سلام، جنہوں نے کیا خوب کہا ہے:

ایک ہَوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نِیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر

اب ہم اتحادِ اُمّت کے اہم ترین اسباب پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں، جو حسبِ ذیل ہیں:

(1) سب سے پہلے تعلیم و تربیت ہے۔ عصری علوم کے ساتھ تمام تعلیمی اداروں اور مدارس وغیرہ میں دِینی علوم کی جدید تعلیمی و تدریسی خدمات اشد ضروری ہیں۔ اِس ضمن میں دیگر مکاتبِ فکر کے علمائے کرام، ریسرچ اسکالرز اور دیگر ذمّے داروں کی تحریروں سے آشنائی ازبس ضروری ہے۔ ہمارے مدرسوں میں برادرانِ اہلِ سنّت کے علمائے کرام پڑھانے آئیں۔

آپ کے مدرسوں میں ہمارے علمائے کرام پڑھانے جائیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے۔ علمِ کلام، ادبیات آپ کے علماء پڑھائیں۔ 90 فی صد علوم ایسے ہیں، جو دونوں کے ہاں مشترکہ ہیں۔ علمِ صَرف و نحو مشترکہ ہے۔ صرف فقہ کا علم ظاہر ہے الگ ہے۔

اِس روِش کو اگر خلوصِ دل سے اپنایا جائے اور یہ خلوص دو طرفہ ہو تو اتحادِ اُمّت کا ایک بہترین وسیلہ اور سبب ہوسکتا ہے۔ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے شیعہ سنّی اتحاد۔

(2) تحمل و برداشت اور رواداری:

دوسرے نمبر یہ اَخلاقی صفات آتی ہیں۔ ہمارے لیے بہترین نمونۂ عمل حضرت علی کرم اﷲ وجہہُ فرماتے ہیں:

'' اگر مجھے فیصلہ کرنے کا موقع دیا جاتا، تو میں اہلِ انجیل کے معاملات کا انجیل سے، اہلِ زبور کے معاملات کا زبور سے اور اہلِ تورات کے معاملات کا تورات سے فیصلہ کرتا۔''

اِس قول مبارکہ کے مفہوم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اپنے اپنے مکتب ِ فکر سے اگر فیصلہ کرانے والے میرے پاس رُجوع کریں، تو میں اُنہی کے مکتب ِ فکر کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ اپنے مکتب کے فیصلے کو کسی پر زبردستی نافذ نہیں کروں گا۔

اِس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تحمل و برداشت اور رواداری ہر مکتب ِ فکر کے افراد کے لیے کس قدر ضروری اور لازمی ہے۔ انسانیت کا رشتہ ہونا چاہیے۔ امیر المومنین حضرت علی کرم اﷲ وجہہٗ کی تعلیمات کے مطابق دِین کا رشتہ سب سے حاکم رشتہ ہے۔ دِین بھی ہمیں انسانیت، محبت، خلوص اور باہمی احترام و رواداری ہی کا درس دیتا ہے۔

(3) اتحادِ اُمّت کا تیسرا اہم سبب مسلم حکم رانوں کی سیرت و کردار اور اُن کے رویّوں سے متعلق ہے۔ اگر ان کا قبلہ دُرست ہے، تو مسائل کم اور فضائل کا باب وَا ہوگا۔ مسلم اُمّہ کے تمام حکم رانوں کا اسلامی حقائق سے آشنا اور مخلص ہونا انتہائی ضروری ہے۔

مثل مشہور ہے کہ عوام اپنے پیشواؤں کے دِین پر ہوتے ہیں۔ اگر حکم ران متّقی اور پرہیز گار ہَوں، تو لامحالہ عوام کے دلوں میں بھی خوفِ خدا رہے گا۔ اگر حکم ران رعایا سے محبت کرتے ہوں گے، اُن کے حقوق کے محافظ ہوں گے، تو رعایا بھی اپنے فرائض اور وظائف بہتر انداز میں انجام دے گی۔ دل سے دل کو راہ ہوتی ہے۔

حضرتِ امیر المومنین علی کرم اﷲ وجہہٗ نے جناب مالکِ اشترؓ کو اُس وقت تحریر کرکے عطا فرمایا تھا، جب اُن کو مصر کا حاکم بنا کر روانہ فرمایا تھا۔ اقوامِ متحدہ نے حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہٗ کے اُس معروف خط کو دنیا بھر میں سب سے بہترین اور کام یاب ترین نظامِ حکومت پہ مبنی خط قرار دیا، جو بلاشبہ دینِ اسلام کی عالمی سطح پر پزیرائی کہی جاسکتی ہے۔

( 4) اتحادِ اُمّت کے اسباب میں سے چوتھا اہم سبب معاشرے میں علمائے کرام سے متعلق ہے۔ صاحبانِ فکر، صاحبانِ دِقّت، صاحبانِ بصیرت، ایثار گر، فداکار، تحمل مزاج، مہربان، پُرمودّت، معاملہ فہم شخصیات، علماء و فضلاء کرام کی معاشرے میں حیثیت و اہمیت تب ہی تسلیم کی جاتی ہے، جب علم و تقویٰ میں اضافے کی وجہ سے اُن کی سیرت و کردار کے نقوش بہتر سے بہتر ہوں۔

امیر المومنین حضرت علی کرم اﷲ وجہہٗ نے ہم سب کی یوں راہ نمائی فرمائی ہے:

''اسلام سے بلند تر کوئی شرف نہیں ہے اور تقویٰ سے زیادہ باعزت کوئی نہیں ہے۔ پرہیز گاری سے بہتر کوئی پناہ گاہ نہیں ہے اور توبہ سے زیادہ کام یاب کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں