سندھ 7 سال گزر گئے پینے کے پانی کی پالیسی کا نفاذ نہ ہو سکا
حکومت کوئی انفرااسٹرکچر بنانے میں ناکام رہی ، اس پالیسی کا مقصد پینے کے پانی تک مساوی رسائی کو یقینی بنانا تھا
صوبے کی عوام کی پینے کے صاف پانی تک رسائی کی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے تقریباً 7سال قبل سندھ حکومت نے ایک پالیسی منظور کی تھی جس کے تحت پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جانا تھا لیکن یہ پالیسی آج تک التوا کا شکار ہے۔
مئی 2017 میں متعارف کرائی گئی سندھ ڈرنکنگ واٹر پالیسی صوبے کے لوگوں کو محفوظ اور غیر آلودہ پانی فراہم کرکے پانی سے پیدا ہونے والی بیماری اور اموات کو کم کرنے کا واضح تصور لے کر بنائی گئی تھی مزید اس پالیسی کا مقصد پینے کے پانی تک مساوی رسائی کو یقینی بنانا تھا مگرعوام کیلیے صاف پینے کے پانی کی پالیسی کا نفاذ ابھی تک نہ ہو سکا۔سندھ حکومت صاف پانی سپلائی کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے کوئی انفراسٹرکچر بنانے میں ناکام رہی ہے۔
علاوہ ازیں پینے کے پانی تک رسائی بڑھانے کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے کنٹری ڈائریکٹر عارف جبار خان کا خیال ہے کہ اس پالیسی کے نفاذ کا امکان کم ہی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ سندھ کی پالیسی کے علاوہ ہمارے پاس پینے کے پانی کی قومی پالیسی بھی ہے جس پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔بدقسمتی کی بات ہے کہ نہ تو سندھ اور نہ ہی قومی سطح کی پالیسی پر عمل کیا گیا کیونکہ ملک کی 80 فیصد آبادی پینے کے پانی سے محروم ہے اور اپنی پیاس بجھانے کے لیے آلودہ پانی پینے پر مجبور ہے۔دوسری جانب سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ نے کہا کہ سندھ حکومت جو بھی قوانین اور پالیسیاں متعارف کراتی ہے وہ صرف کاغذوں پر موجود ہیں۔
ان پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوتا۔پالیسی کے علاوہ، پاکستان کا آئین پینے کے صاف پانی کو بنیادی حق کے طور پر فراہم کرتا ہے، لیکن حکمران جماعت اور بیوروکریٹس پیسے بٹورنے میں مصروف ہیں، اس لیے انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ سندھ کی آبادی کو پینے کا پانی میسر نہیں ہے۔
واٹر پالیسی پر عملدرآمد نہ ہونے کے بارے میں سوال پر وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ صوبائی حکومت پانی کے شعبے پر ترجیحی بنیادوں پر کام کر رہی ہے۔
جب ایکسپریس ٹریبیون نے نشاندہی کی کہ پالیسی کو متعارف ہوئے 7 سال ہوچکے ہیں اور اس کا کوئی بھی وعدہ پورا نہیں ہوا، تو شاہ نے جواب دیا: "ہم نے پالیسی شروع کرنے کے بعد، ہم نے پانی سے متعلق مختلف اسکیموں کے لیے تقریباً 11 ارب روپے مختص کیے تھے۔ درحقیقت، ہم ہر سال پانی اور صفائی ستھرائی پر اربوں روپے خرچ کرتے ہیں لیکن سیلاب نے تقریباً تمام انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا ہے جس پر ہم نے خرچ کیا۔
مئی 2017 میں متعارف کرائی گئی سندھ ڈرنکنگ واٹر پالیسی صوبے کے لوگوں کو محفوظ اور غیر آلودہ پانی فراہم کرکے پانی سے پیدا ہونے والی بیماری اور اموات کو کم کرنے کا واضح تصور لے کر بنائی گئی تھی مزید اس پالیسی کا مقصد پینے کے پانی تک مساوی رسائی کو یقینی بنانا تھا مگرعوام کیلیے صاف پینے کے پانی کی پالیسی کا نفاذ ابھی تک نہ ہو سکا۔سندھ حکومت صاف پانی سپلائی کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے کوئی انفراسٹرکچر بنانے میں ناکام رہی ہے۔
علاوہ ازیں پینے کے پانی تک رسائی بڑھانے کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے کنٹری ڈائریکٹر عارف جبار خان کا خیال ہے کہ اس پالیسی کے نفاذ کا امکان کم ہی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ سندھ کی پالیسی کے علاوہ ہمارے پاس پینے کے پانی کی قومی پالیسی بھی ہے جس پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔بدقسمتی کی بات ہے کہ نہ تو سندھ اور نہ ہی قومی سطح کی پالیسی پر عمل کیا گیا کیونکہ ملک کی 80 فیصد آبادی پینے کے پانی سے محروم ہے اور اپنی پیاس بجھانے کے لیے آلودہ پانی پینے پر مجبور ہے۔دوسری جانب سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ نے کہا کہ سندھ حکومت جو بھی قوانین اور پالیسیاں متعارف کراتی ہے وہ صرف کاغذوں پر موجود ہیں۔
ان پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوتا۔پالیسی کے علاوہ، پاکستان کا آئین پینے کے صاف پانی کو بنیادی حق کے طور پر فراہم کرتا ہے، لیکن حکمران جماعت اور بیوروکریٹس پیسے بٹورنے میں مصروف ہیں، اس لیے انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ سندھ کی آبادی کو پینے کا پانی میسر نہیں ہے۔
واٹر پالیسی پر عملدرآمد نہ ہونے کے بارے میں سوال پر وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ صوبائی حکومت پانی کے شعبے پر ترجیحی بنیادوں پر کام کر رہی ہے۔
جب ایکسپریس ٹریبیون نے نشاندہی کی کہ پالیسی کو متعارف ہوئے 7 سال ہوچکے ہیں اور اس کا کوئی بھی وعدہ پورا نہیں ہوا، تو شاہ نے جواب دیا: "ہم نے پالیسی شروع کرنے کے بعد، ہم نے پانی سے متعلق مختلف اسکیموں کے لیے تقریباً 11 ارب روپے مختص کیے تھے۔ درحقیقت، ہم ہر سال پانی اور صفائی ستھرائی پر اربوں روپے خرچ کرتے ہیں لیکن سیلاب نے تقریباً تمام انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا ہے جس پر ہم نے خرچ کیا۔