منی بجٹ اور سیاسی عدم استحکام
بدقسمتی سے پاکستان ابتداء سے ہی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی ترقی میں ناکام رہا ہے
ایک سو سترارب روپے کے ٹیکس اقدامات پر مبنی منی بجٹ آنے کے بعد پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اورجی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافہ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا بلند ترین سطحوں تک پہنچنا اور گیس کے نرخوں میں حد سے زیادہ اضافے سے عام آدمی پر ناقابل برداشت حد تک دباؤ بڑھ گیا ہے۔
جی ایس ٹی کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے کے فیصلے سے غریب عوام کے لیے تقریباً تمام اشیا ہی پہنچ سے دور ہوجائیں گی۔دوسری جانب ملک میں سیاسی عدم استحکام مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے ،جو معاملات پارلیمنٹ کے فورم پر حل ہوسکتے ہیں ، وہ روزانہ کی بنیاد پر عدالتوں میں جا رہے ہیں ، یہ روش جمہوری روایات سے انحراف کے مترادف ہے۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ اس سال جی ڈی پی کی شرحِ نمو 2.5 فیصد سے کم رہنے پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے، جمود کی شرح خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے، ہمارے ہاں افراطِ زر کی شرح روزمرہ کی اشیائے خورونوش کی قیمتوں اور روزگار کو متاثر کر رہی ہے۔ قوتِ خرید میں مسلسل کمی سے غریب اور مقررہ آمدنی والے افراد کے لیے بڑی مالی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔
غربت سے پریشان پاکستانی مزید غربت کا شکار ہوئے ہیں اور انھی حالات کا فائدہ گراں فروشوں نے خوب اٹھایا اور ہر چیز کئی گنا مہنگی صرف اسی بنیاد پر کردی گئی، چونکہ مقامی اور صوبائی حکومتوں کی عملداری ہمیشہ سے کمزور رہی ہے، لہٰذا مہنگائی کو عروج پر پہنچنے سے کون روک سکتا تھا۔
درست ہے کہ اس وقت 70 کی دہائی میں ہونے والی مہنگائی کے بعد یہ دوسری بڑی مہنگائی کی لہر ہے جس سے اس وقت ملک گزر رہا ہے۔ اس میں بھی غذائی اشیا میں مہنگائی کی رفتار 34 فی صد سے زیادہ ہے جب کہ اس وقت پاکستان ایشیا میں چھٹا ملک ہے جہاں افراط زر کی شرح میں اضافہ انتہائی تیز ہے۔
افراط زر کی موجودہ شرح یعنی 25 فی صد اب بھی کم بتائی جارہی ہے اور حقیقت میں یہ 30 فی صد یا اس سے بھی زیادہ ہے، اگر پاکستان نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر ان اصلاحات پر عمل کیا تو یہ 35 فی صد سے بھی اوپر چلی جائے گی اور اگر آئی ایم ایف کا پروگرام بحال نہیں ہوتا تو ملک میں افراط زر 50 فی صد یا اس سے زیادہ ہو جائے گا۔ملک کی معاشی حالت آخر کب سدھرے گی، یہ سوال آج کل ہر طرف سے پوچھا جارہا ہے لیکن کسی طرف سے اس کا جواب آرہا ہے اور نہ ہی عوام کو مطمئن کیا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
گزشتہ پچھتر سال سے یہی کہا جارہا ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال انتہائی نازک ہے،ملک نازک صورت حال سے گزر رہا ہے،حیرت ہے پچھلے75 سال سے نازک صورت حال ہی ختم نہیں ہو رہی جو بھی حکمرانی کے لیے آتا ہے اس کی اپنی حالت تو نازک نہیں رہتی اوروہ تو خوب پھلتا پھولتا ہے بلکہ آنے والی اپنی سات نسلوں تک کو سنوار لیتا ہے مگر ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں؟
سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاسی جماعت کوئی بھی ہو آپ احتساب کے لیے کسی پر بھی ہاتھ ڈالیں تو جمہوریت خطرے میں،ملک کا دیوالیہ ہو گیا جیسے الفاظ کہہ کرجان چھڑا لی جاتی ہے۔
عوامی فلاح و بہبود کے دعوے اپنی جگہ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات ان سب سے بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہیں جن کی وجہ سے عوام کو حقیقی ریلیف ملنا ممکن ہی نہیں۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے سال 2021کے قومی انسانی ترقیاتی جائزے (این ایچ ڈی آر) میں بتایا گیا کہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 6 فیصد حصہ اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات پر صرف ہوتا ہے۔ یہ رقم ساڑھے سترہ ارب ڈالرز کے لگ بھگ بنتی ہے۔
اس جائزے میں جن تین گروہوں کو سب سے زیادہ مراعات حاصل کرنے والا بتایا گیا وہ بالترتیب کاروباری طبقہ، ایک فیصد امیر ترین افراد اور جاگیردار ہیں۔ کاروباری طبقے کی طرف سے لی جانے والی مراعات کا حجم اس رپورٹ کے مطابق، تقریباً پونے پانچ ارب ڈالرز ہے۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ ایک فیصد امیر ترین لوگ ملک کی مجموعی آمدنی کے نو فیصد کے مالک ہیں جب کہ جاگیردار جو ملک کی آبادی کا ایک اعشاریہ ایک فیصد ہیں بائیس فیصد قابلِ کاشت رقبے کے مالک ہیں۔
اس رپورٹ کے مندرجات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے اندر واضح طور پر دو ریاستیں موجود ہیں ایک متوسط، غریب اور پس ماندہ طبقات پر مشتمل اور دوسری وہ جس کا نہ صرف وسائل پر قبضہ ہے بلکہ اقتدار و اختیار کی مختلف شکلیں بھی اسی کے زیرِ اثر ہیں اسی لیے کوئی چاہ کر بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
این ایچ ڈی آر میں دولت اور وسائل کی جس غیر منصفانہ تقسیم سے متعلق حقائق سامنے لائے گئے ہیں اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں بیس فیصد امیر لوگ ملک کی تقریباً نصف (انچاس اعشاریہ چھے فیصد) آمدنی کے حامل ہیں اور ان کے مقابلے میں بیس فیصد غریب لوگ مجموعی آمدنی میں صرف سات فیصد حصہ رکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں امیر اور غریب طبقات سے وابستہ لوگ جغرافیائی طور پر ایک ہی ملک کے باشندے ہوتے ہوئے بھی الگ الگ دنیا میں رہتے ہیں اور یہ دونوں دنیائیں ایک دوسرے سے اتنی مختلف ہیں کہ ایک طبقے سے وابستہ افراد کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ دوسرے طبقے سے جڑے ہوئے لوگوں کے مسائل کیا ہیں۔ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں متوسط طبقے کی تعداد مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔
عوام کی غالب اکثریت کو کھانے کو روٹی اور علاج کے لیے دوا بھی میسر نہ ہو اور افراد کی ایک قلیل تعداد ہر طرح کی سہولیات اور آسائشوں کے ساتھ زندگی بسر کررہی ہو تو مسلسل احساسِ محرومی کسی ایسی صورتحال کو جنم دے دیتا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتی۔
اشرافیہ بلا ٹیکس مراعات، فوائد، محل نما رہائش گاہوں، مفت سہولیات، ملازمین کی فوج ظفرموج سے لطف اندوز ہوتی ہے اور اہم علاقوں میں مہنگے پلاٹ بھی مفت یا رعایتی نرخوں پر حاصل کرتی ہے۔ آزادی کے بعد سے ریاستی نظام جو اپنا کردار ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے، کو جمہوری بنانے کی غرض سے ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور دیگر کے سامنے ہماری معاشی محکومی کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔ حکمراں اشرافیہ کی مسلسل ناکامی کے باعث ہم سیاسی استحکام اور پائیدار اقتصادی ترقی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بڑھتے ہوئے قرضوں اور مالیاتی خسارے کے دوہرے خطرات ہماری مسلسل مالی بدانتظامی کی گواہی دیتے ہیں۔
ملک آئی ایم ایف کے قرضوں پر زندہ ہے جس کی وجہ امراء پر ٹیکس عائد کرنے میں مسلسل ناکامی اور بے تحاشا اخراجات جو اب جی ڈی پی کا تقریباً 25 فیصد ہیں، میں کمی نہ کرنا ہے۔ اس ساری حقیقت پر مبنی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی عوام سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ چلارہے ہیں ،کہ مراعات یافتہ طبقے کی مراعات کم کی جائیں۔
ملک کی گمبھیر معاشی صورت حال سے نجات کے لیے حکومت پرائس کنٹرول اتھارٹی اور مسابقتی کمیشن کو بھرپور طریقے سے متحرک کرے تاکہ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کا سدباب ہو سکے۔ اس میں روز مرہ کی اشیاء خورونوش بھی ہیں اور صنعتی مصنوعات بھی، وہ سرکاری افسران جنھیں سرکاری گاڑیاں اور سرکاری پٹرول حاصل ہے، ان کی پٹرول کی مراعات کم کی جانی چاہیے۔
تمام سرکاری افسران سے مفت بجلی کی سہولت واپس لی جانی چاہیے،سات ہندسوں میں تنخواہ وصول کرنے والے سرکاری افسران کی تنخواہوں میں بھی کمی کی جانی چاہیے،انتخابی مہم میں کروڑوں روپے خرچ کر کے اسمبلیوں میں پہنچنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کی تنخواہوں، ایئر ٹکٹ، مفت علاج سمیت دیگر سہولیات فوری طور پر معطل کی جائیں۔
وفاقی اور صوبائی وزراء اور مشیروں کی مراعات کو بھی معطل کیا جائے، گھروں میں رکھے گئے اربوں ڈالر نکالنے کے لیے ایمنسٹی اسکیم لائی جائے، ہمارے ملک کی 65 فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے۔ اسی لیے کسان کو کھاد، بیج زرعی ادویات اورمشینری آسان اقساط پر فراہم کی جائے۔ بجلی ڈیزل اور پانی کم سے کم ریٹ پر فراہم کیا جائے۔ اس کے ساتھ فصل کی نقد اور مناسب ترین سرکاری ریٹ پر خریداری کو یقینی بنایا جائے تاکہ مڈل مین کا کردار ختم ہو۔
اگر حکومت واقعی غریب اور متوسط طبقے کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو اسے ان تجاویز پر غور کرنا چاہیے کیونکہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہی رہا ہے کہ یہاں طبقہ اشرافیہ مراعات یافتہ ہے اور قربانی غریب عوام سے لی جاتی ہے، اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔
سیاسی استحکام سے ہی معیشت کی ترقی ممکن ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان ابتداء سے ہی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی ترقی میں ناکام رہا ہے۔ وسائل کے درست استعمال، کرپشن کو کم کرنے کے لیے مناسب چیک اینڈ بیلنس، طویل المدتی منصوبہ بندی، مناسب اور باقاعدہ انتخابات جیسے اقدامات کر کے پاکستان ایک بہتر معاشی ملک بن سکتا ہے۔
اگر حکومت، اپوزیشن اور تمام ریاستی ادارے مل بیٹھ کر صرف سیاسی استحکام کے حصول کی ٹھان لیں تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم ایک پرامن اور ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائیں۔
جی ایس ٹی کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے کے فیصلے سے غریب عوام کے لیے تقریباً تمام اشیا ہی پہنچ سے دور ہوجائیں گی۔دوسری جانب ملک میں سیاسی عدم استحکام مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے ،جو معاملات پارلیمنٹ کے فورم پر حل ہوسکتے ہیں ، وہ روزانہ کی بنیاد پر عدالتوں میں جا رہے ہیں ، یہ روش جمہوری روایات سے انحراف کے مترادف ہے۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ اس سال جی ڈی پی کی شرحِ نمو 2.5 فیصد سے کم رہنے پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے، جمود کی شرح خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے، ہمارے ہاں افراطِ زر کی شرح روزمرہ کی اشیائے خورونوش کی قیمتوں اور روزگار کو متاثر کر رہی ہے۔ قوتِ خرید میں مسلسل کمی سے غریب اور مقررہ آمدنی والے افراد کے لیے بڑی مالی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔
غربت سے پریشان پاکستانی مزید غربت کا شکار ہوئے ہیں اور انھی حالات کا فائدہ گراں فروشوں نے خوب اٹھایا اور ہر چیز کئی گنا مہنگی صرف اسی بنیاد پر کردی گئی، چونکہ مقامی اور صوبائی حکومتوں کی عملداری ہمیشہ سے کمزور رہی ہے، لہٰذا مہنگائی کو عروج پر پہنچنے سے کون روک سکتا تھا۔
درست ہے کہ اس وقت 70 کی دہائی میں ہونے والی مہنگائی کے بعد یہ دوسری بڑی مہنگائی کی لہر ہے جس سے اس وقت ملک گزر رہا ہے۔ اس میں بھی غذائی اشیا میں مہنگائی کی رفتار 34 فی صد سے زیادہ ہے جب کہ اس وقت پاکستان ایشیا میں چھٹا ملک ہے جہاں افراط زر کی شرح میں اضافہ انتہائی تیز ہے۔
افراط زر کی موجودہ شرح یعنی 25 فی صد اب بھی کم بتائی جارہی ہے اور حقیقت میں یہ 30 فی صد یا اس سے بھی زیادہ ہے، اگر پاکستان نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر ان اصلاحات پر عمل کیا تو یہ 35 فی صد سے بھی اوپر چلی جائے گی اور اگر آئی ایم ایف کا پروگرام بحال نہیں ہوتا تو ملک میں افراط زر 50 فی صد یا اس سے زیادہ ہو جائے گا۔ملک کی معاشی حالت آخر کب سدھرے گی، یہ سوال آج کل ہر طرف سے پوچھا جارہا ہے لیکن کسی طرف سے اس کا جواب آرہا ہے اور نہ ہی عوام کو مطمئن کیا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
گزشتہ پچھتر سال سے یہی کہا جارہا ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال انتہائی نازک ہے،ملک نازک صورت حال سے گزر رہا ہے،حیرت ہے پچھلے75 سال سے نازک صورت حال ہی ختم نہیں ہو رہی جو بھی حکمرانی کے لیے آتا ہے اس کی اپنی حالت تو نازک نہیں رہتی اوروہ تو خوب پھلتا پھولتا ہے بلکہ آنے والی اپنی سات نسلوں تک کو سنوار لیتا ہے مگر ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں؟
سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاسی جماعت کوئی بھی ہو آپ احتساب کے لیے کسی پر بھی ہاتھ ڈالیں تو جمہوریت خطرے میں،ملک کا دیوالیہ ہو گیا جیسے الفاظ کہہ کرجان چھڑا لی جاتی ہے۔
عوامی فلاح و بہبود کے دعوے اپنی جگہ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات ان سب سے بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہیں جن کی وجہ سے عوام کو حقیقی ریلیف ملنا ممکن ہی نہیں۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے سال 2021کے قومی انسانی ترقیاتی جائزے (این ایچ ڈی آر) میں بتایا گیا کہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 6 فیصد حصہ اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات پر صرف ہوتا ہے۔ یہ رقم ساڑھے سترہ ارب ڈالرز کے لگ بھگ بنتی ہے۔
اس جائزے میں جن تین گروہوں کو سب سے زیادہ مراعات حاصل کرنے والا بتایا گیا وہ بالترتیب کاروباری طبقہ، ایک فیصد امیر ترین افراد اور جاگیردار ہیں۔ کاروباری طبقے کی طرف سے لی جانے والی مراعات کا حجم اس رپورٹ کے مطابق، تقریباً پونے پانچ ارب ڈالرز ہے۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ ایک فیصد امیر ترین لوگ ملک کی مجموعی آمدنی کے نو فیصد کے مالک ہیں جب کہ جاگیردار جو ملک کی آبادی کا ایک اعشاریہ ایک فیصد ہیں بائیس فیصد قابلِ کاشت رقبے کے مالک ہیں۔
اس رپورٹ کے مندرجات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے اندر واضح طور پر دو ریاستیں موجود ہیں ایک متوسط، غریب اور پس ماندہ طبقات پر مشتمل اور دوسری وہ جس کا نہ صرف وسائل پر قبضہ ہے بلکہ اقتدار و اختیار کی مختلف شکلیں بھی اسی کے زیرِ اثر ہیں اسی لیے کوئی چاہ کر بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
این ایچ ڈی آر میں دولت اور وسائل کی جس غیر منصفانہ تقسیم سے متعلق حقائق سامنے لائے گئے ہیں اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں بیس فیصد امیر لوگ ملک کی تقریباً نصف (انچاس اعشاریہ چھے فیصد) آمدنی کے حامل ہیں اور ان کے مقابلے میں بیس فیصد غریب لوگ مجموعی آمدنی میں صرف سات فیصد حصہ رکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں امیر اور غریب طبقات سے وابستہ لوگ جغرافیائی طور پر ایک ہی ملک کے باشندے ہوتے ہوئے بھی الگ الگ دنیا میں رہتے ہیں اور یہ دونوں دنیائیں ایک دوسرے سے اتنی مختلف ہیں کہ ایک طبقے سے وابستہ افراد کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ دوسرے طبقے سے جڑے ہوئے لوگوں کے مسائل کیا ہیں۔ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں متوسط طبقے کی تعداد مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔
عوام کی غالب اکثریت کو کھانے کو روٹی اور علاج کے لیے دوا بھی میسر نہ ہو اور افراد کی ایک قلیل تعداد ہر طرح کی سہولیات اور آسائشوں کے ساتھ زندگی بسر کررہی ہو تو مسلسل احساسِ محرومی کسی ایسی صورتحال کو جنم دے دیتا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتی۔
اشرافیہ بلا ٹیکس مراعات، فوائد، محل نما رہائش گاہوں، مفت سہولیات، ملازمین کی فوج ظفرموج سے لطف اندوز ہوتی ہے اور اہم علاقوں میں مہنگے پلاٹ بھی مفت یا رعایتی نرخوں پر حاصل کرتی ہے۔ آزادی کے بعد سے ریاستی نظام جو اپنا کردار ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے، کو جمہوری بنانے کی غرض سے ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور دیگر کے سامنے ہماری معاشی محکومی کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔ حکمراں اشرافیہ کی مسلسل ناکامی کے باعث ہم سیاسی استحکام اور پائیدار اقتصادی ترقی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بڑھتے ہوئے قرضوں اور مالیاتی خسارے کے دوہرے خطرات ہماری مسلسل مالی بدانتظامی کی گواہی دیتے ہیں۔
ملک آئی ایم ایف کے قرضوں پر زندہ ہے جس کی وجہ امراء پر ٹیکس عائد کرنے میں مسلسل ناکامی اور بے تحاشا اخراجات جو اب جی ڈی پی کا تقریباً 25 فیصد ہیں، میں کمی نہ کرنا ہے۔ اس ساری حقیقت پر مبنی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی عوام سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ چلارہے ہیں ،کہ مراعات یافتہ طبقے کی مراعات کم کی جائیں۔
ملک کی گمبھیر معاشی صورت حال سے نجات کے لیے حکومت پرائس کنٹرول اتھارٹی اور مسابقتی کمیشن کو بھرپور طریقے سے متحرک کرے تاکہ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کا سدباب ہو سکے۔ اس میں روز مرہ کی اشیاء خورونوش بھی ہیں اور صنعتی مصنوعات بھی، وہ سرکاری افسران جنھیں سرکاری گاڑیاں اور سرکاری پٹرول حاصل ہے، ان کی پٹرول کی مراعات کم کی جانی چاہیے۔
تمام سرکاری افسران سے مفت بجلی کی سہولت واپس لی جانی چاہیے،سات ہندسوں میں تنخواہ وصول کرنے والے سرکاری افسران کی تنخواہوں میں بھی کمی کی جانی چاہیے،انتخابی مہم میں کروڑوں روپے خرچ کر کے اسمبلیوں میں پہنچنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کی تنخواہوں، ایئر ٹکٹ، مفت علاج سمیت دیگر سہولیات فوری طور پر معطل کی جائیں۔
وفاقی اور صوبائی وزراء اور مشیروں کی مراعات کو بھی معطل کیا جائے، گھروں میں رکھے گئے اربوں ڈالر نکالنے کے لیے ایمنسٹی اسکیم لائی جائے، ہمارے ملک کی 65 فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے۔ اسی لیے کسان کو کھاد، بیج زرعی ادویات اورمشینری آسان اقساط پر فراہم کی جائے۔ بجلی ڈیزل اور پانی کم سے کم ریٹ پر فراہم کیا جائے۔ اس کے ساتھ فصل کی نقد اور مناسب ترین سرکاری ریٹ پر خریداری کو یقینی بنایا جائے تاکہ مڈل مین کا کردار ختم ہو۔
اگر حکومت واقعی غریب اور متوسط طبقے کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو اسے ان تجاویز پر غور کرنا چاہیے کیونکہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہی رہا ہے کہ یہاں طبقہ اشرافیہ مراعات یافتہ ہے اور قربانی غریب عوام سے لی جاتی ہے، اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔
سیاسی استحکام سے ہی معیشت کی ترقی ممکن ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان ابتداء سے ہی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی ترقی میں ناکام رہا ہے۔ وسائل کے درست استعمال، کرپشن کو کم کرنے کے لیے مناسب چیک اینڈ بیلنس، طویل المدتی منصوبہ بندی، مناسب اور باقاعدہ انتخابات جیسے اقدامات کر کے پاکستان ایک بہتر معاشی ملک بن سکتا ہے۔
اگر حکومت، اپوزیشن اور تمام ریاستی ادارے مل بیٹھ کر صرف سیاسی استحکام کے حصول کی ٹھان لیں تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم ایک پرامن اور ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائیں۔