بچوں کا امجد اسلام امجد اور بڑوں کا ضیاء محی الدین

موضوع اب کمرشل ہاتھوں میں کھیلتا ہے، اشتہار دینے والے فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا زیادہ بِکتا ہے؟ کس طرح دکھانا ہے؟

امجد اسلام امجد کا گھر یہی ہے؟ جی یہی ہے، گیٹ کے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص نے جواب دیا۔

اس تسلی کے بعد کہ ہم صحیح ایڈریس پر پہنچ چکے تھے؛ گاڑی لاک کی اور گھر کی طرف ابھی قدم اٹھانے کو تھے کہ سامنے بیٹھے تین چار لوگوں کے پاس کھڑا بچہ ہمارے پاس آ کر بولا؛ میں امجد صاحب کا پوتا ہوں۔ ہم نے اس کی طفلانہ اپنائیت اور گرمجوشی کو سراہتے ہوئے اپنے ساتھ لگایا اور پوچھا؛ کیا نام ہے تمہارا؟ موسیٰ۔ یہ پیارا سا بچہ ہماری رہنمائی کرتے ہوئے ڈرائنگ روم تک چھوڑ گیا۔

تعزیت کے بعد امجد اسلام امجد کے صاحبزادے علی ذیشان سے ان کے والد کی زندگی کے بار ے میں گفتگو شروع ہو گئی۔ اس محفل میں معروف شاعر انور مسعود کے صاحب زادے اور امجد اسلام امجد کے داماد محمد عاقب انور بھی موجود تھے۔ یوں گفتگو کا رخ دونوں معروف شخصیات کے درمیان اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر ہوتا رہا، ان کی شاعری، دلچسپ واقعات، عادتیں، سفر اورڈراموں سمیت بہت سے پہلوئوں پر باتیں کرتے ہوئے احساس ہی نہ ہوا کہ ڈیڑھ دو گھنٹے گذر گئے۔

امجد اسلام امجد سے بالمشافہ ملاقاتیں پانچ چھ بار ہوئیں مگر اتفاق سے پہلی ہی ملاقات میں یارِ من خالد مسعود خان سمیت کچھ ایسے حوالے در آئے کہ پہلی ملاقات میں بھی اجنبیت کا احساس نہ ہوا۔ پہلی بار ان سے ملاقات یونیورسٹی آف مینیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں منعقدہ ادبی نشست میں ہوئی جس میں اتوار اور صبح کی مناسبت سے لاہوری ناشتہ بھی پورے اہتمام سے پیش کیا جاتا ۔ حلوہ پوری اور گھی سے تر بہ تر چنے، پراٹھے اور کشمیری چائے۔

شوگر کے مریض تھے، ناشتہ کرنے سے قبل انھوں نے انسولین لگائی۔ ناشتے کے دوران جب وہ حلوہ افزائی کے طرف مائل ہوئے تو ہم نے کہا بھائی ابھی تو آپ نے انسولین لگائی ہے اور اب حلوہ۔ کچھ زیادہ نہ ہو جائے۔ اطمینان سے جواب دیا؛ انسولین کے چند پوائنٹ اور سہی مگر لاہوری ناشتہ کی قدر افزائی بھی تو ضروری ہے ۔ ان کی شگفتگی کا بہت شہرہ سنا تھا ، بہ نفسِ نفیس دیکھنے اور سننے کا موقع ملا تو یہ عالم تھا ؛ وہ کہا کریںاور سنا کرے کوئی۔

ادبی پروگرام میں ان کی گفتگو کا موضوع ٹی وی ڈرامے تھا۔ وارث، دہلیز، سمندر سمیت درجنوں رجحان ساز ڈرامے لکھنے کے بعد بھی ان کے ذہن اور قلم سے کئی کہانیاں اسکرپٹ میں ڈھلنے کو بیتاب تھیں لیکن کیا کیجیے کہ نجی انٹرٹینمنٹ چینلز کا بزنس ماڈل اور ڈیمانڈ اب بہت بدل گئی ہے؛ معاشرے کے عام افراد کے بجائے ڈرامہ اب بڑے بڑے محلات، عالی شان کوٹھیوں، ڈیزائنر ڈریسز اور شہروں کی اشرافیہ تک محدود ہو گیا ہے۔

موضوع اب کمرشل ہاتھوں میں کھیلتا ہے، اشتہار دینے والے فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا زیادہ بِکتا ہے؟ کس طرح دکھانا ہے؟ وہ اسٹوری لائن ڈکٹیٹ کرنا اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔ جس ڈرامے کی مانگ ہے، میں تو وہ ڈرامہ نہیں لکھ سکتا۔ ایسی کہانی لکھنے کا فائدہ کیا جسے میں اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہ دیکھ سکوں۔ ہاں، آج بھی اچھے موضوع پر لکھنے کی گنجائش بنے گی تو ضرور لکھیں گے ، کیوں نہیں!

ان کے صاحبزادے علی ذیشان امجد سے امجد اسلام امجد کی بچوں کی شاعری پر بات ہوئی تو ہمیں اپنی کم علمی پر افسوس ہوا۔ انھوں نے فوراً تین کتابوں کی نشاندہی کی جو بچوں کی نظموں پر مشتمل ہیں جو ایک طرح کے سیریل شعری مجموعے ہیں؛ گیت ہمارے ۔1 میں چار سے چھ سال تک کے بچوں کے لیے، گیت ہمارے۔2 میںسات سے نو برس تک کے لیے اور گیت ہمارے۔3 میں دس سے بارہ سال تک کے بچوں کے لیے نظمیں ہیں ( ناشر؛ سنگ میل لاہور)۔

ہم آج تک صوفی تبسم کے سحر سے نہیں نکل پائے جن کی لکھی بچوں کی نظمیں ہمارے بچپن کی حسین ترین یادوں میں سے ایک ہیں۔ امجد اسلام امجد کی محبت کی نظموں اور غزلوں کا ایک عالم قدردان ہے لیکن بچوں کے لیے ان کی لکھی نظموں کا ذکر کم کم ہی سنا، شاید اس لیے کہ ہم جوان، بڑے اور بوڑھے اپنی پسند سے باہر کم ہی نکلتے ہیں۔ ذیل میں ان کی ایک نظم سے چند اشعار؛

الف سے ابو الف سے امی


ب سے بہن اور بھائی

پ سے اپنا پیارا پیارا پیارا پاکستان

اس کے رستے باغوں جیسے

جگنو، چاند، چراغوں جیسے

خوشبوخوشبو موسم سارے، بھرے پُرے کھلیان

پ سے پیارا پیاراپیارا پاکستان

اسی ہفتے ڈرامے، اداکاری، ہدایت کاری اور صدا کاری کا ایک اور عظیم شخص رخصت ہو گیا۔ ضیاء محی الدین ہمہ جہت آرٹسٹ تھے۔ اداکاری اور ہدایت کاری کی تعلیم و تربیت اور تھیٹر ، فلموں اور ٹی وی میں قسمت آزمانے وہ ساٹھ کی دِہائی میں انگلینڈ گئے۔ نام کمایا اور خوب کمایا۔

پاکستان ٹی وی پر رجحان ساز انٹرٹینمنٹ ٹاک شوز کیے۔ بعد ازاں اردو ادب ِعالیہ کی پڑھت کو انھوں نے اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا۔ یوں تو انھوں نے اپنے صداکاری ، ادائیگی اور ادب عالیہ کے انتخاب کے بل بوتے پر ایک عالم کو گرویدہ بنایا، تاہم لاہور میں ان کے طفیل ایک نئی ادبی روایت شروع ہوئی۔

لگ بھگ اٹھائیس انتیس سالوں سے سال کی آخری شام علی آڈیٹوریم لاہور میں ٹھیک چھ بجے شام ان کی محفل منعقد ہوتی ۔ ان کے ایک عزیز اور دوست نوید ریاض انتظامات کرتے۔ ہمیں لگ بھگ پندرہ بار ان محفلوں میں شریک ہونے کا موقع ملا، ہر بار نئے کلام کا انتخاب اور ان کی مخصوص ادائیگی کے سبب کبھی یکسانیت محسوس ہوئی نہ بوریت۔ ان کے انتقال کے ساتھ ایک انتہائی خوب صورت اور وقیع ادبی روایت اپنے اختتام کو پہنچی۔

تین سال قبل ان کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب پر ان کے آٹوگراف لیے تو بالمشافہ مختصر سے گفتگو ہوئی۔ اس کتاب کو اب دوبارہ کھولا تو ایک پیراگراف نے دامن کھینچ لیا؛ میری خواہش ہے کہ میں ان شاہ پاروں کے ساتھ یاد رکھا جائوں جو کبھی ہمارا شاندار اثاثہ تھے جن میں زبان کی محبت ، الفاظ میں معانی اور دانش سمائی ہوئی تھی لیکن نہ جانے کن وجوہات کے سبب ہم نے انھیں ترک کر دیا، ہماری زبان اور تہذیب کا ورثہ؛ جو کبھی ہمارا افتخار تھا۔
Load Next Story