ہائر ایجوکیشن کمیشن کی خودمختاری پر حملہ
حکومت نے ایچ ای سی کی باقی بچی ہوئی خود مختاری کو ختم کیا تو پھر ایچ ای سی یونیورسٹی گرانٹ کمیشن بن جائے گا
اعلیٰ تعلیم کا شعبہ بھی بحران کی زد میں ہے۔ موجودہ حکومت ، ہائر ایجوکیشن کمیشن (H.E.C) کی خود مختاری کو ختم کرنے کے درپے ہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کو وزارت تعلیم کے ماتحت کرنے کے لیے قانون کا مسودہ تیارکیا گیا ہے۔ اس مسودہ کے تحت وزارت تعلیم ایچ ای سی کے سربراہ اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے تقرر کا فیصلہ کرے گی اور ایچ ای سی کے گورننگ بورڈ کی تشکیل نو کا فریضہ انجام دے گی۔ ایچ ای سی کے چیئرمین کے عہدہ کی میعاد دو سال رہے گی۔
ابھی گزشتہ برسوں کا قصہ ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان ایچ ای سی کے اس وقت کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری سے ناراض ہوئے تھے۔ وزارت تعلیم نے اپنے وزیر اعظم کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے ایچ ای سی چیئرمین کے عہدے کی میعاد کم کر کے دو سال کر دی تھی جس کی بناء پر ڈاکٹر طارق بنوری معزول قرار پائے۔
ڈاکٹر طارق بنوری نے عدالتوں میں ایک طویل اور صبر آزما لڑائی لڑی۔ وہ اپنے عہدے پر بحال ہوئے مگر قانون کے مطابق دو سال مکمل ہونے پر اپنے عہدہ سے فارغ ہوئے۔ ڈاکٹر طارق بنوری کا شمار ڈیولپمنٹ کے ممتاز ماہرین میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اساتذہ اور سول سوسائٹی نے ڈاکٹر طارق بنوری کی برطرفی پر احتجاجی مہم منظم کی تھی۔
اس وقت کی حزب اختلاف کی جماعتوں خاص طور پر مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے ڈاکٹر طارق بنوری کی برطرفی کو عمران خان کی انتقامی کارروائی کا ایک اور شاخسانہ قرار دیا تھا۔ ان جماعتوں کے رہنماؤں نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر ان کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو پھر ایچ ای سی کا پرانا قانون بحال کردیں گے مگر پی ڈی ایم کی حکومت نے ایچ ای سی کی رہی سہی آزادی کو سلب کرنے کا منصوبہ بنایا۔
ملک کی 49 یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر صاحبان کی ایک مجلس گزشتہ دنوں منعقد ہوئی تھی۔ اس مجلس کی صدارت ڈاکٹر اقرار علی خان نے کی تھی۔ وائس چانسلروں نے آن لائن ہونے والے اجلاس میں متفقہ طور پر حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ایچ ای سی کے قانون مجریہ 2002 میں ترامیم نہ کی جائیں۔ وائس چانسلر صاحبان کا مدعا تھا کہ کمیشن کی خود مختاری کو حکومت یقینی بنائے۔
اجلاس میں اس بات پر بھی اتفاق کا اظہار کیا گیا تھا کہ گزشتہ دو عشروں میں ہونے والی تبدیلیوں سے ملک میں اعلیٰ تعلیم کا شعبہ مستحکم ہوا ہے۔ ملک میں پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے مالیاتی حالات تنزلی کا شکار ہیں۔ وائس چانسلرز نے صوبائی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ یونیورسٹیوں کے مالیاتی خسارہ کو ختم کرنے کے لیے اپنا حصہ ڈالیں۔ ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر مختار کا بیانیہ تھا کہ کئی ممالک اپنے ہاں ایچ ای سی کی طرز پر اعلیٰ تعلیم کا نظام قائم کر رہے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو اعلیٰ تعلیم کا حجم اور معیار بڑھانے کا ایجنڈا سرفہرست تھا ، یوں پرویز مشرف حکومت نے 11 ستمبر 2002 کو ایک قانون کے ذریعہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا درجہ ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کیا۔ اس قانون کے تحت ایچ ای سی کے چیئرمین کا عہدہ وزیر مملکت کے مساوی قرار دیا گیا اور ایچ ای سی کو مکمل خود مختاری حاصل ہوئی۔ اس قانون کے تحت چیئرمین کے عہدہ کی میعاد چار سال قرار دی گئی اور اس قانون کے تحت ایچ ای سی کو صرف وزیر اعظم کو جوابدہ قرار دیا گیا۔
ایچ ای سی کے پہلے چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمن تھے۔ ایچ ای سی نے مختلف نوعیت کی اصلاحات نافذ کیں۔ ان اصلاحات میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری کے لیے ماہرین پر مشتمل سرچ کمیٹی کا قیام لازمی قرار پایا، یونیورسٹی کے اساتذہ کے گریڈوں کو ایک درجہ بڑھا دیا گیا۔
اب یونیورسٹی کے لیکچرار گریڈ 18 ، اسسٹنٹ پروفیسر گریڈ 19، ایسوسی ایٹ پروفیسر گریڈ 20 اور پروفیسر گریڈ 21 جب کہ میری ٹوریس پروفیسر گریڈ 22 میں فائز ہوئے۔ وائس چانسلر کے لیے اسپیشل گریڈ طے ہوا۔ ایچ ای سی نے اساتذہ کے لیے پی ایچ ڈی کی سند لازمی قرار دی۔ اس کے ساتھ ریسرچ کلچر کو مضبوط کرنے کے لیے اساتذہ کے لیے ریسرچ پیپرز منظور شدہ جنرلز میں شایع کرانے کی شرط عائد کی گئی۔
ایچ ای سی نے یونیورسٹی تدریس کے بی ایس پروگرام متعارف کروایا اور ایم ایس، پی ایچ ڈی کے کورس ورک ، تھیسز، بیرونی ممتحن کی رپورٹ اور Open Defence کی شرائط لاگو ہوئیں۔ پھر بی اے، بی ایس سی ، ایم اے اور ایم ایس سی کے پروگرام ختم کرنے کی پالیسی نافذ کی گئی۔
ایچ ای سی کے اس نظام میں ایک بڑی خامی یہ ہے کہ ایچ ای سی کے مینیجنگ بورڈ میں چاروں صوبوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی نمایندگی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ایچ ای سی کی بعض پالیسیوں کے خلاف یونیورسٹیوں میں احتجاج ہوا۔ اس طرح کے احتجاجوں کو منظم کرنے میں وہ صاحبانِ علم و دانش بھی شامل تھے جو نیو لبرل ازم کے تحت قائم استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد کو اولیت دیتے تھے۔
بہرحال ایچ ای سی کے قیام کے بعد ملک میں پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں اور پرائیوٹ یونیورسٹیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ یہ تعداد 2022 میں 174 تک پہنچ گئی۔ چاروں صوبوں میں مرکزی یونیورسٹیوں کے دور دراز علاقوں میں اپنے کیمپس قائم کیے مگر اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں کمی، صوبوں کی اپنی یونیورسٹیوں کو مالیاتی امداد فراہم نہ کرنے کی بناء پر ملک کی قدیم اور بڑی یونیورسٹیاں انتظامی اور مالیاتی بحران کا شکار ہوئیں۔ یہ بحران وفاق کے زیر انتظام یونیورسٹیوں میں بھی پیدا ہوا۔
اردو کے نام پر قائم ہونے والی وفاقی اردو یونیورسٹی کے قیام کے 20 برسوں میں 10وائس چانسلر تبدیل ہوئے اور یونیورسٹی گزشتہ 5 ماہ سے مستقل وائس چانسلر سے محروم ہے۔ پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت میں آئین میں 18ویں ترمیم ہوئی۔ تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہوا۔
سندھ اور پنجاب نے اپنے ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کیے مگر وفاق کے ایچ ای سی اور صوبوں کے ایچ ای سی کمیشن میں مضبوط روابط قائم نہ ہونے سے یونیورسٹیوں کا انتظامی و تدریسی نظام بھی متاثر ہوا۔ وفاق میں مخلوط حکومت قائم ہے۔ اس حکومت کا ایک ستون پیپلز پارٹی ہے جو سندھ میں حکومت کررہی ہے۔ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ ایچ ای سی کی تنظیمِ نو کی جائے۔
وفاقی ایچ ای سی کے گورننگ بورڈ میں صوبوں کے محکمہ تعلیم اور اساتذہ کو نمایندگی دی جائے۔ ایچ ای سی کے چیئرمین کے عہدہ کی میعاد چار سال کی جائے۔ جب صوبوں کے نمایندے گورننگ بورڈ میں شامل ہوں گے تو ایچ ای سی کی پالیسیوں میں صوبے بھی اسٹیک ہولڈرز ہوجائیں گے۔ صوبوں کی ذمے داری ہے کہ یونیورسٹیوں کے مالی بحران کو ختم کرنے کے لیے گرانٹ فراہم کریں۔
حکومت نے ایچ ای سی کی باقی بچی ہوئی خود مختاری کو ختم کیا تو پھر ایچ ای سی یونیورسٹی گرانٹ کمیشن بن جائے گا۔ یوں گزشتہ 23 برسوں کے دوران اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں جو ترقی ہوئی ہے وہ نہ صرف ملیامیٹ ہوگی بلکہ یونیورسٹیوں کی نشوونما بھی متاثر ہوگی جس کا نقصان نئی نسل کو ہوگا۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کو وزارت تعلیم کے ماتحت کرنے کے لیے قانون کا مسودہ تیارکیا گیا ہے۔ اس مسودہ کے تحت وزارت تعلیم ایچ ای سی کے سربراہ اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے تقرر کا فیصلہ کرے گی اور ایچ ای سی کے گورننگ بورڈ کی تشکیل نو کا فریضہ انجام دے گی۔ ایچ ای سی کے چیئرمین کے عہدہ کی میعاد دو سال رہے گی۔
ابھی گزشتہ برسوں کا قصہ ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان ایچ ای سی کے اس وقت کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری سے ناراض ہوئے تھے۔ وزارت تعلیم نے اپنے وزیر اعظم کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے ایچ ای سی چیئرمین کے عہدے کی میعاد کم کر کے دو سال کر دی تھی جس کی بناء پر ڈاکٹر طارق بنوری معزول قرار پائے۔
ڈاکٹر طارق بنوری نے عدالتوں میں ایک طویل اور صبر آزما لڑائی لڑی۔ وہ اپنے عہدے پر بحال ہوئے مگر قانون کے مطابق دو سال مکمل ہونے پر اپنے عہدہ سے فارغ ہوئے۔ ڈاکٹر طارق بنوری کا شمار ڈیولپمنٹ کے ممتاز ماہرین میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اساتذہ اور سول سوسائٹی نے ڈاکٹر طارق بنوری کی برطرفی پر احتجاجی مہم منظم کی تھی۔
اس وقت کی حزب اختلاف کی جماعتوں خاص طور پر مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے ڈاکٹر طارق بنوری کی برطرفی کو عمران خان کی انتقامی کارروائی کا ایک اور شاخسانہ قرار دیا تھا۔ ان جماعتوں کے رہنماؤں نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر ان کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو پھر ایچ ای سی کا پرانا قانون بحال کردیں گے مگر پی ڈی ایم کی حکومت نے ایچ ای سی کی رہی سہی آزادی کو سلب کرنے کا منصوبہ بنایا۔
ملک کی 49 یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر صاحبان کی ایک مجلس گزشتہ دنوں منعقد ہوئی تھی۔ اس مجلس کی صدارت ڈاکٹر اقرار علی خان نے کی تھی۔ وائس چانسلروں نے آن لائن ہونے والے اجلاس میں متفقہ طور پر حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ایچ ای سی کے قانون مجریہ 2002 میں ترامیم نہ کی جائیں۔ وائس چانسلر صاحبان کا مدعا تھا کہ کمیشن کی خود مختاری کو حکومت یقینی بنائے۔
اجلاس میں اس بات پر بھی اتفاق کا اظہار کیا گیا تھا کہ گزشتہ دو عشروں میں ہونے والی تبدیلیوں سے ملک میں اعلیٰ تعلیم کا شعبہ مستحکم ہوا ہے۔ ملک میں پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے مالیاتی حالات تنزلی کا شکار ہیں۔ وائس چانسلرز نے صوبائی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ یونیورسٹیوں کے مالیاتی خسارہ کو ختم کرنے کے لیے اپنا حصہ ڈالیں۔ ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر مختار کا بیانیہ تھا کہ کئی ممالک اپنے ہاں ایچ ای سی کی طرز پر اعلیٰ تعلیم کا نظام قائم کر رہے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو اعلیٰ تعلیم کا حجم اور معیار بڑھانے کا ایجنڈا سرفہرست تھا ، یوں پرویز مشرف حکومت نے 11 ستمبر 2002 کو ایک قانون کے ذریعہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا درجہ ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کیا۔ اس قانون کے تحت ایچ ای سی کے چیئرمین کا عہدہ وزیر مملکت کے مساوی قرار دیا گیا اور ایچ ای سی کو مکمل خود مختاری حاصل ہوئی۔ اس قانون کے تحت چیئرمین کے عہدہ کی میعاد چار سال قرار دی گئی اور اس قانون کے تحت ایچ ای سی کو صرف وزیر اعظم کو جوابدہ قرار دیا گیا۔
ایچ ای سی کے پہلے چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمن تھے۔ ایچ ای سی نے مختلف نوعیت کی اصلاحات نافذ کیں۔ ان اصلاحات میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری کے لیے ماہرین پر مشتمل سرچ کمیٹی کا قیام لازمی قرار پایا، یونیورسٹی کے اساتذہ کے گریڈوں کو ایک درجہ بڑھا دیا گیا۔
اب یونیورسٹی کے لیکچرار گریڈ 18 ، اسسٹنٹ پروفیسر گریڈ 19، ایسوسی ایٹ پروفیسر گریڈ 20 اور پروفیسر گریڈ 21 جب کہ میری ٹوریس پروفیسر گریڈ 22 میں فائز ہوئے۔ وائس چانسلر کے لیے اسپیشل گریڈ طے ہوا۔ ایچ ای سی نے اساتذہ کے لیے پی ایچ ڈی کی سند لازمی قرار دی۔ اس کے ساتھ ریسرچ کلچر کو مضبوط کرنے کے لیے اساتذہ کے لیے ریسرچ پیپرز منظور شدہ جنرلز میں شایع کرانے کی شرط عائد کی گئی۔
ایچ ای سی نے یونیورسٹی تدریس کے بی ایس پروگرام متعارف کروایا اور ایم ایس، پی ایچ ڈی کے کورس ورک ، تھیسز، بیرونی ممتحن کی رپورٹ اور Open Defence کی شرائط لاگو ہوئیں۔ پھر بی اے، بی ایس سی ، ایم اے اور ایم ایس سی کے پروگرام ختم کرنے کی پالیسی نافذ کی گئی۔
ایچ ای سی کے اس نظام میں ایک بڑی خامی یہ ہے کہ ایچ ای سی کے مینیجنگ بورڈ میں چاروں صوبوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی نمایندگی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ایچ ای سی کی بعض پالیسیوں کے خلاف یونیورسٹیوں میں احتجاج ہوا۔ اس طرح کے احتجاجوں کو منظم کرنے میں وہ صاحبانِ علم و دانش بھی شامل تھے جو نیو لبرل ازم کے تحت قائم استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد کو اولیت دیتے تھے۔
بہرحال ایچ ای سی کے قیام کے بعد ملک میں پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں اور پرائیوٹ یونیورسٹیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ یہ تعداد 2022 میں 174 تک پہنچ گئی۔ چاروں صوبوں میں مرکزی یونیورسٹیوں کے دور دراز علاقوں میں اپنے کیمپس قائم کیے مگر اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں کمی، صوبوں کی اپنی یونیورسٹیوں کو مالیاتی امداد فراہم نہ کرنے کی بناء پر ملک کی قدیم اور بڑی یونیورسٹیاں انتظامی اور مالیاتی بحران کا شکار ہوئیں۔ یہ بحران وفاق کے زیر انتظام یونیورسٹیوں میں بھی پیدا ہوا۔
اردو کے نام پر قائم ہونے والی وفاقی اردو یونیورسٹی کے قیام کے 20 برسوں میں 10وائس چانسلر تبدیل ہوئے اور یونیورسٹی گزشتہ 5 ماہ سے مستقل وائس چانسلر سے محروم ہے۔ پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت میں آئین میں 18ویں ترمیم ہوئی۔ تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہوا۔
سندھ اور پنجاب نے اپنے ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کیے مگر وفاق کے ایچ ای سی اور صوبوں کے ایچ ای سی کمیشن میں مضبوط روابط قائم نہ ہونے سے یونیورسٹیوں کا انتظامی و تدریسی نظام بھی متاثر ہوا۔ وفاق میں مخلوط حکومت قائم ہے۔ اس حکومت کا ایک ستون پیپلز پارٹی ہے جو سندھ میں حکومت کررہی ہے۔ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ ایچ ای سی کی تنظیمِ نو کی جائے۔
وفاقی ایچ ای سی کے گورننگ بورڈ میں صوبوں کے محکمہ تعلیم اور اساتذہ کو نمایندگی دی جائے۔ ایچ ای سی کے چیئرمین کے عہدہ کی میعاد چار سال کی جائے۔ جب صوبوں کے نمایندے گورننگ بورڈ میں شامل ہوں گے تو ایچ ای سی کی پالیسیوں میں صوبے بھی اسٹیک ہولڈرز ہوجائیں گے۔ صوبوں کی ذمے داری ہے کہ یونیورسٹیوں کے مالی بحران کو ختم کرنے کے لیے گرانٹ فراہم کریں۔
حکومت نے ایچ ای سی کی باقی بچی ہوئی خود مختاری کو ختم کیا تو پھر ایچ ای سی یونیورسٹی گرانٹ کمیشن بن جائے گا۔ یوں گزشتہ 23 برسوں کے دوران اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں جو ترقی ہوئی ہے وہ نہ صرف ملیامیٹ ہوگی بلکہ یونیورسٹیوں کی نشوونما بھی متاثر ہوگی جس کا نقصان نئی نسل کو ہوگا۔