کراچی پولیس آفس میں دہشت گردی

آج دہشت گردی کی وارداتیں یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ افغانستان دہشت گرد گروہوں کا لانچنگ پیڈ ہے

آج دہشت گردی کی وارداتیں یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ افغانستان دہشت گرد گروہوں کا لانچنگ پیڈ ہے۔ فوٹو: فائل

دہشت گردوں نے اس بار کراچی پولیس کو نشانہ بنایا ہے' جمعے کو شام سوا سات بجے دہشت گرد دستی بموں کے دھماکے اور جدید مشین گنوں سے فائرنگ کرتے ہوئے کراچی پولیس آفس میں داخل ہوئے۔

کراچی کی معروف شاہراہ فیصل صدر کے متصل پولیس آفس ساڑھے تین گھنٹے تک فائرنگ اور دھماکوں سے گونجتا رہا ۔ اس واقعے میں رینجر کا ایک جوان' دو پولیس اہلکار شہید ہوئے جب کہ ایک خاکروب بھی دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنا' لڑائی کے دوران تین دہشت گرد مارے گئے۔

دہشت گردایک حکمت عملی کے تحت پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے دفاتر میں داخل ہو کر کارروائی کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں'پشاور پولیس لائن میں بھی ایک خود کش دہشت گرد بلاروک ٹوک لائن کے اندر موجود مسجد میں چلا گیا اور پہلی صف میں کھڑا ہونے میں کامیاب ہوا۔ یہاں اس نے خود کو اڑا لیا۔

کراچی پولیس آفس میں داخل ہونا خاصا مشکل ہے کیونکہ یہ بڑے حساس علاقے میں قائم ہے اور یہاں سیکیورٹی کا بھی اچھا خاصا بندوبست رہتا ہے۔ جس وقت دہشت گرد اندر اپنی کارروائی کر رہے تھے اس وقت پولیس آفس میں کئی اعلیٰ افسر بھی موجود تھے' اگر پولیس، رینجرز اور اسپیشل سیکیورٹی یونٹ کے افسران سمیت دیگر حساس اداروں کے افسران اور تربیت یافتہ کمانڈوز فوری موقع پر نہ پہنچتے تو دہشت گرد بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتے تھے۔

رینجر اورا سپیشل سیکیورٹی یونٹ کے کمانڈوز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے کراچی پولیس آفس کی عمارت کو اپنے گھیرے میںلے لیا' پولیس آفس سمیت دیگر مقامات کے بجلی بند کر دی اور عمارت کے اندر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیا 'اطلاعات کے مطابق سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان ساڑھے تین گھٹنے تک فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا۔

دہشت گردوں نے پے در پے دھماکے کیے'جن کی آوازیں کئی کلو میٹر دور تک سنائی دیں جب کہ شدید فائرنگ کا تبادلہ بھی جاری رہا۔ اس آپریشن میں 2دہشت گرد مارے گئے جب کہ تیسرے دہشت گرد نے پولیس آفس کی چوتھی منزل پر خود کو دھماکے سے اڑا لیا ،اس کے بعد تقریباً ساڑھے تین گھٹنے کی طویل کوششوں کے بعد عمارت کو کلیئر قرار دے دیا گیا۔

میڈیا کے مطابق دہشت گرد عقب میں قائم صدر پولیس لائن آئے اور وہاں پر جامع مسجد مدینہ کے قریب کراچی پولیس آفس جانے والے راستہ سے فائرنگ کرتے ہوئے داخل ہوئے، ڈی آئی جی ساؤتھ عرفان بلوچ کے مطابق دہشت گردوں نے 20 سے زائد دستی بموں کا استعمال کیا جب کہ ان کے پاس کلاشنکوف، چنے، کھجوریں، پانی کی بوتلیں اور دیگر سامان بھی موجود تھا، دہشت گرد جس کار میں آئے تھے وہ پورے آپریشن کے دوران اسٹارٹ ہی رہی ،اس کار میں سے پولیس کو اجرک، چٹائی، چپل، پانی کی بوتلیں، ڈیش بورڈ پر رکھی ہوئی نمبر پلیٹ اور میگزین برآمد ہوا۔

پاکستان میں ہر دہشت گردی کی واردات کے بعد اعلیٰ مناصب پر فائز شخصیات مذمتی بیان جاری کرتے ہیں' معاملہ ذرا سنگین ہو تو اپنے دفاتر سے سیکیورٹی حصار میں باہر نکلتے ہیں اور زخمی سیکیورٹی اہلکاروں کی عیادت کے لیے اسپتال چلے جاتے ہیں' اس کے بعد بیان میں بتایا جاتا ہے کہ وہ فلاں اعلیٰ شخصیت نے زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ پوری قوم سیکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑی ہے اور دہشت گردی کی لعنت کے مکمل خاتمے تک کوششیں جاری رہیں گی' کراچی پولیس آفس دہشت گردی کے بعد بھی یہی روایتی انداز اپنایا گیا ہے۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کراچی پولیس آفس پر ہونے والے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی اور کہا کہ پوری قوم اپنی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف کھڑی ہے، دہشت گردی کی لعنت کے مکمل خاتمے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔


وزیراعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری ،وزیر دفاع خواجہ آصف اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کراچی پولیس چیف کے دفتر پر دہشت گردوں کے حملے کی مذمت کی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ یہ بڑی تشویشناک بات ہے۔ پشاور کے واقعہ کے بعد جنرل تھریٹ موجود ہے۔ دہشت گرد جس طرح سے فعال ہوئے ہیں ہمیں اور زیادہ چوکنا رہنا ہو گا۔

جب سے پاکستان میں دہشت گردوں نے اپنی کارروائیاں شروع کی ہیں اس وقت سے ارباب اختیار ایسے ہی بیانات جاری کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن یہ حقیقت بھی طشت ازبام ہو چکی ہے کہ چوٹی کی سطح پر دہشت گردوں کے ساتھ لڑنے کے بارے میں خیالات کی یکسوئی موجود نہیں ہے 'چوٹی کے ارباب اختیار نظریاتی حوالے سے کنفیوژ اور ابہام کا شکار ہیں یا پھر گروہی مفادات کے اسیر ہیں'یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے جو بھی پلان تیار ہوئے ہیں' ان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا' اگر کہیں عمل کرنے کی کوشش بھی ہوئی ہے تو وہ بھی بے دلی کے ساتھ ہوئی ہے۔

پاکستان کی عالمی سطح پر تنہائی کی وجہ بھی یہی ہے کہ چوٹی کی قیادت انتہا پسندی اور دہشت گردی کی سنگینی سمجھنے میں ناکام چلی آ رہی ہے' کسی حکومت نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے حقائق اور ضروریات کے مطابق حکمت عملی تیار نہیں کی 'معیشت کے معاملات میں تو یہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کچھ عرصہ کامیابی سے چل سکتی ہے لیکن دہشت گردی اور اس سے جڑی انتہا پسندی کے مقابلے اور خاتمے کے لیے ڈنگ ٹپاؤ اقدامات کامیاب نہیں ہو سکتے۔

پاکستان میں برسراقتدار آنے والی حکومتیں شمال مغرب میں موجود خطرات کا ادراک کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور شایدآج بھی ایسی ہی سوچ کام کر رہی ہے۔ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد شمال مغرب پر توجہ چھوڑ دی تھی 'یوں پاکستان میں افغان کنکشن کا آغاز ہو گیا۔

ملک کے اقتدار پر قابض حکمران طبقے نے اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسی میں اس افغان کنکشن کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا 'اگر یہ کنکشن شامل بھی رہا ہے تو اس کے بارے میں بالائی سطح پر ہی معلومات کا تبادلہ ہوا' ملک کے عوام سے شمال مغرب کے بارے میں حقائق کو ہمیشہ چھپایا گیا یا اسے کسی اور کا لبادہ پہنا دیا گیا۔

آج پاکستان اسی کشمکش کے دوراہے پر آ کھڑا ہوا ہے۔ برطانیہ اور روس کے درمیان گریٹ گیم کے نام سے جو چپقلش شروع ہوئی' اس نے افغانستان کو دونوں گریٹ پاورز کے درمیان بفر زون کا درجہ دیا گیا' دریائے آمو کی سرحد روسیوں نے برطانیہ کو اعتماد میں لے کر بنائی جب کہ ڈیورنڈ لائن برطانوی ہند نے روس کو اعتماد میں لے کر کھینچا' دوسری جنگ عظیم کے بعدبرطانیہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کے دوران بھی افغانستان بفرزون بنا رہا۔

عالمی سرمایہ داری کی قیادت برطانیہ سے امریکا کو منتقل ہوئی اور پھر وہ ٹائم آیا جب افغانستان امریکا کی سربراہی میں عالمی سرمایہ داری اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کا میدان بن گیا۔سرد جنگ ختم ہوئی' امریکا کی قیادت نے کیپٹلسٹ بلاک فتح یاب ہوا 'سوویت یونین تحلیل کر دیا گیا' اس کے بعد کی افغانستان کی کہانی زیادہ پرانی نہیں ہے۔پاکستان کے فہمیدہ حلقے اس سے آگاہ ہیں۔

آج دہشت گردی کی وارداتیں یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ افغانستان دہشت گرد گروہوں کا لانچنگ پیڈ ہے'گو افغانستان کی طالبان حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ دوحہ مذاکرات میں کیے گئے اس عہد پر قائم ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں کرنے دی جائے گی لیکن لگتا یہی ہے کہ طالبان کی حکومت کی راہ میں سنگین رکاوٹیں حائل ہیں' پورے افغانستان میں حکومتی رٹ قائم کرنا طالبان حکومت کے لیے بھی مشکل ہو رہا ہے کیونکہ افغانستان میں بھی آئے روز دہشت گردی کی وارداتیں ہو رہی ہیں' وہاں بھی دہشت گردوں کا نیٹ ورک سیکیورٹی فورسز اور عوام کو نشانہ بنا رہا ہے۔

حالات اور وقت کا تقاضا یہی ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت اپنی رٹ اور کنٹرول کے حوالے سے اقوام عالم کے ساتھ کھل کر بات کرے۔افغانستان کی حکومت اقوام عالم کی حمایت کے بغیر زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکتی' افغانستان کے عوام غیر یقینی اور خوف کے عذاب میں کتنی دیر زندہ رہیں گے' افغانستان کی طالبان حکومت کو ٹی ٹی پی کے حوالے سے بھی واضح اور دو ٹوک موقف لینا چاہیے' دو عملی' مبہم اور ڈھلمل پالیسی اس کے لیے بھی نقصان دہ ہے جب کہ پاکستان کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہورہا ہے۔
Load Next Story