ایک عہد تمام ہوا

ان کے کام کی قدر کرنے والے محض پاکستانی ہی نہیں تھے بلکہ ان کو عالمی دنیا میں بھی خوب پزیرائی ملی

salmanabidpk@gmail.com

مجھے یاد ہے کہ جب پہلی بار میں نے ضیا محی الدین کی آواز کو سنا تو کیا کمال کا ہماری شخصیت پر اثر پڑا تھا ۔ لفظوں کی ادائیگی ہو یا لفظوں کا ہی چناؤ ہو یا بات کو پیش کرنے کا سلیقہ یہ ہنر ضیا محی الدین کو ہی آتا تھا۔ دل کرتا تھا ان کو سنا جائے اور بار بار سنا جائے اور پھر خواہش پیدا ہوتی کہ کیا ہم ایسا بول سکیں گے۔

ضیا محی الدین کا کوئی متبادل نہیں تھا اور خود ہی اپنی ذات کے متبادل تھے اور ان جیسا کوئی نہیں تھا ۔ انگریزی ہو یا اردو یا پنجابی زبان پر ان کو کمال کی گرفت حاصل تھی۔ لفظوں کی درست ادائیگی پر ان کی گرفت بھی خوب تھی۔

ان کی شخصیت کا اہم پہلو یہ تھا کہ ان کے کام کی قدر کرنے والے محض پاکستانی ہی نہیں تھے بلکہ ان کو عالمی دنیا میں بھی خوب پزیرائی ملی اور جو بھی ان کے سحر میں گرفتار ہوا وہی ان ہی دلدادہ ہوکر رہ گیا ۔وہ عملی طور پر پاکستان کی منفرد آواز تھے اور ان کی آواز ہی ہماری پہچان بھی تھی ۔ان کے لفظوں کا انتخاب ، سخن فہمی ، بولنے کا مزاج ، لہجہ ہی ان کی پہچان بھی بنا۔

ضیا محی الدین ایک طویل عمر92برس گزرانے کے بعد رب کے حضور پیش ہوئے ہیں ۔ایک بھرپور زندگی ان کو ملی جس میں انھوں نے اپنی اس زندگی میں خوب نام کمایا، شہرت پائی ، عزت بنائی اور چاہنے والوں کا ایک وسیع میدان بھی سجایا۔وہ محض اعلیٰ پائے کے کمپیئر ہی نہیں تھے بلکہ وہ 67برس تھیٹر اور فلم کی دنیا سے بھی منسلک رہے۔

ٹی وی ، ریڈیو اور تھیٹر ان کا میدان بنا اورکئی ٹی وی ڈرامو ں میں انھوں نے اپنی سکہ بند اداکاری کا لوہا منوایا ۔ ہالی وڈ کی بڑی مشہور فلم '' لارنس آف عریبیہ '' ان کی پہلی فلم تھی جس میں ان کا کردار بھی مختصر تھا مگر انھوں نے متاثر کن اداکاری کا مظاہرہ کیا اور یہ فلم ہالی وڈ کی اہم اور مشہور فلموں میں شمار ہوتی تھی ۔ ان کی شخصیت ایک ورسٹائل فرد کی تھی جو خود کو کئی طرح کی اداکاری یا کرداروں میں سمو لیتا تھا۔

پاکستان ٹی وی پر چلنے والے ڈرامے بھی ان کی پہچان بنے اور کئی ٹی وی ڈراموں میں ان کی اداکاری کا جوہر دیکھنے کو ملا۔ہمیں یاد ہے کہ پی ٹی وی پر ہی '' ضیا محی الدین شو '' چلاکرتا تھا اور اس کو بڑی شہرت بھی ملی اور اس کی خاص بات ان کا اپنا ہی ایک خاص اسٹائل بھی تھا جو دیکھنے والوں کو ان کا گرویدہ بنا دیتا تھا ۔

ضیا محی الدین نے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) کی سربراہی 2005 میں سنبھالی ۔یہ جنرل پرویز مشرف کا دور تھا اور خود جنرل پرویز مشرف کو آرٹ اور کلچر سے لگاؤ بھی تھا ۔ ضیا محی الدین اسی ادارے کے کئی برسوں تک سربراہ رہے ، انھوں نے اس پلیٹ فارم کو بنیاد بنا کر کراچی میں آرٹ اور کلچر کو نئی جہتیں دیں اور کوشش کی کہ وہ اس شعبہ کے ساتھ بھرپور انصاف کرسکیں۔

مجھے یاد ہے کہ وہ آرٹ اور کلچر جن میں ڈرامہ ، تھیٹر، فلم ، شاعری سمیت دیگر ثقافتی سرگرمیوں کی بنیاد پر معاشرے میں امن ، رواداری ، سماجی ومذہبی ہم آہنگی اور مزاح کو فروغ دینا چاہتے تھے ان کے بقول اگر ہم نے اپنے سماج کو پرامن اور سب کا سماج بنانا ہے جہاں ایک دوسرے کے لیے احترام کا جذبہ ہو تو ہم کو آرٹ اور کلچر کو ہی بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔


میں خود سمجھتا ہوں کہ آج جو ہمارے معاشرے میں انتہا پسند سیاسی ، لسانی یا مذہبی یا سیاسی رجحانات ہیں ان سے نمٹنے کے لیے ہمیں جہاں دیگر حکمت عملیاں درکار ہیں وہیں ہمیں آرٹ اور کلچر یا ثقافتی سرگرمیوں کو بنیاد بنا کر اس انتہا پسندی کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

ضیا محی الدین بنیادی طور پر ایک تخلیقی انسان تھے۔ ہمیشہ اپنے کام ا ور عمل سے کچھ نہ کچھ نیا پیدا کرتے تھے اور ان کی خصوصیت یہ تھی کہ جو کچھ وہ پیش کرتے اس کو پیش کرنے سے پہلے اس میں ان کی ریاضت، سوچ وفکر کا احاطہ خوب نظر آتا تھا۔

جب بھی پاکستان میں کوئی بھی مورخ ہماری آرٹ اور کلچر سے جڑی سرگرمیوں کا بیانیہ لکھے گا تو اس میں ہم ضیا محی الدین کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکیں گے کیونکہ ان کا کمال یہ تھا کہ وہ نئی جہتوں کو متعارف کروانے کا ہنر رکھتے تھے اور دنیا میں ہونیوالے آرٹ اور کلچر میں ان کو انسائیکلوپیڈیا بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ ان کو دنیا میں آرٹ اور کلچر میں ہونے والی نئی نئی تبدیلیوں پر دسترس تھا اور وہ جانتے تھے اس کے شعبہ میں دنیا کیسے تبدیل ہورہی ہے اور ہمیں خودکو کیسے تبدیل کرنا ہے۔

ضیا محی الدین کی بدقسمتی کہہ لیں یا اس معاشرے کی جو سیاسی ، سماجی گھٹن کا معاشرہ تھا اور اب اور زیادہ ہوگیا ہے ۔ جہاں انتہا پسندی کے رجحانات نے قبضہ کیا ہوا ہے اور جہاں پورا سچ بولنے کی بھی آزادی نہ ہو ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ضیا محی الدین یا ان جیسے بڑے نام وہ کچھ نہ کرسکے جو وہ اس معاشرے کے لیے کرسکتے تھے۔

ریاست اور حکمران طبقہ نے ایسے لوگوں کی پزیرائی کی جو محض ریاستی بیانیہ کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے اور مزاحمت کے مقابلے میں مفاہمت کے ساتھ آگے بڑھتے اور اسی میں ریاست کی خدمت بھی کرتے اور اپنے مفادات کو بھی طاقت دیتے تھے۔

ضیا محی الدین کا ایک کمال یہ بھی تھا کہ وہ تقریباً ہر برس لاہور میں علی آڈیٹوریم میں میں تشریف لاتے اور کمال کا میلہ سجاتے ۔ پچھلے برس جو گزرا ہے برادرم اور معروف دانشور و لکھاری خالد رسول نے اس تقریب کی دعوت بھی دی مگر شریک نہ ہوسکا ۔ داستان گوئی میں بھی ان کو کمال حاصل تھا۔

ضیا محی الدین نے اپنی زندگی کے ساتھ خوب مقابلہ کیا اور ہر بار کچھ نہ کچھ نیا پن دکھا کر وہ داد حاصل کرتے تھے اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ انھوں نے اپنی زندگی میں اپنے کام کے ساتھ خوب انصاف کیا اور وہی کچھ کیا جو ان کا دل ، دماغ کہتا تھا ۔وہ باہر کی دنیا سے بھی تعلیم یافتہ تھے اور وہاں انھوں نے جو کچھ آرٹ ، کلچر کی دنیا میں سیکھا ان کی خواہش تھی کہ وہ یہ سب کچھ پاکستان میں بھی کرسکیں اور اسی سوچ کی بنا پر وہ پاکستان تشریف لائے تھے۔

ضیا محی الدین کو پاکستان کا شیکسپیئر بھی کہا جاتا تھا۔ جملہ بازی میں بھی ان کو کمال کا ملکہ حاصل تھا اور وہ ایسے جملے بولتے جو نہ صرف سب کے لیے قابل قبول ہوتے بلکہ ان میں مزاح کا پہلو ہوتا اور کسی بھی سطح پر ان کے لفظوں کو دیکھیں تو اس میں کسی کے لیے تضحیک کا پہلو نہیں ہوتا تھا۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں نئی نسل کو ضیا محی الدین کا کچھ معلوم نہیں اور ان کی وفات پر بھی لوگوں کو اندازہ نہیں ہوا ہوگا کہ ہم کتنی بڑی شخصیت سے محروم ہوئے ہیں۔ ایسی زندگی جو ضیا محی الدین کو ملی ایسی زندگی ایک خواب کی مانند ہوتی ہے۔ ہم خواب دیکھتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ ایسا دنیا میں کرجائیں کہ لوگ رہتی دنیا تک ہمیں یا ہمارے کام کو یاد کرسکیں۔ ضیا محی الدین ایسے لوگوں میں سے ہیں جن کا کام واقعی رہتی دنیا تک ہمیشہ کے لیے یاد رہے گا۔
Load Next Story