ملک میں سیاسی عدم استحکام کیوں
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان ایک سیاسی قائد کی فہم و فراست اور جمہوریت جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا
تیسری دنیا بالخصوص اسلامی دنیا کے بیشتر ممالک میں غیر جمہوری نظام رائج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بیشتر ممالک میں شخصی حکومتیں ہیں اور اگر کہیں جمہوریت ہے تو درحقیقت جمہوریت کے ڈھانچے کے پیچھے آمریت قائم ہے۔
پاکستان بھی اپنے قیام سے اب تک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ سیاسی ماہرین اس کی بڑی وجہ بار بار مارشل لا کے نفاذ کو قرار دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بار بار مارشل لا کے نفاذ کی کیا وجوہات رہی ہیں۔ سیاسی ماہرین کے نزدیک عمومی طور جن ممالک کے سیاسی نظام میں فوجی مداخلت ہوتی ہے اس کی چند بڑی وجوہات ہیں۔
سول حکومت ملک کے تمام امور پر توجہ دیتی ہے جب کہ فوج کے نزدیک ملک کی سالمیت کو اولین حیثیت حاصل ہوتی ہے، سیاستدان تمام امور کو سیاسی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں جب کہ فوج ان امورکو دفاعی اور ملکی سالمیت کے تناظر میں دیکھتی ہے۔ اس زاویہ نگاہ کے فرق کے نتیجے میں جب فوج یہ سمجھتی ہے کہ سول حکومت کی خارجہ پالیسی اور داخلہ پالیسی ملک کی سالمیت کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے تو ایسے حالات میں فوج بہ طور ادارہ سیاست میں مداخلت کرتی ہے۔
فوج کی اپنی آئیڈیالوجی ہوتی ہے، یہ آئیڈیالوجی حب الوطنی پر مبنی ہوتی ہے اس بنیاد پر ملک کی افواج کو ملک کے عوام الناس انتہائی قدر اور عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جب اس تصور اور خیال کو بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے یا فوج محسوس کرتی ہے کہ اس کی عزت و توقیر کو ضرب لگائی جا رہی ہے تو فوج سیاسی نظام میں مداخلت کرتی ہے۔
لوگ ناخواندہ ہوں، رائے عامہ منظم نہ ہو بلکہ کئی گروہوں میں تقسیم ہو، لوگ سیاست میں دلچسپی نہ لیتے ہوں ، اس بات سے لاتعلق ہوں کہ ان پر کون حکمرانی کر رہا ہے، ایسے ممالک میں فوج کی مداخلت بہت آسان اور یقینی ہوتی ہے۔
سیاست دانوں کے مابین سیاسی روایات کی پاسداری کا فقدان ہو، ان کے درمیان باہمی رسہ کشی اور تصادم ہو، سیاست دانوں کی سیاسی اداروں پر گرفت کمزور ہو، ہارس ٹریڈنگ، لوٹا کریسی، اپوزیشن کی آواز دبانا ، پارلیمنٹ کو محض ربڑ اسٹیمپ سمجھنا وہ عوامل ہیں جو سیاسی نظام میں فوجی مداخلت کو جواز فراہم کرتے ہیں۔
کسی ملک میں انارکی، کرپشن، بدعنوانی، لوٹ مار اور انصاف کی عدم فراہمی اور دیگر جرائم عروج پر ہوں، سول حکومت ان پر کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام ہو جائے تو اس سے ملکی سالمیت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اس لیے فوج اپنی آئینی ذمے داری سمجھتے ہوئے سیاسی نظام میں مداخلت کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیتی ہے تاکہ ملک کی سالمیت کا تحفظ کیا جاسکے۔
پاکستان میں مارشل لا کے نفاذ کی کیا وجوہات رہی ہیں، اس کا بہتر جواب سیاست کے طالب علم ہی دے سکتے ہیں۔ میرے نزدیک بار بار مارشل لا کے نفاذ کے پاکستان کی سیاست پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ جمہوری معاشرے میں عوام کو مرکزی اور فیصلہ کن حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
جمہوری اداروں کی وساطت سے عوام کے منتخب نمایندے حالات اور وقت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ریاست کے ڈھانچے اور سماجی و معاشی روایات میں تبدیلی لاتے ہیں۔ جمہوری معاشرے میں قانون کی تشکیل و ترمیم کی ذمے داری منتخب نمایندوں پر ہوتی ہے۔ اس لیے وہاں قانون کا احترام ہوتا ہے اس کے برعکس عوام کے اختیار کو سلب کرلیا جائے اور ان پر زبردستی حکومت کی جائے تو اس سے عوام میں سیاسی بیگانگی کا کلچر فروغ پاتا ہے جو ملک کی یک جہتی، تعمیر و ترقی کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔
بعض عناصر سیاسی عدم استحکام کی ذمے داری سیاست دانوں کی باہمی کشمکش اور ان کے مابین تصادم کو قرار دیتے ہیں ان عناصر کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ سیاست دان فوج کی طرح ایک کمان کے تحت کام نہیں کرتے بلکہ ان کا علیحدہ علیحدہ نصب العین اور منشور ہوتا ہے جس کے نفاذ کے لیے یہ کوشاں ہوتے ہیں لہٰذا ان کے مابین باہمی کشمکش اور تصادم کا پیدا ہونا فطری ہے۔ اسے کریسی کی لڑائی قرار دینا درست نہیں۔
بعض عناصر کے نزدیک جمہوریت سیکولرازم کے بغیر ممکن نہیں، ان کے نزدیک اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ فرقہ واریت کی بنیاد پر جمہوریت قائم ہو سکتی ہے تو وہ غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ انسانی حقوق کا احترام، مساوات، رواداری، انسان دوستی جمہوریت کے بنیادی اجزائے ترکیبی ہیں اور یہی اجزائے ترکیبی سیکولرازم کے ہیں اس لیے جمہوریت کا نفاذ سیکولرازم کے بغیر ممکن نہیں۔
میرے نزدیک اگر عوام کی اکثریت دین اسلام کو بہ طور ضابطہ حیات اس کے نفاذ کے لیے کوشاں ہے تو جمہوریت کا تقاضا ہے کہ ان کے اس حق کو تسلیم کیا جائے۔ بعض عناصر جمہوریت نظام سے نالاں نظر آتے ہیں، انھیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ جمہوری نظام میں جو خامیاں ہمیں نظر آتی ہیں وہ اس وجہ سے ہیں کہ سیاسی نظام میں بار بار مداخلت کی جاتی رہی ہے۔ اگر جمہوری نظام تسلسل سے جاری رہے تو اس میں موجود خامیاں خود بہ خود ختم ہو جائیں گی۔
ملک میں جمہوری نظام کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط بنایا جائے۔ بدقسمتی سے مقامی حکومت کے اداروں کو آئینی تقاضوں کے باوجود کبھی اہم جز تسلیم نہیں کیا گیا۔ صوبائی حکومتیں اپنے حکومتی اختیارات کے ذریعے ایسے قاعدے اور قانون بناتی ہیں جس کا مقصد مقامی حکومتوں کو بے اختیار رکھنا ہوتا ہے ان کے بیشتر انتظامی اور مالی امور کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے باعث مقامی نمایندے عوام کی خدمت کرنے میں خود کو بے بس پاتے ہیں۔
ان عناصر کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ حکومت کی سطح جتنی بلند ہوتی ہے اتنی ہی وہ عوام سے دور ہوجاتی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو نجی سطح کے عوامی مسائل کا پوری طرح علم نہیں ہوتا۔ اسے علم نہیں ہوتا کہ کون سے علاقے کی گٹر لائن ٹوٹی ہوئی ہے، کچرا کہاں کہاں ہے، چنانچہ عوام کے مسائل زیادہ سے زیادہ نچلی سطح پر حل ہونے چاہئیں۔ قومی اور صوبائی حکومتوں کو وہی کام کرنے چاہئیں جو ضلع کے بس میں نہ ہوں۔ مثلاً قومی اور صوبائی شاہراہوں اور بڑے کالجز اور اسپتالوں کی تعمیر وغیرہ۔
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان ایک سیاسی قائد کی فہم و فراست اور جمہوریت جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ اس کا وجود کسی انقلاب کا نتیجہ نہ تھا بلکہ رائے عامہ کو منظم کرکے اور اس کے بعد انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے پاکستان کے حصول کے لیے راہ ہموار کی گئی یعنی یہ ایک خالصتاً سیاسی عمل کی تخلیق ہے۔ ملک میں سیاسی عمل سے گریز اس کے وجود کے منافی ہوگا۔
ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جمہوریت میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا اور نہ ہی جمہوریت کو محض انتخابات کے ذریعے راتوں رات نافذ کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جب تک اداروں کے تقدس کو برقرار نہ رکھا جائے اور عوام کو یہ تاثر نہ دیا جائے کہ وہ ملکی اقتدار میں برابر کے شریک ہیں اس وقت تک جمہوری نظام کو فروغ نہیں دیا جاسکتا۔
پاکستان بھی اپنے قیام سے اب تک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ سیاسی ماہرین اس کی بڑی وجہ بار بار مارشل لا کے نفاذ کو قرار دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بار بار مارشل لا کے نفاذ کی کیا وجوہات رہی ہیں۔ سیاسی ماہرین کے نزدیک عمومی طور جن ممالک کے سیاسی نظام میں فوجی مداخلت ہوتی ہے اس کی چند بڑی وجوہات ہیں۔
سول حکومت ملک کے تمام امور پر توجہ دیتی ہے جب کہ فوج کے نزدیک ملک کی سالمیت کو اولین حیثیت حاصل ہوتی ہے، سیاستدان تمام امور کو سیاسی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں جب کہ فوج ان امورکو دفاعی اور ملکی سالمیت کے تناظر میں دیکھتی ہے۔ اس زاویہ نگاہ کے فرق کے نتیجے میں جب فوج یہ سمجھتی ہے کہ سول حکومت کی خارجہ پالیسی اور داخلہ پالیسی ملک کی سالمیت کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے تو ایسے حالات میں فوج بہ طور ادارہ سیاست میں مداخلت کرتی ہے۔
فوج کی اپنی آئیڈیالوجی ہوتی ہے، یہ آئیڈیالوجی حب الوطنی پر مبنی ہوتی ہے اس بنیاد پر ملک کی افواج کو ملک کے عوام الناس انتہائی قدر اور عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جب اس تصور اور خیال کو بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے یا فوج محسوس کرتی ہے کہ اس کی عزت و توقیر کو ضرب لگائی جا رہی ہے تو فوج سیاسی نظام میں مداخلت کرتی ہے۔
لوگ ناخواندہ ہوں، رائے عامہ منظم نہ ہو بلکہ کئی گروہوں میں تقسیم ہو، لوگ سیاست میں دلچسپی نہ لیتے ہوں ، اس بات سے لاتعلق ہوں کہ ان پر کون حکمرانی کر رہا ہے، ایسے ممالک میں فوج کی مداخلت بہت آسان اور یقینی ہوتی ہے۔
سیاست دانوں کے مابین سیاسی روایات کی پاسداری کا فقدان ہو، ان کے درمیان باہمی رسہ کشی اور تصادم ہو، سیاست دانوں کی سیاسی اداروں پر گرفت کمزور ہو، ہارس ٹریڈنگ، لوٹا کریسی، اپوزیشن کی آواز دبانا ، پارلیمنٹ کو محض ربڑ اسٹیمپ سمجھنا وہ عوامل ہیں جو سیاسی نظام میں فوجی مداخلت کو جواز فراہم کرتے ہیں۔
کسی ملک میں انارکی، کرپشن، بدعنوانی، لوٹ مار اور انصاف کی عدم فراہمی اور دیگر جرائم عروج پر ہوں، سول حکومت ان پر کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام ہو جائے تو اس سے ملکی سالمیت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اس لیے فوج اپنی آئینی ذمے داری سمجھتے ہوئے سیاسی نظام میں مداخلت کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیتی ہے تاکہ ملک کی سالمیت کا تحفظ کیا جاسکے۔
پاکستان میں مارشل لا کے نفاذ کی کیا وجوہات رہی ہیں، اس کا بہتر جواب سیاست کے طالب علم ہی دے سکتے ہیں۔ میرے نزدیک بار بار مارشل لا کے نفاذ کے پاکستان کی سیاست پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ جمہوری معاشرے میں عوام کو مرکزی اور فیصلہ کن حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
جمہوری اداروں کی وساطت سے عوام کے منتخب نمایندے حالات اور وقت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ریاست کے ڈھانچے اور سماجی و معاشی روایات میں تبدیلی لاتے ہیں۔ جمہوری معاشرے میں قانون کی تشکیل و ترمیم کی ذمے داری منتخب نمایندوں پر ہوتی ہے۔ اس لیے وہاں قانون کا احترام ہوتا ہے اس کے برعکس عوام کے اختیار کو سلب کرلیا جائے اور ان پر زبردستی حکومت کی جائے تو اس سے عوام میں سیاسی بیگانگی کا کلچر فروغ پاتا ہے جو ملک کی یک جہتی، تعمیر و ترقی کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔
بعض عناصر سیاسی عدم استحکام کی ذمے داری سیاست دانوں کی باہمی کشمکش اور ان کے مابین تصادم کو قرار دیتے ہیں ان عناصر کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ سیاست دان فوج کی طرح ایک کمان کے تحت کام نہیں کرتے بلکہ ان کا علیحدہ علیحدہ نصب العین اور منشور ہوتا ہے جس کے نفاذ کے لیے یہ کوشاں ہوتے ہیں لہٰذا ان کے مابین باہمی کشمکش اور تصادم کا پیدا ہونا فطری ہے۔ اسے کریسی کی لڑائی قرار دینا درست نہیں۔
بعض عناصر کے نزدیک جمہوریت سیکولرازم کے بغیر ممکن نہیں، ان کے نزدیک اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ فرقہ واریت کی بنیاد پر جمہوریت قائم ہو سکتی ہے تو وہ غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ انسانی حقوق کا احترام، مساوات، رواداری، انسان دوستی جمہوریت کے بنیادی اجزائے ترکیبی ہیں اور یہی اجزائے ترکیبی سیکولرازم کے ہیں اس لیے جمہوریت کا نفاذ سیکولرازم کے بغیر ممکن نہیں۔
میرے نزدیک اگر عوام کی اکثریت دین اسلام کو بہ طور ضابطہ حیات اس کے نفاذ کے لیے کوشاں ہے تو جمہوریت کا تقاضا ہے کہ ان کے اس حق کو تسلیم کیا جائے۔ بعض عناصر جمہوریت نظام سے نالاں نظر آتے ہیں، انھیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ جمہوری نظام میں جو خامیاں ہمیں نظر آتی ہیں وہ اس وجہ سے ہیں کہ سیاسی نظام میں بار بار مداخلت کی جاتی رہی ہے۔ اگر جمہوری نظام تسلسل سے جاری رہے تو اس میں موجود خامیاں خود بہ خود ختم ہو جائیں گی۔
ملک میں جمہوری نظام کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط بنایا جائے۔ بدقسمتی سے مقامی حکومت کے اداروں کو آئینی تقاضوں کے باوجود کبھی اہم جز تسلیم نہیں کیا گیا۔ صوبائی حکومتیں اپنے حکومتی اختیارات کے ذریعے ایسے قاعدے اور قانون بناتی ہیں جس کا مقصد مقامی حکومتوں کو بے اختیار رکھنا ہوتا ہے ان کے بیشتر انتظامی اور مالی امور کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے باعث مقامی نمایندے عوام کی خدمت کرنے میں خود کو بے بس پاتے ہیں۔
ان عناصر کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ حکومت کی سطح جتنی بلند ہوتی ہے اتنی ہی وہ عوام سے دور ہوجاتی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو نجی سطح کے عوامی مسائل کا پوری طرح علم نہیں ہوتا۔ اسے علم نہیں ہوتا کہ کون سے علاقے کی گٹر لائن ٹوٹی ہوئی ہے، کچرا کہاں کہاں ہے، چنانچہ عوام کے مسائل زیادہ سے زیادہ نچلی سطح پر حل ہونے چاہئیں۔ قومی اور صوبائی حکومتوں کو وہی کام کرنے چاہئیں جو ضلع کے بس میں نہ ہوں۔ مثلاً قومی اور صوبائی شاہراہوں اور بڑے کالجز اور اسپتالوں کی تعمیر وغیرہ۔
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان ایک سیاسی قائد کی فہم و فراست اور جمہوریت جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ اس کا وجود کسی انقلاب کا نتیجہ نہ تھا بلکہ رائے عامہ کو منظم کرکے اور اس کے بعد انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے پاکستان کے حصول کے لیے راہ ہموار کی گئی یعنی یہ ایک خالصتاً سیاسی عمل کی تخلیق ہے۔ ملک میں سیاسی عمل سے گریز اس کے وجود کے منافی ہوگا۔
ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جمہوریت میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا اور نہ ہی جمہوریت کو محض انتخابات کے ذریعے راتوں رات نافذ کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جب تک اداروں کے تقدس کو برقرار نہ رکھا جائے اور عوام کو یہ تاثر نہ دیا جائے کہ وہ ملکی اقتدار میں برابر کے شریک ہیں اس وقت تک جمہوری نظام کو فروغ نہیں دیا جاسکتا۔