ہمارا مسئلہ ہمارے شرفاء ہیں
بدنصیبی یہ ہے کہ پاکستان میں آئین کی بالادستی کی اس جدوجہد میں یہ مراعات یافتہ لوگ بلآخر طالبان کے قریب ہوجاتے ہیں
ہمارے ریاستی ادارے، جہاں پہنچے ہیں، اس کی مثال ہماری چھوٹی سی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ الیکشن ہو نہیں پاتے ،اس لیے کہ پہلے مردم شماری ضروری ہے۔
ہندوستان و بنگلہ دیش ہر دس سال کے بعد بغیر کسی وقفہ کے مردم شماری کرائے جارہے ہیں، ہندوستان کے لیڈرز اور پالیسی ساز وقت پر آئین بھی دے گئے، ہم نے آدھا ملک گنوا کر چھبیس سال بعد آئین دیا بھی تو دو بار تو آئین معطل ہوا ، اور پھر ہائبرڈ نظام لاکر چلایا گیا۔ یہ تجربہ آمریت سے بھی بدتر تھا۔
ہماری اشرافیہ وہی ہے جو آمریتوں کی پیدا وار ہے۔ ہندوستان کی اشرافیہ انگریزوں کا تسلسل نہیں تھی ، مغل دور میں ہندوستان کی تجارتی اشرافیہ موجود تھی مگر مسلم اشرافیہ شاہی خزانے کی پیداوار تھی، مسلم اشرافیہ محنت سے وجود پذیر نہیں ہوئی بلکہ شاہی خدمات کے عوض بھاری مراعات کی وجہ سے بااثر اور امیر ہوئی تھی،انگریز کے دور میں بھی یہی چلن رہا ، قیام پاکستان بعد بھی یہ اشرافیہ ریاست کے وسائل سے مراعات حاصل کرتی رہی۔
پھریہ جنرل ایوب خان سے مل گئے۔ بنگالی اشرافیہ نظر انداز ہونے لگی ، وہ فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے ہوگئے، مغربی پاکستان کی اشرافیہ ذوالفقارعلی بھٹو اور جنرل ایوب خان کے ساتھ مل گئے۔ جب بھٹو ،ایوب کو چھوڑ کے عوام میں جڑیں بنا چکا، سمجھا کہ اب مارشل لاء کے کالے بادل نہیں آنے کو، کچھ حد سے زیادہ پر اعتماد، مخالفین پر بڑے مظالم ڈھائے اور پھر جنرل ضیاء الحق نے ان کو چلتا کیا۔
شرفاء کے لیے پھر لمحہ فکریہ کہ اب کیا کیجیے؟ انھوں نے نیب وغیرہ کوئی نہیں بنایا تھا۔ ایوب کی طرح احتساب کی بات کی، بہت سے لوگوں کو پتہ تھا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ ہمارے فیض احمد فیض اس وقت پابند سلاسل تھے۔ ایوب کے احتساب کا سن کے انھوں نے یہ سطریں رقم کیں۔
ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو
جو عمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مشک خاک جگر ساغر میں ہے خون حسرت مے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام الٹائے دیتے ہیں
جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اس اشرافیہ کے بہت سے لوگ پیپلز پارٹی چھوڑ گئے، نہ چھوڑی اگر کسی نے تو وہ کارکن تھے ، بھٹو کی پھانسی نے تو سندھیوںکے ہوش اڑادیے، وہ ایم آر ڈی کی تحریک کی شکل میں نظر آئی۔ یہ تحریک سندھ کے وڈیروں کی تحریک بھی کہی جاسکتی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ وڈیرے جیلوں میں گئے۔
حالت یہ تھے سندھ کی ان شرفاء کے پاس سوائے پیپلز پارٹی کے کوئی آپشن نہ تھا۔ بڑے بڑے بت گرے 1988 کے انتخابات میں۔ ضیاء الحق تو چلے گئے مگر آئین میں 58(2)(b) چھوڑ گئے۔ کسی بھی حکومت کو تین سال سے زیادہ وقت نہیں گزارا اور اس طرح نواز شریف بھی ذوالفقارعلی بھٹو کی طرح جمہوری قوت بن گئے۔ اٹھارویں ترمیم آئی ، مشرف گئے، آئین سے 58(2)(b) گیا۔
امریکا سمجھ گیا کہ پاکستان میں آمریتیں لانا ان کی غلطی تھی ۔ وہ کیری لوگر بل لے آئے اور یہاں پر ہم امریکا کے اثر سے نکلتے گئے اور ہندوستان امریکا کے لیے چین کے تناظر میں اہم ٹھہرا۔ سی پیک آیا ہم چین کے بہت قریب ہوگئے۔ اربوں ڈالر قرض چڑھ گیا۔ جو سی پیک نے کمال دکھانے تھے وہ نہ دکھا سکا۔
یہ وہی اسحق ڈار ہیں جن کے زمانے میں سی پیک شروع ہوا اور جو آصف علی زرداری، بارہ ہزار ارب روپے کا مجموعی قرضہ چھوڑ گئے یہ انھوں نے چوبیس ہزار ارب روپے تک پہنچایا ، یوں کرتے کرتے ، شرفاء وہی ہیں، سیاست بھی وہی ہے۔ جنرل مشرف تک ہماری معیشت کو سب سے بڑا سہارا امریکی امداد سے تھا۔ وہ امداد جنرل ضیاء الحق اور ایوب کو بھی ملی۔
ہماری معیشت امریکی امداد سے بلآخر ناتے تڑوا بیٹھی، یہ ٹرمپ کا زمانہ تھا اور پھر ایک دن افغانستان سے امریکا چلاگیا۔ اس کے مفادات مدہم پڑ گئے مگر اس کا اثر ورسوخ یہاں سے گیا نہیں۔ عمران خان نے سی پیک کو گول کردیا۔ چین، سعودی عرب، امریکا ، یورپ سب سے تعلقات خراب کر گئے۔ انتہائی ناکام خارجہ معاملات الگ، ملک معیشت کا وہ حال کیا کہ پچاس ہزار ارب روپے پر مجموعی قرضہ چھوڑ گئے ،ان چار سالوں میں یوں کہیے کہ دگنا کرگئے۔
یہ معیشت اس بدتر زینے پر پہنچ چکی ہے جہاں پر یہ کام اسحق ڈار کے بس سے باہر ہے۔ آئی ایم ایف ہمیں مستقل انداز میں چاہیے، ورنہ دنیا کو ہمارے بارے میں غلط خبر جاتی ہے کہ ہم بینک کرپٹ ہوگئے ہیں۔ ہمارا سیاسی بحران کہیں تھمتا ہوا نظر نہیں آرہا ۔ اب جو لوگ اسٹبلشمنٹ کو آنکھیں الگ دکھا رہے ہیں، یہ لوگ ملک کے آگے بڑھنے کے تمام راستے روک کر بیٹھ گئے ہیں۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ ہمارے جسٹس ریٹائرڈ قیوم کا اس دن انتقال ہوا جس دن پاکستان کی تاریخ کا دوسرا بڑا فون ٹیپ کا اسکینڈل منظر عام پر آیا، جو ایک آزاد اور شفاف انکوائری مانگتا ہے۔ ایسے موقعوں پر استعفیٰ دے کر اپنے آپ کو شفاف انکوائری کے لیے سرینڈر کیا جاتا ہے۔ ہمارا ملک دنیا میں انصاف کے اعتبار سے 139 نمبر پر نظر آرہا ہے۔ اس سے پہلے جو جسٹس ثاقب نثار نے سو موٹو ایکشن لیے یا جوڈیشل ایکٹوازم کیا گیا، وہ انتہائی متضادٹھہرتا ہے ۔ یہ وقت ہے پارلیمنٹ کی بالادستی کا۔ اس لیے کہ ہماری عدلیہ کی تاریخ بہت ہی متضاد فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔
جو چیز سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ لیاقت علی خان، جنرل ایوب، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف نے جواشرافیہ کی نسل بنائی ہے، وہ کسی بھی لحاظ سے ملک کے مفادات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ یہ ادراک نہیں کررہی کہ پاکستان کو اس نہج پر، ان کی پالیسیوں نے ہی پہنچایا ہے ۔قیام پاکستان کے فوراً بعد سے لے کر جنرل مشرف تک جو بیانئے تشکیل پائے ، ان میں یہ اشرافیہ یا شرفاء کے اباو اجداد اور ان کی اولادیں اس میں برابر شریک رہیں، وہ ملک کو جمہوری حوالے سے مضبوط نہیں دیکھنا چاہتے۔
بدنصیبی یہ ہے کہ پاکستان میں آئین کی بالادستی کی اس جدوجہد میں یہ مراعات یافتہ لوگ بلآخر طالبان کے قریب ہوجاتے ہیں ۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو لوگ بھی اس ملک سے مخلص ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ ملک آگے کو چلے انھیں اشرافیہ کی اس سوچ کو چیلنج کرنا ہوگا اور جو چاہتے ہیں کہ ہم آئین کی طرف لوٹیں اور اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کو روکیں ان کو آگے آنا ہوگا۔ ایسے اشخاص خود اسٹبلشمنٹ سے بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ خود گورباچوف سوویت یونین کی اسٹبلشمنٹ سے پیدا ہوا تھا ،اس کی اصلاحات لانے کا عمل اچھا تھا یہ اور بات ہے کہ بہت دیر ہوچکی تھی۔
ہندوستان و بنگلہ دیش ہر دس سال کے بعد بغیر کسی وقفہ کے مردم شماری کرائے جارہے ہیں، ہندوستان کے لیڈرز اور پالیسی ساز وقت پر آئین بھی دے گئے، ہم نے آدھا ملک گنوا کر چھبیس سال بعد آئین دیا بھی تو دو بار تو آئین معطل ہوا ، اور پھر ہائبرڈ نظام لاکر چلایا گیا۔ یہ تجربہ آمریت سے بھی بدتر تھا۔
ہماری اشرافیہ وہی ہے جو آمریتوں کی پیدا وار ہے۔ ہندوستان کی اشرافیہ انگریزوں کا تسلسل نہیں تھی ، مغل دور میں ہندوستان کی تجارتی اشرافیہ موجود تھی مگر مسلم اشرافیہ شاہی خزانے کی پیداوار تھی، مسلم اشرافیہ محنت سے وجود پذیر نہیں ہوئی بلکہ شاہی خدمات کے عوض بھاری مراعات کی وجہ سے بااثر اور امیر ہوئی تھی،انگریز کے دور میں بھی یہی چلن رہا ، قیام پاکستان بعد بھی یہ اشرافیہ ریاست کے وسائل سے مراعات حاصل کرتی رہی۔
پھریہ جنرل ایوب خان سے مل گئے۔ بنگالی اشرافیہ نظر انداز ہونے لگی ، وہ فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے ہوگئے، مغربی پاکستان کی اشرافیہ ذوالفقارعلی بھٹو اور جنرل ایوب خان کے ساتھ مل گئے۔ جب بھٹو ،ایوب کو چھوڑ کے عوام میں جڑیں بنا چکا، سمجھا کہ اب مارشل لاء کے کالے بادل نہیں آنے کو، کچھ حد سے زیادہ پر اعتماد، مخالفین پر بڑے مظالم ڈھائے اور پھر جنرل ضیاء الحق نے ان کو چلتا کیا۔
شرفاء کے لیے پھر لمحہ فکریہ کہ اب کیا کیجیے؟ انھوں نے نیب وغیرہ کوئی نہیں بنایا تھا۔ ایوب کی طرح احتساب کی بات کی، بہت سے لوگوں کو پتہ تھا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ ہمارے فیض احمد فیض اس وقت پابند سلاسل تھے۔ ایوب کے احتساب کا سن کے انھوں نے یہ سطریں رقم کیں۔
ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو
جو عمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مشک خاک جگر ساغر میں ہے خون حسرت مے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام الٹائے دیتے ہیں
جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اس اشرافیہ کے بہت سے لوگ پیپلز پارٹی چھوڑ گئے، نہ چھوڑی اگر کسی نے تو وہ کارکن تھے ، بھٹو کی پھانسی نے تو سندھیوںکے ہوش اڑادیے، وہ ایم آر ڈی کی تحریک کی شکل میں نظر آئی۔ یہ تحریک سندھ کے وڈیروں کی تحریک بھی کہی جاسکتی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ وڈیرے جیلوں میں گئے۔
حالت یہ تھے سندھ کی ان شرفاء کے پاس سوائے پیپلز پارٹی کے کوئی آپشن نہ تھا۔ بڑے بڑے بت گرے 1988 کے انتخابات میں۔ ضیاء الحق تو چلے گئے مگر آئین میں 58(2)(b) چھوڑ گئے۔ کسی بھی حکومت کو تین سال سے زیادہ وقت نہیں گزارا اور اس طرح نواز شریف بھی ذوالفقارعلی بھٹو کی طرح جمہوری قوت بن گئے۔ اٹھارویں ترمیم آئی ، مشرف گئے، آئین سے 58(2)(b) گیا۔
امریکا سمجھ گیا کہ پاکستان میں آمریتیں لانا ان کی غلطی تھی ۔ وہ کیری لوگر بل لے آئے اور یہاں پر ہم امریکا کے اثر سے نکلتے گئے اور ہندوستان امریکا کے لیے چین کے تناظر میں اہم ٹھہرا۔ سی پیک آیا ہم چین کے بہت قریب ہوگئے۔ اربوں ڈالر قرض چڑھ گیا۔ جو سی پیک نے کمال دکھانے تھے وہ نہ دکھا سکا۔
یہ وہی اسحق ڈار ہیں جن کے زمانے میں سی پیک شروع ہوا اور جو آصف علی زرداری، بارہ ہزار ارب روپے کا مجموعی قرضہ چھوڑ گئے یہ انھوں نے چوبیس ہزار ارب روپے تک پہنچایا ، یوں کرتے کرتے ، شرفاء وہی ہیں، سیاست بھی وہی ہے۔ جنرل مشرف تک ہماری معیشت کو سب سے بڑا سہارا امریکی امداد سے تھا۔ وہ امداد جنرل ضیاء الحق اور ایوب کو بھی ملی۔
ہماری معیشت امریکی امداد سے بلآخر ناتے تڑوا بیٹھی، یہ ٹرمپ کا زمانہ تھا اور پھر ایک دن افغانستان سے امریکا چلاگیا۔ اس کے مفادات مدہم پڑ گئے مگر اس کا اثر ورسوخ یہاں سے گیا نہیں۔ عمران خان نے سی پیک کو گول کردیا۔ چین، سعودی عرب، امریکا ، یورپ سب سے تعلقات خراب کر گئے۔ انتہائی ناکام خارجہ معاملات الگ، ملک معیشت کا وہ حال کیا کہ پچاس ہزار ارب روپے پر مجموعی قرضہ چھوڑ گئے ،ان چار سالوں میں یوں کہیے کہ دگنا کرگئے۔
یہ معیشت اس بدتر زینے پر پہنچ چکی ہے جہاں پر یہ کام اسحق ڈار کے بس سے باہر ہے۔ آئی ایم ایف ہمیں مستقل انداز میں چاہیے، ورنہ دنیا کو ہمارے بارے میں غلط خبر جاتی ہے کہ ہم بینک کرپٹ ہوگئے ہیں۔ ہمارا سیاسی بحران کہیں تھمتا ہوا نظر نہیں آرہا ۔ اب جو لوگ اسٹبلشمنٹ کو آنکھیں الگ دکھا رہے ہیں، یہ لوگ ملک کے آگے بڑھنے کے تمام راستے روک کر بیٹھ گئے ہیں۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ ہمارے جسٹس ریٹائرڈ قیوم کا اس دن انتقال ہوا جس دن پاکستان کی تاریخ کا دوسرا بڑا فون ٹیپ کا اسکینڈل منظر عام پر آیا، جو ایک آزاد اور شفاف انکوائری مانگتا ہے۔ ایسے موقعوں پر استعفیٰ دے کر اپنے آپ کو شفاف انکوائری کے لیے سرینڈر کیا جاتا ہے۔ ہمارا ملک دنیا میں انصاف کے اعتبار سے 139 نمبر پر نظر آرہا ہے۔ اس سے پہلے جو جسٹس ثاقب نثار نے سو موٹو ایکشن لیے یا جوڈیشل ایکٹوازم کیا گیا، وہ انتہائی متضادٹھہرتا ہے ۔ یہ وقت ہے پارلیمنٹ کی بالادستی کا۔ اس لیے کہ ہماری عدلیہ کی تاریخ بہت ہی متضاد فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔
جو چیز سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ لیاقت علی خان، جنرل ایوب، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف نے جواشرافیہ کی نسل بنائی ہے، وہ کسی بھی لحاظ سے ملک کے مفادات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ یہ ادراک نہیں کررہی کہ پاکستان کو اس نہج پر، ان کی پالیسیوں نے ہی پہنچایا ہے ۔قیام پاکستان کے فوراً بعد سے لے کر جنرل مشرف تک جو بیانئے تشکیل پائے ، ان میں یہ اشرافیہ یا شرفاء کے اباو اجداد اور ان کی اولادیں اس میں برابر شریک رہیں، وہ ملک کو جمہوری حوالے سے مضبوط نہیں دیکھنا چاہتے۔
بدنصیبی یہ ہے کہ پاکستان میں آئین کی بالادستی کی اس جدوجہد میں یہ مراعات یافتہ لوگ بلآخر طالبان کے قریب ہوجاتے ہیں ۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو لوگ بھی اس ملک سے مخلص ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ ملک آگے کو چلے انھیں اشرافیہ کی اس سوچ کو چیلنج کرنا ہوگا اور جو چاہتے ہیں کہ ہم آئین کی طرف لوٹیں اور اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کو روکیں ان کو آگے آنا ہوگا۔ ایسے اشخاص خود اسٹبلشمنٹ سے بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ خود گورباچوف سوویت یونین کی اسٹبلشمنٹ سے پیدا ہوا تھا ،اس کی اصلاحات لانے کا عمل اچھا تھا یہ اور بات ہے کہ بہت دیر ہوچکی تھی۔