پاکستان میں مادری زبانوں کی بدحالی
اردو کے بغیر تو شاید پاکستان کا سارا کاروبار بند ہوجائے گا لیکن مادری زبانوں کو اہمیت ملنی چاہیے
21 فروری کوہر سال دنیا بھر میں مادری زبانوں کا دن منایا جاتا ہے' ملک میں کبھی اردو اور بنگالی کی جنگ اور اب اردو اور انگریزی کا تنازعہ 'درمیان میں '' زمین کے حقیقی فرزندوں'' (Sons of the soil) کی قومی اور مادری زبانیں کہیں کونے میں پڑی توجہ کی منتظر ہیں۔
حالانکہ پاکستان میں بسنے والی قومیتوں کا لباس'رسم و رواج 'ثقافت و تہذیب'موسیقی اور زبانیں مختلف بھی ہیں اوربہت خوبصورت بھی ہیںبدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے حقیقتوں کو تسلیم کرنے سے ابھی تک انکاری ہیں' شاید پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں یہ عجوبے موجود ہیں کہ '' پاکستان میں کسی قومیت کی زبان فارسی نہیں لیکن پاکستان کا قومی ترانہ فارسی میں ہے' انگریزی بھی کسی کی زبان نہیں لیکن اس کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔
شیروانی پاکستان میں بسنے والے کسی قوم کا لباس نہیں لیکن اس کو پاکستان کی قومی لباس کا درجہ دیا گیا ہے 'پاکستان کے کسی علاقے میں تھی یا ٹو پیس پینٹ کوٹ استعمال نہیں ہوتا لیکن پاکستان میں یہ سرکاری لباس ہے 'ہمارے حکمران خصوصاً نوکرشاہی لاکھوں روپے کے کوٹ پتلون گرمی میں بھی پہن کر فخر محسوس کرتے ہیں' اردو کو قومی زبان بنانے کے چکر میں بنگالیوں میں نفرت کا بیج بو دیا گیا۔
ستم ظریفی یہ کہ مذہبی پارٹیاں اور ان کے نظریات سے متاثر فالورز عربی کو پاکستان کی قومی زبان بنا نے کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں ۔ اب تقریباً سب باشعور لوگ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ پاکستان ایک کثیر القومی ر یاست ہے 'جماعت اسلامی بھی اب قومیتوں کے حقوق کی بات کرتی ہے۔
1948میں حکومت پاکستان نے اعلان کیا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی 'اس پر مشرقی پاکستان میں تحریک شروع ہوئی 'بنگالیوں کا موقف یہ تھا کہ پاکستان کی 55فی صد آبادی کی زبان بنگالی ہے 'دوسری بڑی زبان پنجابی ہے' پھر سندھی 'پشتو ، ہندکو' گوجری ،بلوچی، براہوی اور سرائیکی زبانیں بولی جاتی ہیں'اصولاً تو بنگالیوں کا موقف غلط نہیں تھا،اکثریتی زبان کو قومی زبان کا درجہ ملنا چاہیے' کم از کم مشرقی پاکستان کی قومی زبان تو بنگالی ہونی چاہیے تھی 'اسی طرح پنچابی 'سندھی' پشتو اور بلوچی زبانیں بھی اس اصول پر ہونی چاہیے۔
21فروری 1952کو بنگالی زبان کی تحریک کے حق میںڈھاکا میں طلباء'مزدور وں'دانشوروں اور عوام کا بہت بڑا جلوس نکلا ' اس جلوس پر سیکیورٹی فورسز نے گولیاں برسائیں اور تقریباً ایک درجن طلباء اور نوجوان شہید اور متعدد زخمی ہوئے 'اس تحریک کی یادمیں ہر سال 21فروری کو تقریبات منائی جاتی ہیںاور اس طرح یہ دن بنگالی قوم پرستی کا مظہر بن گیا'اس تحریک کے بطن سے بنگالی قومی تحریک ابھری جس نے بنگلہ دیش کو جنم دیا۔
اس دن کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1999میں اقوام متحدہ نے اس دن کو ''مادری زبانوں کا دن'' قرار دیا' یہ دن ہر سال مادری زبانوں کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے 'بنگالی زبان کی تحریک نے یہ ثابت کیا کہ پاکستان کے حکمران طبقے ابتداء ہی سے اپنے مخصوص نظریات کے تحت پاکستان کی مقامی لسانی، ثقافتی اور تہذیبی حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔
اپنے مفادات کے لیے مضبوط مرکز کی پالیسی کے تحت مقامی زبانوں اور کلچر کی جگہ ایرانی، تورانی اور عربی کی آمیزش سے ہائبڑڈ کلچر کو پروان چڑھانے کی زبردستی کوشش کرتے رہے۔
پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے اور اس کا آئین وفاقی ہے 'یہاں پر پانچ بڑی قومیتیں آباد ہیں' حالانکہ کئی اور چھوٹی قومتیں بھی موجود ہیں۔ پنجابی' سندھی 'پشتون 'بلوچی اور سرائیکی پاکستان میں بسنے والی بڑی قومیتیں ہیں۔ان کے علاوہ خیبر پختونخوا میں ہندکو دوسری بڑی زبان ہے جب کہ گوجری اور کھوار زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ بلوچستان میں براہوی بھی ایک بڑی زبان ہے۔'
اسی فارمولے کے تحت پاکستان کے ارد گرد ایرانی 'افغانی 'ہندوستانی اور چینی'قومی خصوصیات کی حامل ہیں ' کیونکہ یہ ہزاروں برس سے موجود ہیں' پاکستان ابھی تک قوم نہیں بنا بلکہ اس عمل سے گزر رہا ہے ۔
پاکستان میں بسنے والی قومیتوں کی ثقافت 'رسم و رواج اور زبانوں کا تحفظ اور ان کو ترقی دینا حکومت وقت کی ذمے داری ہے' اگر ان قومیتوں اور ان کی زبانوں کے تہذ یبی ورثے کو مٹانے کی کوششیں جاری رہیں تو ایک دن ایسا آئے گا کہ یہاں بھی بغاوتیں پھوٹ پڑیں گی 'مادری زبانوں کے اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے 'ہر قومیت کے بچے کو ابتدائی تعلیم اگر اس کی مادری زبان میں دی جائے تو مستقبل میں وہ ایک اچھا طالبعلم ثابت ہوسکتا ہے' ملک میں بولی جانے والی ان زبانوں کو تحفظ دینا اور ان کی سرپرستی کرنا بھی حکومت کا فرض ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے ابھی تک اس مائنڈ سٹ میں مبتلاء ہیں کہ ''پاکستان یک قومی ریاست ہے'حکمران طبقے آج تک چھوٹی قومیتوں کے حقوق تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں'چھوٹی قومیتوں کی زبانوں کو ختم کرنے میں ان قومیتوں کے سیاسی رہنماء' نوکر شاہی،سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقے بھی شامل ہیں' ان مراعات یافتہ طبقوں کو پہلے ترکی ، فارسی اور عربی کا جنون تھا، اب انھیں شوق ہے کہ وہ اپنے بچوں کو انگریزی اسکولوں اور بیرونی یونیورسٹیوں میں پڑھائیں۔
یوں اپنی زمینی ثقافت اور کلچر سے بے خبر ایک برگر نسل تیار ہو رہی ہے' اس نسل کی جڑیں پاکستان سے باہر پھیلی ہوئی ہیں'مجھے خود بھی پشتو پڑھنا لکھنا نہیں آتی کیوں کہ اسکول میں اس زبان کا استاد نہیں تھا'بعد میں'غنی خان' اجمل خٹک ' قلندر مہمند اوررحمت شاہ ساحل سمیت دوسرے انقلابی شاعروں کے کتابوںسے کچھ سیکھی ۔
نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت نے 1972میں بھی پشتو یا ہندکو کے لیے کچھ نہیں کیا، اب بھی پانچ سال حکومت میں رہنے کے باوجود پشتو یا ہندکو کی کوئی خدمت نہیں کی 'سرکاری اسکولوں میں یہ زبانیں نہیں پڑھائی جاتیں 'انگلش میڈیم اسکولوں کے طلباء کو تو معلوم بھی نہ ہو کہ یہ زبانیں کہاں بولی جاتی ہیں۔
پختونوں میں ارب پتی سرمایہ دار موجودہیں لیکن تین پنجابی بھائیوں نے پاکستان کا پہلا پشتو ٹی وی چینل شروع کیا' کسی پختون کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ پشتو چینل لانچ کرتا،اکثر پختون رہنمائوں کے بچے انگریزی اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اگر اردو کی ترویج کے لیے ''مقتدرہ قومی زبان ''کا ادارہ قائم کیا جا سکتا ہے تو نام نہاد پختون قوم پرستوں سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا پشتو زبان کے لیے اسی طرح کا ادارہ قائم نہیں ہوسکتا تھا ؟بلکہ تمام قومی زبانوں کی ترقی کے لیے ادارے بنانا چاہیے۔
اس ساری بحث سے کسی طرح بھی اردو کی اہمیت کم کرنا مقصود نہیں'اردو کے بغیر تو شاید پاکستان کا سارا کاروبار بند ہوجائے گا لیکن مادری زبانوں کو اہمیت ملنی چاہیے' انگریزی تو ویسے ہی موجود اور طاقتور ہے 'آقائوں کی زبان کو کسی آئینی تحفظ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں کہ ''جادو وہ جوسر چڑھ کر بولے''اور انگریزی کا جادو تو سب مانتے ہیں۔
حالانکہ پاکستان میں بسنے والی قومیتوں کا لباس'رسم و رواج 'ثقافت و تہذیب'موسیقی اور زبانیں مختلف بھی ہیں اوربہت خوبصورت بھی ہیںبدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے حقیقتوں کو تسلیم کرنے سے ابھی تک انکاری ہیں' شاید پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں یہ عجوبے موجود ہیں کہ '' پاکستان میں کسی قومیت کی زبان فارسی نہیں لیکن پاکستان کا قومی ترانہ فارسی میں ہے' انگریزی بھی کسی کی زبان نہیں لیکن اس کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔
شیروانی پاکستان میں بسنے والے کسی قوم کا لباس نہیں لیکن اس کو پاکستان کی قومی لباس کا درجہ دیا گیا ہے 'پاکستان کے کسی علاقے میں تھی یا ٹو پیس پینٹ کوٹ استعمال نہیں ہوتا لیکن پاکستان میں یہ سرکاری لباس ہے 'ہمارے حکمران خصوصاً نوکرشاہی لاکھوں روپے کے کوٹ پتلون گرمی میں بھی پہن کر فخر محسوس کرتے ہیں' اردو کو قومی زبان بنانے کے چکر میں بنگالیوں میں نفرت کا بیج بو دیا گیا۔
ستم ظریفی یہ کہ مذہبی پارٹیاں اور ان کے نظریات سے متاثر فالورز عربی کو پاکستان کی قومی زبان بنا نے کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں ۔ اب تقریباً سب باشعور لوگ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ پاکستان ایک کثیر القومی ر یاست ہے 'جماعت اسلامی بھی اب قومیتوں کے حقوق کی بات کرتی ہے۔
1948میں حکومت پاکستان نے اعلان کیا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی 'اس پر مشرقی پاکستان میں تحریک شروع ہوئی 'بنگالیوں کا موقف یہ تھا کہ پاکستان کی 55فی صد آبادی کی زبان بنگالی ہے 'دوسری بڑی زبان پنجابی ہے' پھر سندھی 'پشتو ، ہندکو' گوجری ،بلوچی، براہوی اور سرائیکی زبانیں بولی جاتی ہیں'اصولاً تو بنگالیوں کا موقف غلط نہیں تھا،اکثریتی زبان کو قومی زبان کا درجہ ملنا چاہیے' کم از کم مشرقی پاکستان کی قومی زبان تو بنگالی ہونی چاہیے تھی 'اسی طرح پنچابی 'سندھی' پشتو اور بلوچی زبانیں بھی اس اصول پر ہونی چاہیے۔
21فروری 1952کو بنگالی زبان کی تحریک کے حق میںڈھاکا میں طلباء'مزدور وں'دانشوروں اور عوام کا بہت بڑا جلوس نکلا ' اس جلوس پر سیکیورٹی فورسز نے گولیاں برسائیں اور تقریباً ایک درجن طلباء اور نوجوان شہید اور متعدد زخمی ہوئے 'اس تحریک کی یادمیں ہر سال 21فروری کو تقریبات منائی جاتی ہیںاور اس طرح یہ دن بنگالی قوم پرستی کا مظہر بن گیا'اس تحریک کے بطن سے بنگالی قومی تحریک ابھری جس نے بنگلہ دیش کو جنم دیا۔
اس دن کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1999میں اقوام متحدہ نے اس دن کو ''مادری زبانوں کا دن'' قرار دیا' یہ دن ہر سال مادری زبانوں کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے 'بنگالی زبان کی تحریک نے یہ ثابت کیا کہ پاکستان کے حکمران طبقے ابتداء ہی سے اپنے مخصوص نظریات کے تحت پاکستان کی مقامی لسانی، ثقافتی اور تہذیبی حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔
اپنے مفادات کے لیے مضبوط مرکز کی پالیسی کے تحت مقامی زبانوں اور کلچر کی جگہ ایرانی، تورانی اور عربی کی آمیزش سے ہائبڑڈ کلچر کو پروان چڑھانے کی زبردستی کوشش کرتے رہے۔
پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے اور اس کا آئین وفاقی ہے 'یہاں پر پانچ بڑی قومیتیں آباد ہیں' حالانکہ کئی اور چھوٹی قومتیں بھی موجود ہیں۔ پنجابی' سندھی 'پشتون 'بلوچی اور سرائیکی پاکستان میں بسنے والی بڑی قومیتیں ہیں۔ان کے علاوہ خیبر پختونخوا میں ہندکو دوسری بڑی زبان ہے جب کہ گوجری اور کھوار زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ بلوچستان میں براہوی بھی ایک بڑی زبان ہے۔'
اسی فارمولے کے تحت پاکستان کے ارد گرد ایرانی 'افغانی 'ہندوستانی اور چینی'قومی خصوصیات کی حامل ہیں ' کیونکہ یہ ہزاروں برس سے موجود ہیں' پاکستان ابھی تک قوم نہیں بنا بلکہ اس عمل سے گزر رہا ہے ۔
پاکستان میں بسنے والی قومیتوں کی ثقافت 'رسم و رواج اور زبانوں کا تحفظ اور ان کو ترقی دینا حکومت وقت کی ذمے داری ہے' اگر ان قومیتوں اور ان کی زبانوں کے تہذ یبی ورثے کو مٹانے کی کوششیں جاری رہیں تو ایک دن ایسا آئے گا کہ یہاں بھی بغاوتیں پھوٹ پڑیں گی 'مادری زبانوں کے اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے 'ہر قومیت کے بچے کو ابتدائی تعلیم اگر اس کی مادری زبان میں دی جائے تو مستقبل میں وہ ایک اچھا طالبعلم ثابت ہوسکتا ہے' ملک میں بولی جانے والی ان زبانوں کو تحفظ دینا اور ان کی سرپرستی کرنا بھی حکومت کا فرض ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے ابھی تک اس مائنڈ سٹ میں مبتلاء ہیں کہ ''پاکستان یک قومی ریاست ہے'حکمران طبقے آج تک چھوٹی قومیتوں کے حقوق تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں'چھوٹی قومیتوں کی زبانوں کو ختم کرنے میں ان قومیتوں کے سیاسی رہنماء' نوکر شاہی،سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقے بھی شامل ہیں' ان مراعات یافتہ طبقوں کو پہلے ترکی ، فارسی اور عربی کا جنون تھا، اب انھیں شوق ہے کہ وہ اپنے بچوں کو انگریزی اسکولوں اور بیرونی یونیورسٹیوں میں پڑھائیں۔
یوں اپنی زمینی ثقافت اور کلچر سے بے خبر ایک برگر نسل تیار ہو رہی ہے' اس نسل کی جڑیں پاکستان سے باہر پھیلی ہوئی ہیں'مجھے خود بھی پشتو پڑھنا لکھنا نہیں آتی کیوں کہ اسکول میں اس زبان کا استاد نہیں تھا'بعد میں'غنی خان' اجمل خٹک ' قلندر مہمند اوررحمت شاہ ساحل سمیت دوسرے انقلابی شاعروں کے کتابوںسے کچھ سیکھی ۔
نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت نے 1972میں بھی پشتو یا ہندکو کے لیے کچھ نہیں کیا، اب بھی پانچ سال حکومت میں رہنے کے باوجود پشتو یا ہندکو کی کوئی خدمت نہیں کی 'سرکاری اسکولوں میں یہ زبانیں نہیں پڑھائی جاتیں 'انگلش میڈیم اسکولوں کے طلباء کو تو معلوم بھی نہ ہو کہ یہ زبانیں کہاں بولی جاتی ہیں۔
پختونوں میں ارب پتی سرمایہ دار موجودہیں لیکن تین پنجابی بھائیوں نے پاکستان کا پہلا پشتو ٹی وی چینل شروع کیا' کسی پختون کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ پشتو چینل لانچ کرتا،اکثر پختون رہنمائوں کے بچے انگریزی اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اگر اردو کی ترویج کے لیے ''مقتدرہ قومی زبان ''کا ادارہ قائم کیا جا سکتا ہے تو نام نہاد پختون قوم پرستوں سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا پشتو زبان کے لیے اسی طرح کا ادارہ قائم نہیں ہوسکتا تھا ؟بلکہ تمام قومی زبانوں کی ترقی کے لیے ادارے بنانا چاہیے۔
اس ساری بحث سے کسی طرح بھی اردو کی اہمیت کم کرنا مقصود نہیں'اردو کے بغیر تو شاید پاکستان کا سارا کاروبار بند ہوجائے گا لیکن مادری زبانوں کو اہمیت ملنی چاہیے' انگریزی تو ویسے ہی موجود اور طاقتور ہے 'آقائوں کی زبان کو کسی آئینی تحفظ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں کہ ''جادو وہ جوسر چڑھ کر بولے''اور انگریزی کا جادو تو سب مانتے ہیں۔