کہانی آپا جان کی پہلا حصہ

آپا جان کو جن بچوں نے دیکھا تھا، ان سے پڑھا تھا یا جن کی وہ اتالیق تھیں، وہ اب بوڑھے ہوچکے ہیں

zahedahina@gmail.com

فاشزم ایک ایسی اصطلاح ہے جس کا ذکر ہم اپنی نصابی کتابوں اور اخباروں میں پڑھتے ہیں۔ اس کے بھیانک مظاہر اپنی زندگیوں میں دیکھتے ہیں لیکن یہ جن لوگوں کو چھوکر گزرتی ہے، ان سے پوچھیے کہ وہ کس طرح ان کے خاندانوں اور گھروں کو غارت کرتی ہے۔

ہم سالہا سال سے فلسطین میں آباد لوگوں پر صیہونیوں کے جور و جبر پر غم کھاتے ہیں اور خون جگر پیتے ہیں، ایسے میں مجھے وہ یہودی یاد آتے ہیں جنھوں نے دنیا میں ہزاروں برس دربدری میں گزارے اور بیسویں صدی میں فاشزم کے تحت یورپ میں بطور خاص جرمنی میں نازیوں کے ظلم و ستم سہے۔

جہاں وہ گیس کی بھٹیوں میں جلائے گئے، ان کے بدن کی چربی سے صابن بنائے گئے، ان کی ہڈیاں چورا چورا کرکے کھیتوں میں ڈالی گئیں اور آج ان ہی کے بچے یہ ستم فلسطینیوں کے ساتھ کر رہے ہیں حالانکہ ان کا کوئی قصور نہیں تھا۔ میں نے کتنی ہی فلمیں دیکھیں، کتنی ہی کتابیں پڑھیں۔

ان دنوں صغریٰ مہدی کے بارے میں پڑھ رہی تھی کہ عاطف حیات گوتم تلاش کرکے ان کی ایک کتاب ''بچوں کی آپا جان'' لے آئے۔ یہ مختصر سی کتاب صغریٰ آپا نے جرمنی میں رہنے والی ایک عالی نسب اور تعلیم یافتہ خاتون کے بارے میں لکھی ہے۔ یہ جرمن النسل کی یہودی نژاد تھیں۔ خاندان دولت مند اور انسانوں کے بارے میں اعلیٰ خیالات رکھتا تھا۔

برلن میں ان کی ملاقات ہندوستانی کے ڈاکٹر ذاکر حسین، عابد حسین اورمحمد مجیب سے ہوئی۔ ان ہی کے ساتھ سروجنی نائیڈو کے چھوٹے بھائی ٹپو سے ہوئی۔ ان چاروں کی دوستی نے گرڈا فلس بورن کو بہت متاثر کیا۔ ہندوستان میں جامعہ ملیہ کی بنیاد پڑچکی تھی اور ڈاکٹر ذاکر حسین اس کے سربراہ ٹھہرے تھے۔

میڈم بورن ان تمام معاملات سے واقف تھیں، وہ یہ بھی دیکھ رہی تھیں کہ جرمنی پر نازی ازم کا عروج ہونے والا تھا، ان کا سیاسی شعور بہت پختہ تھا، انھوں نے اچانک اپنے دوستوں کے پاس ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کو تار دیا اور عازم بمبئی ہوگئیں۔

ان لوگوں نے سر پیٹ لیا۔ اس لیے کہ ہندوستان کے سیاسی حالات ایسے نہ تھے کہ ایک جرمن خاتون آکر جامعہ میں مقیم ہوں، لیکن تریاہٹ کے سامنے کس کی چلی ہے۔ میڈم جنھیں آنے کے بعد آپا جان کے نام سے یاد کیا گیا۔ وہ دسمبر1932 میں جامعہ پہنچیں اور جنوری 1933سے انھوں نے اپنا کام سنبھال لیا۔ آگے کا قصہ صغریٰ مہدی کی زبانی سنیے۔

فلپس بورن جامعہ کی کارکن بن گئیں۔ اس سال ابتدائی اسکول میں نرسری کنڈر گارٹن کلاس کھولی گئی اور فلپس بورن کو اس کا انچارج بنادیا گیا۔ بچوں سے ان کا تعارف ہوا۔ وہ ٹوٹی پھوٹی ہندوستانی بول ہی لیتی تھیں۔ بچوں نے ان کو آپا جان کہنا شروع کردیا اور دیکھتے دیکھتے وہ سب کی آپا جان بن گئیں۔ یہاں تک کہ جرمنی کے یہ تینوں دوست بھی ان کو آپا جان کہنے لگے۔

آپا جان نے جامعہ کے اسٹاف میں، بچوں اور بستی کی خواتین میں بہت جلدی ہردلعزیزی حاصل کرلی۔ آپا جان کو جن بچوں نے دیکھا تھا، ان سے پڑھا تھا یا جن کی وہ اتالیق تھیں، وہ اب بوڑھے ہوچکے ہیں۔ نانا دادا بن گئے ہیں مگر ان کے دل پر آپا جان کی محبت کا نقش اب بھی ہے اور وہ ان کی چھوٹی چھوٹی باتیں یاد کرتے ہیں۔ ان میں جامعہ کے ایک پرانے استاد اور آرٹسٹ عبیدالحق ہیں۔ عبیدالحق صاحب سے ہم نے آپا جان کے بارے میں پوچھا تو وہ یادوں میں کھوگئے۔


''انھوں نے بتایا کہ وہ اور ان کے چار اور بھائی اپنے والد کے ساتھ جامعہ آئے۔ اس وقت جامعہ دہلی کے قرول باغ کے علاقے میں تھی۔ ان بھائیوں کو اپنا گھر اور اپنی اماں کی یاد ہر وقت ستاتی تھی۔ ان ہی دنوں انھوں نے سنا کہ جرمنی سے ایک میم صاحب آرہی ہیں۔ انھوں نے سوچا آرہی ہوں گی۔ ان کا دن تو جامعہ کی دلچسپ تعلیم اور دوسرے مشغلوں میں گزرجاتا مگر ہوسٹل میں آکر گھر اور ماں کی یاد سب بچوں کو بہت ستاتی تھی۔

پھر معلوم ہوا کہ وہ میم صاحب آگئیں اور ان کا یہ کہہ کر تعارف کرایا گیا کہ یہ آپا جان ہیں اور اب ہمارے بورڈنگ کی جو ''خاکسار منزل'' میں تھا، وارڈن ہوں گی۔ وارڈن کو جامعہ میں اتالیق کہا جاتا تھا اور چند دن بعد ہی ہمیں وہ بورڈنگ بہت اچھا لگنے لگا۔ آپا جان اس پیار سے سب بچوں کے ساتھ پیش آئیں کہ ہمیں وہ اماں جیسی لگتی تھیں۔ ان کو ہندوستانی زبان نہیں آتی تھی۔ ہم سب جرمن زبان سے ناواقف تھے مگر محبت کی زبان سے ہم لوگ ایک دوسرے کے قریب آتے گئے۔

آپا جان خود اردو سیکھتیں اور ہم کو جرمن زبان سکھاتی تھیں۔ آج بھی ان کے سکھائے جرمن الفاظ اور جملے یاد ہیں۔ آپا جان ایک بڑے حوض میں سب بچوں کو نہلاتی تھیں اور صفائی سے رہنے کی ہدایت کرتی تھیں۔ وہ ہمیں انگریزی کی موسیقی سنواتی تھیں۔ فوٹو گرافی سکھاتی تھیں، ہمیں پکنک پر لے جاتی تھیں۔ ہمارے ساتھ کھانا کھاتی تھیں۔ جب وہ آئیں تو جامعہ میں یہ طے کیا گیا کہ ایک دن جرمن کھانا بھی پکے گا۔ گو وہ کھانا ہم لوگوں کو پسند نہ آتا مگر ہم آپا جان کی محبت میں کھاتے تھے۔

جامعہ میں جو جلسے ہوتے ان کا زیادہ تر انتظام آپا جان کے ذمے ہوتا تھا۔ وہ جب آئیں تو خواتین کے جلسے بھی ہونے لگے اور جلسے کے انتظام میں وہ سب بچوںکو شریک کرتیں اور باہر کی لیمن ڈراپ کا ایک ڈبہ ان کے پاس تھا۔ وہ بچوں کو کام کرنے کے بعد دیتی تھیں۔ جو بچہ کام زیادہ صفائی، ذمے داری اور سلیقے سے کرتا تھا، اس کو وہ لیمن ڈراپ ملتی تھی۔

آپا جان کے ساتھ رہ کر ہمیں ہندستان سے باہر کی دنیا سے واقفیت ہوئی۔ ایک دلچسپ قصہ بھی یاد آتا ہے۔ پہلی اپریل کو کسی شریر لڑکے نے آپا جان سے کہا کہ ''آپ کو ارشاد سر بلارہے ہیں۔'' وہ ضروری کام کر رہی تھیں۔ جلدی سے چھوڑ کر اٹھیں کہ نہ جانے کیا ضروری کام ہے۔

ادھر اسی شریر لڑکے نے ارشاد سر سے کہا کہ '' آپ کو آپا جان بلارہی ہیں۔'' وہ بھی جلدی سے آپا جان کے پاس جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور بیچ میں دونوں کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ دونوں نے ایک دوسرے سے پوچھا ''آپ نے مجھے کیوں بلایا تھا'' جب اصل واقعہ معلوم ہوا تو دونوں مسکراتے چلے گئے۔ آپا جان تو خیر ٹال گئیں مگر ارشاد صاحب نے اس لڑکے کو بہت ڈانٹا۔''

جامعہ کے ایک اور استاد اختر حسن فاروقی نے ان کے بارے میں اپنی ذاتی ڈائری میں لکھا ہے ''انھیں جسمانی زینت اور زیبائش سے دلچسپی نہیں تھی۔ وہ گاندھی جی سے بہت عقیدت رکھتی تھیں۔ کھدر پہنتی تھیں اور عید، بقرعید کے موقعے پرجامعہ کے بچوں اور خواتین کو سودیشی چیزیں اور کھلونے دیتی تھیں۔ انھوں نے زبان نہ جاننے کے باوجود اپنے چھوٹوں اور بڑوں کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا۔ ہر ایک کے دکھ درد میں شریک رہتی تھیں۔ انھیں بچوں کی پرورش اور تربیت کے سلسلے میں معمولی کام کرنے میں عار نہیں تھا۔

بچوں کا منہ دھلانا، سر میں تیل ڈالنا ان کا دل پسند مشغلہ تھا۔ وہ بچوں کے ساتھ مل کر کھلونے تیار کراتیں۔ تصویریں کاٹ کر کمروں میں لگواتیں۔ جب میری بیوی کا انتقال ہوا تو آپا جان نے جو تعزیتی خط مجھے لکھا، اس کا خاص اثر میرے دل پرہوا اور جب میں اپنے تین بے ماں کے بچوںکو لے کر جامعہ آیا تو انھوں نے جس اپنائیت سے بچوں سے اظہار ہمدردی کیا، ان کو گلے لگایا اور پھرجس طرح ان کا خیال رکھا، اس کا گہرا نقش میرے دل پر ہے۔''

(جاری ہے)
Load Next Story