زباں فہمی 175 اردو اور راجستھان حصہ اول

اردو کی تاریخ کا پہلا سِرا، رِگ وید میں ملتا ہے جو پاکستان اور بھارت کی سب سے پرانی کتاب ہے

زباں فہمی 175؛ اردو اور راجستھان تحریر: سہیل احمد صدیقی، فوٹو : روزنامہ ایکسپریس

"دھرتی پر آج بھانت بھانت کی ہزاروں بولیاں بولی جارہی ہیں جن میں سے ایک اردو بھی ہے اور وہ اپنی ایک تاریخ رکھتی ہے۔ اس تاریخ کا پہلا سِرا، رِگ وید میں ملتا ہے جو پاکستان اور بھارت کی سب سے پرانی کتاب ہے،(کہاجاتا ہے کہ زبانی مواد حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کوئی دوہزار سال پہلے اور منضبط تحریری کتاب ایک سے ڈیڑھ ہزار سال قبل از مسیح علیہ السلام معرض وجود میں آئی: س ا ص)اور دوسرا سِرا ہم تک آپہنچا ہے۔ رِگ وید میں اردو کے بول دیکھ کر ہر ایک جان سکتا ہے کہ اس کے بھجن کہتے وقت، اردو بولی جاتی تھی اور یہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ بولی ویدک کال (یعنی وید کی تحریر کے دور: س ا ص) سے بہت پہلے بن چکی تھی، پر ویدک کال سے پہلے کا جُگ (زمانہ: س ا ص)، اردو کا ماضی ہے جس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا، اس لیے اردو کی تاریخ بھی ویدک کال ہی سے شروع کرنی پڑتی ہے۔

اس کے جُکوں (مدتوں: س ا ص) پیچھے (یعنی بعد میں: س ا ص)بھگتی کال میں پہلی بار، اردو بولی کی نظم ملتی ہے، اس لیے گیانیشور(گیانیش وَر)کو اردو کا پہلا شاعر کہاجاسکتا ہے۔اردو کی نثر اس کے بھی بہت پیچھے، اکبری راج (مغل بادشاہ اکبرکے عہد سلطنت: س ا ص) میں پہلی بار دکھائی دیتی ہے، اس لیے گنگ برہم بھٹ کو اُردو کا پہلا لیکھک مانا جاسکتا ہے۔...........مسلمان جب یہاں آئے تو اِس (زبان) کا بانا بدلا اور یہ فارسی لپی (رسم خط) میں لکھی جانے لگی۔.........رِگ وید کے بھجن سُغدی بولی میں کہے گئے ہیں جو رُوسی ترکستان میں بولی جاتی ہے"۔(اس سے مراد، وسطِ ایشیا کا وہ علاقہ ہے جو آج سے کوئی بتیس سال پہلے سوویت یونین کی شکست و ریخت کے دورمیں آزاد ہوچکا ہے: س ا ص)۔"اردوکی کہانی" کے اس اقتباس میں نامور ماہر لسانیات ڈاکٹر سہیل بخاری نے ہمارے فاضل فیس بک دوست، ڈاکٹر اَجے مالوی کی تحقیق کی تصدیق کردی جو خاکسار 'زباں فہمی' اور 'سخن شناسی' میں کئی بار بطور حوالہ نقل کرچکا ہے۔اس قدیم عہد میں جہاں دیگر ہندوستانی زبانوں او ر بولیوں کا ملاپ ہوا، وہیں راجستھان کی شرکت بھی قدرتی طور پر ناگزیر ہوئی۔



شاید ابھی تک کوئی ایسی مبسوط تحقیق منظر عام پر نہیں آئی جس میں راجستھان کی زبانوں، بولیوں کے اردو سے خِلقی (پیدائشی) [By default]تعلق، اس عظیم زبان کی تشکیل میں ان کا کردار، ان زبانوں اور بولیوں کی اپنی نشو نَما (نشوونُما غلط)، وہاں تخلیق ہونے والا اردو ادب نیز مقامی ادب، صحافت، نشریات، درس تدریس، دینی ومذہبی تاریخ نیز سیاسی تاریخ جیسے موضوعات یکجا کرکے اس انداز میں پیش کیے گئے ہوں کہ ایک عامی سے لے کر عالم تک سبھی یکساں فیض یاب ہوں۔بہرحال ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔

سب سے پہلے خاکسار ناواقفین کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ یہ نام 'راج+استھان' ہے(راجوں کی جگہ یا سرزمین: یہ استھان وہی ہے جو ہمارے پیارے ملک کے نام میں 'ستان' ہے)، راجھس +تان نہیں جیسا کہ بہت سے لوگ عموماً کہتے سنائی دیتے ہیں۔اسی سرزمین کا دوسرا نام راجپوتانہ ہے جو راجپوت نسل سے منسوب ہے۔یہ نسل پورے خطے کی سب سے بڑی نسل ہے جس کی ذاتیں اور گوتیں بجائے خود اقوام کے طور پر مشہور ہیں اور ان سے سچا یا جھوٹا تعلق جوڑنا ہردوسرے شخص کے لیے باعث ِ افتخار ہے۔بات کی بات ہے کہ دیگر کے علاوہ، میر بھی راجپوت ہی ہوتے ہیں (اور اپنے میر ؔ صاحب کو یاروں نے خواہ مخواہ 'سید' بنانے کی کوشش کی تھی)۔

اردو کی تشکیل میں دیگر خِطّوں کی طرح راجپوتانہ عرف راجستھان نے بھی بہت نمایاں کردار ادا کیا۔"راجستھان میں اردو" کے مصنف پروفیسرڈاکٹر فیروز احمدصاحب کا یہ کہنا درست ہے کہ راجستھانی، موجودہ ہندی واردو دونوں زبانوں سے زیادہ قدیم ہے۔اُن کی رائے میں راجستھانی لفظیات، اسماء،ضمائر، افعال اور حروف کا اثر، گُجری (گوجری) اور دکنی پر بھی پڑا۔موصوف نے یہ دل چسپ انکشاف بھی کیا کہ قدیم راجستھانی شعراء اپنی زبان (یعنی قدیم اردو)کو "سہج فارسی"، ہندوستان اور ریختہ کہتے رہے ہیں۔



سہج فارسی کے انوکھے نام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فارسی کے ساتھ مقامی زبانوں اور بولیوں کے ملا پ سے بننے والی، بلکہ اُس عہد میں زیرِتشکیل، نو عمر اُردو کو پہلے سے موجود فارسی سے نسبتاً سہل زبان سمجھتے تھے۔ابتدائی عہد کے شعراء واُدَباء کا کام یقینا محفوظ نہیں، مگر بعض نام ملتے ہیں جیسے مارواڑ کے شاعر اکرم ؔ فیض (پ: 1122ء)، ریاست جے پور کے راجا مادھو سنگھ کے متوسل، جنھوں نے 1148ء سے 1201ء کے درمیان دوکتابیں، ورت مال کاویہ اور ورت رتنا تصنیف کیں۔یہ نام بتارہے ہیں کہ ہندی کے قدیم ادب کے ترقی پذیر عہد کی یادگار ہیں، مگر ہم محض قیاس کرسکتے ہیں کہ ان کی زبان کیا ہوگی، کس قدر مخلوط یا خالص۔

تحقیق کا دَر وَا ہوتا ہے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہندی (یعنی قدیم اردو کے ایک رُوپ) کے مقبو ل عوامی کوی (شاعر) کبیرؔ کے سینہ بہ سینہ محفوظ (اور بعداَزآں تحریرمیں منضبط) کلام میں بقول ڈاکٹر سہیل بخاری "راجستھانی، بِرج بھاشا،کھڑی بولی،بِہاری (بولی)، بنارسی (بولی) اور پوربی (اَوَدھی) زبانیں پائی جاتی ہیں۔رَمَینی اور سَبَد میں بِرج بھاشا اور پوربی بولی ملتی ہے، ساکھی کی زبان سدھکڑی ہے(یہ ہندی شاعری کی اصناف کے نام ہیں: س اص)، جس میں راجستھانی، پنجابی اور کھڑی بولی ملی ہوئی ہے"۔



گویا راجپوتانے کا پہلا بڑا نام، پندرہویں صدی کا شاعر کبیرؔ ہے جس نے لوک ادب کو اعتبار بخشا۔(ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ)۔ڈاکٹرسہیل بخاری کی اس تحقیق کی ایک اور جدید محقق،بلجیت سنگھ مطیرؔنے سختی سے تردید کرتے ہوئے بعض دیگر ہندو اور ہندی محققین کے اقوال نقل کرتے ہوئے یہ تجزیہ کیا کہ "کبیرؔصاحب کی زبان اَوَدھی، بھوج پوری یا راجستھانی وغیرہ نہیں تھی، بلکہ وہ پوربی بھاشا تھی جو توسیع پذیری کے بعد،جدید ہندی یا اردوکے نام سے پکاری جاتی ہے"۔ (اردو کا مکمل باغی شاعر: ناشر کایا پبلی کیشنز، بہادرگڑھ، ہریانہ،مطبوعہ نودیپ پریس، دہلی، 1984ء۔آن لائن دستیاب)۔

مطیرؔنے تو ایک اور زبردست انکشاف یہ کیا کہ کبیر ؔ اپنی شاعری کے لیے یہی اردو رسم خط استعمال کیا کرتے تھے،(یعنی خود بھی لکھ لیا کرتے تھے) گویا ان معنیٰ میں اردو ہی کے شاعر ہوئے۔یہاں ضمنی نکتہ یہ ہے کہ اُنھوں نے بالتحقیق یہ بات ثا بت کی ہے کہ کبیرؔ کے کلام میں بھی بہت سے لوگوں نے اپنے طور پر اضافے کردیے ہیں۔

کبیر ؔ کی ایک 'ساکھی' (بطور کہاوت مستعمل) ہے:
پانی کیرا بُد بُدا، اَس مانش کی جات+دیکھت ہی چھپ جائے گی جیوں تارا پربھات

یہ مضمون پنجاب کے نسبتاً کم معروف، قدیم اردو شاعر رضاؔ تھانیسری نے(بارہویں صدی ہجری یعنی اٹھارویں صدی عیسو ی میں) یوں باندھا تھا:
آدمی بًلبًلہ ہے پانی کا
کیا بھروسا(ہے)زندگانی کا
("اردو کے مشہور اشعار۔ایک جائزہ از سہیل احمد صدیقی: 2001ء، کراچی، بحوالہ پنجاب کے قدیم اردو شعراء از خورشید احمد خان یوسفی: اکتوبر 1992ء، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد)۔ نریش کمار شاد ؔ نے امیرؔ مینائی کا شعر یوں نقل کیا:
زیست کا اعتماد کیا ہے امیرؔ
آدمی بلبلہ ہے پانی کا
"اردو کے ضرب المثل اشعار: تحقیق کی روشنی میں" (ازمحترم شمس الحق) کی رُوسے درست شکل یوں ہے:
زیست کا اعتبار کیا ہے امیرؔ

آدمی بلبلہ ہے پانی کا
یہی شعر مصرعوں کی ترتیب بدل کر، حالی ؔسے منسوب کردیا گیا:
کیا بھروسا ہے زندگانی کا
آدمی بلبلہ ہے پانی کا
جبکہ بعض جگہ دیکھا کہ یہ شعر میرؔ سے منسوب کردیا گیا۔
(زباں فہمی نمبر170:سرقہ، توارُد، چربہ اور استفادہ۔حصہ اوّل، مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، سنڈے میگزین مؤرخہ 15جنوری 2023)

یہ بعض جگہ والی بات خاکسارنے یادداشت سے لکھی تھی جو درست ثابت ہوئی۔ڈاکٹر سہیل بخاری نے اپنی کتاب 'ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ' میں میر سے منسوب کیا اور کبیر ؔ کی ساکھی کا مضمون میرؔ ہی کے ایک اور شعر سے بھی گویا استفادے کے طور پر پیش کیا:
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے

ڈاکٹر سہیل بخاری نے نامور عالم اور مقبول ہندی شاعر رحیمؔ (عبدالرحیم خان خاناں) کے کلام پر کبیرؔ کے اثرات کی نشان دہی کی، جبکہ مطیرؔ صاحب نے کبیرؔ سے استفادے کے لیے میرؔ، غالبؔ،اقبالؔ سمیت متعدد مثالیں پیش کی ہیں۔
راجپوتانہ میں جمال الدین جمالؔ (پ: 1568ء) کے دوہے بہت مقبول ہیں جنھوں نے 1593ء کے لگ بھگ، جمال پچیسی نامی کتاب تصنیف کی۔اُن کے کلام میں پہیلیاں بھی ملتی ہیں۔ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
جملا ایسی پریت کہ جیسی کیس کرائے
کے کالا، کے اوجلا جب تب سرسوں جائے

مارواڑ کے ایک گاؤں جیتارن میں 1676 ء میں پیداہونے والے دَریا صاحب، جولاہے تھے (وفات: 1758ء)،مگر اُن کی مذہبی تعلیمات کے سبب، اُن کا پنتھ (یعنی فرقہ) الگ مشہور ہوا اور اس کے ماننے والے میواڑ میں ہزاروں کی تعدادمیں پائے جاتے ہیں۔ان کا نمونہ کلام:
کنچن کنچن ہی سدا، کانچ کانچ سو کانچ
دَریا جھو ٹ سو جھوٹ ہے، سانچ سانچ،سو سانچ

ایک اور ماہر لسان،پروفیسر حبیب غضنفرؔ فرماتے ہیں: "راجستھانی کی چار بولیاں مارواڑی یا میواڑی، مالوی، جے پوری اور میواتی اہم ہیں۔پرانی مارواڑی اور گجراتی میں کچھ زیادہ فرق نہیں، اس کا قدیم ادب ڈنگل کے نام سے مشہور ہے۔جے پوری اور مارواڑی، گجراتی سے میواتی، بِرج بھاشا کی طرح، مستقبل کے لیے دو علامتیں، 'ہوں' اور 'گو' مستعمل ہیں۔پروفیسر شیرانی (حافظ محمود شیرانی۔ س ا ص) نے 'گ' کو پنجابی کی خصوصیت بتایا ہے، (لیکن) وہ بِرج اور راجستھانی کی بعض بولیوں میں مستعمل ہے......راجپوتانہ کے بھاٹ (گھوم پھر کر زبانی کلام گانے اور پیش کرنے والے لوک شاعر: س ا ص)بھی ڈنگل کے ساتھ ساتھ پنگل (مروجہ زبان) میں شاعری کرتے تھے"۔

انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ہندی ادب کے 'ویر گاتھا' یعنی رزمیہ منظومات کے دور میں ایک کتاب "بیسل دیوراسو" لکھی گئی جس کی زبان، معیاری نہیں،بلکہ راجستھانی ہے اور اس کے بعد کی کتاب، 'پرتھوی راج راسو' کے قدیم ترین حصوں میں،'ن' کی جگہ 'نڑ' (یعنی نون اور ڑے کے ملاپ سے بننے والی مخصوص شکل، جیسے سندھی میں درخت کو وَنڑ کہتے ہیں اور حرف نون کے پیٹ میں ٹے کی طرح، ط، لگاتے ہیں۔یہ آواز سرائیکی اور پشتو میں بھی موجودہے: س ا ص)کی آواز پیداہوتی ہے۔غضنفرؔ صاحب نے یہ بھی بتایاکہ اس مؤخرالذکر کتاب میں "عربی،فارسی کا لہجہ بدل کر استعمال کیا (گیا) ہے، مثلاً اسوار(یعنی سوار: س ا ص)، عربی، کتان وغیرہ، مگر یہ ظاہر ہے کہ راسو کی زبان، اُس وقت کی معیاری، درباری زبان تھی اور راجپوتوں کے اقتدار کی وجہ سے راجستھانی کا اثر نمایاں تھا"۔('زبان وادب: مطالعہ وتحقیق'، مطبوعہ غضنفر اکیڈمی پاکستان، کراچی: 1983ء)

بہ لحاظِ رقبہ بھارت کی سب سے بڑی اور بہ اعتبار ِ آبادی ساتویں بڑی ریاست (صوبہ)راجستھان 30مارچ 1949ء کومعرضِ وجود میں آئی، اس کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر جے پور ہے، جسے"گلابی شہر"[Pink City]کے نام سے شہرت ملی، جبکہ دیگر اہم شہروں میں جودھ پور، کوٹہ، اجمیر، بیکانیر اور سوائی مادھوپور شامل ہیں۔(مؤخر الذکر سے تعلق رکھنے والے جدید شاعر جناب سرفراز بزمی فلاحی، طرزِ اقبالؔ میں شاعری کے سبب اس قدر مشہور ہیں کہ اُن کا بعض کلام علامہ سے منسوب کرکے انٹرنیٹ پر پھیلادیا گیا ہے، اس بابت،زباں فہمی میں پہلے ذکر ہوچکا ہے)۔راجستھان کی اکثر زمین بنجر اور صحرائے راجپوتانہ عرف تھر پر مشتمل ہے جو سندھ میں پہنچ کر تھر اور پنجاب میں تھل (چولستان)کہلاتا ہے۔ دریائے ستلج اور دریائے سندھ کی گھاٹیوں سے جغرافی تعلق رکھنے کے ساتھ ساتھ، یہ ریاست شمال میں بھارتی پنجاب،، شمال مشرق میں ہریانہ اور اُتر پردیش، جنوب مشرق میں مدھیہ پردیش اور جنوب مغرب میں گجرات کی ریاستوں سے

گھِری ہوئی ہے۔راجستھان میں ہندو مت، جین مت اور قدیم سندھی تہذیب وثقافت کے اہم آثار موجودہیں۔اس کا پہاڑ کوہِ آبو [Mount Abu]اپنی دل کشی کے ساتھ ساتھ جین مت کے مقدس استھان کے طور پر بھی مشہور ہے۔اس ریاست کے دیگر خصائص کتب اور انٹرنیٹ پر ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔تقسیم ہند سے قبل یہ علاقہ چھبیس چھوٹی بڑی خودمختار یا نیم خودمختار ریاستوں پر مشتمل تھا، جن میں ایک کا نام کوٹہ تھا۔میرے والد گرامی رفیع احمد صدیقی مرحوم نے اپنے بچپن کے دوسال وہیں گزارے تھے۔

اردو کی تشکیل میں دیگر خِطّوں کی طرح راجپوتانہ عرف راجستھان نے بھی بہت نمایاں کردار ادا کیا۔انگریز سرکارکے عہد میں اردو بہ سرعت تمام ناصرف پورے خطہ ہند،بلکہ اقصائے عالَم میں پھیل چکی تھی۔ایسے میں یہ خبر بھی بہت دل چسپ ہے کہ "اجمیر میں ایک ہندوستانی کالج کے افتتاح پر اور جے پور میں ایک صنعتی اسکول کے افتتاحی جلسے میں ہندوستان کے گورنر جنرل کے ایجنٹ کرنیل کنینگ نے اپنی مادری زبان کو چھوڑ کر اسی زبان میں تقریر کی"۔میرا خیال ہے کہ قاضی معراج الدین صاحب (قاضی ئ شہر دھول پور)نے اپنے مضمون بعنوان"اردو کی ترقی میں اہل راجستھان کا حصہ" (آن لائن دستیاب) میں سروئیر جنرل آف انڈیا، ماہر آثارِ قدیمہ، انجینئر Alexander Cunningham(23جنوری 1814ء بمقام لندن تا 28نومبر 1893ء بمقام لندن) کا ذکر کیا ہے۔

وہ ہندوستان میں اپنے قیام کے دوران میں، مختلف جنگوں میں حصہ لیتا رہا اور یہاں مختلف اہم عمارات یا تعمیراتی ڈھانچے بطور انجینئر بنوائے۔
راجستھان میں عربی وفارسی کی درسی و علمی ضروریات کی تکمیل کے لیے ان زبانو ں میں کتب کی تصنیف وتالیف جاری رہی اور پھر جب فارسی کی جگہ اردو سرکاری زبان بنی تو ایک مدت کے بعد، یہاں بھی اس کا اثرونفوذ بڑھنے لگا،یہاں تک کہ 1869ء میں راجستھان کی سرکاری زبان اردو بن چکی تھی۔

1911ء کی مردم شماری کے جائزے کے مطابق،"جے پور آس پاس کے لوگوں اور مقامی باشندوں کے میل جول سے کم و بیش مقامی بولیوں کی خصوصیات فنا ہوتی جارہی ہیں، اس کے علاوہ ہندی اور اردو سرکاری زبانیں ہیں، اس لیے لوگ ہندی اور اردو کے الفاظ بولنا فخر سمجھتے ہیں نہ صرف عام طور پر بلکہ ان کے گھروں میں بھی یہی الفاظ بولے جاتے ہیں، گویا اس طرح مقامی بولیوں کی ایسی صفات جن سے وہ پہچانی جا سکیں بتدریج ختم ہوتی جارہی ہیں۔جے پور کے لوگ خواہ شہر میں رہتے ہوں یا مواضعات میں زیادہ تر غیر زبان کے الفاظ بولتے ہیں جویا تو ہندی زبان کے ہوتے ہیں یا اردو زبان کے۔ اور ایسے الفاظ کا استعمال دن بدن ترقی پر ہے"۔ (اردو کی ترقی میں اہل راجستھان کا حصہ)۔

(جاری)
Load Next Story