نایاب نسل کے گدھوں کو رواں سال آزاد کرنے کا فیصلہ
سفید پشت والے نایاب نسل کے گدھوں کی افزائش چھانگا مانگا میں قائم ولچرز بحالی سینٹر میں ہوئی
لاہور کے قریب چھانگا مانگا جنگل میں بنائے گئے ولچرز بحالی سنٹر میں موجود نایاب نسل کے سفید پشت والے گدھ آزاد فضاؤں میں اڑان بھرنے کے لئے بے چین ہیں لیکن ماہرین کے نزدیک انہیں ابھی کھلی فضا میں چھوڑنا خطرناک ہوسکتا ہے۔
پاکستان میں ولچرزکی ناپیدی کا سبب بننے والی ادویات آج بھی ملک بھر میں مختلف ناموں سے فروخت ہورہی ہیں۔ ادھرڈبلیوڈبلیوایف کے حکام کا کہنا ہے اس سال تجرباتی طورپر دو ولچرز وائلڈلائف پروٹیکٹڈایریا اورنیشنل پارک میں چھوڑے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ قدرتی ماحول کی نسبت کنٹرولڈ ماحول میں سفید پشت والی گدھ کی افزائش ایک مشکل کام ہے تاہم پنجاب وائلڈ لائف اور ڈبلیوڈبلیوایف نے اس میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ 18 برس کے طویل عرصے میں 15 ولچرز کی افزائش ہوسکی ہے۔
پنجاب وائلڈ لائف نے 2005 میں ڈبلیوڈبلیوایف کے اشتراک سے چھانگامانگا جنگل میں ولچربحالی سنٹرقائم کیا تھا جہاں 14 نراورمادہ گدھ رکھے گئے تھے تاہم اب 18 برس بعد ان کی تعداد 29 تک پہنچ گئی ہے۔ جن میں 16 بالغ گدھ، 10 سب آڈلٹ اور 3 چوزے شامل ہیں۔ رواں بریڈنگ سیزن کے دوران 5 انڈے حاصل کئے گئے ہیں۔ اس منصوبے کی لاگت 82 اعشاریہ 23 ملین روپے ہے جن میں سے 77 ملین روپے خرچ ہوچکے ہیں۔
ڈپٹی ڈائریکٹرپنجاب وائلڈلائف جنید عالم نے ایکسپریس کو بتایا کہ ابتدائی دس سال کافی مشکل تھے۔ اس دوران ولچرز کو رکھنے اوران کی بریڈنگ اورہیچنگ کے لئے کئی تجربات کئے گئے اوربالاخر اس میں کامیابی حاصل ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت ہمارے لئے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان ولچرز کو قدرتی ماحول میں کیسے آزاد کیا جائے کیونکہ ان کے لئے قدرتی ماحول میں موجود خطرات کم نہیں ہوسکے ہیں۔
انہوں نے کہا پاکستان میں 90 کی دہائی میں گدھ قدرتی ماحول میں ناپید ہونا شروع ہوئے۔ اس کی بڑی وجہ مویشیوں کو لگائے جانے والے درد کش ٹیکے تھے، جن میں ڈائی کلوروفینک ایسڈ ہوتا ہے۔ جب گدھ ان مردارجانوروں کا گوشت کھاتے تو اس سے ان کے گردے فیل ہوجاتے جبکہ دوسری وجہ صابن، جیلیٹن اور مردار ہڈیوں سے تیل کشید کرنے والے عناصر ہیں۔
ڈبلیوڈبلیوایف کے نمائندے اورولچرکنزرویشن پراجیکٹ کے انچارج جمشید چوہدری نے ایکسپریس کو بتایا کہ ''ہم نے اس سال دوپرندے قدرتی ماحول میں چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے ان پرندوں کو ٹرانسمیٹرلگا کر کسی وائلڈلائف نیشنل پارک یا پھرپروٹیکٹڈ ایریا میں آزاد کیا جائیگا۔
جمشید چوہدری کہتے ہیں ان ولچرز کی معدومی کا سبب بننے والے ڈیکلوفینک پر توکئی برسوں سے پابندی ہے لیکن یہی سالٹ مختلف ناموں سے ادویات میں استعمال ہورہاہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے پنجاب کے تمام اضلاع میں سروے کیا گیا اورمختلف میڈیکل اسٹوروں کو چیک کیا گیا جس سے یہ بات سامنے آئی کہ گدھ کے لئے مضرسالٹ چار،پانچ ادویات میں استعمال ہورہا ہے اوروہ ادویات عام فروخت ہورہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس لئے اب دوبارہ یہ رسک نہیں لیا جاسکتا کہ 18 برس کی محنت سے جو گدھ حاصل ہوئے ہیں انہیں دوبارہ قدرتی ماحول میں چھوڑدیا جائے اس لئے ہم انہیں محفوظ علاقے اورکسی نیشنل پارک میں چھوڑیں گے تاکہ یہ وہاں کسی مردہ جنگلی جانورکا گوشت کھاسکیں گے جو ان کے لئے خطرناک نہیں ہوگا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت پاکستان میں صرف نگر پارکر سندھ کا علاقہ گدھ کے لئے محفوظ ہے جہاں تقریبا 100 کلومیٹر کے رقبے کو ولچرزسیف زون قراردیا گیا ہے۔ جنگلی حیات کے ماہراورپنجاب پنجاب وائلڈلائف بورڈ کے رکن بدرمنیرکہتے ہیں ولچرزبحالی کا یہ منصوبہ تحقیق کے حوالے سے ایک کامیاب سٹوری ہے ۔ لیکن اب دوسرا اہم کام ہے ان کوقدرتی ماحول میں آزاد کرنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ماضی کی نسبت اب مردہ جانوروں کو کھلے میدانوں میں پھینکنے کا رحجان بھی کافی حدتک کم ہورہا ہے اور مردہ جانوروں کو کھلا پھینکنے کی بجائے ان کو زمین میں گڑھا کھود کردبا دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہماری کوشش ہے کہ ایسی تمام ادویات جو جانوروں میں استعمال ہوتی ہیں ان کی فروخت پر پابندی کو یقینی بنایا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ چھانگامانگا میں ایک نئی ایوری بھی تیار کرلی گئی ہے اور آئندہ چند ہفتوں میں بالغ گدھ نئی ایوری میں منتقل کردیئے جائیں گے جہاں وہ نچلی سطح تک اڑان بھرسکیں گے۔