دہشت گردی کا ناسور

یہ فوری نوعیت کے اقدامات آج سے بہت پہلے ہونے چاہیے تھے۔ ان میں مزید تاخیر کی گنجائش نہیں ہے

یہ فوری نوعیت کے اقدامات آج سے بہت پہلے ہونے چاہیے تھے۔ ان میں مزید تاخیر کی گنجائش نہیں ہے۔ فوٹو: فائل

دہشت گردوں کا کوئی مذہب یا نظریہ نہیں ہوتا ، بلکہ گمراہ کن تصور کو لالچ اور دبائو سے مسلط کیا جاتا ہے ، ہم ایک ساتھ مل کر مشترکہ خوشحال مستقبل کے لیے اس خطرے پر غالب آئیں گے۔

ان خیالات کا اظہار پاکستانی فوج کے سپہ سالار سید عاصم منیر نے دورہ کراچی کے موقعے پر کیا۔ انھوں نے کراچی پولیس آفس کا دورہ کیا ، بعد ازاں اسپتال میں زخمی رینجرز اور پولیس کے جوانوں سے ملاقات اور عیادت کی۔

بلاشبہ جب تک ہماری سوچ انفرادی سے اجتماعی نہیں ہوتی ہم اپنے مسائل اور مشکلات کے مکمل خاتمے کی طرف نہیں بڑھ سکتے۔

پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں عام شہریوں کے علاوہ پولیس اور فوج کے جوانوں اور افسروں کی قربانیاں بھی دے چکا ہے ، لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔

کامیابیاں بلاشبہ غیر معمولی ہیں لیکن یہ جنگ کا آخری مرحلہ ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ہمیں پہلے سے زیادہ چوکنا ہونے کی ضرورت ہے کہ دشمن ہماری کامیابیوں کا اثر زائل نہ کر سکے تا آنکہ پاکستانی قوم مکمل امن کی منزل سے ہمکنار ہو اور ترقی کی طرف تیز رفتاری سے پیش قدمی کرے۔

ریاست بلاشبہ پوری طاقت سے دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے لیکن ہمیں سوچنا ہوگا کہ کمی کہاں باقی ہے؟ کیوں ہم اتنی قربانیوں کے باوجود اب تک اس لعنت سے چھٹکارا نہیں پاسکے ، کیونکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے میں ناکام ہوئی ہے، پاکستان میں لاکھوں رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین ہیں، افغانستان ابھی تک ان کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہوسکا۔

کابل کے حالات میں قدرے بہتری اور عالمی امداد کے باوجود نہ تو افغان ریاست ان مہاجرین کی واپسی کے بندوبست پر تیار ہے اور نہ ہی یہ خود واپس جانے پر رضامند ہیں ، تاہم اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان ان افغان مہاجرین سے جان چھڑا لے۔ سب سے پیچیدہ اور مشکل مرحلہ پاک افغان سرحد پر عالمی معیار کے مطابق نظم و ضبط قائم کرنا ہے لیکن گزشتہ چالیس برس میں آر پار آنے جانے والے اس نظم و ضبط کو ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ وہ جھول ہے جو پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی میں بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے۔

پاکستان تو سرحدی نظام کو موثر بنانے کے لیے پر عزم نظر آتا ہے لیکن کابل میں اس عزم کی کمی واضح طور پر دیکھنے میں آرہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ لاہور ، کراچی ، پشاور یا کوئٹہ اور افغانستان کے درمیان سہولت کاری کی شکل میں ایسا کون سا پل موجود ہے جو دہشت گردوں کے رابطوں اور ان کی سرگرمیوں کو مکمل طو ر پر ختم نہیں کرسکا۔

پاکستانی ریاستی اداروں کو سہولت کاری اور رابطہ کاری کے نیٹ ورک کا یہ پل ہر صورت توڑنا ہوگا اور افغانستا ن کو بھی چاہیے کہ وہ اس پل کو توڑنے میں پاکستان کی مدد کرے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان سے ملحقہ افغان سرحدی علاقوں میں ایک بھرپور فوجی آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا جائے۔

یہاں دہشت گردی کے بنیادی اسباب کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا نظام حکومت اتنا غیر مؤثر ہوچکا ہے کہ عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی تو درکنار ان کی بنیادی ضروریات کو سمجھنے کی بھی تکلیف گوارا نہیں کی گئی اور نہ اس سے متعلق کوئی منصوبہ بندی انجام پائی۔ عوام کو قدم، قدم پر ناکامیوں اور مایوسیوں کا سامنا ہے۔

مایوسی' نفرت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کو جنم دینے کا باعث بن رہی ہے۔ حالانکہ ہمارے ملک کا ایک بہت بڑا اثاثہ جوان افرادی قوت ہے۔ ہماری 65 فیصد آبادی کی عمر تیس سال سے کم ہے۔ اس افرادی قوت کے متعلق طویل المدت پلان پر یکسوئی سے عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام نامکمل ہونے کے ساتھ ساتھ اکثریت کے لیے سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔

سات ملین کے قریب بچے جن کو پرائمری اسکول میں ہونا چاہیے تھا، وہ گلیوں اور سڑکوں پر موجود ہیں۔ تین کروڑ سے زائد بچے اسکول اور کالجز نہ ہونے کے باعث جہالت کے اندھیروں میں گم ہیں اور دہشت گردوں کے لیے خام مال بن چکے ہیں۔

جو خوش نصیب یونیورسٹی ڈگری لینے میں کامیاب ہو بھی جائیں، ان کی اکثریت روزگار کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھاتی ہے۔ ان میں سے بعض خوش نصیب دیار غیر جانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور کئی نوکریاں، روزگار دستیاب نہ ہونے کے باعث نشہ کی لعنت اپناتے ہیں، جس کے باعث ملک ان کی تعلیمی قابلیت سے استفادہ کرنے سے محروم رہتا ہے۔


بیروزگار، تعلیم یافتہ افرادی قوت میں سے کئی جرائم کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور کہیں نہ کہیں جاکر دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا حصہ بن رہے ہیں۔ اس لیے حکومت کو تعلیم کے نظام کو مؤثر بنانے کے لیے منصوبہ بندی کرنا پڑے گی، ورنہ دہشت گردوں کو افرادی کمک معاشرے سے ہی میسر آتی رہے گی اور یہ ناسور کبھی ختم نہیں ہو پائے گا۔

تعلیم کے ساتھ صحت عامہ کے نظام کو عوام تک پہنچانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر ہر علاقے میں اسپتال، ڈسپنسریاں قائم کرنا ہوں گی۔ ہماری بڑھتی ہوئی آباد ی کے لیے اگر مستقبل میں امن و امان کو قائم رکھنا ہے تو اقتصادی ترقی کے لیے جامع منصوبہ بندی کرنا پڑے گی۔ بجلی، گیس، کے بحران نظر آتے ہیں۔

ان کو حل کرنے کی باتیں بھی کی جاتی ہیں۔ دعوے ہم سرمایہ داروں کے لیے خوشگوار ماحول پیدا کرنے کی کرتے ہیں، مگر حقیقت یہ کہ ہمارے سرمایہ دار اپنی صنعتیں یہاں سے دوسرے ممالک میں منتقل کررہے ہیں، اگر آبادی کو روزگار فراہم کرنا ہے تو صنعت کی جانب تیزی سے بڑھنا ہوگا۔ کہنے کو ہم زرعی ملک ہیں۔

ہماری 60 فیصد آبادی کسی نہ کسی حوالے سے زراعت سے جڑی ہے، مگر آنے والے وقت میں زراعت کو پانی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ملک میں آبی ذخائر محفوظ کرنے کے لیے ہم نے ڈیم نہیں بنائے، اور اسی چیز کو بہانہ بناکر کہ پاکستان پانی سمندر میں پھینک کر ضایع کر رہا ہے، بھارت نے ہمارے دریاؤں پر ڈیم بنا لیے ہیں۔

سب سے بڑا اور اہم کام معاشی اور تعلیمی شعبوں میں کرنے کا ہے۔ جب تک معیشت کی بہتری کی صورت میں نوجوانوں کو روزگار کے وافر ذرایع میسر نہیں ہوں گے تب تک ان کی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے خطرات مکمل طور پر ختم نہیں کیے جاسکتے۔

تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ہمہ گیر اصلاحات اور ان پر تیز رفتار عمل کے بغیر دہشت گردی کے ناسور کو مکمل طور پر پائیداری کے ساتھ ختم نہیں کیا جاسکتا۔

ہماری فوج اور فوج کے ذیلی ادارے جیسے ایف سی، رینجرز، لیویز پاک سرحدوں کی حفاظت بھی کرسکتے ہیں اور مجرموں کا داخلہ بھی بند کرسکتے ہیں، اسی طرح منظم دستے ریاست کے خلاف سرکشی، بغاوت کرنے والے عناصر کی سرکوبی بھی کرسکتے ہیں، مگر سیاسی، فرقہ وارانہ منظم اور غیر منظم جرائم پیشہ افراد کا محاسبہ کرنے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کو ہی کام کرنا پڑے گا۔

المیہ یہ بھی ہے کہ ہمیں اتنی خبر بھی نہیں کہ ہمارے ملک کی آبادی کتنی ہے۔ کتنے غیرملکی باشندے آباد ہیں، کیونکہ ہمارے ملک میں مردم شماری کرانے کی آئینی ذمے داری کو بھی پورا نہیں کیا گیا۔ جب تک یہ حقائق اور اعداد اداروں کے علم میں ہی نہیں ہوں گے تو اس سے متعلق منصوبہ بندی کیسے کی جاسکتی ہے۔

اس حوالے سے ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں فوراً مردم شماری کراکے مکمل اعداد و شمار یکجا کیے جائیں۔ کمپوٹرائزڈ نظام کے ذریعے انھی اعداد کی روشنی میں ریکارڈ تیار کیا جائے۔ ہر تھانے کی حدود میں موجود افراد کا شعبہ جاتی تقسیم کے مطابق ریکارڈ تھانے میں موجود ہونا چاہیے۔

مشکوک اور چھوٹے بڑے جرائم میں ملوث افراد ایک مخصوص کیٹگری میں ہونے چاہیے۔ اس کے علاوہ خفیہ پولیس اور سراغ رسانی کے نظام کو فعال اور ہمہ گیر بنانے کی ضرورت ہے۔ جس طرح نادرا کی مدد سے موبائل سمز کی تصدیق کا عمل جاری ہے، اسی طرز پر انتظامی اداروں کو تصدیقی ڈیوائس فراہم کرکے افراد کی نقل و حرکت کو باآسانی مانیٹر کیا جاسکتا ہے۔

مختلف شہروں میں داخلے کے وقت مسافروں کی وڈیو بنانے کے بجائے شناختی آلات کی مدد سے کمپوٹرائزڈ تصدیق کرنے سے انتظامی اداروں، پولیس کو فوراً یہ خبر ہوسکتی ہے کہ کس کیٹگری سے منسلک کون سا شخص اس وقت شہری حدود میں داخل ہوچکا ہے اور اس کو کیسے مانیٹر کرنا چاہیے۔

اس کے علاوہ ہمارے ہی نظام میں موجود اگر کچھ کالی بھیڑیں دہشت گردوں کی مدد اور ان کی مجرمانہ کارروائیوں میں شریک ہیں تو ان کو بھی منظر عام پر لاکر نشان عبرت بنانا چاہیے۔ انتظامیہ، پولیس کو مؤثر بنانے کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے نظام کو بھی وقت کی ضرورت سے ہم آہنگ کرنا پڑے گا۔ مجرموں کے مقدمات کی پیروی میں تاخیر نظام کو غیر موثر بنا دیتی ہے۔

یہ فوری نوعیت کے اقدامات آج سے بہت پہلے ہونے چاہیے تھے۔ ان میں مزید تاخیر کی گنجائش نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں نے اپنا سر اُٹھانا شروع کر دیا ہے اور پاکستان مسلسل دہشت گردوں کی وجہ سے حالت ِ جنگ کی صورت میں ہے اور وقت کا تقاضا ہے کہ تمام سیاسی رہنما مل کر قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف ہم آواز ہوجائیں اور آپس میں مل کر ملکی سیکیورٹی ایجنسیوں ، پولیس، رینجر اور افواجِ پاکستان کو بھر پور سپورٹ کریں تاکہ کوئی بھی ہماری ارضِ پاک کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔
Load Next Story