نئے میثاق جمہوریت کی ضرورت ہے
ہم ‘ اسی طرح کوڑی کوڑی کے محتاج رہیں گے۔ بالکل اس طرح بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز رہیں گے
ایک دن میں درجنوں کالم لکھے جاتے ہیں۔ ہر ذی شعور اپنے ذہن کے حساب سے ملکی مسائل پر غور و خوض کرتا ہے۔ حل بتاتا ہے ۔ بالکل اسی طر ح شام کو الیکٹرانک میڈیا پر ان گنت لوگ سنجیدہ بحث کرتے نظر آتے ہیں۔
ملک کو درپیش مسائل پر ہر زاویہ سے بات ہوتی ہے۔ وہاں بھی' ہمارے سامنے کھڑے ہوئے مسائل کے حل کا ذکر کیا جاتا ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ملک ' سماج ' ادارے ' حکومت ' اپوزیشن ' کاروباری لوگ' یعنی سب کچھ بالکل پہلے کی طرح رینگتا رہتا ہے۔
کسی بھی مثبت تبدیلی کے بغیر۔ اقتدار پر قابض گروہ' دراصل کسی بھی دلیل والے مشورے سے اپنے آپ کو بالاتر سمجھتا ہے۔
اس کا لفظی اقرار نہیں کیا جاتا۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ جن افراد کے ہاتھ میں ملک کی تقدیر ہوتی ہے' وہ کسی بھی سنجیدہ مشاورت کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ آپ مانے یا نہ مانے' یہ سوچ ہمارے مقتدر طبقے میں شروع ہی سے موجود تھی اور آج بھی جوں کی توں موجود ہے۔
چلیے' ذرا عام سی بات پر غور فرما لیجیے۔ 1947 سے لے کر 2022 تک' کوئی بھی سیاسی وزیراعظم اپنا آئینی دورانیہ کیوں پورا نہیں کر سکا۔ صاحبان! اس سنجیدہ نکتہ پر ہمارے سابقہ یا موجودہ حکمران بھی بات کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔
جواب حد درجہ سادہ سا ہے کہ ہمارے چند ریاستی ادارے' ایسا ماحول بنا دیتے ہیں کہ اس بیچارے وزیراعظم کے پاؤں اکھڑ جاتے ہیں۔ اور وہ دھڑام سے مسند شاہی سے گر جاتا ہے۔ پر اس کے متعلق کوئی مکالمہ' کوئی شعوری ڈائیلاگ ' کچھ بھی اظہار خیال ' مشکل سے مشکل تر بنا دیا گیاہے۔ جس بھی ملک میں سیاست دانوں کو پنپنے کی اجازت نہیں دی گئی' وہ قطعاً ترقی نہیں کر سکے۔
ذرا بنگلہ دیش کی ترقی کی وجہ جاننے کی کوشش فرمائیے۔ جب تک ریاستی ادارے' بنگالی سیاست دانوں کے درپے رہے ، انھیں کنٹرول کرتے رہے۔ معاملہ بدحالی اور شکستگی کا ہی رہا۔ پر جب سیاست دانوں کی گرفت مضبوط ہوئی' وہی دیوالیہ بنگلہ دیش' معاشی ترقی کا رول ماڈل بن گیا۔ اس کی موثر ترین ترقی کی مثالیں دی جانے لگیں۔
اور یہ درخشاں سفر آج بھی جاری ہے۔ وجہ وہی سادہ سی ہے۔ سیاسی اداروں اور سیاست دانوں نے اختیارات' سنجیدگی کا مظاہرہ کر کے حاصل کر لیے۔ریاستی اداروں کو ان کی آئینی حیثیت تک محدود کیا۔ معاشی اور سماجی ترقی کے راستے ان پر کھل گئے۔سوال یہ ہے کہ یہ حقیقت پسندانہ رویہ ہمارے نظام میں اپنایا جا سکتا ہے یا نہیں۔ طالب علم کی دانست میں یہ راستہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔
دوسری بات جو ہمارے سیاست دانوں کو سمجھنی چاہیے کہ وہ اپنے تفرقات کو سیاسی حد تک محدود رکھیں۔
اس کو ذاتی دشمنی نہ بنائے۔ جب جنرل ضیاء الحق' پیپلز پارٹی کے قائدین اور کارکنان پر عذاب کے کوڑے برسا رہا تھا۔ تو سیاست دانوں کا ایک دھڑا ' بھرپور طریقے سے اس ظلم کی حمایت کر رہاتھا۔ بالکل اسی طرح جب جنرل مشرف' آل شریف پر ظلم کر رہا تھا۔ تو سیاست دانوں کی اکثریت' جنرل مشرف کے ساتھ کھڑی تھی۔ اصولی بات کر رہا ہوں۔
جب تک ہمارے سیاست دان ' سیاسی بلوغت کا مظاہرہ نہیں کرتے' طاقتور ادارے انھیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے رہیںگے، اگر یہ بلوغت نہ آئی' تو ہم لوگ انھیں ادنیٰ دائروں کا سفر کرتے رہیں گے۔ جس میں معاشی اور سماجی بربادی منہ کھولے ہمیں نگلنے کے لیے تیار بیٹھی رہے گی۔
موجودہ صورت حال کا جائزہ لیجیے۔ خان صاحب آج اپنے ساتھیوں کی گرفتاریوں پر آہ وزاری کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ نام لے لے کر ظالم اور مظلوم کی بات کرتے ہیں۔ مگر ان کے اپنے دور اقتدار میں کسی سیاسی مخالف سے' کسی قسم کی رعایت نہیں رکھی گئی۔
نیب کا سیاسی طرز سے استعمال ان کے دور میں جاری رہا۔ انھوں نے ایک ایسا گٹھ جوڑ قائم کیا جس میں چن چن کر ان سے ذرا سا اختلاف کرنے والے سالہاسال جیلوں میں سڑتے رہے۔ مطلب یہ ' کہ خان صاحب' اس وقت اس اخلاقی بلندی پر فائز نہیں ہو سکتے' جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ مظالم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ مکافات عمل ہے جو برپا ہے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ ان کے دور کے ناجائز کام بھی غلط تھے' اور آج جو کچھ ہو رہا ہے۔
وہ بھی سراسر غیر معقول بات ہے۔ جب تک سیاست دان ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کرسیاست کی بساط کے اصول طے نہیں کرینگے ' ہم اسی طرح برباد رہینگے ۔ اگر آپ سندھ کی طرف دیکھیے تو ایم کیو ایم سے ہر طرز کا کام لینے کے بعد' اسے ٹھکانے لگا دیا گیا۔ دیکھیے' اب کرنا کیا چاہیے۔ مسلم لیگ صرف اور صرف نواز شریف کا عکس ہے۔
پیپلز پارٹی محض زرداری ہے اوریہی عالم پی ٹی آئی کا ہے۔ اے این پی بھی ولی خان کے خانوادے سے باہر نہیں ہیں۔ طالب علم کی دانست میں ہمارے سیاسی اکابرین کو دل بڑا کر کے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا چاہیے۔
ایک دوسرے کی سیاسی قدر و قیمت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ ایک ''نیا جمہوری معاہدہ'' ترتیب ہونا چاہیے۔ جو سیاست دانوں کو اپنا آئینی رول پوری ہمت اور قوت سے ادا کرنے کا پابند کرے۔ نئے میثاق جمہوریت کی بنیاد ہمارا آئین ہونا چاہیے۔
جو ایک مکمل طور پر متفقہ دستاویز ہے۔ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ہمارے موجودہ سیاست دان اس اہلیت سے محروم ہیں کہ وہ ایک نیا متفقہ آئین ترتیب دے سکیں۔ یہ نہیں کہ ہمارے پاس جوہر قابل نہیں ہے۔
بلکہ ہے۔ مگر وہ اپنی پارٹی لیڈر شپ کے بت کے سامنے ہاتھ باندھ کر ''گزارش'' کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔ موروثیت پر اب' بھرپور تنقید ہونی شروع ہوئی ہے۔ قومی پارٹیوں کے اہم ترین سیاسی افراد نے وضاحت سے موروثیت کے فلسفہ کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔
سیاسی اکابرین کے درمیان مکالمہ ' طاقتور فریق کو شروع کرنا چاہیے۔ شاید اس وقت کوئی بھی ایک دوسرے سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مگر یہ موثر مکالمہ شروع کرنا ہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ حوصلہ کیجیے۔ نواز شرف' زرداری' عمران خان' اور دیگر اکابرین کو ایک دوسرے سے ڈائریکٹ بات کرنی چاہیے۔
کسی بھی ریاستی ادارے کے ذریعے نہیں۔ کسی آئینی ادرے کے بھی بغیر۔ اس کی فضا بنانے کے لیے ایک دوسرے پر شخصی حملوں سے یکسر اجتناب کرنا چاہیے۔
ایک دوسرے کے خلاف مقدمات واپس ہونے چاہیں۔ جس دن ہمارے تین چار سیاسی گروہوں نے باہمی اتفاق کا ڈول ڈال دیا۔ ملکی فضا یک دم بہتر ہو جائے گی۔ معاشی پہہ بھی چلنے لگے گا۔ مگر یہ آسان کام نہیں ہے۔ سیاست دانوں کو ''مہربان'' ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ اور قیامت یہ ہے کہ تمام سیاست دان یکے بعد دیگرے ایک دوسرے کے خلاف ہوتے چلے آرہے ہیں۔
اس لمبی روایت کو توڑنا بالکل آسان نہیں ہے۔ مگر جن جن ممالک نے ترقی کی ہے' انھوںنے سیاسی میدان میں رہتے ہوئے' اپنی اہلیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کو ووٹ کے ذریعے پچھاڑا ہے۔ اگر ہمارے سیاست دان' آج تک کے ایک دوسرے کی چیرہ دستیاں معاف کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تو بہر حال' اجتماعی تلخیاں کم کرنے کا ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے۔
اگر ہم آج بھی ایک دوسرے کو معاف کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے ۔ اگر آ ج بھی ہم ریاستی بیساکھیاں استعمال کرکے اقتدار میں باریاں لیتے رہے۔ ایک دوسرے کو ذلیل و خوار کرتے رہے۔ تو یقین فرمائیے۔ ہمارے ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔
ہم ' اسی طرح کوڑی کوڑی کے محتاج رہیں گے۔ بالکل اس طرح بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز رہیں گے اور ہاں' عوام بالکل اس طرح رلتے رہیں گے۔ بار بار عرض کرونگا کہ اکابرین ایک دوسرے کو معاف کرنا سیکھیں۔ ہمارا نظام ' اتنی نفرت اور کدورت لیے زیادہ دیر ' سانس نہیں لے سکتا۔وقت حد درجہ کم ہے۔
ابھی تو صرف ٹی ٹی پی ہمارے لیے موت کا کھیل برپا کیے بیٹھی ہے۔ اگر ہمسایہ ملک نے ہماری کمزور معاشی اور سیاسی صورت حال کا فائدہ اٹھانا چاہے ' تو اسے روکنا کتناممکن ہو گا؟ خدارا 'تمام اکابرین مکالمہ کی طرف آئیں اور ایک نیا آئینی میثاق جمہوریت ترتیب دیں۔ اور پھر اس پر عمل کریں۔ یہ ہمارے مسائل کاآخری حل ہے۔ اس کے بعد صرف خانہ جنگی ' خون ریزی اور بربادی ہے؟
ملک کو درپیش مسائل پر ہر زاویہ سے بات ہوتی ہے۔ وہاں بھی' ہمارے سامنے کھڑے ہوئے مسائل کے حل کا ذکر کیا جاتا ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ملک ' سماج ' ادارے ' حکومت ' اپوزیشن ' کاروباری لوگ' یعنی سب کچھ بالکل پہلے کی طرح رینگتا رہتا ہے۔
کسی بھی مثبت تبدیلی کے بغیر۔ اقتدار پر قابض گروہ' دراصل کسی بھی دلیل والے مشورے سے اپنے آپ کو بالاتر سمجھتا ہے۔
اس کا لفظی اقرار نہیں کیا جاتا۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ جن افراد کے ہاتھ میں ملک کی تقدیر ہوتی ہے' وہ کسی بھی سنجیدہ مشاورت کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ آپ مانے یا نہ مانے' یہ سوچ ہمارے مقتدر طبقے میں شروع ہی سے موجود تھی اور آج بھی جوں کی توں موجود ہے۔
چلیے' ذرا عام سی بات پر غور فرما لیجیے۔ 1947 سے لے کر 2022 تک' کوئی بھی سیاسی وزیراعظم اپنا آئینی دورانیہ کیوں پورا نہیں کر سکا۔ صاحبان! اس سنجیدہ نکتہ پر ہمارے سابقہ یا موجودہ حکمران بھی بات کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔
جواب حد درجہ سادہ سا ہے کہ ہمارے چند ریاستی ادارے' ایسا ماحول بنا دیتے ہیں کہ اس بیچارے وزیراعظم کے پاؤں اکھڑ جاتے ہیں۔ اور وہ دھڑام سے مسند شاہی سے گر جاتا ہے۔ پر اس کے متعلق کوئی مکالمہ' کوئی شعوری ڈائیلاگ ' کچھ بھی اظہار خیال ' مشکل سے مشکل تر بنا دیا گیاہے۔ جس بھی ملک میں سیاست دانوں کو پنپنے کی اجازت نہیں دی گئی' وہ قطعاً ترقی نہیں کر سکے۔
ذرا بنگلہ دیش کی ترقی کی وجہ جاننے کی کوشش فرمائیے۔ جب تک ریاستی ادارے' بنگالی سیاست دانوں کے درپے رہے ، انھیں کنٹرول کرتے رہے۔ معاملہ بدحالی اور شکستگی کا ہی رہا۔ پر جب سیاست دانوں کی گرفت مضبوط ہوئی' وہی دیوالیہ بنگلہ دیش' معاشی ترقی کا رول ماڈل بن گیا۔ اس کی موثر ترین ترقی کی مثالیں دی جانے لگیں۔
اور یہ درخشاں سفر آج بھی جاری ہے۔ وجہ وہی سادہ سی ہے۔ سیاسی اداروں اور سیاست دانوں نے اختیارات' سنجیدگی کا مظاہرہ کر کے حاصل کر لیے۔ریاستی اداروں کو ان کی آئینی حیثیت تک محدود کیا۔ معاشی اور سماجی ترقی کے راستے ان پر کھل گئے۔سوال یہ ہے کہ یہ حقیقت پسندانہ رویہ ہمارے نظام میں اپنایا جا سکتا ہے یا نہیں۔ طالب علم کی دانست میں یہ راستہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔
دوسری بات جو ہمارے سیاست دانوں کو سمجھنی چاہیے کہ وہ اپنے تفرقات کو سیاسی حد تک محدود رکھیں۔
اس کو ذاتی دشمنی نہ بنائے۔ جب جنرل ضیاء الحق' پیپلز پارٹی کے قائدین اور کارکنان پر عذاب کے کوڑے برسا رہا تھا۔ تو سیاست دانوں کا ایک دھڑا ' بھرپور طریقے سے اس ظلم کی حمایت کر رہاتھا۔ بالکل اسی طرح جب جنرل مشرف' آل شریف پر ظلم کر رہا تھا۔ تو سیاست دانوں کی اکثریت' جنرل مشرف کے ساتھ کھڑی تھی۔ اصولی بات کر رہا ہوں۔
جب تک ہمارے سیاست دان ' سیاسی بلوغت کا مظاہرہ نہیں کرتے' طاقتور ادارے انھیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے رہیںگے، اگر یہ بلوغت نہ آئی' تو ہم لوگ انھیں ادنیٰ دائروں کا سفر کرتے رہیں گے۔ جس میں معاشی اور سماجی بربادی منہ کھولے ہمیں نگلنے کے لیے تیار بیٹھی رہے گی۔
موجودہ صورت حال کا جائزہ لیجیے۔ خان صاحب آج اپنے ساتھیوں کی گرفتاریوں پر آہ وزاری کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ نام لے لے کر ظالم اور مظلوم کی بات کرتے ہیں۔ مگر ان کے اپنے دور اقتدار میں کسی سیاسی مخالف سے' کسی قسم کی رعایت نہیں رکھی گئی۔
نیب کا سیاسی طرز سے استعمال ان کے دور میں جاری رہا۔ انھوں نے ایک ایسا گٹھ جوڑ قائم کیا جس میں چن چن کر ان سے ذرا سا اختلاف کرنے والے سالہاسال جیلوں میں سڑتے رہے۔ مطلب یہ ' کہ خان صاحب' اس وقت اس اخلاقی بلندی پر فائز نہیں ہو سکتے' جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ مظالم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ مکافات عمل ہے جو برپا ہے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ ان کے دور کے ناجائز کام بھی غلط تھے' اور آج جو کچھ ہو رہا ہے۔
وہ بھی سراسر غیر معقول بات ہے۔ جب تک سیاست دان ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کرسیاست کی بساط کے اصول طے نہیں کرینگے ' ہم اسی طرح برباد رہینگے ۔ اگر آپ سندھ کی طرف دیکھیے تو ایم کیو ایم سے ہر طرز کا کام لینے کے بعد' اسے ٹھکانے لگا دیا گیا۔ دیکھیے' اب کرنا کیا چاہیے۔ مسلم لیگ صرف اور صرف نواز شریف کا عکس ہے۔
پیپلز پارٹی محض زرداری ہے اوریہی عالم پی ٹی آئی کا ہے۔ اے این پی بھی ولی خان کے خانوادے سے باہر نہیں ہیں۔ طالب علم کی دانست میں ہمارے سیاسی اکابرین کو دل بڑا کر کے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا چاہیے۔
ایک دوسرے کی سیاسی قدر و قیمت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ ایک ''نیا جمہوری معاہدہ'' ترتیب ہونا چاہیے۔ جو سیاست دانوں کو اپنا آئینی رول پوری ہمت اور قوت سے ادا کرنے کا پابند کرے۔ نئے میثاق جمہوریت کی بنیاد ہمارا آئین ہونا چاہیے۔
جو ایک مکمل طور پر متفقہ دستاویز ہے۔ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ہمارے موجودہ سیاست دان اس اہلیت سے محروم ہیں کہ وہ ایک نیا متفقہ آئین ترتیب دے سکیں۔ یہ نہیں کہ ہمارے پاس جوہر قابل نہیں ہے۔
بلکہ ہے۔ مگر وہ اپنی پارٹی لیڈر شپ کے بت کے سامنے ہاتھ باندھ کر ''گزارش'' کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔ موروثیت پر اب' بھرپور تنقید ہونی شروع ہوئی ہے۔ قومی پارٹیوں کے اہم ترین سیاسی افراد نے وضاحت سے موروثیت کے فلسفہ کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔
سیاسی اکابرین کے درمیان مکالمہ ' طاقتور فریق کو شروع کرنا چاہیے۔ شاید اس وقت کوئی بھی ایک دوسرے سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مگر یہ موثر مکالمہ شروع کرنا ہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ حوصلہ کیجیے۔ نواز شرف' زرداری' عمران خان' اور دیگر اکابرین کو ایک دوسرے سے ڈائریکٹ بات کرنی چاہیے۔
کسی بھی ریاستی ادارے کے ذریعے نہیں۔ کسی آئینی ادرے کے بھی بغیر۔ اس کی فضا بنانے کے لیے ایک دوسرے پر شخصی حملوں سے یکسر اجتناب کرنا چاہیے۔
ایک دوسرے کے خلاف مقدمات واپس ہونے چاہیں۔ جس دن ہمارے تین چار سیاسی گروہوں نے باہمی اتفاق کا ڈول ڈال دیا۔ ملکی فضا یک دم بہتر ہو جائے گی۔ معاشی پہہ بھی چلنے لگے گا۔ مگر یہ آسان کام نہیں ہے۔ سیاست دانوں کو ''مہربان'' ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ اور قیامت یہ ہے کہ تمام سیاست دان یکے بعد دیگرے ایک دوسرے کے خلاف ہوتے چلے آرہے ہیں۔
اس لمبی روایت کو توڑنا بالکل آسان نہیں ہے۔ مگر جن جن ممالک نے ترقی کی ہے' انھوںنے سیاسی میدان میں رہتے ہوئے' اپنی اہلیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کو ووٹ کے ذریعے پچھاڑا ہے۔ اگر ہمارے سیاست دان' آج تک کے ایک دوسرے کی چیرہ دستیاں معاف کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تو بہر حال' اجتماعی تلخیاں کم کرنے کا ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے۔
اگر ہم آج بھی ایک دوسرے کو معاف کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے ۔ اگر آ ج بھی ہم ریاستی بیساکھیاں استعمال کرکے اقتدار میں باریاں لیتے رہے۔ ایک دوسرے کو ذلیل و خوار کرتے رہے۔ تو یقین فرمائیے۔ ہمارے ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔
ہم ' اسی طرح کوڑی کوڑی کے محتاج رہیں گے۔ بالکل اس طرح بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز رہیں گے اور ہاں' عوام بالکل اس طرح رلتے رہیں گے۔ بار بار عرض کرونگا کہ اکابرین ایک دوسرے کو معاف کرنا سیکھیں۔ ہمارا نظام ' اتنی نفرت اور کدورت لیے زیادہ دیر ' سانس نہیں لے سکتا۔وقت حد درجہ کم ہے۔
ابھی تو صرف ٹی ٹی پی ہمارے لیے موت کا کھیل برپا کیے بیٹھی ہے۔ اگر ہمسایہ ملک نے ہماری کمزور معاشی اور سیاسی صورت حال کا فائدہ اٹھانا چاہے ' تو اسے روکنا کتناممکن ہو گا؟ خدارا 'تمام اکابرین مکالمہ کی طرف آئیں اور ایک نیا آئینی میثاق جمہوریت ترتیب دیں۔ اور پھر اس پر عمل کریں۔ یہ ہمارے مسائل کاآخری حل ہے۔ اس کے بعد صرف خانہ جنگی ' خون ریزی اور بربادی ہے؟