زلزلے اور تباہی
حالیہ ترک زلزلے میں ہمارا کیا ردعمل ہے۔ عوامی سطح پر تو نہ ہونے کے برابر ہے
برادرم مسلم ملکوں ترکی اور شام میں آنے والے قیامت خیز زلزلے نے ان دونوں ممالک میں انسانی لاشوں کے ڈھیر لگا دیے ۔
دیو ہیکل عمارات کو پلک جھپکتے میں خاک کے ڈھیر میں تبدیل کردیا یہ زلزلہ 7.8طاقت کا تھا یہ اتنا طاقتور تھا کہ اس کے جھٹکے ان دونوں ملکوں کے علاوہ قبرص ، یونان ، اُردن ، لبنان ، جارجیا اور آرمینیا میں بھی شدت کے ساتھ محسوس کیے گئے اس خوف ناک زلزلے نے ایک منٹ یعنی 60سیکنڈ میں تقریباً 30ہزار افراد کو صرف ترکی میں لقمہ اجل بنادیا۔
ذرا غور فرمائیں !جب کہ شام میں بھی یہ تعداد ہزاروں میں ہے جو بڑھتی جارہی ہے کہا جارہا ہے کہ یہ تعداد پچاس ہزار تک پہنچ سکتی ہے ۔
ترکی شام کے زلزلے نے ان دونوں ملکوں کے مجموعی طور پر 14شہروں میں تباہی مچائی ہے ۔ یہ زلزلہ اس لیے بھی تباہ کن تھا کہ اس کی گہرائی زمین کے اندر صرف 20کلو میٹر تھی ۔ کیونکہ زیادہ گہرائی والے زلزلے کم تباہی لاتے ہیں اور کم طاقت کے ہوتے ہیں ۔
کیا زلزلے کی قبل از وقت پیشنگوئی کی جا سکتی ہے ۔ سائنس کی بے پناہ ترقی کے باوجود سائنسدان ابھی تک اس معاملے میں کامیاب نہیں ہو سکے لیکن پہلی بار یہ ہوا ہے کہ ایک سولر سسٹم جومیٹری کے ماہر فرینک ہو گربیٹس نے زلزلے سے تین دن پہلے ٹویٹ کیا کہ فوری طور پر یا کچھ دنوں بعد 7.5 شدت کا زلزلہ ترکی ، اُردن ، شام اور لبنان میں تباہی مچا دے گا اور ایسے ہی ہوا۔
لندن یونیورسٹی کے قدرتی آفات پر تحقیق کے شعبے سے منسلک پروفیسر واکر کے مطابق پچھلے تمام برسوں کے مہلک ترین زلزلوں کو دیکھا جائے تو گزشتہ 10برس میں ایسے صرف دوزلزلے آئے جن کی شدت حالیہ زلزلے کے برابر تھی۔
اس سے پہلے کے عشرے میں ایسے چار زلزلے ریکارڈ کیے گئے تاہم کسی بھی زلزلے سے آنے والی تباہی کا انحصار صرف اس پر نہیں ہوتا کہ اس کی شدت کیا تھی یہ زلزلہ صبح سویرے اس وقت آیا جب لوگ اپنے گھروں میں سورہے تھے۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ عمارتیں کس قدر مضبوط یا کمزور تھیں۔ یونیورسٹی آف پورٹ اسمتھ میں آتش فشاؤں پر تحقیق کی ماہر ڈاکٹر کارسن سولانہ کہتی ہیں کہ بدقسمتی سے جنوبی ترکی اور خاص طور پر شام میں ایسی عمارات کی تعداد کم ہی ہے جو زلزلے کے جھٹکوں کو برداشت کر سکتی ہیں۔
ابتدائی 24گھنٹے اس حوالے سے نہایت اہم ہوتے ہیں 48گھنٹے گزرنے کے بعد زندہ بچنے والوں کی تعداد بہت کم ہو جاتی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ زلزلے کیوں آتے ہیں !وجہ ہماری زمین کی بیرونی سطح یا پرت مختلف سطحوں کے ملاپ سے بنتی ہے جنھیں پلیٹس یا تھالیاں کہا جاتا ہے یہ تھالیاں پرندوں کے گھونسلوں کی مانند ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیں۔
اکثر یہ پلٹیں حرکت کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن کبھی کبھار تھالیوں کے درمیان دباؤ اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ ایک تھالی اچانک اپنی جگہ سے کھسک جاتی ہے جس سے زمین کی سطح ہل جاتی ہے ۔ ترکی کے زلزلے میں شمال کی جانب سے حرکت کرتی ہوئی عربین پلیٹ اور اناطولین پلیٹ میں رگڑ پیدا ہوگئی تھی ماضی اور حالیہ زلزلے میں یہ رگڑ ہی تباہی کا باعث بنی ۔ 8سے زیادہ شدت کا زلزلہ انتہائی تباہ کن ہوتا ہے۔
اس سے زلزلے کے مرکز کے اردگرد کی آبادیاں مکمل ملیا میٹ ہو سکتی ہیں ۔ 2011میں جاپان کے ساحل کے قریب سمندر میں آنے والے زلزلے کی شدت 9تھی جس سے ساحلی علاقوں میں بہت زیادہ تباہی ہوئی انتہائی بلند لہریں ساحل کے قریب واقع ایک جوہری پلانٹ سے ٹکرا گئیں جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔
2005میں آزاد کشمیر مظفر آباد کے مقام پر جو زلزلہ آیا اس میں اور حالیہ ترکی کے زلزلے میں معمولی سا ہی فرق تھا وہ 7.6طاقت کا تھا ۔ اس کی زیر زمین گہرائی 15 کلو میٹر تھی، تاریخ تھی 8اکتوبر وقت صبح 8بج کر 50منٹ لیکن اس خوف ناک زلزلے نے زمین کو الٹ پلٹ کرتے ہوئے 86ہزار انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
اس سانحے پر برادر ملک ترکی اور اس کے عوام نے زلزلہ متاثرین کی جو مدد کی وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے، ہزاروں ترک عوام روتے ہوئے انقرہ میں پاکستانی سفارتحانے پہنچ گئے جس میں بڑے پیمانے پر ہر طرح کی امداد اور کثیر نقدی شامل تھی ترک خواتین نے اپنے زیورات تک پیش کردیے ۔
بچے بڑے بزرگ خواتین ترک عوام کے ہر طبقہ فکر نے اس موقعے پر پاکستان کی دل کھول کرمدد کی ۔وجہ 1919 خلافت موومنٹ برصغیر کے مسلمانوں کی ترکوں کے لیے جان، مال، نقدی، زیورات کی وہ امداد جو ترکوں کو آج تک نہیں بھولتی کہ انھوں نے یہ سب واقعات اپنے تعلیمی نصاب میں شامل کرکے اپنی نسلوں کو ازبر کرادیے ہیں ۔
حالیہ ترک زلزلے میں ہمارا کیا ردعمل ہے۔ عوامی سطح پر تو نہ ہونے کے برابر ہے ہم نے ترک زلزلہ متاثرین کی کیا مد د کرنی ہے ہم تو اپنے تین کروڑ ہم وطن پاکستانی متاثرین کی مدد نہ کر سکے جنھیں سیلاب نے مکمل طور پر تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا لیکن ہماری بیورو کریسی کا سر کڑاہی میں اور انگلیاں گھی میں ہمیشہ کی طرح رہیں ، زلزلے ہوں یا کورونا یا سیلاب عوام پر آفات ٹوٹتی ہیں اور یہ کروڑ ارب پتی بن جاتے ہیں ۔ سپریم کورٹ نے آخر کار 18سال بعد اربوں کی غیر ملکی امداد کا کرپٹ بیوروکریسی سے حساب کتاب طلب کر لیا ہے ۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے بیشتر علاقے زلزلے کی زد پر ہیں ۔ چاہے یہ اسلام آباد ہو یا لاہور یا کراچی۔
دیو ہیکل عمارات کو پلک جھپکتے میں خاک کے ڈھیر میں تبدیل کردیا یہ زلزلہ 7.8طاقت کا تھا یہ اتنا طاقتور تھا کہ اس کے جھٹکے ان دونوں ملکوں کے علاوہ قبرص ، یونان ، اُردن ، لبنان ، جارجیا اور آرمینیا میں بھی شدت کے ساتھ محسوس کیے گئے اس خوف ناک زلزلے نے ایک منٹ یعنی 60سیکنڈ میں تقریباً 30ہزار افراد کو صرف ترکی میں لقمہ اجل بنادیا۔
ذرا غور فرمائیں !جب کہ شام میں بھی یہ تعداد ہزاروں میں ہے جو بڑھتی جارہی ہے کہا جارہا ہے کہ یہ تعداد پچاس ہزار تک پہنچ سکتی ہے ۔
ترکی شام کے زلزلے نے ان دونوں ملکوں کے مجموعی طور پر 14شہروں میں تباہی مچائی ہے ۔ یہ زلزلہ اس لیے بھی تباہ کن تھا کہ اس کی گہرائی زمین کے اندر صرف 20کلو میٹر تھی ۔ کیونکہ زیادہ گہرائی والے زلزلے کم تباہی لاتے ہیں اور کم طاقت کے ہوتے ہیں ۔
کیا زلزلے کی قبل از وقت پیشنگوئی کی جا سکتی ہے ۔ سائنس کی بے پناہ ترقی کے باوجود سائنسدان ابھی تک اس معاملے میں کامیاب نہیں ہو سکے لیکن پہلی بار یہ ہوا ہے کہ ایک سولر سسٹم جومیٹری کے ماہر فرینک ہو گربیٹس نے زلزلے سے تین دن پہلے ٹویٹ کیا کہ فوری طور پر یا کچھ دنوں بعد 7.5 شدت کا زلزلہ ترکی ، اُردن ، شام اور لبنان میں تباہی مچا دے گا اور ایسے ہی ہوا۔
لندن یونیورسٹی کے قدرتی آفات پر تحقیق کے شعبے سے منسلک پروفیسر واکر کے مطابق پچھلے تمام برسوں کے مہلک ترین زلزلوں کو دیکھا جائے تو گزشتہ 10برس میں ایسے صرف دوزلزلے آئے جن کی شدت حالیہ زلزلے کے برابر تھی۔
اس سے پہلے کے عشرے میں ایسے چار زلزلے ریکارڈ کیے گئے تاہم کسی بھی زلزلے سے آنے والی تباہی کا انحصار صرف اس پر نہیں ہوتا کہ اس کی شدت کیا تھی یہ زلزلہ صبح سویرے اس وقت آیا جب لوگ اپنے گھروں میں سورہے تھے۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ عمارتیں کس قدر مضبوط یا کمزور تھیں۔ یونیورسٹی آف پورٹ اسمتھ میں آتش فشاؤں پر تحقیق کی ماہر ڈاکٹر کارسن سولانہ کہتی ہیں کہ بدقسمتی سے جنوبی ترکی اور خاص طور پر شام میں ایسی عمارات کی تعداد کم ہی ہے جو زلزلے کے جھٹکوں کو برداشت کر سکتی ہیں۔
ابتدائی 24گھنٹے اس حوالے سے نہایت اہم ہوتے ہیں 48گھنٹے گزرنے کے بعد زندہ بچنے والوں کی تعداد بہت کم ہو جاتی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ زلزلے کیوں آتے ہیں !وجہ ہماری زمین کی بیرونی سطح یا پرت مختلف سطحوں کے ملاپ سے بنتی ہے جنھیں پلیٹس یا تھالیاں کہا جاتا ہے یہ تھالیاں پرندوں کے گھونسلوں کی مانند ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیں۔
اکثر یہ پلٹیں حرکت کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن کبھی کبھار تھالیوں کے درمیان دباؤ اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ ایک تھالی اچانک اپنی جگہ سے کھسک جاتی ہے جس سے زمین کی سطح ہل جاتی ہے ۔ ترکی کے زلزلے میں شمال کی جانب سے حرکت کرتی ہوئی عربین پلیٹ اور اناطولین پلیٹ میں رگڑ پیدا ہوگئی تھی ماضی اور حالیہ زلزلے میں یہ رگڑ ہی تباہی کا باعث بنی ۔ 8سے زیادہ شدت کا زلزلہ انتہائی تباہ کن ہوتا ہے۔
اس سے زلزلے کے مرکز کے اردگرد کی آبادیاں مکمل ملیا میٹ ہو سکتی ہیں ۔ 2011میں جاپان کے ساحل کے قریب سمندر میں آنے والے زلزلے کی شدت 9تھی جس سے ساحلی علاقوں میں بہت زیادہ تباہی ہوئی انتہائی بلند لہریں ساحل کے قریب واقع ایک جوہری پلانٹ سے ٹکرا گئیں جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔
2005میں آزاد کشمیر مظفر آباد کے مقام پر جو زلزلہ آیا اس میں اور حالیہ ترکی کے زلزلے میں معمولی سا ہی فرق تھا وہ 7.6طاقت کا تھا ۔ اس کی زیر زمین گہرائی 15 کلو میٹر تھی، تاریخ تھی 8اکتوبر وقت صبح 8بج کر 50منٹ لیکن اس خوف ناک زلزلے نے زمین کو الٹ پلٹ کرتے ہوئے 86ہزار انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
اس سانحے پر برادر ملک ترکی اور اس کے عوام نے زلزلہ متاثرین کی جو مدد کی وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے، ہزاروں ترک عوام روتے ہوئے انقرہ میں پاکستانی سفارتحانے پہنچ گئے جس میں بڑے پیمانے پر ہر طرح کی امداد اور کثیر نقدی شامل تھی ترک خواتین نے اپنے زیورات تک پیش کردیے ۔
بچے بڑے بزرگ خواتین ترک عوام کے ہر طبقہ فکر نے اس موقعے پر پاکستان کی دل کھول کرمدد کی ۔وجہ 1919 خلافت موومنٹ برصغیر کے مسلمانوں کی ترکوں کے لیے جان، مال، نقدی، زیورات کی وہ امداد جو ترکوں کو آج تک نہیں بھولتی کہ انھوں نے یہ سب واقعات اپنے تعلیمی نصاب میں شامل کرکے اپنی نسلوں کو ازبر کرادیے ہیں ۔
حالیہ ترک زلزلے میں ہمارا کیا ردعمل ہے۔ عوامی سطح پر تو نہ ہونے کے برابر ہے ہم نے ترک زلزلہ متاثرین کی کیا مد د کرنی ہے ہم تو اپنے تین کروڑ ہم وطن پاکستانی متاثرین کی مدد نہ کر سکے جنھیں سیلاب نے مکمل طور پر تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا لیکن ہماری بیورو کریسی کا سر کڑاہی میں اور انگلیاں گھی میں ہمیشہ کی طرح رہیں ، زلزلے ہوں یا کورونا یا سیلاب عوام پر آفات ٹوٹتی ہیں اور یہ کروڑ ارب پتی بن جاتے ہیں ۔ سپریم کورٹ نے آخر کار 18سال بعد اربوں کی غیر ملکی امداد کا کرپٹ بیوروکریسی سے حساب کتاب طلب کر لیا ہے ۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے بیشتر علاقے زلزلے کی زد پر ہیں ۔ چاہے یہ اسلام آباد ہو یا لاہور یا کراچی۔