ناکامیوں اور نا مرادیوں کا سہرا خوب اپنے نام کیا

پارٹی کے دیرینہ کارکن اور رفقاء بھی اب الگ ہوکر خود کو دور کرتے جا رہے ہیں

mnoorani08@hotmail.com

دس ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن جس معاشی صورتحال کو سدھارنے اور بہتر بنانے کا ٹھیکہ PDM نے خود اپنے سر لیا تھا وہ آج پہلے سے بھی زیادہ ابتری اور بد حالی کا شکار ہوچکی ہے۔

9اپریل 2022 کو جب موجودہ حکومت نے منصب سنبھالا تھا اس وقت اتنی غیر یقینی اور مایوس کن فضا ہرگز نہ تھی ،گرچہ خان صاحب کے کچھ فیصلوں کی وجہ سے جس میں انھوں نے جاتے جاتے پٹرولیم مصنوعات کے نرخ IMF سے کیے گئے وعدوں کے باوجود بڑھانے کے بجائے اصل قیمت خرید سے بھی کم کردیے اور بظاہر عوام دوست ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہوئے انھیں ایک بڑا ریلیف دے کر ملک کوایک ایسی مصیبت میں ڈال دیا کہ ہم ابھی تک اس کے اثرات سے باہر نہیں نکل پائے۔

اب ہر گذرتے لمحوں کے ساتھ ساتھ حکومتی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں اور ملکی افق پر مایوسیوں اور نااُمیدیوں کے گہرے بادل چھاتے جا رہے ہیں۔

رفتہ رفتہ خود مسلم لیگی کارکن بھی اب مایوس ہوتے جا رہے ہیں ۔ چند ماہ کی حکومت کے لیے جس کی راہ میں صرف خار دار کانٹے ہی کانٹے ہیں کوئی بھی خلوص دل سے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہے۔

لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے اور جوڑے رکھنے کے لیے موجودہ حکومت نے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ تشکیل دے رکھی ہے۔ کہنے کو کچھ وزراء اپنی تنخواہ نہیں لے رہے ہیں لیکن مراعات تو ضرور لے رہے ہونگے ورنہ بھلا ایسی کون سے مصیبت آن پڑی ہے کہ کوئی پیسہ بھی نہ ملے اور بد نامی الگ اپنے نام لکھی جا رہی ہو۔

سمجھ نہیں آرہا کہ ایک طرف ملکی خزانہ خالی ہونے کا رونا رویا جا رہا ہو اور دوسری طرف ایک جہازی سائز کی کابینہ کے اخراجات برداشت کیے جا رہے ہوں۔

قوم سے قربانیاں مانگنے والوں کو کچھ تو خیال رکھنا چاہیے کہ ایسے سنگین معاشی حالات میں اتنی بڑی کابینہ کی بھلا کیا ضرورت ہے، جب کہ اکثر کے پاس کوئی محکمہ یا قلم دان بھی نہیں ہے، وہ بس صرف نام کے وزیر یا مشیر بنے ہوئے ہیں۔

حکومت اپنے اخراجات کم کرنے کے وعدے تو ضرور کرتی رہتی ہے لیکن عملاً اس وعدے پر کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے۔

ویسے جس حکومت کے کریڈٹ پر ابھی تک کوئی کارنامہ درج نہیں ہو پایا ہو اس کا ساتھ نبھانا وہ بھی بلا کسی معاوضہ کے ہمارے کسی سیاستدان کے مزاج کو وارے نہیں کھاتا۔ ذاتی مفادات کے اسیر یہ سیاستدان اتنے بھی معصوم اور بھولے نہیں ہیں کہ ایک ایسی حکومت جس کی عمارت بہت ہی کمزور پلرز پر کھڑی ہو اس کا ساتھ بلا کسی غرض کے نبھاتے رہیں۔

معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت کے پاس سوائے قرض حاصل کرنے کے کونسی حکمت عملی ہے یہ ابھی تک واضح نہیں ہو پائی ہے۔

کوئی فارمولا یا تدبیر جس سے یہ ظاہر ہوکہ ہم اگلے دو تین ماہ میں اس خوفناک معاشی بحران سے باہر نکل جائیں گے ہنوز سامنے نہیں آسکا ہے۔


حکومت کی معاشی ٹیم نجانے کیا منصوبہ بندی کر رہی ہے کسی کو پتا نہیں۔ ایک طرف کراچی کی بندرگاہ پر کئی مہینوں سے لنگر انداز کنٹینرز ریلیز نہیں ہو پائے ہیں تو دوسری طرف ہر قسم کی اشیاء ضرورت کا بحران عوام کے سروں پر منڈلا رہا ہے مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ خاموش بیٹھی IMF کے پیکیج کا انتظار کر رہی ہے۔

سارے تاجر اور بزنس مین پریشان ہیں ، کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ایک ماہ قبل اسٹیٹ بینک کے گورنر صاحب ڈالروں کی آمد کی نوید سنا کر ایسے غائب ہوئے ہیں کہ اب کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہے۔

سمجھ نہیں رہا کہ یہ ملک کون چلا رہا ہے۔ حکمران بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں اورIMF کی منت سماجت میں لگے ہوئے ہیں ۔ نہ کوئی ایل سی کھولنے کی اجازت مل رہی ہے اور نہ بندرگاہ پر موجود کنٹینرز کو ریلیز کیا جا رہا ہے۔ ساری معیشت جام ہوکر رہ گئی ہے۔

عوام سخت اذیت سے دوچار ہیں وہ جائیں تو جائیں کہاں۔ ہر نیا دن اُن کے لیے مہنگائی کا نیا طوفان لے کر جنم لیتا ہے۔

کوئی سیاستدان اُن کے مسائل حل کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھ رہا۔ سب صرف باتیں ہی کررہے ہیں اور ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں۔ خان صاحب چار ماہ سے زمان پارک میں مقید ہو کر ہر روز میڈیا پر ایک تقریر داغ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بیمار (عوام) کا حال اچھا ہے۔ اُن کی ٹانگ پر گولیوں کے نشانات ایسے کیا لگے کہ ٹھیک ہی نہیں ہو پا رہے۔

نہ کوئی فریکچر ہوا اور نہ کوئی بڑا زخم لگا مگر انھیں بہانہ اچھا ضرور مل گیا۔ وہ اس ٹانگ کو استعمال کر کے نہ عدالتوں کے روبرو پیش ہو رہے ہیں اور نہ عوام کے لیے سڑکوں پر نکل رہے ہیں ، وہ شاید کسی موزوں اشارے اور وقت کا انتظار کررہے ہیں جسے پاتے ہی وہ یکدم صحت مند بھی ہو جائیں گے اور ایکٹیو اور پھرتی والے بھی۔ انھیں فی الحال کوئی مشکل بھی نہیں ہے ۔

اُن کا گھر خرچ چلانے والے پہلے بھی کوئی اور تھے اور ابھی بھی کوئی اور ہی ہیں۔ انھوں نے جو کارکردگی دکھانی تھی وہ چار سال میں وہ دکھا چکے۔

اُن کا کیا دھرا، اب موجودہ حکومت اپنے سر لے چکی ہے۔ شیخ رشید باتوں باتوں میں اکثر یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ خان حکومت کی ناکامیوں کا سہرا اس حکومت نے خود اپنے سر باندھ لیا ہے ورنہ ہم تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہے تھے۔

لگتا ہے شہباز شریف سمجھ رہے تھے کہ جس طرح وہ پنجاب کی حکومت چلا چکے ہیں اسی طرح یہ منصب بھی خیر و خوبی سے سنبھال لیں گے۔

مگر اب یہ اُن کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ دور دور تک کوئی اُمید نظر نہیں آرہی ہے، ملکی حالات ہیں کہ خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔

مسلم لیگ نون کی سیاسی ساکھ بھی داؤ پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے دیرینہ کارکن اور رفقاء بھی اب الگ ہوکر خود کو دور کرتے جا رہے ہیں۔ ریاست بچانے کے شوق میں سیاست تو داؤ پر لگی ہی تھی اب خود ریاست بھی خطرات سے دوچار ہوچکی ہے۔
Load Next Story