جیل بھرو تحریک

اب وقت آ گیا ہے کہ عمران خان اور ان کے ہمدرد اپنی سیاست سے اوپر اٹھ کر قومی سلامتی کے بارے میں سوچیں

farooq.adilbhuta@gmail.com

پاکستان جب پرانے سے نیا ہو رہا تھا، لوگوں کی اس سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں۔ یہ صرف عمران خان کی شخصیت سے مسحور لوگوں اور نوجوانوں کی بات نہیں، ان سے تحفظات رکھنے والے بھی کچھ نہ کچھ امید ضرور رکھتے تھے۔

سبب یہ تھا کہ نوخیز نوجوانوں میں وہ جو ایک خاص قسم کی سادگی اور ایمان داری ہوتی ہے، توقع تھی کہ اگر یہ نیک جذبہ بروئے کار آ گیا تو قومی زندگی پر اس کے اثرات خوش گوار ہوں گے۔

یہی سبب تھا کہ عمران خان کے نعروں کی سطحیت اور ان کی افتاد طبع سے وابستہ سنگین تحفظات کے باوجود ''تبدیلی'' کے لیے عمومی طور پر ایک خوش گوار سی خیر مقدمی کیفیت برقرار رہی۔

ناصر الدین محمود صرف ہمارے دوست نہیں، سیاسی نظریہ ساز اور آزمائشوں کی کٹھالی سے گزرنے والے سیاسی کارکن بھی ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے اور اب بھی کہتے ہیں کہ تبدیلی سے وابستہ نیک امیدیں اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا بدلتا ہوا سیاسی ماحول نہ صرف یہ کہ عوام کی مایوسی کا باعث بنے گا بلکہ ریاست کو کمزور بھی کرے گا جو قومی سلامتی کے لیے بھی خطرناک ہے۔

دوسری بات جو وہ کہتے تھے، یہ تھی کہ سیاست اور خاص طور پر تبدیلی کی سیاست کا کوئی تصور جدوجہد اور قربانی کے بغیرمکمل نہیں ہوتا لیکن تبدیلی کے نام پر اکٹھا کیا گیا یہ طبقہ جدوجہد پر یقین رکھتا ہے اور نہ قربانی دینے کا خوگر ہے۔

ان کے اس تجزیے کا ثبوت تو فوراً ہی مل گیا جب سیال کوٹ کے ایک نوجوان کا معصومانہ سا تبصرہ سامنے آیا۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان شہر میں جلسے کے سلسلے میں ایک تنازع پیدا ہوا۔ اس موقعے پر گاگلز لگائے ایک معصوم سے نوجوان نے آنسو بہاتے ہوئے کہا کہ جب پولیس ہمیں مارے گی تو ہم انقلاب کیسے لائیں گے۔

لاڈ پیار سے پلے کوئی کسی نو خیز سے اس قسم کی شکایت کی توقع کی جا سکتی ہے لیکن کسی حقیقی سیاسی کارکن سے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا خواہ وہ منہ میں سونے کا چمچ لے کر ہی کیوں پیدا نہ ہوا ہو۔

اس رویے کے بارے میں ناصر کا تجزیہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کوئی حقیقی سیاسی جماعت نہیں۔ یہ خیالی جنت دکھا کر آسودہ حال طبقات کے ایک حصے کو جمع کیا گیا گروہ ہے جو اپنا مزاج تبدیل کر کے کوئی انقلابی راستہ اختیار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

یہی سبب ہے کہ اقتدار کو ٹھوکر مار دینے کے بلند بانگ دعوے کرنے والے عمران خان کی حکومت جب خطرے میں آئی تو اپنے دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے کے بجائے انھوں نے ہر جائز اور ناجائز طریقے سے اقتدار سے چمٹنے کا مظاہرہ کیا۔

ارکان کی خرید و فروخت سے متعلق ان کا آڈیو لیک سیاست سے دل چسپی رکھنے والے ہر فرد کو یاد ہو گا جس میں وہ کہتے پائے گئے کہ جائز اور ناجائز کی فکر کیے بغیر صرف اور صرف ارکان اسمبلی توڑے جائیں۔


ان کے اس غیر اصولی رویے کا اظہار تب بھی ہوا تھا جب جہانگیر ترین اپنے جہاز پر پی ٹی آئی کے خلاف کامیابی حاصل کرنے والوں کو بھر بھر کر لا رہے تھے اور عمران انھیں بسر و چشم قبول کر رہے تھے۔

عمران کتنے اصول پسند ہیں، یہ اندازہ اس وقت بھی ہو گیا تھا جب انھوں نے سرگودھا کی ایک سیاسی فیملی کے اُس شخص کے گلے میں بھی پی ٹی آئی کے جھنڈے والا پٹکا ڈال دیا تھا جسے ڈکیتی اور آبرو ریزی کے جرم میں موت کی سزا ہو چکی تھی۔

اس واقعے پر جب انسانی حقوق کے کارکنوں اور سول سوسائٹی نے احتجاج کیا تو وہ صاحب پس منظر میں چلے گئے لیکن عمران خان کو یہ توفیق پھر بھی نہ ہوئی کہ وہ اس شخص کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کرتے۔

اس بدنما شہرت سے نجات حاصل کرنے کے لیے عمران خان کے پاس ایک نادر موقع آیا تھا اور وہ اس سے فایدہ اٹھا کر اپنے بارے میں دن بہ دن مضبوط ہونے والے اس تاثر کو زائل کر سکتے تھے کہ وہ جدوجہد سے گھبراتے ہیں حالانکہ ان پر کوئی بہت زیادہ آزمائش نہیں آئی تھی ، انھیں عدالت میں ہی پیش ہونا تھا لیکن وہ اتنی ہمت بھی نہ کر سکے۔ وہ عدالت کا حکم نہ مان کر ایک جرم کے مرتکب بھی ہوگئے۔

یہی وہ طرز عمل ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ریاست کو کمزور کرنے کا عمل ہے۔ کسی ایک آدھ مجرم کی قانون شکنی اور حکم عدولی سے ریاست کا کچھ نہیں بگڑتا لیکن قانون اور ادارے پر فرد کو فوقیت دی جانے لگے تو اس کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جس کا ذکر کیا گیا۔

تو بات یہ ہے کہ عمران خان اور ان کے ہمدردوں کا موجودہ طرز عمل محض مخالفین کو زچ کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ ریاست مخالف سرگرمی ہے۔''نئے پاکستان''کا یہی پہلو ہے جو قومی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔

عمران خان نے جس جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا ہے، اسے بھی اسی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دست یاب صورت حال میں اس کے دو پہلو ہیں۔

پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ تحریک کامیاب ہوگی؟ کوئی بڑی جماعت اگر بطور احتجاج جیل بھرنا چاہے تو یہ کوئی زیادہ مشکل ہدف نہیں لیکن ایسی تحریکوں کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ قیادت پہلے خود مثال پیش کرے۔ پاکستان میں بڑی بڑی سیاسی تحریکیں چلتی رہی ہیں جیسے بھٹو صاحب کے خلاف 1977میں پی این اے کی تحریک اور 1983 میں جنرل ضیا کے خلاف ایم آرڈی کی تحریک۔ ہر دو تحریکوں میں جیلیں بھری گئیں۔

ان مواقعے پر سب سے پہلے قیادت نے خود کو مثال کے طور پر پیش کیا، اس کے بعد کارکنوں نے رضا کارانہ طور پر گرفتاری پیش کرنے کے ریکارڈ قائم کر دیے۔ کیا اس بار بھی ایسا ہو گا؟ عمران خان کے رویے سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی جس تحریک کی قیادت کا رویہ ایسا ہو، اس کا مستقبل معلوم۔

اس معاملے کا دوسرا پہلو قانون کی حکمرانی کے ساتھ وابستہ ہے۔ عمران خان نے اگر آنے والے دنوں بھی قانون اور اداروں کا احترام نہیں کرنا اور ان سے تعاون کرنے والوں نے بھی اس سنگین طرز عمل سے آنکھیں بند کر کے ان کے پیچھے چلنا ہے تو اس کے نتیجے میں قانون اور ریاست کی رٹ مزید کمزور ہوگی جو حالیہ برسوں میں پہلے ہی بہت ضعیف ہو چکی ہے۔

یہ صورت حال نہ ملک میں سیاسی عمل کے استحکام کا باعث بنے گی اور نہ خود پی ٹی آئی کے لیے ہی مفید ہو گی۔

گزارش صرف اتنی ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ عمران خان اور ان کے ہمدرد اپنی سیاست سے اوپر اٹھ کر قومی سلامتی کے بارے میں سوچیں، اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ ریاست اس طرز عمل اور اس کے ذمے داروں کو روند کر آگے بڑھ جائے گی کیوں اب تاخیر کی گنجائش بالکل نہیںرہی۔
Load Next Story