سپریم کورٹ کا انتباہ
دیہی ترقی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلابوں کے بعد زرعی زمین کی زرخیزی کا فائدہ اچھی فصل سے ہوا ۔۔۔
سپریم کورٹ نے رولنگ دی ہے کہ حکومت عوام کو سستا آٹا فراہم نہیں کر سکتی تو انھیں چوہے مار گولیاں دے دے۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کی استدعا پر سماعت کے دوران کہا کہ حکمرانوں کے کتے مربے کھا رہے ہیں، اربوں روپے کی زمینیں اونے پونے داموں فروخت کی جا رہی ہیں اور کروڑوں روپے کے میلے ٹھیلے سجائے جا رہے ہیں۔ فاضل جج نے کہا کہ جمہوری حکومت عوام کو سستا آٹا فراہم نہیں کر سکتی، لوگ خودکشیوں پر مجبور ہو رہے ہیں، خواتین اپنے بچے فروخت کر رہی ہیں۔
جسٹس خواجہ کا کہنا ہے کہ حکومت نے گندم کی قیمتیں اتنی بڑھا دی ہیں کہ گندم عام آدمی کی قوتِ خرید سے دور ہو گئی ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ ن کی حکومت اچھی طرز حکومت کے نعرے پر برسراقتدار آئی ہے مگر موجودہ حکومت کے اقتدار کو ایک برس ہونے کو ہے مگر اچھی طرز حکومت سے محرومی کی بناء پر بنیادی اشیاء کی قیمتیں آسمان تک پہنچ گئی ہیں۔ جس کے نتیجے میں غریب آدمیوں کے لیے زندگی مشکل بن گئی ہے۔ حکومت نے بجلی کے نرخ بڑھا دیے ہیں۔ گیس کی قلت زندگی کی ہر سطح کو متاثر کر رہی ہیں۔
گزشتہ ہفتے کراچی میں ہونے والے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کراچی میں تندور کی روٹی کی قیمت 9 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ 9 روپے والی روٹی سب سے سستی روٹی ہے۔ مختلف اقسام کی روٹیوں کی قیمتیں 10 روپے سے لے کر 15 روپے تک دستیاب ہے۔ اس طرح دودھ کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ اب کراچی میں دودھ 84 روپے لیٹر سے کم میں دستیاب نہیں ہے۔ سرکاری نرخ 70 روپے ہے مگر حکومت اپنے فیصلے پر عملدرآمد پر قادر نہیں ہے۔ اس طرح آٹا، دال، سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بکرے کا گوشت محض امراء کے لیے مختص ہوتا ہے۔ شہر میں بکرے کا گوشت 650 روپے سے 850 روپے کلو گوشت خریدنے والوں کی تعداد کا شمار کیا جائے تو انکم ٹیکس کا محکمہ متحرک ہو سکتا ہے۔ گائے کا گوشت 450 روپے میں دستیاب ہے۔ اب تو عام آدمی گائے کا گوشت خریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔
کہا جاتا ہے کہ کراچی کے چھوٹے ہوٹل (ڈھابے) میں دال کی پلیٹ کی قیمت 40 روپے کے قریب ہے۔ سبزی کی پلیٹ بھی 40 روپے سے کم میں دستیاب نہیں۔ ایک مزدور اگر ایک وقت کا کھانا دو روٹیوں اور ایک دال کی پلیٹ تک محدود کرے تو اس کو 75 روپے خرچ کرنے پڑیں گے۔ اگر وہ مزید روٹی اور دال یا پلیٹ حاصل کرے گا تو یہ رقم 100روپے سے تجاوز کر جائے گی۔ یوں صرف دو وقت کے کھانے کے لیے 100روپے بھی کم پڑتے ہیں۔ عام طور پر نجی شعبے میں ملازمت کرنے والے افراد کی آمدنی 10 سے 12 ہزار روپے کے قریب ہوتی ہے۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور کو 300 روپے سے لے کر 400 روپے ملتے ہیں، دو وقت کے کھانے پر 100 روپے سے کم خرچ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پھر بجلی اور گیس کے نرخ بڑھنے سے یوٹیلٹی بلز کی رقم میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ مگر اس کے ساتھ بجلی کے ٹیرف میں اضافے کے رجحان کی بناء پر لوڈشیڈنگ کے باوجود بجلی کے بل میں درج رقم عام آدمی کی قوت خرید کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔
موسم سرما میں کراچی میں سی این جی کے پمپ ہفتے میں تین دن بند ہی نہیں رہے بلکہ گھروں میں گیس کی لوڈشیڈنگ حیرت انگیز طور پر بڑھ گئی تھی۔ عام لوگوں کو گیس کی لوڈشیڈنگ کے اوقات میں مٹی کے تیل کے چولہوں کے علاوہ سلنڈر سے آنے والی گیس پر گزارا کرنا پڑا۔ یوں کھانے کی تیاری پر آنے والی لاگت میں اضافہ ہوا۔ اب گھروں میں لوڈشیڈنگ کے باوجود بجلی کے ٹیرف میں اضافہ براہ راست عام آدمی پر گزر رہا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران کھانے پینے کی اشیاء کے علاوہ دوائوں کی قیمتوں میں بھی 125% فیصد تک اضافہ ہوا۔ اب بازار میں کوئی بھی دوا 75 روپے سے کم میں دستیاب نہیں ہے، صرف بلند فشار خون، خون کو پتلا رکھنے اور شوگر جیسے موذی امراض کی ادویات کسی صورت فی پتہ 200 روپے سے کم نہیں ہے۔ شوگر کی 10 گولیوں پر مشتمل تمام دوائوں کی قیمتیں 200 روپے سے زائد ہیں۔ متوسط طبقے کے تنخواہ دار ملازمین کی تنخواہ کا بیشتر حصہ مکان اور ٹرانسپورٹ کے کرائے، کھانے پر آنے والے اخراجات کے علاوہ بچوں کی تعلیم اور بیماریوں کے علاج پر خرچ ہوتا ہے۔ نچلا متوسط طبقہ مہنگائی سے براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔ عام آدمی قرضے کی مدد سے زندگی گزارتا ہے۔
دیہی ترقی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلابوں کے بعد زرعی زمین کی زرخیزی کا فائدہ اچھی فصل سے ہوا مگر زرعی معیشت کے نقائص کی بناء پر عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ دوسری طرف کسانوں اور ہاریوں کے حالات بھی تبدیل نہیں ہوئے۔ وفاقی حکومت نے سرکاری شعبے کو کم کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری ملازمتوں پر پابندی سے سرکاری محکمے مروجہ قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ملازمین کو روزانہ اجرت اور معاہداتی بنیادوں پر ملازم رکھ رہے ہیں۔ یہ ملازمین سرکاری ملازمت کے فوائد سے محروم رہ گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی منافع بخش اداروں کی نجکاری کی کوشش بھی جاری ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت نے میرٹ کی پالیسی کو نظرانداز کرتے ہوئے ہزاروں افراد کو ملازمتیں دیں، ان لوگوں کو برطرف کرنے کے بجائے میرٹ کے معیار پر پورا اترنے والے افراد کو مستقل کیا جائے اور قومی اداروں کو فعال کرنے اور ان اداروں میں بدعنوانی اور گورننس کے بحران کے خاتمے کے لیے انتظامی سائنس کے جدید طریقوں پر عملدرآمد کیا جائے۔
یوں یہ ادارے انتظامی اور مالیاتی بحران سے نکل جائیں گے۔ اگر ان اداروں کی نجکاری کی گئی تو ہزاروں افراد بے روزگار ہو جائیں گے اور نجی شعبہ اپنے ملازمین کے ساتھ بہیمانہ سلوک کرے گا۔ اس صورتحال کا فائدہ انتہاپسندوں کو ہو رہا ہے۔ کراچی شہر میں رفاہی تنظیموں کے دسترخوان پر طویل قطاریں نظر آتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے انتہائی مناسب وقت پر صورتحال کا نوٹس لیا ہے۔ عوام نے 13 مئی 2013ء کے انتخابات میں اسی بناء پر مسلم لیگ ن کو منتخب کیا کہ غربت اور مہنگائی کے خاتمے کے لیے حقیقی اقدامات ہوں گے۔ عام آدمی کو سماجی تحفظ حاصل ہوسکے گا۔ عوام کو جمہوری تبدیلی کی اہمیت سے آگاہی ہو گی۔ پھر عوام جمہوریت کی رکھوالی کریں گے۔ مگر اس کے لیے حکومت کو سماجی جمہوریت کے پروگرام کو اولیت دینا ہو گی۔
جسٹس خواجہ کا کہنا ہے کہ حکومت نے گندم کی قیمتیں اتنی بڑھا دی ہیں کہ گندم عام آدمی کی قوتِ خرید سے دور ہو گئی ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ ن کی حکومت اچھی طرز حکومت کے نعرے پر برسراقتدار آئی ہے مگر موجودہ حکومت کے اقتدار کو ایک برس ہونے کو ہے مگر اچھی طرز حکومت سے محرومی کی بناء پر بنیادی اشیاء کی قیمتیں آسمان تک پہنچ گئی ہیں۔ جس کے نتیجے میں غریب آدمیوں کے لیے زندگی مشکل بن گئی ہے۔ حکومت نے بجلی کے نرخ بڑھا دیے ہیں۔ گیس کی قلت زندگی کی ہر سطح کو متاثر کر رہی ہیں۔
گزشتہ ہفتے کراچی میں ہونے والے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کراچی میں تندور کی روٹی کی قیمت 9 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ 9 روپے والی روٹی سب سے سستی روٹی ہے۔ مختلف اقسام کی روٹیوں کی قیمتیں 10 روپے سے لے کر 15 روپے تک دستیاب ہے۔ اس طرح دودھ کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ اب کراچی میں دودھ 84 روپے لیٹر سے کم میں دستیاب نہیں ہے۔ سرکاری نرخ 70 روپے ہے مگر حکومت اپنے فیصلے پر عملدرآمد پر قادر نہیں ہے۔ اس طرح آٹا، دال، سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بکرے کا گوشت محض امراء کے لیے مختص ہوتا ہے۔ شہر میں بکرے کا گوشت 650 روپے سے 850 روپے کلو گوشت خریدنے والوں کی تعداد کا شمار کیا جائے تو انکم ٹیکس کا محکمہ متحرک ہو سکتا ہے۔ گائے کا گوشت 450 روپے میں دستیاب ہے۔ اب تو عام آدمی گائے کا گوشت خریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔
کہا جاتا ہے کہ کراچی کے چھوٹے ہوٹل (ڈھابے) میں دال کی پلیٹ کی قیمت 40 روپے کے قریب ہے۔ سبزی کی پلیٹ بھی 40 روپے سے کم میں دستیاب نہیں۔ ایک مزدور اگر ایک وقت کا کھانا دو روٹیوں اور ایک دال کی پلیٹ تک محدود کرے تو اس کو 75 روپے خرچ کرنے پڑیں گے۔ اگر وہ مزید روٹی اور دال یا پلیٹ حاصل کرے گا تو یہ رقم 100روپے سے تجاوز کر جائے گی۔ یوں صرف دو وقت کے کھانے کے لیے 100روپے بھی کم پڑتے ہیں۔ عام طور پر نجی شعبے میں ملازمت کرنے والے افراد کی آمدنی 10 سے 12 ہزار روپے کے قریب ہوتی ہے۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور کو 300 روپے سے لے کر 400 روپے ملتے ہیں، دو وقت کے کھانے پر 100 روپے سے کم خرچ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پھر بجلی اور گیس کے نرخ بڑھنے سے یوٹیلٹی بلز کی رقم میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ مگر اس کے ساتھ بجلی کے ٹیرف میں اضافے کے رجحان کی بناء پر لوڈشیڈنگ کے باوجود بجلی کے بل میں درج رقم عام آدمی کی قوت خرید کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔
موسم سرما میں کراچی میں سی این جی کے پمپ ہفتے میں تین دن بند ہی نہیں رہے بلکہ گھروں میں گیس کی لوڈشیڈنگ حیرت انگیز طور پر بڑھ گئی تھی۔ عام لوگوں کو گیس کی لوڈشیڈنگ کے اوقات میں مٹی کے تیل کے چولہوں کے علاوہ سلنڈر سے آنے والی گیس پر گزارا کرنا پڑا۔ یوں کھانے کی تیاری پر آنے والی لاگت میں اضافہ ہوا۔ اب گھروں میں لوڈشیڈنگ کے باوجود بجلی کے ٹیرف میں اضافہ براہ راست عام آدمی پر گزر رہا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران کھانے پینے کی اشیاء کے علاوہ دوائوں کی قیمتوں میں بھی 125% فیصد تک اضافہ ہوا۔ اب بازار میں کوئی بھی دوا 75 روپے سے کم میں دستیاب نہیں ہے، صرف بلند فشار خون، خون کو پتلا رکھنے اور شوگر جیسے موذی امراض کی ادویات کسی صورت فی پتہ 200 روپے سے کم نہیں ہے۔ شوگر کی 10 گولیوں پر مشتمل تمام دوائوں کی قیمتیں 200 روپے سے زائد ہیں۔ متوسط طبقے کے تنخواہ دار ملازمین کی تنخواہ کا بیشتر حصہ مکان اور ٹرانسپورٹ کے کرائے، کھانے پر آنے والے اخراجات کے علاوہ بچوں کی تعلیم اور بیماریوں کے علاج پر خرچ ہوتا ہے۔ نچلا متوسط طبقہ مہنگائی سے براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔ عام آدمی قرضے کی مدد سے زندگی گزارتا ہے۔
دیہی ترقی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلابوں کے بعد زرعی زمین کی زرخیزی کا فائدہ اچھی فصل سے ہوا مگر زرعی معیشت کے نقائص کی بناء پر عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ دوسری طرف کسانوں اور ہاریوں کے حالات بھی تبدیل نہیں ہوئے۔ وفاقی حکومت نے سرکاری شعبے کو کم کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری ملازمتوں پر پابندی سے سرکاری محکمے مروجہ قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ملازمین کو روزانہ اجرت اور معاہداتی بنیادوں پر ملازم رکھ رہے ہیں۔ یہ ملازمین سرکاری ملازمت کے فوائد سے محروم رہ گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی منافع بخش اداروں کی نجکاری کی کوشش بھی جاری ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت نے میرٹ کی پالیسی کو نظرانداز کرتے ہوئے ہزاروں افراد کو ملازمتیں دیں، ان لوگوں کو برطرف کرنے کے بجائے میرٹ کے معیار پر پورا اترنے والے افراد کو مستقل کیا جائے اور قومی اداروں کو فعال کرنے اور ان اداروں میں بدعنوانی اور گورننس کے بحران کے خاتمے کے لیے انتظامی سائنس کے جدید طریقوں پر عملدرآمد کیا جائے۔
یوں یہ ادارے انتظامی اور مالیاتی بحران سے نکل جائیں گے۔ اگر ان اداروں کی نجکاری کی گئی تو ہزاروں افراد بے روزگار ہو جائیں گے اور نجی شعبہ اپنے ملازمین کے ساتھ بہیمانہ سلوک کرے گا۔ اس صورتحال کا فائدہ انتہاپسندوں کو ہو رہا ہے۔ کراچی شہر میں رفاہی تنظیموں کے دسترخوان پر طویل قطاریں نظر آتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے انتہائی مناسب وقت پر صورتحال کا نوٹس لیا ہے۔ عوام نے 13 مئی 2013ء کے انتخابات میں اسی بناء پر مسلم لیگ ن کو منتخب کیا کہ غربت اور مہنگائی کے خاتمے کے لیے حقیقی اقدامات ہوں گے۔ عام آدمی کو سماجی تحفظ حاصل ہوسکے گا۔ عوام کو جمہوری تبدیلی کی اہمیت سے آگاہی ہو گی۔ پھر عوام جمہوریت کی رکھوالی کریں گے۔ مگر اس کے لیے حکومت کو سماجی جمہوریت کے پروگرام کو اولیت دینا ہو گی۔