لاوا۔۔۔۔
ہر ملک، ہر معاشرے میں جرائم اور سماجی برائیوں کو روکنے کے لیے قوانین بھی بنائے جاتے ہیں ۔۔۔
ہر ملک، ہر معاشرے میں جرائم اور سماجی برائیوں کو روکنے کے لیے قوانین بھی بنائے جاتے ہیں اور ان کے نفاذ کے لیے ایک مضبوط ریاستی مشنری بھی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود اگر جرائم اور سماجی برائیوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا ہے تو نہ صرف یہ صورت حال انتہائی تشویشناک ہوتی ہے بلکہ معاشروں اور ملکوں کو ان خطرناک حالات سے نکالنے کے لیے سنجیدگی سے غور و فکر اور منصوبہ بندی کی ضرورت ناگزیر ہو جاتی ہے۔ جرائم کے حوالے سے یہ تصور بڑا دانشورانہ ہے کہ بھوک و بیکاری انسانوں کو جرائم کی طرف لے جاتی ہیں۔
یہ خیال اگرچہ غلط نہیں لیکن جب عام آدمی اعلیٰ سطح پر لوٹ مار اور راتوں رات دولت مند بننے کے چکر کا مشاہدہ کرتا ہے تو پھر وہ بھی راتوں رات زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کے راستے پر چل پڑتا ہے لیکن فرق یہ ہوتا ہے کہ اشرافیہ کو لوٹ مار کے قانونی اور غیر قانونی دونوں مواقع حاصل ہوتے ہیں اور عام آدمی کے لیے صرف غیر قانونی راستہ رہ جاتا ہے۔ پاکستان آج جرائم اور سماجی برائیوں کی جس منزل پر کھڑا ہے یہاں غیر قانونی طریقے سے جلد سے جلد زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کا کلچر مضبوط ہو رہا ہے اور جرائم پیشہ افراد بڑے منظم طریقے سے بڑے بڑے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ آج صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ: ''ایماندار صرف وہی ہے جسے بے ایمانی کے مواقع حاصل نہیں''۔
اس صورت حال پر قابو پانے میں ناکامی کی اگرچہ کئی وجوہات ہیں لیکن ان میں سب سے بڑی وجہ قانون اور قانون نافذ کرنے والوں کی کمزوری ہے۔ اس کمزوری کی دو قسمیں ہیں، ایک یہ کہ قانون نافذ کرنے والے افراد اور ادارے نہ صرف کرپٹ ہیں بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر جرائم پیشہ افراد اور اڈوں کی سرپرستی کر رہے ہیں، مجرم اس وقت قانون سے ڈرتا ہے جب اسے سزا کا خوف ہوتا ہے، جب مجرم سزا کے خوف سے آزاد ہو جاتے ہیں تو وہ اس بے خوفی سے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں کہ سارا معاشرہ خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ دوسری صورت حال یہ ہے کہ جرائم اس قدر عام اور آسان ہو جاتے ہیں کہ ان کی روک تھام کوئی ایماندار انتظامیہ بھی نہیں کر سکتی۔
پاکستانی معاشرہ آج اسی صورت حال سے دوچار ہے، عملاً ساری ریاستی مشنری ناکام ہو چکی ہے اور پورا معاشرہ مجرموں کا یرغمال بن گیا ہے۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا صنعتی اور تجارتی شہر ہے اس شہر کو جرائم پیشہ افراد سونے کی چڑیا سمجھتے ہیں اور انتہائی بے رحمی سے اس کے بال و پر نوچنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ملک کے دوسرے علاقوں سے جرائم پیشہ افراد کے گروہ کے گروہ کراچی آ گئے ہیں اور بڑی بینک ڈکیتیوں، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری جیسے جرائم کا دھڑلے سے ارتکاب کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جرائم پیشہ گروہ سزا جزا، قانون اور انصاف کے خوف سے اس قدر آزاد کیوں ہو گئے ہیں؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جن معاشروں میں قانون اور انصاف بکاؤ مال کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں وہاں مجرم قانون اور انصاف کو ایک کھلونے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
صورت حال یہ ہے کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد جرائم کے راستے پر چل پڑی ہے، جس شہر میں ٹی ٹی سے لے کر اینٹی ایئرکرافٹ گن تک کرائے پر مل جاتی ہیں اس شہر میں جرائم کی فراوانی کا اندازہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ کراچی میں اسلحے کی غیر قانونی فروخت اور کرائے پر دینے کے اڈے جگہ جگہ سبیلوں کی طرح کھلے ہوں اور انھیں انتظامیہ کی سرپرستی بھی حاصل ہو وہاں جرائم کو کم کرنے اور جرائم کو ختم کرنے کی بات ''خیال است محال است و جنوں'' کے علاوہ کچھ نہیں۔ کراچی میں بینک ڈکیتیوں، اغوا برائے تاوان اور بھتے جیسے بڑے جرائم میں پیشہ ور مجرموں اور راتوں رات دولت مند بننے کے خواہش مندوں کے علاوہ کچھ ایسے گروہ بھی شامل ہو گئے ہیں، جنھیں ریاست کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں مالی وسائل کی شدید ضرورت ہے، ان گروہوں کا نیٹ ورک اس قدر پھیلا ہوا ہے اور یہ گروہ اس قدر منظم ہیں کہ ایک کرپٹ ریاستی مشنری ان کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتی۔
جس ملک میں جس شہر میں جیلوں میں بند مجرم اپنے گروہوں کی ''قیادت'' کرتے ہوں اور جیل خانے بذات خود جرائم کے اڈے بن گئے ہوں اس ملک اور اس ملک کے شہریوں کو جرائم سے بچانا ممکن ہی نہیں۔مشکل یہ ہے کہ ہمارے حکما اور حکمران اس صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے کہیں مزید جیلوں کی تعمیر کررہے ہیں تو کہیں پولیس اور رینجرز کی نفری میں اضافہ کررہے ہیں، پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے جدید اسلحہ اور بلٹ پروف گاڑیاں خریدنے پر اربوں روپیہ خرچ کیا جا رہا ہے اور یہ روپیہ بھی آدھے سے زیادہ کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے۔ اور یہ کرپشن بھی بھتے کی طرح نیچے سے اوپر تک چلی جاتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ساری برائیاں یہ ساری خرابیاں سرمایہ دارانہ نظام کا لازمی حصہ ہیں لیکن اس نظام میں بھی جرائم، برائیوں اور خرابیوں کی وہ بھرمار نہیں ہوتی جو ہمارے ملک کا اعزاز بنی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے ہم نے قانون اور انصاف میں پائی جانے والی کوتاہیوں، خامیوں اور خرابیوں کا جو ذکر کیا تھا ان میں ایک اضافہ وکلا برادری کی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کا بھی ہے۔ ایک مجرم جب اپنے دفاع کے لیے کسی کی خدمات بھاری معاوضے کے ساتھ حاصل کر لیتا ہے تو وکیل کی یہ پیشہ ورانہ ذمے داری بن جاتی ہے کہ وہ ہر قیمت پر اپنے اس معزز موکل کو سزا سے بچانے کی کوشش کرے جب کہ عموماً وکلا حضرات کو یہ علم بھی ہوتا ہے کہ وہ جس کی پیروی کر رہے ہیں وہ بے گناہ نہیں ہے۔ اس حوالے سے بڑا وکیل اس کو مانا جاتا ہے جو اپنی قانونی مہارت کے بل پر قتل کے ملزم کو سزا سے مکھن کے بال کی طرح نکال لے۔
اس قسم کے حالات جن ملکوں میں پیدا ہو جاتے ہیں وہاں عوام کے سینوں میں اندر ہی اندر نفرت کا لاوا پکنے لگتا ہے، جن ملکوں میں سیاسی جماعتیں عوام دوست ہوتی ہیں ان ملکوں میں عوامی نفرت کے اس لاوے کو ایک درست ڈائریکشن دی جاتی ہے اور یہ لاوا ایک بامعنی انقلاب کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور جن ملکوں میں ایماندار اور عوام دوست قیادت کا فقدان ہوتا ہے وہ ملک لیبیا، تیونس اور مصر بن جاتے ہیں جہاں عوامی نفرت کرپٹ قیادت کو سڑکوں پر تو گھسیٹ لاتی ہے لیکن انقلاب ایک بے معنی مشق کے علاوہ کچھ نہیں رہتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کس راستے پر جاتا ہے لیکن اب اس کا جانا ناگزیر دکھائی دے رہا ہے۔
یہ خیال اگرچہ غلط نہیں لیکن جب عام آدمی اعلیٰ سطح پر لوٹ مار اور راتوں رات دولت مند بننے کے چکر کا مشاہدہ کرتا ہے تو پھر وہ بھی راتوں رات زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کے راستے پر چل پڑتا ہے لیکن فرق یہ ہوتا ہے کہ اشرافیہ کو لوٹ مار کے قانونی اور غیر قانونی دونوں مواقع حاصل ہوتے ہیں اور عام آدمی کے لیے صرف غیر قانونی راستہ رہ جاتا ہے۔ پاکستان آج جرائم اور سماجی برائیوں کی جس منزل پر کھڑا ہے یہاں غیر قانونی طریقے سے جلد سے جلد زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کا کلچر مضبوط ہو رہا ہے اور جرائم پیشہ افراد بڑے منظم طریقے سے بڑے بڑے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ آج صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ: ''ایماندار صرف وہی ہے جسے بے ایمانی کے مواقع حاصل نہیں''۔
اس صورت حال پر قابو پانے میں ناکامی کی اگرچہ کئی وجوہات ہیں لیکن ان میں سب سے بڑی وجہ قانون اور قانون نافذ کرنے والوں کی کمزوری ہے۔ اس کمزوری کی دو قسمیں ہیں، ایک یہ کہ قانون نافذ کرنے والے افراد اور ادارے نہ صرف کرپٹ ہیں بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر جرائم پیشہ افراد اور اڈوں کی سرپرستی کر رہے ہیں، مجرم اس وقت قانون سے ڈرتا ہے جب اسے سزا کا خوف ہوتا ہے، جب مجرم سزا کے خوف سے آزاد ہو جاتے ہیں تو وہ اس بے خوفی سے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں کہ سارا معاشرہ خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ دوسری صورت حال یہ ہے کہ جرائم اس قدر عام اور آسان ہو جاتے ہیں کہ ان کی روک تھام کوئی ایماندار انتظامیہ بھی نہیں کر سکتی۔
پاکستانی معاشرہ آج اسی صورت حال سے دوچار ہے، عملاً ساری ریاستی مشنری ناکام ہو چکی ہے اور پورا معاشرہ مجرموں کا یرغمال بن گیا ہے۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا صنعتی اور تجارتی شہر ہے اس شہر کو جرائم پیشہ افراد سونے کی چڑیا سمجھتے ہیں اور انتہائی بے رحمی سے اس کے بال و پر نوچنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ملک کے دوسرے علاقوں سے جرائم پیشہ افراد کے گروہ کے گروہ کراچی آ گئے ہیں اور بڑی بینک ڈکیتیوں، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری جیسے جرائم کا دھڑلے سے ارتکاب کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جرائم پیشہ گروہ سزا جزا، قانون اور انصاف کے خوف سے اس قدر آزاد کیوں ہو گئے ہیں؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جن معاشروں میں قانون اور انصاف بکاؤ مال کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں وہاں مجرم قانون اور انصاف کو ایک کھلونے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
صورت حال یہ ہے کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد جرائم کے راستے پر چل پڑی ہے، جس شہر میں ٹی ٹی سے لے کر اینٹی ایئرکرافٹ گن تک کرائے پر مل جاتی ہیں اس شہر میں جرائم کی فراوانی کا اندازہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ کراچی میں اسلحے کی غیر قانونی فروخت اور کرائے پر دینے کے اڈے جگہ جگہ سبیلوں کی طرح کھلے ہوں اور انھیں انتظامیہ کی سرپرستی بھی حاصل ہو وہاں جرائم کو کم کرنے اور جرائم کو ختم کرنے کی بات ''خیال است محال است و جنوں'' کے علاوہ کچھ نہیں۔ کراچی میں بینک ڈکیتیوں، اغوا برائے تاوان اور بھتے جیسے بڑے جرائم میں پیشہ ور مجرموں اور راتوں رات دولت مند بننے کے خواہش مندوں کے علاوہ کچھ ایسے گروہ بھی شامل ہو گئے ہیں، جنھیں ریاست کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں مالی وسائل کی شدید ضرورت ہے، ان گروہوں کا نیٹ ورک اس قدر پھیلا ہوا ہے اور یہ گروہ اس قدر منظم ہیں کہ ایک کرپٹ ریاستی مشنری ان کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتی۔
جس ملک میں جس شہر میں جیلوں میں بند مجرم اپنے گروہوں کی ''قیادت'' کرتے ہوں اور جیل خانے بذات خود جرائم کے اڈے بن گئے ہوں اس ملک اور اس ملک کے شہریوں کو جرائم سے بچانا ممکن ہی نہیں۔مشکل یہ ہے کہ ہمارے حکما اور حکمران اس صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے کہیں مزید جیلوں کی تعمیر کررہے ہیں تو کہیں پولیس اور رینجرز کی نفری میں اضافہ کررہے ہیں، پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے جدید اسلحہ اور بلٹ پروف گاڑیاں خریدنے پر اربوں روپیہ خرچ کیا جا رہا ہے اور یہ روپیہ بھی آدھے سے زیادہ کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے۔ اور یہ کرپشن بھی بھتے کی طرح نیچے سے اوپر تک چلی جاتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ساری برائیاں یہ ساری خرابیاں سرمایہ دارانہ نظام کا لازمی حصہ ہیں لیکن اس نظام میں بھی جرائم، برائیوں اور خرابیوں کی وہ بھرمار نہیں ہوتی جو ہمارے ملک کا اعزاز بنی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے ہم نے قانون اور انصاف میں پائی جانے والی کوتاہیوں، خامیوں اور خرابیوں کا جو ذکر کیا تھا ان میں ایک اضافہ وکلا برادری کی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کا بھی ہے۔ ایک مجرم جب اپنے دفاع کے لیے کسی کی خدمات بھاری معاوضے کے ساتھ حاصل کر لیتا ہے تو وکیل کی یہ پیشہ ورانہ ذمے داری بن جاتی ہے کہ وہ ہر قیمت پر اپنے اس معزز موکل کو سزا سے بچانے کی کوشش کرے جب کہ عموماً وکلا حضرات کو یہ علم بھی ہوتا ہے کہ وہ جس کی پیروی کر رہے ہیں وہ بے گناہ نہیں ہے۔ اس حوالے سے بڑا وکیل اس کو مانا جاتا ہے جو اپنی قانونی مہارت کے بل پر قتل کے ملزم کو سزا سے مکھن کے بال کی طرح نکال لے۔
اس قسم کے حالات جن ملکوں میں پیدا ہو جاتے ہیں وہاں عوام کے سینوں میں اندر ہی اندر نفرت کا لاوا پکنے لگتا ہے، جن ملکوں میں سیاسی جماعتیں عوام دوست ہوتی ہیں ان ملکوں میں عوامی نفرت کے اس لاوے کو ایک درست ڈائریکشن دی جاتی ہے اور یہ لاوا ایک بامعنی انقلاب کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور جن ملکوں میں ایماندار اور عوام دوست قیادت کا فقدان ہوتا ہے وہ ملک لیبیا، تیونس اور مصر بن جاتے ہیں جہاں عوامی نفرت کرپٹ قیادت کو سڑکوں پر تو گھسیٹ لاتی ہے لیکن انقلاب ایک بے معنی مشق کے علاوہ کچھ نہیں رہتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کس راستے پر جاتا ہے لیکن اب اس کا جانا ناگزیر دکھائی دے رہا ہے۔