آج کے کالم نگار
ایک غلط فہمی کس طرح دور ہوئی؟ اسے سمجھ کر کالم نگاری کے شعبے میں آنے والے جان سکیں گے ۔۔۔
کالم نگاری کیا ہے؟ بہت سے نوجوان رابطہ کرکے پوچھنا چاہتے ہیں کہ ہم کالم نگار کس طرح بن سکتے ہیں؟ اس موضوع پر اس سے قبل کچھ اظہار کیا گیا تھا۔ پسندیدگی دیکھ کر اور کچھ نئے سوالات نے ایک نئے کالم کو جنم دیا ہے۔ کالج کے طالب علم کا بڑا اشتیاق ہوتا ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں اپنی تحریر کے ذریعے پہچانے جائیں۔ دو تین سال قبل اسی طرح کا ایک کالم نوجوانوں کے لیے لکھا تھا کہ وہ ابتدا خطوط بنام مدیر سے کریں، پھر طالب علموں اور کھیلوں یا خواتین کے صفحات پر طبع آزمائی کریں۔ جتنا زیادہ پڑھیں گے اتنا ہی زیادہ لکھ سکیں گے۔ اچھا انتخاب ہوا تو تحریر بھی بہتر ہوگی۔ یہ تھیں کچھ پرانی باتیں اور اب نئی کیا ہیں؟ ہم آج کے دور کے کالم نگاروں کی کچھ ملتی جلتی اور کچھ مختلف خوبیاں بیان کریں گے۔
پاکستان کے ابتدائی دور میں شایع ہونیوالے اخبارات کے صفحے کم ہوا کرتے تھے، چار یا آٹھ۔ یوں ادارتی صفحے پر ایک آدھ ہی کالم ہوا کرتا تھا۔ ایوب دور میں کچھ ٹیکنالوجی آئی اور کچھ صفحات بڑھے اور کچھ لکھنے والوں کا اضافہ ہوا۔ شگفتہ انداز، طنزیہ لہجے اور مزاحیہ تحریریں اداریہ کے بوجھل انداز کو کم کردیتیں۔ پچھلی صدی تک صرف ایک ٹی وی ہوا کرتا تھا۔ خبروں پر سنسر اور خبرنامے کے حکومت نامے یا وزیر نامے سے پی ٹی وی کا اطلاعات دینے کا شعبہ کمزور رہا۔ یوں اخبارات کی خبروں کی اہمیت زیادہ تھی۔ پرائیویٹ چینلز نے خبروں کی تیزی اور ورائٹی میں انقلاب برپا کردیا۔
اب اخبارات پڑھنے والے صبح ہونے سے قبل آنے والی خبروں سے واقف ہوجاتے ہیں۔ اب وہ زیادہ تر ایسی خبروں کے متلاشی رہتے ہیں جن میں نیا پن اور تحقیق ہو۔ اس رجحان نے کالم نگاری کی اہمیت کو بڑھادیا۔ خبروں کا تجزیہ اور آخر میں نتیجے نے قارئین پر ادارتی صفحے کے رتبے کی اہمیت اور وقار میں اضافہ کردیا۔ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح ٹی وی پر خبریں آجاتی ہیں اسی طرح سیاسی مذاکرے و مباحثے بھی دیکھ لیے جاتے ہیں۔ شب کے وہی ناظرین جو صبح قارئین بن جاتے ہیں تو کیا فرق ہے؟ وہ کیوں دن میں ان ہی موضوعات کا مطالعہ کریں جن پر وہ رات میں سب کچھ سن چکے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ رات کے یہ مذاکرے ناظرین کو بے چین کر دیتے ہیں کہ وہ صبح ہوتے ہی اخبار کی طرف لپکیں۔ جو تشنگی ٹی وی مباحثوں سے رہ گئی ہے اسے تجزیوں کا مطالعہ کرکے دور کریں۔
اخبارات میں لکھنے اور ٹی وی پر بولنے والوں میں کیا چیز مشترک ہے؟ اخبارات میں صبح کو پڑھے جانے والے کالم نگار اگر شب کے مذاکرے نہ دیکھیں تو وہ لکھ نہیں سکتے۔ یہ بالکل دو طرفہ معاملہ ہے۔ یوں سمجھیں کہ ٹی وی پروگرام میں سیاسی موضوعات پر گفتگو کرنے والے خواتین و حضرات اگر ادارتی صفحات کے کالم نہ پڑھیں تو وہ معیاری تجزیہ نہیں کرسکتے۔ اب ہم آج کے کالم نگاروں کے بچپن سے جوانی کی مشترکہ باتوں اور پھر ان کا دو مقامات پر دو گروہوں میں بٹ جانے کا تجزیہ کریں گے۔ اس کے لیے ہمیں پاکستان اور بین الاقوامی مناظر پر نگاہ ڈالنی ہوگی۔ کم ازکم نصف صدی کا منظر نامہ تو عالم شباب میں آنے والوں کے سامنے رہنا چاہیے۔ اس گلی میں آنے والے کو یہ علم نہیں تو انھیں اس کوچے کا رخ نہیں کرنا چاہیے۔ دیکھیں کہ کتنی تاریخی باتوں کا علم ہے؟
پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے دورہ امریکا سے ہم گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔ روس بھی اس دور میں طاقتور ہو رہا تھا۔ جب ہمارے ملک میں ایوب خان کی حکومت تھی تو مصر میں ناصر، امریکا میں جان کینیڈی تو چین میں ماؤزے تنگ اور چو این لائی تھے۔ جب پاکستان کے سربراہ بھٹو تھے تو سعودی عرب میں شاہ فیصل، بھارت میں اندرا گاندھی اور لیبیا میں کرنل قذافی برسر اقتدار تھے۔ پاکستان میں ضیا الحق کا دور تھا تو پڑوس میں شہنشاہ ایران کے بعد خمینی کا دور شروع ہوچکا تھا۔ بے نظیر کے زمانے میں راجیو گاندھی تو نواز شریف کے دور میں شاہ فہد اپنے اپنے ملکوں کے حکمران تھے۔ مشرف کی ذاتی دوستی صدر بش سے تھی تو اسی زمانے میں افغانستان میں کرزئی اور مصر میں حسنی مبارک اپنے اپنے ملکوں کے صدور تھے۔ نوجوان یہ جانتے ہیں؟
یہ سارا منظرنامہ آج کے کالم نگاروں کی نگاہوں کے سامنے ہے۔ انھوں نے یہ اخبارات سے پڑھا ہے یا تاریخ کی کتابیں کھنگالی ہیں۔ اگر کوئی نوجوان اس کوچے میں قدم رکھنا چاہتا ہے تو دیکھ لے وہ ان تمام شخصیات کے ناموں اور ان کے ملکوں سے واقف ہے؟ اسے خبر ہے کہ کہاں جمہوریت ہے اور کہاں بادشاہت ہے؟ وہ واقف ہیں کہ کہاں سلطانی جمہور کا زمانہ ہے تو کہاں نقش کہن کو مٹا دیا گیا ہے۔ کہاں ایک پارٹی سسٹم تو کس ملک میں پارلیمانی نظام حکومت ہے تو کہاں صدر کا بول بالا ہے؟ یہ ایک لحاظ سے امتحانی پرچہ ہے۔ کس کے لیے؟ پچیس تیس سال کے گریجویٹ لوگوں کے لیے، اگر وہ اس کوچے میں قدم رکھنا چاہتے ہیں۔ اقبال و غالب اور فیض و فراز کے علاوہ بڑے افسانہ نگاروں و ناول نگاروں سے جان پہچان اور آج کے شاعروں کے کلام سے واقفیت لازمی ہے۔
ایک غلط فہمی کس طرح دور ہوئی؟ اسے سمجھ کر کالم نگاری کے شعبے میں آنے والے جان سکیں گے کہ حالات اتنے برے بھی نہیں۔ کہا جاتا تھا کہ آج کے نوجوان کتابوں سے دور ہیں۔ ٹیکنالوجی نے انھیں اس رفیق کی رفاقت سے محروم کردیا ہے۔ جب نوجوانوں کو مباحثوں میں شرکت کرتے دیکھا تو سوچا کہ حالات اتنے برے بھی نہیں ۔ جب ٹی وی پر نئی نسل کو شاعری و بیت بازی کرتے دیکھا تو یہ کالم نگار خوش ہوا۔ جب مشاعروں میں اچھے شعر پر گرم خون کو بزرگ شاعروں کو گرماتے دیکھا تو لہو میں جرأت پیدا ہوگئی۔ جب کتابوں کے میلے میں بچوں اور نوجوانوں کا رش دیکھا تو دل باغ باغ ہوگیا۔ وقت نے نوجوانوں کے بارے میں ایک غلط فہمی دور کردی۔ اب اخبارات کی تعداد بھی زیادہ ہے اور کالم کے لیے صفحات بھی بڑھ گئے ہیں۔ یوں سمجھیں کہ میدان بھی کھلا ہے اور مقابلہ بھی سخت ہے۔ اب اس میں دو باتیں سمجھنے کی ہیں۔ ایک نظریاتی ہے اور ایک معاشی۔
آج کے کالم نگاروں نے جب ہوش سنبھالا تو ملک نظریاتی طور پر دو حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ ایک طرف روس و چین کا ترقی کرتا معاشی نظام تھا تو دوسری طرف مذہبی جماعتوں کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ۔ اس نے 60، 70 اور 80 کی دہائی کے طالب علموں کو رائٹ لیفٹ میں تقسیم کردیا۔ کالجوں میں ہونے والے انتخابات میں ایشیا کو سرخ و سبز بنانے کے نعرے گونجتے۔ صدی ختم ہونے سے دس سال قبل سوویت روس کے خاتمے اور چین کی بدلتی معاشی پالیسی نے اس ترتیب کو مٹادیا۔ بظاہر تقسیم ختم ہوگئی ہے لیکن پرانے دور کے ترقی پسند و کمیونسٹ اب لبرل و سیکولر بن چکے ہیں۔ اور دائیں بازو کے کالم نگار خوشحالی دیکھ کر کاٹ دار تنقید والا رستہ کاٹ چکے ہیں۔ گویا آج کے کالم نگار، اب بھی ان دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اس نظریاتی تقسیم کے بعد ہم معاشی تقسیم کی جانب آتے ہیں۔
کامل صحافی یعنی فل ٹائم صحافی بھی کالم لکھتے ہیں۔ دوسرے وہ کالم نگار ہوتے ہیں جن کا ذریعہ معاش کچھ اور ہوتا ہے، یعنی پروفیسر، ماہر معاشیات، تاجر، ایڈووکیٹ، ڈاکٹر، بینکار، افسران، مذہبی اسکالر، سوشل ورکر۔ وہ اپنے کالم ڈاک، ای میل، دستی، فیکس یا نیٹ کے ذریعے پہنچا دیتے ہیں۔ وہ کالم نگار جو صحافی بھی ہوتے ہیں اور عموماً پورا وقت لکھنے کو دیتے ہیں تو میڈیا ان کے کچن کا بڑی حد تک ذمے دار ہوتا ہے۔ دیگر پیشے کے لوگ کالم لکھ کر ایک اچھی سی لائبریری بناسکتے ہیں۔ تقدیر اور تدبیر اگر ساتھ دے تو غیر صحافی کالم نگاروں کے کچن و ڈرائنگ روم کا ذمہ اخبار لے لیتا ہے۔ قلم کاری کا شوق رکھنے والے نوجوان اگر کوچہ صحافت میں قدم رکھنا چاہتے ہیں تو اپنے شہر کے پریس کلب کے صحافیوں سے مشورہ کرسکتے ہیں۔ دوسرے پیشوں میں جانے اور صرف شوقیہ کالم نگار بننے والوں کو کچن چلانے اور لائبریری بنانے کی خوب صورت اصطلاحوں کے باریک فرق کو سمجھنا ہوگا۔ امید ہے بات سمجھ میں آگئی ہوگی کہ کس قسم کے ہوتے ہیں آج کے کالم نگار۔