آئین کا بنیادی ڈھانچہ
ہم کہتے ہیں کہ ہمارے آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ ہے ہی نہیں۔۔۔۔
خواجہ آصف اسمبلی کے فلور پر کہتے ہیں، پارلیمنٹ Sovereign ہے۔ یہ ڈاکٹرائن اصولی طور پر برطانوی آئین کے پس منظر میں ہے جو کہ Unwritten آئین ہے، جہاں سارے قوانین خواہ وہ آئین کا حصہ بنتے ہوں یا اس کے ذیل ہوں، سب سادہ اکثریت سے بنائے جاتے ہیں مگر وہاں کی عدالتوں نے آئین کے حصوں پر entrench لگایا ہوا ہے، کوئی بھی ان کو ختم یا ان میں ترمیم نہیں لاسکتا۔ ان کی یہ entrenchment تھیوری written آئین کے بیسک اسٹرکچر تھیوری سے ملتی جلتی ہے یعنی پارلیمنٹ خودمختار تو ہے مگر آئین کے مخصوص حصوں میں تبدیلی نہیں لاسکتی۔
ہمارا آئین اس کے برعکس ہندوستان و امریکا کی طرح written ہے۔ تو یہ حقیقت بھی مانی ہوئی ہے، ایسے آئین سپریم ہوا کرتے ہیں ناکہ پارلیمنٹ۔ یہاں عام قوانین تو سادہ اکثریت سے بنائے جا سکتے ہیں مگر آئین کے اندر اضافہ یا ترمیم دو تہائی اکثریت سے لانی ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے جب ظفر علی شاہ کیس میں ہم آئین کا بیسک اسٹرکچر وضع کر رہے تھے تو ساتھ ساتھ اس سے انحراف بھی مگر امریکا کی سپریم کورٹ نے آئین آنے کے 30سال اندر، تو ہندوستان کی سپریم کورٹ نے بھی 25 سال میں اپنے آئین کا بیسک اسٹرکچر وضع کردیا تھا اور ہم ابھی تک یہ تھیوری وضع نہیں کرسکے، جب کہ ہمارے آئین کو 40سال ہو گئے ہیں۔
ہاں اگر خواجہ صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے اور چونکہ پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آئی ہے اور اس لیے خودمختار ہے تو یہ سیاسی تھیوری کا سوال ہے جس میں فوج، بادشاہ وغیرہ بھی خودمختار ہوسکتا ہے۔ ہمارے آئین نے ہمیشہ نظریہ ضرورت کے تحت آئین سے تجاوز کرنیوالی قوتوں کو اپنے اندر جذب کیا ہے۔ عدالت کو بیسک اسٹرکچر وضع کرنا تھا مگر نظریہ ضرورت وضع کر بیٹھے۔ کیا کرتے اس سے آگے کی گنجائش ہی نہیں نکلتی تھی۔ تو گویا کہیں نہ کہیں کوئی مسئلہ تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ اخلاقی و تہذیب یافتہ قوم کے پس منظر میں تو یہ بات ٹھیک ہے مگر ہمارے حساب سے نہیں۔ ہم اب بھی ایک ایسی سیاسی کشمکش کا شکار ہیں جہاں سیاسی قیادت پروان نہیں چڑھ سکی۔ کون sovereign ہے؟ آئین کی رو کے مطابق تو عوام ہے مگر اب بھی قانون کے فلسفے کے مطابق بدنصیبی سے یہ بات پاکستان کے مخصوص تناظر میں صحیح نہیں۔
اب بھیquasi جمہورت تک چل پائے ہیں، ایک diluted طرز کی جمہوریت پا سکے ہیں نا کہ non-diluted یا absolute جمہوریت تک پہنچ سکے ہیں جہاں یہ کہہ سکیں کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے۔ خود خواجہ صاحب کی پارٹی اپنی تاریخ اور اب بھی تحفظ پاکستان کے بل سے یہ باور کرا رہی ہے کہ وہ سول آمریت ٹھونسنے کی طرف جا رہی ہے۔ تو پھر قانونی و قانون کے فلسفے کا سوال ہے، پارلیمنٹ وہ خودمختار ہوتی ہے جو آئین ساز ہوتی ہے، آئین کے آنے کے بعد آئین سپریم ہوتا ہے۔ جب امریکا کے چیف جسٹس جان مارشل آئین کا بیسک اسٹرکچر وضع کر رہے تھے تو مسئلہ کیا تھا؟ مسئلہ یہی تو تھا کہ پارلیمنٹ نے کہا وہ سپریم ہے وہ جو چاہے کرسکتی ہے۔
کورٹ نے کہا نہیں آئین سپریم ہے۔ آئین اس لیے کہ وہ تحریری ڈاکیومنٹ ہے۔ قانون و آئین اب سائنس ہے اور یہ کے آئین خود کہتا ہے کہ وہ سپریم ہے، اور یہی کام ہندوستان کی عدالتوں نے بھی کیا۔ کہنے کو تو برطانیہ میں بادشاہت بھی ہے تو پارلیمنٹ سپریم بھی۔ رہتے وہ یورپی یونین میں بھی ہیں۔ ایک طرف یورپین کورٹ کے تابع ہیں تو دوسری طرف اسٹراسبرگ کورٹ کے، ان کے کیا کہنے ہیں، وہ اگر یہ کہہ بھی رہے ہیں تو وہ context ہی الگ ہے، اس کے معنی و مفہوم ہی کچھ اور۔ سلیس بات تو اب یہ ہے کہ وہاں کوئی بھی قانون سے بڑا نہیں۔ جب آپ rule of law کی بات کرتے ہیں تو باقی ساری بحث ثانوی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔اور یہ مانیں کہ مشرف کا ٹرائل rule of law کے تقاضوں سے کوسوں دور ہے۔ہمارا قانون و آئین واضح و معروضی نہیں۔ جیورسٹ تو یہاں تک بھی کہہ جاتے ہیں کہ جو قانون خود واضح و معروضی نہ ہو بحیثیت قانون اپنی افادیت و اہمیت کھو بیٹھتا ہے جس طرح ہمارے آئین کے آرٹیکل 62، 63 کی کچھ شقیں ہیں۔ ایسی شقوں پر مہذب دنیا کی عدالتیں چپ رہا کرتی ہیں انھیں چھیڑا نہیں کرتیں۔
جسٹس ریٹائرڈ فضل کریم لکھتے ہیں کہ ہماری کورٹس میں بھی یہ ہم آہنگی رہی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے پہلے کے چیف جسٹس آف پاکستان کے زمانے مں ہوئی کہ وہ اس پر بہت آگے تک گئے مگر subjective قانون کی طرح اس کا انجام بھی وہی ہوا جو میمو گیٹ اسکینڈل پر کورٹ کا non-justiciable معاملات میں ٹانگ اڑانے کا ہوا۔اب آتے ہیں اس بات پر کہ بیسک اسٹرکچر تھیوری سے ہماری کیا مراد ہے۔ ایک تو یہ کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہوتا ہے اور اس میں دو تہائی اکثریت سے بھی یعنی آرٹیکل 238 کے تحت وہ کچھ آئین کا حصہ نہیں بناسکتا جو خود آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہو اور یہ تشریح آئین کی وہی کرتا ہے جس کو تشریح کرنے کا اختیار کسی اور نے نہیں بلکہ خود آئین نے دیا ہوا ہے یعنی کورٹ کرتی ہے یہ کام مگر خاص بات یہ ہے کہ یہ کام کرتا ایک آئینی ادارہ ہے لیکن خود اس قدم سے وہ ایک اور آئینی ادارے کے اختیارات محدود کردیتا ہے بلکہ یہ کہہ دیتا ہے کہ آئین ساز اسمبلی جب آئین دے دیتی ہے تو باقی آنیوالی اسمبلیاں آئین ساز اسمبلیاں نہیں ہوتی، وہ آئین کو اور آئین تو بنا سکتی ہیں مگر اس میں بگاڑ پیدا نہیں کرسکتیں۔
ہم کہتے ہیں کہ ہمارے آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ ہے ہی نہیں جو ضیاالحق اس میں بگاڑ کر گئے ہیں یا جو خود آئین ساز اسمبلی خود مذہب اور ریاست کو ایک ساتھ کھڑا کردیتی ہے، ایسی بات نہ انگریز کے دیے ہوئے 1935 والے آئین میں تھی نہ جناح کے اور یہ گڑبڑ اپنے ارتقا میں اب وہاں تک پہنچی ہے کہ خود طالبان آئین کا دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہم نے آئین کی اچکزئی کیس میں یا ظفر علی شاہ کیس میں جو بھی بنیادی ڈھانچہ دینے کی کوشش کی وہ دراصل آئین کی سائنس کے خلاف ہے، رول آف لا کے خلاف ہے۔ دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں قانون کے استاد ہمارے آئین کو Nominalist طرز کا آئین کہتے ہیں، دو اور طرح کی قسمیں بھی آئین کی ہوتی ہیں، ایک Normative اور دوسرا semantic۔ Normative والی قسم وہ ان ممالک کا آئین ہے جہاں جمہوریتوں کو ارتقا کا سفر کرتے ہوئے دو دو سال ہوچکے ہیں جہاں جمہوریت سوشل ڈیموکریسی کی شکل پا چکی ہے، norm یا رویت بن چکی ہے۔
وہاں اداروں میں تصادم اول تو ہونے کا امکان کم ہوتا ہے اور اگر ہوجائے تو رول آف لا کے تحت اسے حل کیا جاتا ہے یعنی آئین کی وہ معراج جو اپنے صدیوں کے سفر میں کورٹ و سول وار کے نشیب و فراز سے گزر کر کندن بن چکا ہوتا ہے، اداروں کے تصادم سے گزر کر بالآخر ہر آئینی ادارے کی حد کا تعین کرچکا ہوتا ہے۔ semantic آئین میں آتے ہیں قذافی والے لیبیا و سعودی عرب جیسے ممالک کے آئین جہاں آئین تو ہوتا ہے مگر چلتا حکم بادشاہ سلامت کا ہے، عدلیہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوتے ہیں اور تیسری قسم ہے Nominalist آئین کی جس میں ہم اور انڈونیشیا جیسے ممالک آتے ہیں جہاں جمہوری رویے نارم نہیں بنے، جہاں اداروں میں اگر تصادم ہوجائے تو نظریہ ضرورت کے تحت اس کا فیصلہ اس کے حق میں دیدیا جاتا ہے جو بازوئے شمشیر رکھتا ہے اور ایسے فیصلے کے آنے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں بلکہ فوج ہے۔ لہٰذا خواجہ صاحب سے گزارش ہے کہ تھوڑا ہولا ہاتھ رکھیں، ابھی شب میں گرانی نہیں آئی۔ جب تک لوگ ووٹ دینے کے ساتھ ساتھ خود اس کی حفاظت نہ کرسکیں، گلیوں میں نہ نکل سکیں، جب تک آئین کو فطری و قانون کے فلسفے کے تقاضوں پر پورا اترتا ہوا بنیادی ڈھانچہ نہیں مل سکے گا، تب تک نظریہ ضرورت کسی وقت بھی لگ سکے گا، اور پھر ایک اور آئینی بحران 12 اکتوبر کی طرح آپ کے سامنے ہوگا۔
ہمارا آئین اس کے برعکس ہندوستان و امریکا کی طرح written ہے۔ تو یہ حقیقت بھی مانی ہوئی ہے، ایسے آئین سپریم ہوا کرتے ہیں ناکہ پارلیمنٹ۔ یہاں عام قوانین تو سادہ اکثریت سے بنائے جا سکتے ہیں مگر آئین کے اندر اضافہ یا ترمیم دو تہائی اکثریت سے لانی ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے جب ظفر علی شاہ کیس میں ہم آئین کا بیسک اسٹرکچر وضع کر رہے تھے تو ساتھ ساتھ اس سے انحراف بھی مگر امریکا کی سپریم کورٹ نے آئین آنے کے 30سال اندر، تو ہندوستان کی سپریم کورٹ نے بھی 25 سال میں اپنے آئین کا بیسک اسٹرکچر وضع کردیا تھا اور ہم ابھی تک یہ تھیوری وضع نہیں کرسکے، جب کہ ہمارے آئین کو 40سال ہو گئے ہیں۔
ہاں اگر خواجہ صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے اور چونکہ پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آئی ہے اور اس لیے خودمختار ہے تو یہ سیاسی تھیوری کا سوال ہے جس میں فوج، بادشاہ وغیرہ بھی خودمختار ہوسکتا ہے۔ ہمارے آئین نے ہمیشہ نظریہ ضرورت کے تحت آئین سے تجاوز کرنیوالی قوتوں کو اپنے اندر جذب کیا ہے۔ عدالت کو بیسک اسٹرکچر وضع کرنا تھا مگر نظریہ ضرورت وضع کر بیٹھے۔ کیا کرتے اس سے آگے کی گنجائش ہی نہیں نکلتی تھی۔ تو گویا کہیں نہ کہیں کوئی مسئلہ تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ اخلاقی و تہذیب یافتہ قوم کے پس منظر میں تو یہ بات ٹھیک ہے مگر ہمارے حساب سے نہیں۔ ہم اب بھی ایک ایسی سیاسی کشمکش کا شکار ہیں جہاں سیاسی قیادت پروان نہیں چڑھ سکی۔ کون sovereign ہے؟ آئین کی رو کے مطابق تو عوام ہے مگر اب بھی قانون کے فلسفے کے مطابق بدنصیبی سے یہ بات پاکستان کے مخصوص تناظر میں صحیح نہیں۔
اب بھیquasi جمہورت تک چل پائے ہیں، ایک diluted طرز کی جمہوریت پا سکے ہیں نا کہ non-diluted یا absolute جمہوریت تک پہنچ سکے ہیں جہاں یہ کہہ سکیں کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے۔ خود خواجہ صاحب کی پارٹی اپنی تاریخ اور اب بھی تحفظ پاکستان کے بل سے یہ باور کرا رہی ہے کہ وہ سول آمریت ٹھونسنے کی طرف جا رہی ہے۔ تو پھر قانونی و قانون کے فلسفے کا سوال ہے، پارلیمنٹ وہ خودمختار ہوتی ہے جو آئین ساز ہوتی ہے، آئین کے آنے کے بعد آئین سپریم ہوتا ہے۔ جب امریکا کے چیف جسٹس جان مارشل آئین کا بیسک اسٹرکچر وضع کر رہے تھے تو مسئلہ کیا تھا؟ مسئلہ یہی تو تھا کہ پارلیمنٹ نے کہا وہ سپریم ہے وہ جو چاہے کرسکتی ہے۔
کورٹ نے کہا نہیں آئین سپریم ہے۔ آئین اس لیے کہ وہ تحریری ڈاکیومنٹ ہے۔ قانون و آئین اب سائنس ہے اور یہ کے آئین خود کہتا ہے کہ وہ سپریم ہے، اور یہی کام ہندوستان کی عدالتوں نے بھی کیا۔ کہنے کو تو برطانیہ میں بادشاہت بھی ہے تو پارلیمنٹ سپریم بھی۔ رہتے وہ یورپی یونین میں بھی ہیں۔ ایک طرف یورپین کورٹ کے تابع ہیں تو دوسری طرف اسٹراسبرگ کورٹ کے، ان کے کیا کہنے ہیں، وہ اگر یہ کہہ بھی رہے ہیں تو وہ context ہی الگ ہے، اس کے معنی و مفہوم ہی کچھ اور۔ سلیس بات تو اب یہ ہے کہ وہاں کوئی بھی قانون سے بڑا نہیں۔ جب آپ rule of law کی بات کرتے ہیں تو باقی ساری بحث ثانوی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔اور یہ مانیں کہ مشرف کا ٹرائل rule of law کے تقاضوں سے کوسوں دور ہے۔ہمارا قانون و آئین واضح و معروضی نہیں۔ جیورسٹ تو یہاں تک بھی کہہ جاتے ہیں کہ جو قانون خود واضح و معروضی نہ ہو بحیثیت قانون اپنی افادیت و اہمیت کھو بیٹھتا ہے جس طرح ہمارے آئین کے آرٹیکل 62، 63 کی کچھ شقیں ہیں۔ ایسی شقوں پر مہذب دنیا کی عدالتیں چپ رہا کرتی ہیں انھیں چھیڑا نہیں کرتیں۔
جسٹس ریٹائرڈ فضل کریم لکھتے ہیں کہ ہماری کورٹس میں بھی یہ ہم آہنگی رہی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے پہلے کے چیف جسٹس آف پاکستان کے زمانے مں ہوئی کہ وہ اس پر بہت آگے تک گئے مگر subjective قانون کی طرح اس کا انجام بھی وہی ہوا جو میمو گیٹ اسکینڈل پر کورٹ کا non-justiciable معاملات میں ٹانگ اڑانے کا ہوا۔اب آتے ہیں اس بات پر کہ بیسک اسٹرکچر تھیوری سے ہماری کیا مراد ہے۔ ایک تو یہ کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہوتا ہے اور اس میں دو تہائی اکثریت سے بھی یعنی آرٹیکل 238 کے تحت وہ کچھ آئین کا حصہ نہیں بناسکتا جو خود آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہو اور یہ تشریح آئین کی وہی کرتا ہے جس کو تشریح کرنے کا اختیار کسی اور نے نہیں بلکہ خود آئین نے دیا ہوا ہے یعنی کورٹ کرتی ہے یہ کام مگر خاص بات یہ ہے کہ یہ کام کرتا ایک آئینی ادارہ ہے لیکن خود اس قدم سے وہ ایک اور آئینی ادارے کے اختیارات محدود کردیتا ہے بلکہ یہ کہہ دیتا ہے کہ آئین ساز اسمبلی جب آئین دے دیتی ہے تو باقی آنیوالی اسمبلیاں آئین ساز اسمبلیاں نہیں ہوتی، وہ آئین کو اور آئین تو بنا سکتی ہیں مگر اس میں بگاڑ پیدا نہیں کرسکتیں۔
ہم کہتے ہیں کہ ہمارے آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ ہے ہی نہیں جو ضیاالحق اس میں بگاڑ کر گئے ہیں یا جو خود آئین ساز اسمبلی خود مذہب اور ریاست کو ایک ساتھ کھڑا کردیتی ہے، ایسی بات نہ انگریز کے دیے ہوئے 1935 والے آئین میں تھی نہ جناح کے اور یہ گڑبڑ اپنے ارتقا میں اب وہاں تک پہنچی ہے کہ خود طالبان آئین کا دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہم نے آئین کی اچکزئی کیس میں یا ظفر علی شاہ کیس میں جو بھی بنیادی ڈھانچہ دینے کی کوشش کی وہ دراصل آئین کی سائنس کے خلاف ہے، رول آف لا کے خلاف ہے۔ دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں قانون کے استاد ہمارے آئین کو Nominalist طرز کا آئین کہتے ہیں، دو اور طرح کی قسمیں بھی آئین کی ہوتی ہیں، ایک Normative اور دوسرا semantic۔ Normative والی قسم وہ ان ممالک کا آئین ہے جہاں جمہوریتوں کو ارتقا کا سفر کرتے ہوئے دو دو سال ہوچکے ہیں جہاں جمہوریت سوشل ڈیموکریسی کی شکل پا چکی ہے، norm یا رویت بن چکی ہے۔
وہاں اداروں میں تصادم اول تو ہونے کا امکان کم ہوتا ہے اور اگر ہوجائے تو رول آف لا کے تحت اسے حل کیا جاتا ہے یعنی آئین کی وہ معراج جو اپنے صدیوں کے سفر میں کورٹ و سول وار کے نشیب و فراز سے گزر کر کندن بن چکا ہوتا ہے، اداروں کے تصادم سے گزر کر بالآخر ہر آئینی ادارے کی حد کا تعین کرچکا ہوتا ہے۔ semantic آئین میں آتے ہیں قذافی والے لیبیا و سعودی عرب جیسے ممالک کے آئین جہاں آئین تو ہوتا ہے مگر چلتا حکم بادشاہ سلامت کا ہے، عدلیہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوتے ہیں اور تیسری قسم ہے Nominalist آئین کی جس میں ہم اور انڈونیشیا جیسے ممالک آتے ہیں جہاں جمہوری رویے نارم نہیں بنے، جہاں اداروں میں اگر تصادم ہوجائے تو نظریہ ضرورت کے تحت اس کا فیصلہ اس کے حق میں دیدیا جاتا ہے جو بازوئے شمشیر رکھتا ہے اور ایسے فیصلے کے آنے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں بلکہ فوج ہے۔ لہٰذا خواجہ صاحب سے گزارش ہے کہ تھوڑا ہولا ہاتھ رکھیں، ابھی شب میں گرانی نہیں آئی۔ جب تک لوگ ووٹ دینے کے ساتھ ساتھ خود اس کی حفاظت نہ کرسکیں، گلیوں میں نہ نکل سکیں، جب تک آئین کو فطری و قانون کے فلسفے کے تقاضوں پر پورا اترتا ہوا بنیادی ڈھانچہ نہیں مل سکے گا، تب تک نظریہ ضرورت کسی وقت بھی لگ سکے گا، اور پھر ایک اور آئینی بحران 12 اکتوبر کی طرح آپ کے سامنے ہوگا۔