بلوچستان کا مقدمہ
پرامن بلوچستان اور وہاں ترقی و خوشحالی سمیت امن و امان سب کی خواہش بھی ہے اور وہ اس کے لیے کوشاں بھی ہیں
بلوچستان کا مقدمہ یا مسئلہ محض ایک صوبہ کا مسئلہ نہیں بلکہ میں اصولی طور پر اسے پاکستان کا مقدمہ سمجھتا ہوں۔ پاکستان کی قومی سلامتی و ترقی کا عمل براہ راست بلوچستان کی ترقی اور امن کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے۔
ہمیں پاکستان کی مجموعی سلامتی، ترقی اور خوشحالی کو سیاسی تنہائی میں دیکھنے کے بجائے ایک بڑے سیاسی اور انتظامی فریم ورک میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔
کیونکہ جو لوگ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کو اپنا ایجنڈا سمجھتے ہیں وہ صوبہ بلوچستان یا خیبر پختونخواہ کے بعض علاقوں کو بنیاد بنا کرملک میں بدامنی پیدا کرنے کے عزائم بھی رکھتے ہیں ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے معاملات پر ہمیں گہری نظر بھی رکھنی ہے اور وہاں پر موجود غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی بنیاد پر ہی آگے بڑھنے کو اپنی حکمت عملی کا حصہ بنانا چاہیے ۔
بھارت بلوچستان کے معاملات میں غیر معمولی دلچسپی رکھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ ہم بلوچستان کے حالات سے یا وہاں پر موجود حالات میں مزید بگاڑ پیدا کرکے پاکستان پر بڑا دباؤ پیدا کرسکتے ہیں ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں اس وقت بھارت کے پاکستان سے تعلقات کے تناظر میں بلوچستان کا بیانیہ سرفہرست نظر آتا ہے۔بلوچستان کے مسائل کو دیکھیں تو اسے کئی آنکھوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔
ایک طرف بلوچستان میں پھیلی ہوئی سیاسی ،سماجی ، معاشی یا انصاف سے جڑی محرومیاں ہیں تو دوسری طرف ان کے بقول انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بھی ہورہی ہیں ۔ ان مسائل میں ایک بڑا مسئلہ گمشدہ افراد کا بھی ہے ۔
اسی طرح بلوچستان میں حکمرانی کا جو بحران ہے اس کی سنگینی بھی نمایاں ہے ۔18ویں ترمیم کے بعد جس انداز سے ریاست پاکستان نے صوبوں کو سیاسی ، انتظامی اور مالی سطح کی خودمختاری دی تو اندازہ تھا کہ ماضی کے بلوچستان کے مقابلے میں آج کا بلوچستان اپنی حکمرانی کے نظام میں زیادہ شفافیت اور عام آدمی کی ترقی میں معاون ثابت ہوگا۔
لیکن 2010میں ہونے والی 18ویں ترمیم کے ثمرات دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان کے عوام کو بھی نہیں مل سکے۔ یہ ہی وجہ کہ حکمرانی کے نظام کے تناظر میں لوگوں میں محرومی کی سیاست کو غلبہ حاصل ہے اور اس کا نتیجہ لوگوں میں ریاستی نظام کے ساتھ دوری یا تلخیوں میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے ۔
ایک مسئلہ لوگوں کے ذہنوں میں اس سوچ کو پیدا کرنا ہے کہ ریاست پاکستان وہاں موجود لوگوں کی دوست اور ہمدرد ہے ۔
اگر یہ کہا جائے کہ بلوچستان کے لوگوں کے مسائل پر وہ توجہ نہیں دی گئی جو دینی چاہیے تھی ، درست ہوسکتی ہے ۔ مگر جو لوگ تعصب کی آگ لگا کر وہاں پہلے سے موجود نفرت کی سیاست کو مزید طاقت دینا چاہتے ہیں وہ بھی درست حکمت عملی نہیں۔اب ایسا نہیں کہ وہاں بلوچستان میں کوئی وسائل کی کمی ہے ۔بلکہ جو وسائل وہاں موجود ہیں۔
ان کا جس طرح سے منفی استعمال ہورہا ہے اور جس انداز سے بڑی طاقت ور قوتیں مقامی لوگوں کے حقوق کو نظر انداز کررہی ہیں وہ بھی مزید مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں ۔وہاں کی سیاسی جماعتیں بھی خود کو مقامی افراد یا عوام کے ساتھ جوڑنے کے بجائے طاقت ور طبقات کے ساتھ سیاسی سمجھوتوں کا شکار ہوتی ہیں اور اس کی ایک بھاری بھرکم قیمت مقامی افراد کو مزید محرومی کی سیاست کے طور پر دیکھنے کو ملتی ہے ۔
بلوچستان کے مسئلہ کو محض جذباتیت کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ ٹھوس بنیادوں پر ریاست، وفاق اور صوبوں سمیت وہاں کے سیاسی ، انتظامی فریقین کے درمیان باہمی اتفاق رائے اور پہلے سے موجود بدگمانیوں کو ختم کرکے اعتماد کے ماحول کو پیدا کرنے سے جڑا ہوا ہے ۔
الزام تراشیوں کی بنیاد پر مقابلہ بازی کا رجحان کسی کے مفاد میں نہیں اور سب کو ایک دوسرے کے معاملات کو سمجھنے اور معاملات کی حساسیت کو جانتے ہوئے عملی روڈ میپ کی ضرورت ہے ۔ محض ریاستی اداروں یا اسلام آباد سے معاملات یا پالیسی کو مسلط کرکے ہم آگے نہیں بڑھ سکیںگے ۔
پرامن بلوچستان اور وہاں ترقی و خوشحالی سمیت امن و امان سب کی خواہش بھی ہے اور وہ اس کے لیے کوشاں بھی ہیں۔ ہم کسی ایک صوبہ کو ترقی سے محروم کرکے اس میں ریاستی محبت کا عمل پیدا نہیں کرسکیں گے ۔بلوچستان میں جو لوگ بھی ناراض ہیں ان کے ساتھ طاقت کی زبان میں نہیں بلکہ ان کو ساتھ ملانے اور ان کے تحفظات کو سمجھ کر آگے بڑھنا ہے ۔
جو لوگ کسی بیرونی طاقت کی بنیاد پر اپنا ایجنڈا رکھتے ہیں ان سے بھی مکالمہ کرنے کو پہلی ترجیح اور اس کے بعد اگر ان کے تانے بانے بیرونی قوتوں کے ساتھ ہیں تو قانون کی حکمرانی کو بنیاد بنانا چاہیے۔
ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارے سیکیورٹی ادارے وہاں موجود شورش کو کم کرنے اور جو لوگ بھی وہاں عدم استحکام اور بدامنی کا ایجنڈا رکھتے ہیں اس کا مقابلہ بھی کررہے ہیںاور شہادتیں بھی دے رہے ہیں ۔
اسی طرح بلوچستان کی تعمیر و ترقی میں بھی حکومت سمیت سیکیورٹی اداروں کا اہم کردار ہے ۔مثال کے طور پر اس وقت بلوچستان میں جو بھی مقامی ترقی کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں یا جو وسائل وفاق کی جانب سے بلوچستان کو دیے جارہے ہیں وہ واقعی قابل تعریف ہیں۔
دور دراز علاقوں میں سڑکوں کا جال پھیلانا ، اسکول اور اسپتالوں کی تعمیر ، کھیلوں کے میدان ، نوجوانوں کی مختلف نوعیت کی سرگرمیوں کا فروغ مثبت اقدام ہیں ۔کوشش کی جارہی ہے کہ بلوچستان میں جو بھی منصوبے سامنے لائے جارہے ہیں۔
ان کا براہ راست تعلق مقامی افراد کی ترقی کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے ۔ریکوڈیک ڈیل اور منصوبہ کی مدد سے معاشی انتظامی ڈھانچہ کو بہتر بنانے کا عمل بھی مثبت پیش رفت ہے تاکہ مقامی معاشی سرگرمیوں کو نہ صرف فروغ دیا جاسکے بلکہ مقامی لوگ اس معاشی عمل میں موثر طور پر شریک ہوسکیں ۔اسی طرح مقامی فشر مینو ں کے جو مسائل چل رہے ہیں۔
اس پر بھی توجہ دی جارہی ہے مگر اس مسئلہ پر حکومت پاکستان ، ریاستی اداروں اور صوبائی حکومت کو زیادہ شفافیت اور فعالیت سے کام کرنا ہوگا ۔ اس عمل میں مقامی فشر مین کو مشاور ت کا حصہ بنانا اور اس فیصلہ سازی میں ان کے جو پہلو ہیں ان کو شامل کرنا ضروری ہے ۔ان سب امور کا بنیادی مقصد بلوچستان کو لوگوں میں یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ وہ تنہا نہیں ہیں اور ریاست پاکستان یا وفاق ان کے ساتھ ہی کھڑا ہے ۔
لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں بلوچستان کے تناظر میں اپنی سیاسی کوششوں کو بھی درست سمت دینی ہوگی ۔ کیونکہ جب تک صوبہ میں سیاسی استحکام اور انسانی حقوق کی پاسداری نہیں ہوگی کچھ نہیں ہوسکے گا۔بلوچستان کی ترقی کی ایک کنجی مضبوط ، با اختیار مقامی حکومتوں کے نظام سے بھی جڑی ہے ۔
صوبہ میں درست اور شفاف حکمرانی کے لیے ضروری ہے کہ ہم بلوچستان میں آئین کے آرٹیکل 140-Aکے تحت خود مختار مقامی حکومتو ں کا نظام دیں جو سیاسی، انتظامی اور مالی خود مختاری سے جڑا ہوا ہو۔
نمائشی یا رسمی مقامی حکومتوں کا نظام صوبہ میں محرومی کی سیاست اور معیشت کو ختم نہیں کرسکے گا۔بلوچستان کی ترقی اور پرامن ماحول کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں غیر روائتی سوچ اور فکر یا عملی اقدامات کی طرف پیش رفت کرنا ہوگی۔ شفاف حکمرانی اور قانون کی پاسداری کے لیے ہمیں کچھ ہٹ کر کرنا ہوگا ۔
یہ ہی حکمت عملی ریاست پاکستان کا بلوچستان میں مقدمہ کو مضبوط بنائے گی اور لوگوںمیں اعتماد بحال ہوگا کہ ہم تنہا نہیں ہیں بلکہ وفاق بھی ہمارے ساتھ کھڑا ہے ۔
بلوچستان کی سیاسی جماعتیں ہوں، سول سوسائٹی ہو یا میڈیا ان کو بھی اپنے اپنے داخلی نظام کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم سے بھی ایسی کیا غلطیاں ہورہی ہیں جو ہمیں آگے بڑھانے کے بجائے پیچھے کی طرف لے جاتی ہیں ۔
بالخصوص اس وقت بلوچستان کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے جہاں معاشی سرگرمیوں ، روزگار کے مناسب مواقعوں کی ضرورت ہے وہیں ان کو ساتھ جوڑ کر ہی ہم قومی ترقی کے دھارے کو یقینی طور پر کامیاب بناسکتے ہیں۔
نوجوانوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی یا ان میں موجود ناراضگی کو شدت پسندی یا طاقت کی بنیاد پر نمٹنے کی پالیسی کو ختم کرنا ہے ۔ایک طرف مقامی انتظامی ترقی اور ڈھانچوں میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ ہمیں بنیادی طور پر انسانی ترقی اور خوشحالی کو بنیاد بنا اور محروم طبقوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا ۔
ہمیں پاکستان کی مجموعی سلامتی، ترقی اور خوشحالی کو سیاسی تنہائی میں دیکھنے کے بجائے ایک بڑے سیاسی اور انتظامی فریم ورک میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔
کیونکہ جو لوگ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کو اپنا ایجنڈا سمجھتے ہیں وہ صوبہ بلوچستان یا خیبر پختونخواہ کے بعض علاقوں کو بنیاد بنا کرملک میں بدامنی پیدا کرنے کے عزائم بھی رکھتے ہیں ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے معاملات پر ہمیں گہری نظر بھی رکھنی ہے اور وہاں پر موجود غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی بنیاد پر ہی آگے بڑھنے کو اپنی حکمت عملی کا حصہ بنانا چاہیے ۔
بھارت بلوچستان کے معاملات میں غیر معمولی دلچسپی رکھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ ہم بلوچستان کے حالات سے یا وہاں پر موجود حالات میں مزید بگاڑ پیدا کرکے پاکستان پر بڑا دباؤ پیدا کرسکتے ہیں ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں اس وقت بھارت کے پاکستان سے تعلقات کے تناظر میں بلوچستان کا بیانیہ سرفہرست نظر آتا ہے۔بلوچستان کے مسائل کو دیکھیں تو اسے کئی آنکھوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔
ایک طرف بلوچستان میں پھیلی ہوئی سیاسی ،سماجی ، معاشی یا انصاف سے جڑی محرومیاں ہیں تو دوسری طرف ان کے بقول انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بھی ہورہی ہیں ۔ ان مسائل میں ایک بڑا مسئلہ گمشدہ افراد کا بھی ہے ۔
اسی طرح بلوچستان میں حکمرانی کا جو بحران ہے اس کی سنگینی بھی نمایاں ہے ۔18ویں ترمیم کے بعد جس انداز سے ریاست پاکستان نے صوبوں کو سیاسی ، انتظامی اور مالی سطح کی خودمختاری دی تو اندازہ تھا کہ ماضی کے بلوچستان کے مقابلے میں آج کا بلوچستان اپنی حکمرانی کے نظام میں زیادہ شفافیت اور عام آدمی کی ترقی میں معاون ثابت ہوگا۔
لیکن 2010میں ہونے والی 18ویں ترمیم کے ثمرات دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان کے عوام کو بھی نہیں مل سکے۔ یہ ہی وجہ کہ حکمرانی کے نظام کے تناظر میں لوگوں میں محرومی کی سیاست کو غلبہ حاصل ہے اور اس کا نتیجہ لوگوں میں ریاستی نظام کے ساتھ دوری یا تلخیوں میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے ۔
ایک مسئلہ لوگوں کے ذہنوں میں اس سوچ کو پیدا کرنا ہے کہ ریاست پاکستان وہاں موجود لوگوں کی دوست اور ہمدرد ہے ۔
اگر یہ کہا جائے کہ بلوچستان کے لوگوں کے مسائل پر وہ توجہ نہیں دی گئی جو دینی چاہیے تھی ، درست ہوسکتی ہے ۔ مگر جو لوگ تعصب کی آگ لگا کر وہاں پہلے سے موجود نفرت کی سیاست کو مزید طاقت دینا چاہتے ہیں وہ بھی درست حکمت عملی نہیں۔اب ایسا نہیں کہ وہاں بلوچستان میں کوئی وسائل کی کمی ہے ۔بلکہ جو وسائل وہاں موجود ہیں۔
ان کا جس طرح سے منفی استعمال ہورہا ہے اور جس انداز سے بڑی طاقت ور قوتیں مقامی لوگوں کے حقوق کو نظر انداز کررہی ہیں وہ بھی مزید مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں ۔وہاں کی سیاسی جماعتیں بھی خود کو مقامی افراد یا عوام کے ساتھ جوڑنے کے بجائے طاقت ور طبقات کے ساتھ سیاسی سمجھوتوں کا شکار ہوتی ہیں اور اس کی ایک بھاری بھرکم قیمت مقامی افراد کو مزید محرومی کی سیاست کے طور پر دیکھنے کو ملتی ہے ۔
بلوچستان کے مسئلہ کو محض جذباتیت کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ ٹھوس بنیادوں پر ریاست، وفاق اور صوبوں سمیت وہاں کے سیاسی ، انتظامی فریقین کے درمیان باہمی اتفاق رائے اور پہلے سے موجود بدگمانیوں کو ختم کرکے اعتماد کے ماحول کو پیدا کرنے سے جڑا ہوا ہے ۔
الزام تراشیوں کی بنیاد پر مقابلہ بازی کا رجحان کسی کے مفاد میں نہیں اور سب کو ایک دوسرے کے معاملات کو سمجھنے اور معاملات کی حساسیت کو جانتے ہوئے عملی روڈ میپ کی ضرورت ہے ۔ محض ریاستی اداروں یا اسلام آباد سے معاملات یا پالیسی کو مسلط کرکے ہم آگے نہیں بڑھ سکیںگے ۔
پرامن بلوچستان اور وہاں ترقی و خوشحالی سمیت امن و امان سب کی خواہش بھی ہے اور وہ اس کے لیے کوشاں بھی ہیں۔ ہم کسی ایک صوبہ کو ترقی سے محروم کرکے اس میں ریاستی محبت کا عمل پیدا نہیں کرسکیں گے ۔بلوچستان میں جو لوگ بھی ناراض ہیں ان کے ساتھ طاقت کی زبان میں نہیں بلکہ ان کو ساتھ ملانے اور ان کے تحفظات کو سمجھ کر آگے بڑھنا ہے ۔
جو لوگ کسی بیرونی طاقت کی بنیاد پر اپنا ایجنڈا رکھتے ہیں ان سے بھی مکالمہ کرنے کو پہلی ترجیح اور اس کے بعد اگر ان کے تانے بانے بیرونی قوتوں کے ساتھ ہیں تو قانون کی حکمرانی کو بنیاد بنانا چاہیے۔
ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارے سیکیورٹی ادارے وہاں موجود شورش کو کم کرنے اور جو لوگ بھی وہاں عدم استحکام اور بدامنی کا ایجنڈا رکھتے ہیں اس کا مقابلہ بھی کررہے ہیںاور شہادتیں بھی دے رہے ہیں ۔
اسی طرح بلوچستان کی تعمیر و ترقی میں بھی حکومت سمیت سیکیورٹی اداروں کا اہم کردار ہے ۔مثال کے طور پر اس وقت بلوچستان میں جو بھی مقامی ترقی کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں یا جو وسائل وفاق کی جانب سے بلوچستان کو دیے جارہے ہیں وہ واقعی قابل تعریف ہیں۔
دور دراز علاقوں میں سڑکوں کا جال پھیلانا ، اسکول اور اسپتالوں کی تعمیر ، کھیلوں کے میدان ، نوجوانوں کی مختلف نوعیت کی سرگرمیوں کا فروغ مثبت اقدام ہیں ۔کوشش کی جارہی ہے کہ بلوچستان میں جو بھی منصوبے سامنے لائے جارہے ہیں۔
ان کا براہ راست تعلق مقامی افراد کی ترقی کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے ۔ریکوڈیک ڈیل اور منصوبہ کی مدد سے معاشی انتظامی ڈھانچہ کو بہتر بنانے کا عمل بھی مثبت پیش رفت ہے تاکہ مقامی معاشی سرگرمیوں کو نہ صرف فروغ دیا جاسکے بلکہ مقامی لوگ اس معاشی عمل میں موثر طور پر شریک ہوسکیں ۔اسی طرح مقامی فشر مینو ں کے جو مسائل چل رہے ہیں۔
اس پر بھی توجہ دی جارہی ہے مگر اس مسئلہ پر حکومت پاکستان ، ریاستی اداروں اور صوبائی حکومت کو زیادہ شفافیت اور فعالیت سے کام کرنا ہوگا ۔ اس عمل میں مقامی فشر مین کو مشاور ت کا حصہ بنانا اور اس فیصلہ سازی میں ان کے جو پہلو ہیں ان کو شامل کرنا ضروری ہے ۔ان سب امور کا بنیادی مقصد بلوچستان کو لوگوں میں یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ وہ تنہا نہیں ہیں اور ریاست پاکستان یا وفاق ان کے ساتھ ہی کھڑا ہے ۔
لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں بلوچستان کے تناظر میں اپنی سیاسی کوششوں کو بھی درست سمت دینی ہوگی ۔ کیونکہ جب تک صوبہ میں سیاسی استحکام اور انسانی حقوق کی پاسداری نہیں ہوگی کچھ نہیں ہوسکے گا۔بلوچستان کی ترقی کی ایک کنجی مضبوط ، با اختیار مقامی حکومتوں کے نظام سے بھی جڑی ہے ۔
صوبہ میں درست اور شفاف حکمرانی کے لیے ضروری ہے کہ ہم بلوچستان میں آئین کے آرٹیکل 140-Aکے تحت خود مختار مقامی حکومتو ں کا نظام دیں جو سیاسی، انتظامی اور مالی خود مختاری سے جڑا ہوا ہو۔
نمائشی یا رسمی مقامی حکومتوں کا نظام صوبہ میں محرومی کی سیاست اور معیشت کو ختم نہیں کرسکے گا۔بلوچستان کی ترقی اور پرامن ماحول کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں غیر روائتی سوچ اور فکر یا عملی اقدامات کی طرف پیش رفت کرنا ہوگی۔ شفاف حکمرانی اور قانون کی پاسداری کے لیے ہمیں کچھ ہٹ کر کرنا ہوگا ۔
یہ ہی حکمت عملی ریاست پاکستان کا بلوچستان میں مقدمہ کو مضبوط بنائے گی اور لوگوںمیں اعتماد بحال ہوگا کہ ہم تنہا نہیں ہیں بلکہ وفاق بھی ہمارے ساتھ کھڑا ہے ۔
بلوچستان کی سیاسی جماعتیں ہوں، سول سوسائٹی ہو یا میڈیا ان کو بھی اپنے اپنے داخلی نظام کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم سے بھی ایسی کیا غلطیاں ہورہی ہیں جو ہمیں آگے بڑھانے کے بجائے پیچھے کی طرف لے جاتی ہیں ۔
بالخصوص اس وقت بلوچستان کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے جہاں معاشی سرگرمیوں ، روزگار کے مناسب مواقعوں کی ضرورت ہے وہیں ان کو ساتھ جوڑ کر ہی ہم قومی ترقی کے دھارے کو یقینی طور پر کامیاب بناسکتے ہیں۔
نوجوانوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی یا ان میں موجود ناراضگی کو شدت پسندی یا طاقت کی بنیاد پر نمٹنے کی پالیسی کو ختم کرنا ہے ۔ایک طرف مقامی انتظامی ترقی اور ڈھانچوں میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ ہمیں بنیادی طور پر انسانی ترقی اور خوشحالی کو بنیاد بنا اور محروم طبقوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا ۔